
نماز جو ہزار سالوں کی قضا نمازیں بناتی ہے – معرفت کے رستے
مولانا (ق) کی حقیقتوں سے جیسا کہ شیخ نورجان میراحمدی نے سکھایا ہے
اعوذ باللہ من شیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان سے، جو رد کیا گیا ہے
اللہ کے نام سے (شروع کرتا ہوں) جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
رمضان کا آخری دن سب سے مبارک ہے
جمعتہ الودع، جمعتہ للیتمہ، رمضان کا الودعی جمعہ۔ کہہ یہ جمعہ رمضان کا آخری جمعہ ہو گا۔ ہم دعا کرتے ہیں کہہ اللہ عزوجل ہمیں اپنی تمام حقیقتوں سے سنوار دے اور نواز دے اور رمضان کا فرشتہ اپنی تمام حقیقتوں سے ہمیں سنوار دے اور نواز دے۔ اور چاند رات عید سے پچھلی رات، اگر عید اتوار کی رات کو ہے تو یہ رات ہفتے کی رات ہوگی۔ اگر وہ ہفتے کا اعلان کرتے ہیں تو یہ رات جمعے کی رات ہوگی۔ عید کی رات (چاند رات) رمضان کی اہم ترین رات ہوتی ہے وہ جس میں اللہ عزوجل برکتیں عطا کرے گا، اور نعمتیں عطا کرے گا جسے وہ اجرت کا دن کہتے ہیں
چاند رات عبادت میں گزاریں بازاروں میں نہیں
اللہ عزوجل کی راہ میں جدوجہد اور کام کرنے کے تیس دن اور اللہ عزوجل اس کی اجرت آخری دن عطا کرتا ہے۔ ہر نعمت اور ہر برکت دینے کے لیے اور ہر لباسں تاکہ اس سے ہم سنور سکیں اور ہم دعا کرتے ہیں کہ شیطان ہمیں دھوکہ نہ دے اور ہمیں ان سے محروم نہ کرے اور ہمیں بازاروں اور غیر ضروری جگہوں پر نہ بھیجے الحمد اللہ جو بھی اس دنیا میں ہو رہا ہے اللہ عزوجل نے اس سے ہر کسی کو ایک خاص جگہ تک محدود کردیا ہے ہے۔ وہ رات ایسی رات ہے جس میں ذکر میں رہا جائے، اپنی نمازوں میں، اپنی دعاؤں میں اور ہر طرح کی عبادت میں، کہہ یا ربی، اگر میں نے کچھ غلط کیا ہے تو مجھے معاف کر دیں۔ اگر میں نے کچھ نہ مکمل کیا ہے تو مجھے معاف کر دیں۔
صلاۃ کفارہ ذنوب، نماز جو ہزار سالوں کی نہ ادا کی ہوئی نمازوں کے برابر ہے
آج شام جمعے سے پہلے ہم صلاۃ کفارہ ذنوب ادا کریں گے اور اس کے لیے ہم نے پیغام بھیجا ہے۔ ایڈمن یہ پیغام آن لائن بھیج سکتا ہے جو کوئی بھی آن لائن دیکھ رہا ہے اس کے لیے۔ اور یہ بہت بڑی برکت ہے۔ وہ میں ابھی پڑھوں گا۔ سیدنا ابوبکر صدیق(ع) نے فرمایا کہ یہ سنت نماز تھی جو کہ ان تمام پچھلی نمازیں جو ہم نے پیدائش سے ادا نہیں کیں ان کے کفارے کے لیے ادا کی جاتی تھی۔
لہذا اگر کوئی پوچھتا ہے، سبحان اللہ، اگر میں نے کچھ نمازیں ادھر ادھر ادا نہیں کیں، میں نے کچھ کر دیا، میں نے مکمل نہیں کیا تو یہ آپ کے لئے (اس کا) جواب ہے، الحمد اللہ۔ اللہ کی نعمت اور رحمت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے بے پناہ ہے۔
سیدنا علی علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کا ثواب ہزار سالوں کی قضا نمازوں کے کفارے کے لیے ہوسکتا ہے۔ جب پوچھا گیا کہ اس میں زائد سال کس کے لیے ہیں؟ کیونکہ ہم ساٹھ سال یا کچھ زیادہ زندہ رہتے ہیں۔ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ہمارے والدین، آباؤ اجداد بلکہ ہمارے قصبے، ہمارے گاؤں کے لوگوں کی کی قضا نمازوں کے کفارے کے لیے استعمال ہوگا۔
عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ : مَنْ فَاتَتْهُ صَلَاةُ فِي عُمْرِهِ وَلَمْ يُحْصِهَا ، فَلْيَقُمْ فِي آخِرِ جُمْعَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، وَيُصَلِّيِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ بِتَشَهُّدٍ وَاحِدٍ. يَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ، وَسُورَةِ الْقَدْرِ15 مَرَّة وَسُورَةِ الْكَوْثَرْ كَذَلِكَ.
وَيَقُولُ فِي النِّيَّةِ نَوَيْتُ أَنْ أُصَلِّيَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ كَفَّارَةٌ لِمَا فَاتَنِي مِنَ الصَّلَاةِ.
وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ (as)سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ : هِيَ كَفَّارَةُ أَرْبَعُمِائَةَ سَنَّةٌ .
حَتَّىٰ قَالَ إِمَامْ عَلِيٌّ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ هِيَ كَفَّارَةُ أَلْفَ سَنَةٍ.
قَالُوْا: يَا رَسُولُ اللَّهِ ، اِبْنَ آدَمَ يَعِيشُ سِتِّينَ سَنَةً أَوْ مِائَةَ سَنَةٍ ، فَلِمَنْ تَكُونَ الصَّلَاةُ الزَّائِدَة ؟
.قَالَ : تَكُونُ لِأَبَوَيْهِ وَزَوْجَتِهِ وَأَوْلَادِهِ فَأَقَارِبِهِ وَأَهْلِ الْبَلَدِ .
فَإِذَا فَرَغَ مِنْ الصَّلَاةِ صَلَّىٰ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ مِائَةٌ مَرَّةٍ بِأَيِّ صِيغَةٍ كَانَتْ ثُمَّ يَدْعُوْ بِهَذَا الدُّعَاءِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ .
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، “جس کسی نے اپنی زندگی میں ایک نماز قضا کی اور اس کا شمار نہیں کیا، رمضان کے آخری جمعہ کی رات کو کھڑا ہو اور چار رکعتیں ادا کرے۔ تشہد میں بیٹھتے وقت تشہد پڑھے، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھے، پندرہ مرتبہ سورہ القدر اور اسی طرح پندرہ مرتبہ سورہ الکوثر پڑھے اور نیت کرتے وقت یہ کہے، “میں نیت کرتا ہوں چار رکعت صلوۃ الفارہ کی اپنی ہر قضا کی ہوئی نماز کے کفارہ کے لیے“۔
سیدنا ابو بکر صدیق علیہ السلام نے فرمایا، “میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہوئے سنا ہے کہ یہ چار سو سال کا کفارہ ہے”۔ سیدنا علی علیہ السلام نے فرمایا، “یہ چار سالوں کے کفارہ کے لئے ہے“۔
لہذا انہوں نے پوچھا، “اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آدم کی اولاد کی عمر ساٹھ سال یا سو سال ہوتی ہے تو زائد نمازیں کس کے لیے؟”
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، “کہ ہمارے والدین کے لئے ہوں گی، ہماری ازواج کے لئے، ہماری اولاد کے لئے، بلکہ ہمارے رشتے داروں کے لئے اور ہمارے قصبے / گاؤں کے لوگوں کے لئے اور ہماری برادری کے لئے۔
نماز ادا کرنے کے بعد سو مرتبہ کوئی سا بھی درود شریف پڑھیں اور پھر تین مرتبہ یہ دعا پڑھیں۔
سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو دیے گئے بے پناہ ثواب سے محروم نہ رہیں
لہذا اوراد، وظیفہ، ان عظیم ثوابوں کو کبھی نہ چھوڑیں، جو کہ اللہ عزوجل نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو عطا کئے، جو کہ آج رات سے لیکر تہجد تک ہے، آپ کی فجر سے پہلے۔ اگر آپ اسے عشاء کی نماز سے پہلے پڑھنا چاہتے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں، اگر آپ اسے اپنے وتر کے بعد پڑھنا چاہتے ہیں کوئی مسئلہ نہیں۔ اسے مت چھوڑیں، انشاءاللہ!
اور اس کا اجر وہاں ہے۔ کتنی رکعتیں جب یہ کہتے ہیں کہ چار رکعتیں، اور یہ ذرا پیچیدہ ہو جاتی ہے۔اپنی تشہد نہ کریں۔ بنیادی طور پر یہ بتا رہا ہے کہہ، چار رکعتوں کی طرح پڑھیں۔ دو دو کرکے نہیں۔ آپ اپنی دو رکعتیں پڑھیں اور تشہد سے پہلے کھڑے ہو جائیں اور اگلی دو رکعتیں پڑھیں۔ اور پھر بتاتا ہے کہ کیا پڑھنا ہے۔ فاتحہ، پندرہ مرتبہ سورہ القدر، پندرہ مرتبہ سورہ الکوثر ہر رکعت میں۔ اور پھر کھڑے ہو جائیں اور اوراد پڑھیں اور دعائیں اور صلوات (درود شریف) جو لکھا ہوا ہے، انشاءاللہ!
اللہ کی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا کوئی پیمانہ نہیں
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل ان مقدس راتوں میں ہمیں سنوار دے اور نواز دے۔ ہمارے اعمال سے نہیں بلکہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے عشق کی وجہ سے۔ ہمیں ایسا ثواب عطا کر جو کہ محبت کے برابر ہو۔ یا ربی! جس کا کوئی پیمانہ نہیں اور سمجھنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ہمیں اس محبت سے عطا فرما جو کہ تو سیدنا محمد صلی اللہ وسلم سے رکھتا ہے۔ ہمیں سنوار دے اور نواز دے۔ اور ہمیں معاف کر دے یار ربی! کیونکہ ہم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں۔
اور ہم یوم محشر اپنے محبوب سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے اور ہم کسی بھی طرح کی برائی کے ساتھ نہیں آنا چاہتے۔ یا ربی! ہمیں ایسا مرتبہ عطا فرما جو اس عظیم مرتبے کو ظاہر کرے، جو تو نے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت پر رکھا ہے۔ کہہ، نہ صرف رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوبصورت ہیں بلکہ ان کی امت کی خوبصورتی کی طرف دیکھو۔ وہ ان روشنیوں اور ملبوسات سے سجے ہیں۔ یا ربی! ہمیں اس حقیقت سے عطا فرما۔ انشاءاللہ، یارب!
شیخ آداب سکھاتے ہیں
طریقہ ادب کی مدرسہ کی طرح آتا ہے۔ بعض اوقات شیخ کی فطرت کی وجہ سے، وہ بہت۔ پھر وہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے، “اپنے پروں کو لوگوں کے لیے نیچے کرو تاکہ وہ تم میں واقفیت محسوس کریں اور رسائی حاصل کریں”۔ اور طریقت کی بنیاد، اس کی برکتیں اور رحمتیں ادب میں ہیں۔ لہٰذا پھر وہی، کسی کو ناراض کرنے والی بات نہیں، لیکن شیخ آپ کو سکھائے گا کہ ادب کیسے رکھنا ہے، جواب کیسے دینا ہے، مزاح کیسے کرنا ہے، مزاح کیسے نہیں کرنا۔ حدود کیسے برقرار رکھنی ہیں، تاکہ برکتیں نازل ہوتی رہیں۔ جب وہ حد ٹوٹ جاتی ہے تو رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ لہذا شیخ کہ بہت زیادہ قریب ہونے کا نقصان یہ ہے کہ حد اور سرحد واضح نہیں رہتی۔
اب انٹرنیٹ کے اوپر اس میں کوئی فرق نہیں۔ انٹرنیٹ دس گناہ مشکل ہوگا، کیونکہ وہ شخص ایک فاصلے پر ہے اور تربیت دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ میری فکر ہمارے ماڈریٹر کے لئے یہ ہے کہہ، انہیں تمام تر تمام تبصروں (کمنٹز) کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ اب تمام تبصرے مذہبی فطرت کے ہوں۔ انہیں ماشاء اللہ کہنا چاہیے، شکریہ، گریٹ، میں نے سیکھا، الحمدللہ، اور بس اتنا ہی۔
شیطان کے عقبی صحن میں مت کھیلیں
اس کو اتنا معروف نہ کریں، اورجیسے گھومنا پھرنا۔ کیونکہ یہ شیطان کا عقبی صحن نہیں ہے۔ جہاں اب ہم سب شیطان کے عقبی صحن میں کھیل رہے ہیں اور عجیب و غریب شکلیں بنا رہے ہیں اور پھول اور رومانوی اشارے اورغیرمہذب تبصرہ کر رہے ہیں۔ یاد رکھیں! یہاں علماء موجود ہیں جو ہم پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ان فیڈز کو دیکھ رہے ہیں۔ یہاں شوہر دیکھ رہے ہیں اور حیران ہو رہے ہیں کہ عورتیں ایسے کمنٹس کیوں کر رہی ہیں۔ یہاں عورتیں دیکھ رہی ہیں اور حیران ہو رہی ہیں کہ ان کے شوہر ایسے کمنٹس کیوں کر رہے ہیں۔
لہذا اس کا مطلب ہے کہ یہ بہت خطرناک عقبی صحن ہے، جہاں کھیلا جائے۔ ہم اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ وہ تعلیمات دیں جو مناسب ہوں۔ لہذا یہ ہماری یاد دہانی کے لئے ہے کہہ، کمنٹس کو بہت شائستہ رکھیں، بہت مذہبی۔ اپنے آپ کو ہم سے معروف نہ کریں، کیونکہ ہم کسی کے دوست نہیں۔ ہم بس ایک استاد ہیں۔ یہاں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے والے رستے کی تعلیم دے رہے ہیں۔ ہم کسی کے بھی عزیز نہیں اور ہم کسی کے بھی دوست نہیں۔ ہم جو تجویز کرتے ہیں اور جو تعلیمات دے رہے ہیں، اس کی وجہ سے آپ ہمیں پسند کر سکتے ہیں اور بس اتنا ہی ہونا چاہیے۔ یہ حد برقرار رکھیں۔ اگر یہ ختم ہوگئی تو یہ پوری محفل ایسے بن جائے گی جیسے ہم شیطان کے عقبی صحن میں کھیل رہے ہیں اور اللہ عزوجل ہمیں اس طرح کی مشکل سے بچا کے رکھے۔
آن لائن محفل میں ادب برقرار رکھیں
ہمارے ماڈریٹر کو کچھ نہیں کرنا بس کمنٹس لیں اور اسے ختم کر دیں۔ اور بعد میں وہ لوگوں کو پیغام دے سکتے ہیں، کہہ برائے مہربانی صرف مذہبی کمنٹس تک محدود رہیں اور یہ اچھا ہے۔ الحمدللہ! ماشاءاللہ! بس اتنا ہی۔ انشاءاللہ یہ میری یاد دہانی کے لئے ہے کیونکہ چیزیں انوکھی ہو رہی ہیں۔ اور ہمارا خاندان بھی ہے۔ ہمارا خاندان دیکھ رہا ہے اور لاگ آن ہوتا ہے اور ان سب لوگوں کا بھی خاندان ہے۔ بیویاں اور بچے، جو دیکھ رہے ہیں۔ آپ کا خاندان ان کمنٹس کو دیکھتا ہے اور سوچتا ہے، یہ ایک طرح کا عجیب ہے، یہ کیا چیزیں ہیں؟ لہذا برائے مہربانی برائے مہربانی ہر چیز کو حقیقی طور پر سیدھا رکھیں۔ ہم فارسی میں کہتے ہیں ”سر سنگی“ ہاں اپنے سر کو بھاری رکھیں (شیخ مسکرائے) اس کا یہ مطلب نہیں کہ جنت میں کباب۔
جنتوں میں صرف روشنی ہے
ہم جنتوں سے بھیجھے ہوۓ دسترخوانوں کی بات کر رہے ہیں، اگر آپ کبھی سوچو۔ جب ہم کبھی سوچیں، کہ بہشتوں میں روشنیوں کے جسموں کے ساتھ جا رہے ہیں۔ اور جب وہ پوچھ رہے ہیں، یاربی! ہمیں بہشتوں سے کھانے کا ایک دستر خوان بھیجیں۔ (تو) لوگ ایسے سوچتے ہیں جیسے گرم کباب نیچے آ رہے ہیں۔ لیکن وہ بہشت کا دسترخوان، روشنیوں کی دنیا سے آتا ہے۔ لہذا ہر کباب جو اس پر ہے، وہ روشنیوں کے کبابوں سے آتا ہے۔ اور فرشتے دیکھ کر حیران ہوں گے، کہ آپ یہ کیسے کھاؤ گے؟ لہذا الحمداللہ! اللہ عزوجل آپ کو سنوار دے، نواز دے اور مجھے معاف کر دے، انشاءاللہ!
جب آپ کسی کے ساتھ غلط کریں تو تلافی کریں
اور کسی بھی وقت جب ہم کچھ غلط کریں، معرفت کے رستوں پر اور استغفار کے رستوں پر یہ حاشیہ میں تحریر کی جانے والی عبارت ہے۔ کہ جب بھی اپنی زندگی میں ہم کچھ غلط کریں، تو نہ صرف اللہ عزوجل سے معافی مانگیں، اگر ہم نے کسی کے ساتھ غلط کیا ہے، کسی شخص کے ساتھ، (تو) ایک تلافی کریں- اپنی زندگی میں ایک تلافی کریں، اس شخص سے معافی مانگ کر۔ اگر آپ اپنی باتوں سے انہیں نقصان پہنچائیں اور اپنے اعمال سے، اور اگر ان کے دلوں کو تکلیف دیں یا دل توڑیں، تو یہ چیز (تلافی) اللہ کو بہت عزیز ہے۔ کہ ہم ایک ایسی زندگی بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اردگرد نہ جا کر، آپ جانتے ہیں، لوگوں کے دل توڑتے ہوئے۔ لہذا اگر ہم کچھ غلط کر رہے ہیں، تو اس میں کامیابی کی کنجی یہ ہے کہہ، اس کی تلافی کریں اور اس شخص سے معافی مانگیں، جس کو آپ نے اپنے اعمال سے اور اپنی زبان سے نقصان پہنچایا ہے۔
معافی مانگنا نفس کو سدھارتا ہے
اس کے پیچھے ایک حقیقت یہ ہے کہ، یہ آپ کے نفس پر بہت بھاری ہوتا ہے۔ آپ کا نفس اس سے اتنی سخت نفرت کرتا ہے کہ اگر آپ اس معیار کے ساتھ رہیں، تو آپ کا نفس آپ کو سکھائے گا، کہ اس شخص کو تنگ مت کرو کیونکہ ہمیں دوبارہ یہ کہنا پڑے گا، “آپ مجھے معاف کر دو“ اور مجھے یہ سخت ناپسند ہے، اس عمل کی نسبت جو تم نے کیا۔ لیکن اگر آپ نے یہ سب نہیں کیا اور سوچا کہ میں اس شخص کو نقصان پہنچا سکتا ہوں اور بس یہ کہہ دیا، او ربی! استغفراللہ! استغفراللہ! لیکن اس سے اللہ کو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
لیکن یہ مسئلہ اس شخص کے ساتھ تھا، جسے ہم نے نقصان پہنچایا، یا جس کے سامنے ہم آئے، یا جن سے ہم نے انکے حقوق چھیننے۔ لہذا وہ شخص دل سے ہمیں معاف کرے۔ اور ایسا کرنے کا یہ عمل ہمارے نفس پر بہت بھاری ہوتا ہے۔ اس وقت تک جب کہ نفس ہمیں خود خبردار کرے، کہ یہ بہتر ہے کہ ہم ایسا کام نہ کریں۔ تاکہ ہمیں ہر کسی سے معافی نہ مانگی پڑے اور پھر اس طرح یہ اچھا کردار رکھنے کا خود ساختہ دفاعی نظام بن جاتا ہے، انشاءاللہ!
سبحان ربك رب العزہ عما يصفون، وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين۔ بحرمه محمد المصطفى وبيسرہ سوره الفاتحه
ہمارے ٹرانسکرائبرز کا خصوصی شکریہ کہ انہوں نے اس صحبت کو نقل کرنے میں مدد کی۔
صحبت کی اصل تاریخ: ۲۱۔ مئی ۔ ۲۰۲۱
متعلقہ مضامین
- 9. Ramadan
- How to Accompany ‘Ibadullah – whom Allah has Taught
- Fighting Desires and Build Internal Energy – Nafs ammara
- Souls of Lovers of Prophet (saws) in Heart of Prophet (saws)
- Ramadan Mubarak May We be Blessed by Holy Qur’an
براہ کرم عطیہ کریں اور ان آسمانی تعلیمات کو پھیلانے میں ہماری مدد کریں
کاپی رائٹ © ۲۰۲۲ نقشبندی اسلامک سنٹر آف وینکوور ، تمام حقوق محفوظ ہیں۔