Urdu – Muraqbah Series-Level 1.3
شیخ السیّد نورجان میراحمدی نقشبندی (ق) کی سنہری تعلیمات سے اقتباس
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
الّھمَّ صَلِّ عَلَی سیدِنَا محَمَّدٍ ﷺ وَعَلَی آلِ سیَّدِنا محَمَّد ﷺ
مراقبہ سیریز۔ مرحلہ-1
اسلامی/صُوفی مراقبہ کیسے کیا جائے؟
مرحلہ 1، یہ وہ نقطہ ہے جہاں سے (مراقبہ کی) شروعات کی جاتی ہے۔ صوفی مراقبہ کی شفا بخش طاقت کے بارے میں وہ سب کچھ جو آپ کو جاننے کی ضرورت ہے۔ رابطہ شریف ، مراقبہ ، تفکّر کے بارے میں جانئیے؛ یہ تمام صوفی مراقبہ جات کے لئے مرکزی بنیاد ہے۔
مرحلہ- 2 تک پہنچنے کےلئے، مرحلہ 1 میں موجود مندرجہ ذیل اقدام کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
-(۱)۔ رابطہ شریف کا طریقہ کار، شیخ (مرشد) سے مربوط ہونا
(۲)۔ جسم، ذہن کا پیغمبرانہ مراقبہ اور نقشبندی طریقہ کے گیارہ أصول،
(۳)۔ مریدی کے دس اصول-برائی کو چھوڑنا اور پا رسائی کی جانب بڑھنا
(۴)۔ روزانہ کی مشقوں کے ُٹولز ، اوراد
(۵)۔ مرکزی بنیادی اوراد ۔ کیسے ادا کئے جائیں
(۶)۔ پیغمبرانہ مراقبہ پر مزید آرٹیکل 1
(۷)۔ رابطہ شریف یا مراقبہ کیا ہے؟ نظر اور مشاہدہ کی حقیقت
(۳)۔ مریدی کے دس اصول – برائی کو چھوڑنا اور پا رسائی کی جانب بڑھنا
“مریدیہ” (مرید بننے) کے دس درجات۔
بُرائی چھوڑنا اور پا رسائی کی جانب ہجرت کرنا۔
پہلا درجہ: ہجرت
اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو اور اُنکی جو صاحب اختیار ہیں (۴:۵٩)
ہجرت کے حقیقی معنی کیا ہیں؟
ہجرت کے حقیقی معنی کیا ہیں؟ کیا حقیقی معنی یہ ہیں کہ آپ ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک یا ایک قوم سے دوسری قوم کی جانب ہجرت کر رہے ہیں۔ یہ ہجرت نہیں ہے؛ ظاہری لحاظ سے اس کے معنی ہیں ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جانا۔ لیکن آج سائنسی (scientific) معنی میں پوری دنیا ایک گلوبل ویلج (Global village) بن گئی ہے۔ آپ کسی کے ساتھ کہیں بھی ہو سکتے ہیں آپ پہاڑ کی چوٹی پر ہو سکتے ہیں، چاند پر (ہو سکتے ہیں)، لیکن حقیقت میں آپ دنیا کے ہر حصے سے ٹیکنالوجی (Technology) کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں۔ آپ حتٰی کہ ایک غار سے بھی اپنا کاروبار چلا سکتے ہیں، ہمالیہ کے پہاڑوں سے بھی، کمپیوڑ (computer) کے ذریعے اور سیٹلائٹ (Satellite ) کے ذریعے جو آپ کو ہر جگہ سے جوڑے رکھتا ہے۔
تو دنیا اتنی چھوٹی ہو گئی ہے کہ لوگوں کو پھیلنا پڑا ہے۔ اور اسلئیے وہ مریخ پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ وہ وہاں جا کر رہ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اصلی ہجرت ہو کیونکہ اگر وہ وہاں چلے گئے تو وہ واپس نہیں آئیں گے۔ ہجرت کے معنی ہیں آپ ایک جگہ کو چھوڑتے ہیں اور آپ اُس جگہ پر پھر کبھی واپس نہیں جاتے، ورنہ وہ ہجرت نہیں کہلائے گی۔ یہ پوری دنیا (میں آپ کہیں بھی چلے جائیں)، لیکن آپ پھر بھی دنیا میں ہی ہیں۔
اصلی ہجرت جو کہ روحانی لوگ اور جو کہ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو دی، اصلی ہجرت اُن کی تعلیمات ہیں۔ اُنکی تعلیمات ہجرت کی سب سے اُونچی سمجھ ہیں۔ کیونکہ آپ ﷺ نے ہمیں ہجرت کے عمدہ اور کامل اصول دیئے۔ اور یہ اصول کہ اگر ہم ان کو اپنائیں یا انکا مشاہدہ کریں، انکا تجربہ کریں، اور ان پر عمل کریں، ہمیں حقیقی ہجرت مل جائے گی جس کے سب طالب ہیں۔ زمیں سے مریخ تک کی ہجرت نہیں، نہ ہی زمین سے چاند تک کی۔ یہ پھر بھی دنیا کی ہی ہجرت ہے۔ جو چیز آپ ﷺ نے ہمیں دی وہ ہجرت ہے، “الاخلاق الذمیمہ” سے “اخلاق الحمیدہ” تک۔ سب سے برے اخلاق اور خواہشات سے سب سے زیادہ اچھی خواہشات تک اور اخلاقی قدروں کو حاصل کرنا اور اسے کرنے اور حاصل کرنے سے ہمیں رضا الہی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ (عزوجل) کی ہم سےرضا اور خوشنودی۔
پھر وہ آپکو اصل ہجرت کی طرف لے کر جاتے ہیں جب آپ ان اصولوں کو حاصل کر لیتے ہیں، برے کردار اور اخلاق سے ہجرت کرتے ہوئے اچھے اخلاق اور کردار تک۔ اپ کو اخلاقی قدروں کا سب سے اونچا درجہ ملتا ہے پھر آپکو روح کی معراج اور نفس کی خود شناسی حاصل ہو جاتی ہے، جہاں یہ رکتی ہے اور اپنی حدود کو جان لیتی ہے۔ جب آپ اپنی حد جان لیتے ہیں تو اگر وہ (اولیاءاللہ) آپکے دل کی آنکھ کھول دیں اور وہ مشاہدہ کہ جس سے آپ دیکھ سکیں تو آپ (کبھی بھی پھر) اندھے شخص کی طرح نہیں رہیں گے کہ “اوہ، یہ تو میرا ہے۔” جبکہ یہ اللہ عزوجل کی طرف سے ہے، اور یہ آپ پر (اس لئے) ظاہر کیا گیا کیونکہ آپ نے وہ حاصل کیا۔ اور آپ ہر چیز کو اُس کی حقیقت اور اسکی بنیاد کی طرف لوٹا دیں گے جسکی بنیاد اللہ عزوجل کے خدائی ناموں اور صفات میں سے کچھ ہے۔ اس وقت حقیقی ہجرت آپ پر مراقبے کے ذریعے شعور کے سب سے اونچے درجے کو کھولتی ہے؛ مراقبہ جسکی لوگ آج کل خواہش کرتے ہیں اور لوگ اسے ہر ممکنہ انداز میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے اسے حاصل بھی کرلیا ہو، وہ سوچتے ہونگے کے اُنہوں نے روحانی معراج کو حاصل کرلیا۔ (مگر) وہ جو کچھ بھی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اُنہوں نے حاصل کر لیا ابھی بھی درجات اور مزید درجات (باقی) ہیں۔ کیونکہ مراقبہ ایسی چیز ہے جسے لوگ کہتے ہیں، "ہم مراقبہ میں ہیں۔” لیکن مراقبہ کس چیز پر؟
ہم انرجی سے جڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، سب سے بڑی کائنات کی انرجی، جو کہ کوسموس ((cosmos ہے۔ ہم خدائی بارگاہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مراقبہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے آپ پکڑ سکیں۔ مراقبہ دعا کی طرح ہے۔ مراقبہ اسکے برابر ہے حو آپ کر رہے ہیں، (مثلاً) آپ کسی چیز کی گزادش کر رہے ہیں، کسی سے کچھ مانگ رہے ہیں۔ تو حقیقی مراقبے کا کوئی ڈھانچا نہیں ہے۔ مراقبے کا کوئی شکل نہیں ہے۔ مراقبہ عالمی (universal) ہے۔ کیونکہ ہر کوئی کچھ نہ کچھ مانگ رہا ہے۔ کیونکہ ہر کوئی کچھ نہ کچھ سوچ رہا ہے اور مراقبہ ایک سوچ ہے، یہ سوچ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کچھ سوچ رہے ہوں اور آپ کو سوچ آئی کہ آپ کو ایک بس بننا ہے۔ یا ایک انجینئیر بننا ہے، یہ ایک مراقبہ ہے؛ یا طب (medicine) کو پڑھنا بھی ایک مراقبہ ہے؛ یا بڑھئی/لکڑی کا کام (Carpentry) سیکھنا بھی مراقبہ ہے؛ یا فلسفے کو پڑھنا بھی ایک مراقبہ ہے؛ یا روحانیت کو پڑھنا، یہ بھی ایک مراقبہ ہے۔
یہ ایک کی جانے والی درخواست ہے۔ یہ کچھ ایسا نہیں ہے جسے آپ نے حاصل کرلیا۔ جب آپ کچھ مانگتے ہیں تو اسکا مطلب یہ کہ آپ کچھ حاصل کرنے کے لئے (دعا) مانگ رہے ہیں۔ جب آپکو یہ مل جاتا ہے تو اب یہ مراقبہ نہیں رہا، یہ کچھ اور بن جاتا ہے۔ اُس وقت آپ کسی چیز کے مالک بن جاتے ہیں۔ تو مراقبہ بس ایک قدم ہے، کہ جب آپ وہ قدم رکھتے ہیں تو آپ کو ایک سیڑھی کی مانند (اوپر) پہنچنے کے قابل بناتا ہے۔ سیڑھی، سیڑھی ہے۔ اگر آپ اسے دور کر دیں گے تو آپ نیچے گِر جائیں گے۔ لیکن اگر آپ سیڑھی کے ذریعے چھت پر چلے جائیں تو پھر سیڑھی کو دور کر دیجئے (کیونکہ) اب آپ کچھ حاصل کر چکے ہیں۔ تو مراقبہ ایک روحانی قدم ہے کہ جس قدم کو آپ رکھتے ہیں اور اس کے ذریعے کہیں پہنچ کر کچھ حاصل کر لیتے ہیں جس کی بعد میں آپ مالک ہوں گے۔
اس لیئے آپ ﷺ نے فرمایا، “تفكر ساعة خير من عبادة سنة" ایک گھنٹے کا مراقبہ ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے۔'
مراقبہ زیادہ موثر ہوتا ہے۔ اور (مراقبہ میں) آپ گاڑی کے مقابلے میں راکٹ (Rocket) سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے چلیں گے۔ یہ آپکے معاملات کو تیزی سے نمٹانے کی طاقت دے گا اور زیادہ ثواب حاصل کرنے میں مدد دے گا جیسے آپ نے 70 سال عبادت کی {( 70 سال × 24 = 1680 سال کامل عبادت کے، 30 دنوں کو ضرب دیں 1680 سے 47000 سال بہشتی عبادت کے) × 365 فی دن =ایک دن میں 630,000 سال خدائی عبادت کے}
دیکھیں کہ کس قدر اہمیت آپ ﷺ نے مراقبے کو دی لیکن یہ ایک مخصوص مقام تک پہنچنے کے لئے ہے اور جب آپ وہاں تک پہنچ جائیں تو اُس طرح کے مراقبے کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ کچھ اور بن جاتا ہے۔ آج شاید اس لفظ کو پسند نہ کیا جائے۔ اس لفظ کا مطلب، لوگ شائد کہیں کہ یہ کیا لفظ کیا ہے۔ لیکن یہ اس لفظ کی حقیقت ہے اور وہ قرآن پاک میں بھی ہے۔ جب آپ مراقبہ کرتے ہیں اور (مزید( مراقبہ کرتے ہیں اور برے اعمال چھوڑ دیتے ہیں اور اچھے اعمال اپنا لیتے ہیں جب آپ (بُرے اعمال کو) چھوڑنے کا ارادہ کرتے ہیں اور (ان کو) چھوڑنا شروع کرتے ہیں، تو مراقبہ ایک چڑھنے والی سیڑھی کی طرح (کام کرتا ہے) کہ ایک اونچے اور اونچے درجے پر جانے والی سیڑھی۔ چنانچہ آپ، جیسے اللہ عزوجل فرماتا ہے، “الذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا” بن جائیں گے۔
وہ لوگ جو ہم میں جد و جہد کرتے ہیں ہم اُنکی اپنے راستے کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ یعنی وہ (راستہ) جس کی وہ خواہش کرتے ہیں۔ یہاں جہاد (کا لفظ استعمال ہوا ہے)، بہت سے لوگ جہاد النفس کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ “جہاد الاکبر” یعنی سب سے بڑا جہاد جہاد النفس (نفس سے خلاف جہاد) ہے۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو فرمایا کہ اب ہم بڑے جہاد (یعنی) جہاد النفس کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ جو لوگ ہمارے راستے میں جد و جہد کرتے ہیں ہم اُنہیں راستہ دیکھائیں گے۔ اللہ عزوجل کا راستہ کیا ہے/ جہاد اُس خواہش کے خلاف آنا جو وہ نہیں چاہتا۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ انا کے خلاف جد و جہد کرنا جو بھی انا کہے اُس کے بر عکس کرنا۔ (اگر) مراقبہ میں آپ اس سے خوش رہتے ہیں جو آپ کر رہے ہیں، اور (اگر) مراقبہ میں یہ آپکو اچھا محسوس کرواتا ہے کیونکہ آپ کا نفس (اس سے) پر سکون ہے تو یہ (مراقبہ) بھی جد و جہد نہیں ہے، کیونکہ وہ جہاد نہیں ہے۔ وہ اونچا مقام نہیں ہے۔
مراقبہ آپکو میٹھاس دیتا ہے۔ جب کوئی شخص (مراقبہ) کرتا ہے اور وہ خوش رہتا ہے، یہ (جو کچھ) آپکو دیتا ہے تو وہ آپکی انا کو تکبر میں مبتلا کردیتا ہے۔ کہ آپ مراقبہ کرتے ہیں اور (کچھ) حاصل کر لیتے ہیں۔ جب آپ حصول اور ثواب کے بارے میں سوچتے ہیں تو یہ اللہ عزوجل کی طرف خالص راستہ یا خالص مراقبہ نہیں ہوتا۔ آپ ابھی بھی بدلے میں کچھ مانگ رہے ہیں۔ اولیا اللہ نے بدلے میں کبھی کچھ نہیں مانگا۔ کیوں؟ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے اُنہیں اپنی خواہش سے بنایا، اُنہیں اس دنیا میں اپنی مرضی سے لایا۔ چنانچہ جو کچھ بھی اُنہیں کرنا ہے وہ اُس (ذات) کی خواہش ہے کہ وہ اُنہیں کہاں لے جائے۔ وہ نہ تو جنت کی خواہش کرتے ہیں اور نہ ہی خدائی بارگاہ مانگتے ہیں ایسے جیسے وہ کوئی تجارت کر رہے ہوں۔ آپ ہمیں یہ دیں اور ہم آپکو وہ دیتے ہیں۔ یہ تو تجارت ہے۔
یہ روحانیت کے اونچے درجے پر قابلِ قبول نہیں ہے۔ روحانیت کے اونچے درجے ہر آپ ایک گِرے ہوئے پتے کی طرح ہیں کہ ہوا اُسے دائیں یا بائیں لے جائے۔ پتہ نہیں کہتا کہ آپ مجھے دائیں یا بائیں کیوں بھیج رہے ہیں۔ سمندر میں ایک تیرتی کشتی کی طرح جہاں بھی ہوا اُسے لے جائے وہ چلی جاتی ہے۔ یہ نہ سوچیں کہ ہر چیز جسکی آپ کو طلب ہے وہ آپکو ملے گی۔ جہاز/کشتی ہوا کے مطابق چلتے ہیں۔ ہوا آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے وہ اللہ عزوجل کے ہاتھ میں ہے۔ تو اپنے مراقبے میں اگر آپ کسی جس چیز کی آرزو کرتے ہیں تو وہ سیڑھی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ اسکا مطلب ہے کہ قدم اَن گنت ہو جائیں گے۔ لیکن جب آپ کہتے ہیں کہ یا اللہ عزوجل میں کچھ بھی ما نگے بغیر آ رہا ہوں تو مراقبے میں کم وقت لگتا ہے جب آپ کچھ نہیں مانگتے۔ یا رب، آپ میرے ساتھ جو بھی کرنا چاہتے ہیں کریں ۔ الدینُ دین الحب۔ میرا دین محبت کا دین ہے۔ یہ میرا دین ہے۔ آپ سے محبت کرنا۔ آپ نے اپنے پیغمبر سیدنا محمد ﷺ کو بھیجا، کیونکہ میں آپ سے محبت کرتا ہوں تو میں آپکی پیروی کرتا ہوں۔ یہ مغربی دنیا میں موجود ایک تصور – “غیر مشروط محبت” (unconditional love) – کی طرح ہے۔ غیر مشروط محبت کیا ہے؟ عالمی محبت (universal love)۔ آپ کی نظر ہر کوئی برابر ہے کیونکہ وہ انسان ہیں ، اللہ عزوجل نے انہیں ایک جیسا پیدا کیا۔ آپ کے کان ہیں ان کے کان ہیں ، آپ کی آنکھیں ہیں ،اُن کی آنکھیں ہیں ، آپ کے منہ ہیں ان کے منہ ہیں۔ وہ مختلف نہیں ہیں۔ وہ ایک جیسے ہی ہیں. سات تہیں [دونوں ہاتھوں کو اُٹھائیں ایک انگلی اوپر کی طرف اٹھائے ہوئے]۔ اللہ نے ہمیں 7 مرکزی نقطے (focal points) دیئے جن کا ہمیں شعور حاصل کرنا اور مشاہدہ کرنا ہے اور اللہ نے ہمیں 4 اہم نکات بھی فراہم کیے اور 9 (مزید) اہم نکات بھی۔
تو یہ 4 اور 7 اور 9 ہوئے۔ یہ 4 ، 7 اور 9 آپ کو جسم کا اصلی “علم الاعداد” (arithmetic of body) فراہم کریں گے۔ اور آپ کے جسم کی اصل ساخت۔
اگر ہم ان 4 نکات ، 7 نکات اور 9 نکات کو ہمیشہ صاف رکھیں تو ہم کچھ حاصل کرلیتے ہیں۔
4 نکات (ہیں) دل کے لیولز:
سِر (secret) ، سِر السِر (secret of secret )، خفیٰ (hidden) اور اخفیٰ (most hidden)۔ دل میں یہ 4 لیولز ہیں۔
اس سے یہ حقیقت کھل جائے گی۔ یہ 4 درجات ہمیں اس لئے دیئے گئے ہیں جیسے رسول ﷺ نے فرمایا: 'جب میرا بندہ نوافل عبادت کے ذریعہ مجھ سے رابطہ کرے گا میں اس سے محبت کروں گا ، اگر میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاؤں گا جس کے ساتھ وہ سنے گا اور میں اس کی آنکھیں ہوں گا جن سے وہ دیکھ سکتا ہے۔ یہ چار نکات ہیں۔
پھر کَیا: انہوں نے کہا پھر میں اس کی زبان بن جاؤں گا اور میں اس کا ہاتھ ہوں گا جس سے وہ محسوس کرتا ہے اور میں اس کے پاؤں بن جاؤں گا جس کے ساتھ وہ چل سکتا ہے۔ یہ سات ہیں۔
پھر سر کے 7 مقدس سوراخ ہیں:
یہ آپ کو چلنے (کی صلاحیت) کی طرف لے جائے گا جو کہ آخر میں آتی ہے۔ کان ، آنکھیں ، زبان اور ہاتھ سے آغاز کرتے ہوئے۔ پھر جب آپ اس کو قائم کریں گے اور جب آپ وہ سن پائیں گے اور دیکھ پائیں گے جو لوگ نہیں سنتے اور دیکھتے تو آپ کو ہدایت نصیب ہو جائے گی ، تب آپ بول سکتے ہیں۔ تب آپ کو ہاتھ میں ایسی طاقت عطا فرما دی جائے گی کہ (جس کے ذریعے) آپ دنیا میں طاقت کو تبدیل کرسکیں۔ آپ جو چیز چاہیں اُس کو تبدیل کرسکتے ہیں جو بھی کوئی غلط چیز دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھوں سے بدلنے کی کوشش کرے۔ (مثلاً) اگر آپ کسی کاغذ پر دستخط کرتے ہیں تو اس سے سب کچھ بدل جاتا ہے۔ (اسی طرح) جب آپ ایک کاغذ پر دستخط کرتے ہیں اور ہر چیز کو بدل دیتے ہیں تو آپ “صراط المستقیم” پر چل رہے ہوں گے۔ یہ 7 نکات ہمارے لئے بہت اہم ہیں۔
9 نکات کے بارے میں ہم (فی الحال) بات نہیں کریں گے وہ انیاگرام (enneagram) کے ٹاپک میں ہیں۔ بعد میں ہم اس کے بارے میں بات کریں گے۔
لیکن میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ ہمارے لئے بہت اہم ہے، کہ جب آپ جسم میں ان نکات کو چالو کرنا چاہتے ہیں تو ، اونچے درجے کےمراقبہ کے حصول کے کیئے ، اللہ عزوجل نے ہمیں بطور مسلمان وضو کرنے کا حکم دیا۔ کیوں؟ وضو کے ذریعےسب سے پہلی چیز جو ہم کرتے ہیں وہ ہاتھوں میں پانی لے کر اپنے ہاتھ دھونا ہے۔ وضو میں ہم کیسے ہاتھ دھوتے ہیں۔ انگلیوں کو دھونا اور پھر ایک دوسرے کے درمیان سے گزارنا۔ اگر آپ اپنے (دائیں) ہاتھ کو دیکھیں تو آپ کو بائیں ہاتھ سے ملتی جلتی تصویر نظر آتی ہے .آپ کو (دائیں ہاتھ پر) عربی میں 18 اور بائیں ہاتھ میں 81 نمبر نظر آتے ہیں. یہ مجموعی طور پر 99 بن جائے گا۔ 99 اللہ عزوجل کے نام ہیں۔ پھر آپ اس الہی کوڈ کو چالو کرنا شروع کرتے ہیں جو درج کیا گیا ہے۔ اور اگر آپ 1 اور 8 کو جمع کرتے ہیں تو آپ کو 9 ملتا ہے اور 8 اور 1 بھی 9 ہے۔ لہذا 9 اور 9، 99 ہے۔ 9 + 9 = 18 بنتا ہے۔ 8 + 1 = 9۔
9 علم الاعداد میں صفر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کچھ بھی نہیں ہیں۔ ابھی کے لئے یہی کافی ہے۔
دوسرا درجہ: بیداری اور توبہ
یہ ایک لمبا سفر ہے کیونکہ یہ رکاوٹوں سے بھرا ہوا ہے ، جب بھی آپ کسی چیز کو طویل دیکھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مشکلات سے بھرا ہوا ہے۔ جبکہ بعض اوقات آپ کو کچھ مختصر نظر آتا ہے کیونکہ وقت تیزی سے گزر رہا ہوتا ہے (اور) کیونکہ آپ تفریح کر رہے ہوتے ہیں اور آپ خوش ہوتے ہیں۔
جب کہ کوئی اپنے کام میں مصروف ہوتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے کہ اپنی چھٹیوں تک پہنچنے میں اسے میں زیادہ وقت لگے گا۔ خود شناسی کا سفر بھی ایک لمبا سفر ہے لیکن جب آپ (منزل پر) پہنچ جاتے ہیں تو اپ لطف اندوز ہوتے ہیں اور ذکر اللہ کی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن یہ ایک طویل سفر ہے۔ جب آپ ذکر کرتے ہیں تو آپ خوشی محسوس کرتے ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ وقت بھاگ رہا ہے۔ لیکن جب تک کہ آپ وہاں نہیں پہنچتے ، آپ کو یہ جاننا ہوگا کہ آپ کی زندگی میں آپ کو رکاوٹیں درپیش ہوں گی۔ تو ہم نے کہا ہے کہ ،جب آپ توبہ کرنا چاہیں گے تو آپ کو ظالموں کے گروہ سے چھڑا لیا جائے گا ، جیسا کہ اللہ نے فرمایا ، وَمَنۡ لَّمۡ يَتُبۡ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ( 49:11)
لہذا اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ توبہ طلب کریں گے تو وہ آپ کو اس ظلم، اُس گروہ سے باہر لے جائیں گے۔ اب آپ کو ظالم ، جابر نہیں کہا جائے گا۔
لہذا جب آپ توبہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور آپ اللہ سبحانہ وتعالی سے توبہ کرنے کے لئے دعا گو ہوتے ہیں ، جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ، اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ کہیے: "قل یا عبادی الذین اسرفوا على انفسهم" للہ عزوجل کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ اللہ عزوجل معاف کرنے والا ہے۔ اللہ اکبر. یہ وہ چیز ہے جس پر ہم پہلے توجہ نہیں دے رہے تھے اور مولانا (ق) اس کو اب (ہمارے لئے) کھول رہے ہیں۔ اُنہوں نے فرمایا "لاتقنطوا من رحمة" اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ اللہ عزوجل کے رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ وہ کہہ رہا ہے ، قل یا محمد ﷺ، میرے اُن خادموں سے جو اپنے آپ پر ظلم کرتے بیٹھے تھے ، میری رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ اور اللہ عزوجل ایک اور آیت میں کیا کہتا ہے۔ "ولو انهم اذ ظلموا انفسهم "… اور اس نے کیا کہا "لاتقنطوا من رحمة" اور ایک اور آیت میں "أرسلناك إلا رحمة للعالمين"۔ امید سے محروم نہ ہوں کیوں کہ محمد ﷺ آپ کے ساتھ ہیں اور وہ آپ کی شفاعت کرنے والے ہیں۔ اللہ عزوجل کی رحمت سے مایوس نہ ہوں ، کیونکہ محمد ﷺ کی وجہ سے اللہ عزوجل تمام گناہوں کو معاف کردے گا۔ آپ ان تین سورتوں سے ان تینوں آیتوں کو اکھٹا کرتے ہیں تو آپ کو یہ احساس ہوگا کہ محمد ﷺ ہی وہ “رحمت” ہیں ، اور وہ ظالموں کو مخاطب کررہے ہیں ، امید مت چھوڑو۔ تو جب آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر جانے کا فیصلہ کرتے ہیں ، اور شفاعت طلب کرتے ہیں ، اور اللہ عزوجل سے مغفرت طلب کرتے ہیں،
• اسکا مطلب یہ ہوا کہ وہ جواب طلبی کے لئے خود اپنی جانچ پڑتال کرتے ہیں، حساب کتاب کرنے کےلئے۔ (جب) وہ معافی مانگنے آتے ہیں تو وہ یہ کیسے کرتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ غلط کیا ہے،استغفراللہ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے معافی مانگنے کے پابند ہیں۔ پھر وہ اللہ عزوجل کو بخشنے والا مہربان پائیں گے۔
• وہ دوسرا درجہ ہے جس میں آپ توبہ کرتے ہیں۔ اور آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائے بغیر توبہ نہیں کرسکتے ہیں۔
تین آیات: یا ایها الذین الظلمو۔۔۔ لاتقنطوا من رحمة، و ما أرسلناك۔۔۔
جب آپ کو احساس ہو کہ آپ گنہگار ہیں اور آپ پر مشکلات آتی ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کو کسی کی شفاعت کی ضرورت ہے۔ آپ کو کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو آپ کا ہاتھ تھامنے کےلئے (سب سے) زیادہ مخلص ہو۔ جو بہترین مخلص ہو۔ (یعنی) سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ مزید یہ کہ آپ براہ راست بھی نہیں جا سکتے۔ آپ کو کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو (اس راستہ کا) وارث، ہو جو آپ کی درپیش ہونے والی رکاوٹوں کو جان سکے اور وہ آپ کو ہاتھ سے پکڑ کر (راستے پر) چلائے۔ آپ کو معلوم ہے کہ جب آپ کے پاس جھاڑی ہوتی ہے ، تو ان کے پاس گھاس اور جھاڑیوں کو کاٹنے کے لیئے طرح طرح کے آلات – گھاس کاٹنے والے آلات/گیاہ تراش – ہوتے ہیں۔ اگر گھاس موٹا نہیں ہے تو آپ کے پاس سستی گیاہ تراش (گھاس کاٹنے والا آلہ) ہوتی ہے۔ اگر یہ جھاڑیاں موٹی ہوں اور گہری ہوں تو آپ کو روٹوٹیلر )زمین جوتنے والا آلہ) کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مٹی میں تیزی سے گھومتا ہے۔ اب آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو آسان ہے۔ (لیکن اگر) آپ افریقہ یا ملیشیا یا انڈونیشیا کے جنگل میں چلے جاتے ہیں۔ آپ گیاہ تراش یا روٹوٹیلر کے ساتھ نہیں جا سکتے۔ اس وقت آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ آپ کو بلڈوزر کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات انہیں ہر چیز کو صاف کرنے کے لئے ڈائنامائیٹ (بارود) کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر آپ کا مرشد گیاہ تراش ہے تو وہ تھوڑا سی (صرف) آپ کے سامنے (کی جگہ) صاف کرے گا۔ اگر وہ ایک روٹوٹیلر ہے تو وہ گہرائی تک صاف کرے گا۔ اگر آپ کا شیخ بلڈوزر ہے تو وہ پوری جگہ کو صاف کردے گا۔ اگر آپ کا مرشد بارود ہے تو وہ آپ کی منزل تک پہنچنے کے لئے آپ کے لئے راستہ کھول سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو کسی ایسے وارث کی ضرورت ہے جو اس سفر سے گزرا ہو ، اسی راہ سے گزرا ہو ، وہ آپ کی طرف دیکھتا ہے اور آپ کے دل کے ذریعہ آپ کی رہنمائی کرتا ہے اور آپ کو کیا کرنا ہے: خود کا محاسبہ۔ آپ اپنا محاسبہ کیسے کریں گے؟
يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله ولتنظر نفس ماقدمت لغد۔
اللہ سے ڈرو اور ہر روح کو اس طرف دیکھنا ہے کہ اس نے کل کے لئے کیا مہیا کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے ہر روح نے کل کے لئے کیا سامان تیار کیا ہے۔ جسم نہیں (بلکہ) روح کو سامان تیار کرنا ہے۔ جب بدُّو نے آکر پوچھا کہ قیامت کب ہے؟ اور یہ طویل حدیث ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب نہیں دیا، وہ جمعہ (کا خطبہ) دے رہے تھے۔ اس نے دوسری بار پوچھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر جواب نہیں دیا۔ پھر اس نے پوچھا "مَتَى السَّاعَةُ یا رسول الله" ، لیکن اس نے محبت کے ساتھ، شفقت کے ساتھ پوچھا۔ تو جِبریل (ع) نے آکر کہا ، اسے کچھ بتائیے ، یہ مخلص بندہ ہے۔ انہوں ﷺ نے فرمایا ، یہ ایک لمبا راستہ ہے ، لمبا سفرہے ، قیامت تک کا لمبا راستہ ہے۔ لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ اس دن کے لئے تم نے کس طرح کا سامان تیار کر رکھا ہے؟ وہ راستہ مشکلات سے بھرا ہوا ہے ، پریشانیوں سے بھرا ہوا ہے۔ جو بھی قدم آپ اٹھاتے ہیں وہ اپنے نفس کے ساتھ اُٹھاتے ہیں۔ آپ اپنے شیطان کے ساتھ پُر اعتماد طریقے کے ساتھ قدم اُٹھاتے ہیں، اس پر بھروسہ کرتے ہوئے۔ وہ جہاں بھی آپ کو کہے ، آپ اپنی بری خواہشات کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔ ہمارے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ آپ کیا امید کر رہے ہیں۔ آپ کیا تیار کر رہے ہیں۔ "مَتَى السَّاعَةُ یا رسول الله"۔ جانچ پڑتال کرنا ، جانچ پڑتال کو عربی میں محاسبہ کرنا کہتے ہیں۔
جب آپ توبہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور اپنے آپ کا محاسبہ کرنا شروع کردیتے ہیں کہ بری خواہشات کیا ہیں ، تو اصلی سفر شروع ہوتا ہے۔ کیا آپ کی توبہ اصلی ہے یا نقلی؟
قبر میں حساب کتاب ہونے سے پہلے محاسبہ کریں:
• کیا آپ یہ کہیں گے کہ میں نے محاسبہ کیا اور (مجھے پتا چلا کہ) میں نے یہ (کام) غلط کئے ہیں۔
• پھر آپ کو اپنے جرنل (journal) میں لکھی ہوئی ہر (بُری) چیز سے توبہ کرنا ہوگی۔
• آپ اسی دن ہر ممنوع عمل جو آپ نے (اس دن) انجام دیا اُسے درج کریں۔ (آپ کو سوچنا ہو گا کہ) کیا آپ کسی اور وقت میں (دوبارہ) اسکو انجام دیں گے یا آپ (توبہ کرکے) آگے بڑھیں گے۔
چنانچہ اُنہوں نے بدو سے فرمایا تم نے کیا تیار کیا ہے؟ (ذرا سوچیں کہ) ہم کیا تیار کرنے والے ہیں؟ ہمیں وہاں جانے کیلئے، راستہ صاف کرنے کیلئے بلڈوزر اور ڈائنامائیٹ کی ضرورت ہے۔ لیکن بدو ایک مخلص بندہ تھا، خالص ، ایک عاشق تھا۔ وہ دانشمندی کو سمجھنے والا شخص تھا۔ اس نے کیا کہا؟ محبتك یا رسول اللہ (آپ کی محبت یا رسول اللہ ﷺ)- میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے میں کیا تلاش کرنے والا ہوں؟ میں اپنی پریشانی کیسے حل کروں گا؟
• میں آپ ﷺ کی محبت کے بغیر اپنے سفر پر کیسے جاؤں گا؟
• آپ ﷺ کی محبت میرا چراغ ہے ، میری ٹارچ میری روشنی کا مرکز ہے ، میرا سورج میرا چاند ہے ، اس کائنات کے سارے ستارے ، شمالی قطبی ستارا جو ہر انسان کی شمال کی جانب رہنمائی کرتا ہے اس کی طرح میری رہنمائی کرنے والے۔
شمال کہاں ہے؟ ہمیشہ ہم جب بھی شمال کا نام لیتے ہیں اور اوپر کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں؟ آپ کیسے کہتے ہو شمال کہ سمت اوپر ہے۔ آپ کبھی بھی شمال کے لئے نیچے کی سمت اشارہ نہیں کرتے، حالانکہ یہ (زمین) گول ہے شمال نیچے ہوسکتا ہے۔ جنوب نیچے کیوں شمال نیچے کیوں نہیں ہے؟ یہ زمین ہے ، گول ہے۔ لیکن ہمیشہ اعلی لیول کی سمت (اور) جب آپ کچھ بلند کہنا چاہتے ہیں تو آپ ہمیشہ شمال کا نام لیتے ہیں۔ ہمیشہ شمال اوپر کی جانب ہوتا ہے۔ لہذا جب آپ آگے بڑھ رہے ہوں تو آپ کو ہمیشہ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ آپ اونچائی کی طرف جا رہے ہوں۔ اور جب آپ رات میں کہیں جا رہے ہوں تو سب سے زیادہ اونچائی کی علامت کیا ہے؟ وہ شمال ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شمال ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ (شمال ہیں) راہنما ہے۔ کیونکہ شمالی قطب ، یا شمالی ستارہ تمام تر سمت شناسی (navigation) کے لئے رہنما ہے۔ جہازوں کے لئے کاروں کے لئے ، سیٹلائٹ (Satellite)کے لئے ، جی پی ایس GPS)) کے لئے سمت شناسی کا مکمل نظام شمال ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں شمال (ہی ہے)۔ جنوب نیچے ہے اور کون اونچا ہے؟ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ لہٰذا وہ شمال ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ہر چیز کے لئے راہنما ہیں ، جیسا کہ قطبی ستارہ ہے۔ قطبی ستارہ دنیا کے ہر حصے سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اور کیا ہوگا (جب وہ قطبی ستارے کو دیکھیں گے تو)؟ ان کو رہنمائی ملے گی۔ تو اس (بدو) نے کیا کہا؟ آپ کی محبت یا محمد ﷺ ۔ آپ ﷺ وہ ستارہ ہیں جس پر ہم انحصار کر سکتے ہیں۔
لہذا آپ کو ان بھاری تجارتی (Commercial)بلڈوزرز کی ضرورت ہے۔ یہاں تجارتی ، صنعتی اور رہائشی موجود ہوتے ہیں۔ یہ اولیا کی قسمیں ہیں۔ رہائشی اولیا اور صنعتی اولیا۔ صنعتی اولیا ، بھاری سامان ، بھاری پِسٹنز(pistons) کے ساتھ ہوتے ہیں۔ رہائشی اولیاء (کو) آپ کو ہر تین یا چار ماہ بعد تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ صنعتی کو آپ کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب آپ اُن کا ہاتھ تھام لیتے ہیں تو آپ کو اُنہیں کبھی بھی تبدیل نہیں کرنا پڑے گا کیوں کہ آپ نے اُن کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے۔ لیکن رہائشی (کے ساتھ یہ معاہدہ) کچھ دیر بعد ٹوٹ جاتا ہے اور آپ کو جاکر کہنا پڑتا ہے ، میری وارنٹی ہے۔ لیکن تجارتی ، یہ سینکڑوں ، ہزاروں تک چلتا ہے۔ ایسی مشین کی وارنٹی خریدنے کے لئے پیسے خرچ کرنا رقم کا ضیاع ہے۔ عام شیخ ایک رہائشی شیخ کی طرح ہوتے ہیں ، وہ جلد ہی معاہدہ ٹوڑ دیتے ہیں۔ وہ جنگل میں تین قدم بھی نہیں بڑھ سکتے اور ہوسکتا ہے کہ ایک شیر آئے اور وہ بھاگ نکلیں۔ لیکن وہاں کتنے ہی جعلی پِیر ہیں ۔ لیکن صنعتی شیخ کبھی بھی جعلی نہیں ہوتے۔ وہ ہمیشہ کھڑے رہتے ہیں۔ شمالی قطب کی طرح، صنوبر کے درخت کی طرح ہمیشہ کھڑے رہتے ہیں۔ موسم گرما میں سبز ، سردیوں میں سبز ، (ہمیشہ) کھڑے رہتے ہیں۔ رہائشی اولیا ، صنعتی اولیا نہیں، (کہ رہائشی) شیخ جھاڑیوں کی طرح ہیں۔ ایک گھاس کاٹنے والا آلہ اُنہیں کاٹ دے گا۔ لیکن ایک صنوبر کے درخت کو کوئی گھاس کاٹنے والا آلہ کیسے کھائے گا- یہ ناممکن ہے۔
لہذا ہر روح کو اس چیز کی طرف دیکھنا چاہئے جو اُس نے کل کے لئے فراہم کرنی ہے۔ پھر کیا ہوگا؟ اس وقت آپ اللہ سبحانہ وتعالی کا خوف کرنے لگیں گے۔ اگر آپ نے کچھ غلط کیا ہے اور کل (اگلے جہاں) کے لئے کچھ مہیا نہیں کیا ہے تو (سمجھ جائیں کہ) آپ کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اگر آپ اس سے نہیں ڈرتے تو آپ آئندہ کے لئے کچھ فراہم نہیں کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو اُن ساتوں پر فخر تھا ، جن کو اللہ عزوجل قیامت کے دن سایہ دے گا۔
جن میں سے ایک وہ لڑکی یا لڑکا ہوگا جسےاللہ عزوجل کی اطاعت میں پالا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ نے وہ عہد قائم رکھا جو آپ نے “وعدوں کے دن” اللہ عزوجل سے کیا تھا اور جو اللہ عزوجل نے آپ سے اپنی زندگی میں کرنے کو کہا تھا اور آپ اس پر قائم رہے تو آپ بچ جائیں گے۔ ورنہ آپ ہارے ہوئے ہیں۔ تو اب آپ کو کیا کرنا ہو گا؟
اب چنانچہ آپ جانتے ہیں آپ کو توبہ کرنی ہے آپ کو اپنی روح کے لئے کچھ لازمی مہیا کرنا ہے۔ آپ کو اس سے توبہ کرنا ہو گی جو آپ کے جسم نے گناہ کئے، لہٰذا آپ اللہ عزوجل سے خوف طلب کرتے ہیں۔ یہ خوف نہیں ، یہ تقویٰ ہے۔ اس کا مطلب اخلاص ، تقویٰ ہے۔ جب آپ میں اخلاص اور تقویٰ ہوگا تو اللہ عزوجل کہتا ہے کہ میں آپ کو تعلیم دوں گا۔
واتقوا الله ويُعلِّمكُمُ الله
جب آپ سیدنا محمد ﷺ سے پیار کرتے ہیں اور آپ اپنے مرشد کے ساتھ اس بڑے جنگل سے ہو کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس محبت کی طرف چلتے ہیں اور آپ اس محبت کا اظہار کرتے ہیں ، تب اللہ عزوجل آپ کو بتائے گا کہ بس اتنا ہی کافی ہے۔ یہ خلوص میرے لئے کافی ہے۔ میں جانتا ہوں آپ کمزور ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ ابلیس آپ کے پیچھے ہے۔ میں جانتا ہوں کہ وہ آدم (ع) کے پیچھےبھی تھا ، تو کیا وہ آپ کے پیچھے نہیں ہوگا؟ لیکن مجھے (آپ کی) یہ محبت چاہئیے۔ میری محبت کے نزدیک آنے سے پہلے آپ کو پیغمبر ﷺ کی محبت میں آنا ہوگا۔ جیسا کہ بدو نے کہا تھا کہ آپ کی محبت یا رسول اللہ ﷺ۔ حتٰی کہ وہ مسجد میں نہیں جاتا تھا ، (مگر جب) وہ گیا وہ اتنا خوش ہوا، خوشی سے جھوم اُٹھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بات کی ہے۔ (یہ بالکل ایسے ہی ہے) کہ جب آپ چل رہے ہوں اور بادشاہ آپ سے بات کرے۔ آپ صدر کو ٹی وی پر دیکھتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ مجمع میں موجود کسی شخص کو ہیلو کہتا ہے یا سلام اگر وہ مسلمان ہے، تو وہ شخص بہت خوش ہوگا۔ اشرف المخلوقات ﷺ اسے بتا رہے ہیں کہ “یہی کافی ہے”۔ اس بات سے (وہ خوشی سے) جھوم اُٹھا وہ نہیں جانتا تھا کہ کیا کرنا ہے۔ وہ چلا گیا. وہ ایک معصوم شخص تھا ، اس کے دل میں کوئی گندگی نہیں تھی ، وہ صاف تھا۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کافی ہے تو وہ چلا گیا۔ الحمدللہ ،یہ اچھا ہے۔
تو جب آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو یہ اخلاص کی علامت ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ (ایسے بھی) ہیں جو اللہ رب العزت سے محبت نہیں کرتے۔ وہ بہت سے لوگوں (کی محبت) میں پڑ رہے ہوتے ہیں ، وہ نہیں جانتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ عزوجل سے محبت کرتے ہیں اور اللہ عزوجل فرماتا ہے؛
“ واتقوا الله ويعلمكم الله” وہ ہمیں کیا سیکھا نے والا ہے؟ اور اُس نے کہا، وفوق كل ذي علم عليم
اس کا مطلب ہے کہ وہ آپ کو معرفت کی سطح میں بلند کرتا رہے گا۔ علم کے بعد علم ، لامحدود۔ جب وہ آپ کو (ایسا علم) سکھاتا ہے کہ جو آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا تو وہ دل کے ذریعے ، الہام کے ذریعہ تعلیم فرماتا ہے۔ آپ کبھی بھی کتابوں کے ذریعہ (وہ علم) نہیں سیکھ سکتے۔ یہ ناممکن ہے۔ اسی وجہ سے روایتی اسکالرز (scholars) کو اللہ عزوجل نے ان کے دلوں کو (یہ علم) عطا فرما دیا ہے۔ جیسے کہ امام غزالی (ق) ، ابن عربی (ق) ، شاہ نقشبند (ق) ، احمد الفرقی (ق)، جانی جانان (ق) ۔ جیسے صحابہ کرام۔ چاروں امام لکھنے اور سمجھانے کے قابل تھے۔ کیسے؟ کیونکہ اللہ عزوجل نے ان کے دلوں کو متاثر کیا۔ وہ علم اوپر کی جانب سے آرہا تھا اونچی سطح سے نیچے کی طرف۔ اس نے کہا “واتقوا الله ويعلمكم الله”۔ تب آپ زیادہ سے زیادہ سیکھ سکتے ہیں۔ ورنہ پھر آپ اسی جنگل میں رہ جائیں گے۔ اس کو عبور کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ کبھی کبھی جنگل اس قدر تنگ ہوتا ہے تو آپ ہِل بھی نہیں سکتے۔ وہ راستہ ایک بہت ہی مشکل راستہ ہوتا ہے ، ان کی زندگی کا ایک بہت بڑا کراس سیکشن(Cross Section)۔ لوگ اپنی تسبیخ پکڑتے ہیں اور وہ ذکر کرتے رہتے ہیں،
• لوگ ذکر کرتے ہیں۔ (جبکہ) پہلے ذکر نہیں کرنا!
• سب سے پہلے غلطیوں کو ختم کرنا ہے۔
• آپ 5000 اللہ اللہ کرتے ہو اس میں 15 منٹ لگتے ہیں۔
• 1000 لا الہ الا اللہ کرنے میں سات منٹ لگتے ہے۔
• یہ آسان ہے لیکن حرام کو نہ دیکھنا مشکل ہے۔
شیخ الأعظم (ق) فرماتے ہیں، اگر آپ کچھ غلط دیکھیں تو (پہلی نظر کو) آپ کے گناہ کے طور پر نہیں لکھا جاتا۔ دوسری نظر ممنوع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یا ربی اس کی طرف دیکھنا ممنوع ہے، یہ (ممنوع چیز کو نہ دیکھنا) 500 فرض ادا کرنے کہیں بہتر ہے۔ ایک حرام کو چھوڑنا اللہ سبحانہ و تعالٰی کے لئے زیادہ قیمتی (عمل) ہے کیونکہ (ایسا کرنے سے) آپ اپنی انا پر قدم رکھ رہے ہوتے ہیں اور اسے اللہ عزوجل کے واسطے چھوڑ رہے ہوتے ہیں۔ ایسی کوئی بھی چیز چھوڑنا بہت مشکل ہے جس کی آپ کو خواہش ہو اور انا اس کو چاہتی ہو۔ ہمیں یہی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہیں کرنا کہ ذکر کو چھوڑ دیں بلکہ روزانہ توبہ کرنے کے فیصلے کے ساتھ ، آپ نے جو محاسبہ کیا ہے (ان گناہوں کو) روزانہ ختم کرنا ہوگا۔ ہر ایک گناہ کے لئے جو آپ نے کیا ہے ، آپ کو اس کے لئے استغفراللہ کہنا ہوگا کہ میں توبہ کر رہا ہوں اور اس کی طرف نہیں لوٹوں گا۔
یہی محاسبہ کا درجہ ہے۔
یہ ہر روح کا اُس لیول پر پہنچنا ہے جہاں کہ روح جانچ سکے کہ اس نے مستقبل کے لئے کیا مہیا کیا ہے۔ یہ ایک مرید بننے کے راستے میں تیسرے لیول تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ وہ (اولیاء اللہ) ان سرگوشیوں کو بند نہیں کرتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ خود اس کو ختم کریں۔ جب آپ مرید کی سطح پر پہنچ جاتے ہیں تو وہ اسے روک دیتے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے وہ چاہتے ہیں کہ آپ انہیں روکیں۔ جب آپ مرید بن جاتے ہیں تو آپ کے ذریعہ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ آپ سیاہ ہو جائیں، وہ وہاں (آپ کے اندر) روشنی کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
• پھر وہ شخص مرشد کےلئے ایک رسیور (reciever) کی طرح ہوجاتا ہے ، وہ اس کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، اس کے کانوں سے سنتے ہیں ، وہ اس کے ہاتھوں سے (کام) کرتے ہیں۔
• جب آپ مرشد کی موجودگی میں ہوتے ہیں تو بہت سارے وسوسے آتے ہیں۔
• جب آپ اُن کی موجودگی میں ہوتے ہیں تو وہ اس گپ شپ کو” اپ لوڈ“ (upload)کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ان تمام بری باتوں کو دل سے نکال کر باہر لایا جاتا ہے۔
حتٰی کہ اگر (ابھی تک) آپ نے ان کی بیعت نہیں بھی کی، (اور) اگر آپ کا اُن کے گروپ میں شامل ہونا لکھا ہے تو وہ آپ کا امتحان لیں گے، لیکن آپ کو معلوم نہیں ہوگا۔ آپ شاید ظاہری طور پر بیعت نہ کریں مگر آپ کا اس گروپ میں شامل ہونا “وعدے کے دن” متعین ہو گیا تھا۔ کچھ لوگوں نے شیخ کو خواب میں دیکھا مگر وہ کبھی بھی مولانا شیخ سے نہیں ملے تھے۔ اور وہ اُن کے پاس چلے جاتے ہیں۔
تیسرا درجہ:
یہ راستہ (اور) ہمارا سفر اولیاء اللہ کے راستے کی تلاش کرنا ہے۔ وہ راستہ کہ جس میں انہوں نے اپنی زندگی میں بھرپور کوشش کی کہ وہ روشن خیالی کی ایک اعلی منزل اور روحانی دانشمندی کی ایک اعلی منزل تک پہنچ سکیں اور معرفت اور عارفین کی طاقت حاصل کر کے غیبی حقیقت تک پہنچ سکیں۔
ہر طرح کی برائی کو دور کیجئے:
وہ طاقت ہر اس طاقت سے اعلی اور برتر ہے جس کا آپ تصور کرسکتے ہیں۔ انہوں نے ساری زندگی گذار دی ، انہوں نے اس راہ کو تلاش کرنے کی بھرپُور کوشش کی۔ اور انہوں نے جو کچھ بھی روحانی راستے کے ذریعہ نبی اکرم ﷺ سے وراثت میں حاصل کیا ہے اس کی پیروی کرنے اور اسے سیکھنے کی بنیاد ہمارے لئے رکھی۔ اور چونکہ انہوں نے ہمارے لئے بنیاد رکھ دی ہے تو (ہمارا فرض بنتا ہے کہ) ہم ان کی نقل کرنے (imitate) کی بھرپور پوری کوشش کریں۔ کیوں کہ وہ اصلی پھل ہیں اور ہم پلاسٹک کا پھل ہیں (نقلی پھل)۔ پلاسٹک کا پھل اصلی پھلوں کی طرح لگتا ہے لیکن وہ اصلی نہیں ہوتا۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ قادر المطلق ہمیں پلاسٹک سے اصلی (پھل) میں بدل دے جیسے اُس نے اُنہیں بدلا۔ لہذا وہ بنیادیں جو انہوں نے ہمارے لئے رکھی ہیں ، ان میں سے 4 درجات کا ہم گذشتہ محافل میں ذکر کر چکے ہے۔ اور ایک جو ہم نے پچھلی محفل میں ختم کیا ہے ، وہ اہم موڑ تھا – “طریق الانابہ” – جو اللہ عزوجل نے آیت مبارکہ میں بیان کیا؛
(اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔ اور اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آ واقع ہو، اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اس کے فرمانبردار ہوجاؤ پھر تم کو مدد نہیں ملے گی۔ (سورت الزمر ۵۳،۵۴)
چوتھا لیول:
لہذا اِن تین (3) مختلف لیولز کے بعد ہماری زندگی کا ایک اہم موڑ آتا ہے جس کی ہم وضاحت کر چکے ہیں۔ دوسرا (2) لیول آگاہی ہے۔ دوسرا لیول اس بات کو سوچنا ہے کہ ہمیں توبہ کرنی ہے،(3) تیسرا لیول خود سے اپنا محاسبہ کرنا ہے۔ چوتھا (4) لیول اپنا محاسبہ کرنے کے بعد ایک اہم موڑ ہے، 180 ڈگری کا۔
یہ اہم لیولز میں سے ایک ہے۔ ان چاروں لیولز کو ایک ڈویژن (Division) سمجھا جاتا ہے۔
• چوتھے لیول کے بعد ہم پانچویں اور پھر چھٹے، ساتویں آٹھویں نویں اور دسویں لیول میں جا رہے ہوتے ہیں۔
• پانچواں لیول وہ ہے جو اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا؛
هُوَ الَّذِي يُرِيكُمْ آيَاتِهِ وَيُنَزِّلُ لَكُم ۔۔۔ وَيُنَزِّلُ علیکم الذکر
وہی تو ہے جو آپ کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے اور آسمان سے آپ کے پاس رزق بھیجتا ہے اور صرف ان لوگوں کو نصیحت حاصل ہوتی ہے جو… ہم ان کو واضح نشانیوں کے ساتھ اور تاریک پیشن گوئیوں کی کتابوں کے ساتھ بھیجتے ہیں… اور تاکہ وہ سوچ سکیں۔
اللہ سبحان و تعالی فرماتا ہے، وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ۔
ہم نے اُنہیں زندگی اور جو کچھ وہ چاہتے ہیں فراہم کرنے کے بعد قرآن مجید کا ذکر عطا کیا ہے۔ اور ہم نے آپ پر قرآن کریم کو نازل کیا ہے محمد ﷺ ، کیوں؟ تاکہ وہ سوچیں۔
پانچواں لیول: غوروفکر کرنا (تفکر)
• اُس نے قرآن مجید کو غور و فکر کے لئے بھیجا ہے۔
• اس نے قرآن مجید کو کھیلنے کے لئے نہیں بھیجا تھا اور نہ ہی کسی کہانی سنانے والے کی طرح پڑھنے کے لئے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم ہر اس لفظ پر غور کریں جو ہم پڑھ رہے ہیں۔
• اور جو بھی اس پر غور و فکر کرتا ہے ، وہ پانچویں درجے کو سمجھے گا۔ جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ایک گھنٹے کا غور و فکر ۷۰ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔
اور جب آپ سوچتے ہیں تو یقینا آپ آخرت کے لئے ہر ضرورت کا سامان مہیا کرنے جا رہے ہوتے رہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دُنیا کا رزق دیا اور پھر فرمایا کہ میرا حکم (ماننا) اور ممنوع چیزوں سے رُکنا آپ کی روح کا رزق ہے۔ قرآن کریم میں سب کچھ بیان کیا گیا ہے۔ اگر آپ غور و فکر نہیں کر رہے تو آپ ہارے ہوئے ہیں۔
الَّذینَ یذکُرُرونَ اللہ قِیامً۔
ہر لمحے میں اللہ عزوجل ہمیں اس ذاتِ باری تعٰالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دے رہا ہے ، یہاں صرف یاد کرنے کا نہیں بلکہ “یذکُرُرونَ” (کا لفظ استعمال ہوا ہے جس) کا مطلب ہے کہ آپ اللہ عزوجل کے نام کو اپنی زبان پر لائیں ، تاکہ اسے ذکر سے تر رکھیں۔ اور وہ کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوے سوچتے رہتے (غوروفکر کرتے رہتے) ہیں ، اور یہ ایک جملہ خود ہی اس میں شامل ہو جاتا ہے “و یتفَکّکرُون”۔
• انہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر سوچنا ہوگا۔
• انہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بارے میں کیوں سوچنا ہے؟
• کیوں اللہ عزوجل چاہتا ہے کہ وہ آسمان و زمین کی تخلیق کے بارے میں سوچیں؟
• اس ذاتِ باری تعٰالیٰ کی عظمت کو دیکھنے کے لئے۔
• یہ معلوم کرنے کے لئے کہ خدا موجود ہے ، جیسے سیدنا ابراہیم (ع) نے (ستارے کی طرف) دیکھا اور کہا یہ میرا رب ہے۔ پھر ستارہ ختم ہوگیا۔ پھر انہوں نے چاند دیکھا۔ وہ اُسے پوجنے ہی والے تھے کہ اوہ، وہ بھی چلا گیا۔ پھر سورج، لیکن اوہ، پھر وہ بھی چلا گیا۔
• اللہ عزوجل چاہتا ہے کہ آپ سوچیں تاکہ آپ یقین کریں۔
• وہ نہیں چاہتا ہے کہ آپ (صرف اس وجہ سے کسی بات پر) یقین کرلیں کیونکہ آپ کو یہ اپنے والدین سے ملی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آپ یقین کریں کیوںکہ آپ سوچ رہے ہیں کہ ہاں یہاں یہ حقیقت موجود ہے۔
یہ پانچواں درجہ ہے۔
راستہ کے متلاشی، پانچویں درجے پر پہنچنے کے بعد، توبہ کرنے اور اللہ عزوجل کی طرف رجوع کرنے کے بعد ، پھر سوچتے ہیں کہ ہمیں دوسری منزل کی تیاری کے لئے کیا کرنا ہے؟
چار لیولز درحقیقت ایک منزل ہیں۔
وَمَا يَتَذَكَّرُ إِلَّا مَن يُنِيبُ حاصل کرنے کے لئے؛
• وضاحت ، میں دیکھ رہا ہوں: اس کا مطلب ہے کہ پانچویں درجے میں پہلی آیت میں کوئی بھی ذکر نہیں ہے۔
• آپ کو قرآن پاک پر تفکر کرنا ہوگا ، “یتفکر”۔ {اپنے آپ کو جاننے کے لئے غور و فکر کرنا (دراصل) اپنے رب کو جاننا ہے۔}
چَھٹا لَیول “یا تذکّر” ہے:
آپ کو یاد کرنا ہوگا۔ یاد کرنا ایک سوچ دینے سے برتر ہے۔
{یاد کرنے کا مطلب ہے کہ آپ کو پہلے سے ہی معلومات سکھا دی گئیں تھی ، سورہ رحمٰن "علَّمَ القرآن، خَلَقَ الانسان۔ "یہ آپ کو پہلے ہی سکھایا گیا تھا! "
یاد آپ کو اللہ سبحانہ وتعالی کی بارگاہ میں لے آئے گی۔ یاد میں آپ سمجھ سکتے ہیں کہ پہاڑ سے اوپر سے نیچے تک پانی کیوں آرہا ہے۔ اگر آگ موجود ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آگ حرارت اور طاقت کیوں دیتی ہے۔
آپ زمین میں اور آسمانوں میں پیدا ہونے والے ہر چھوٹے سے چھوٹے عنصر کو یاد کرنا شروع کرتے ہیں اور اسے سوچنا شروع کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔
اس وقت شیخ آپ کو چھٹے درجے پر مریدین کے طریقے میں خلوت کا حکم دیتے ہیں۔
کیونکہ تنہائی میں ہر پودے یا ہر جاندار چیز کی ہر حکمت، اس کے فوائد کی حکمت اللہ عزوجل آپ کے لئے کھول دے گا۔ نیز یہ کہ اس سے آپ کو کس قسم کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولیا اللہ کی خلوت میں، (مثلاً) اعلی اولیاء، اور ہم سلطان الاولیا اور شیخ الاعظم ناظم (ق) سے جانتے ہیں کہ سال ہا سال کی طویل خلوت میں ان کے پاس سب کچھ پہنچ جاتا ہے؛ ہر ایک چیز جو ہر انسان کے لئے فائدہ مند ہے۔ آپ جان سکتے ہیں کہ اس بیماری کے لئے کس طرح کے پودے ہیں ، اس بیماری کے لئے کیا موجود ہے۔ جب آپ لوگوں کو دیکھتے ہیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کس طرح کی پریشانیوں کا سامنا کررہے ہیں ، وہ کس قسم کے مسائل میں مبتلا ہیں اور آپ ان کو صحیح دوا دے سکتے ہیں تاکہ وہ جن حالات میں ہیں ان سے باہر آ سکیں۔
اس لیول میں ، یہ معاملات کی حقیقت کی سطح ہے۔
اس کائنات میں جو کچھ آپ کے آس پاس ہے آپ کواس کی روشن خیالی (enlightenment ) حاصل ہوگی۔ جب آپ وہاں تک پہنچ جاتے ہیں تو آپ ایسے بننے جا رہے ہوتے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے، “آپ کو مبارکباد، کیوں کہ آپ نے اپنی ذات (نفس) کو مغلوب کردیا ہے۔” آپ کو مبارکباد اس لئے کہ آپ نے حقیقت پا لی ہے۔ ایسی سچائی ، جو نیک اور خوبصورت ہے، وہ سچ آپ کو شیطانوں اور برائیوں سے دور لے جائے گا اور بچا لے گا۔
آپ کو اس سچائی پر بھروسہ ہوگا کیونکہ اس وقت آپ حاصل کر چکے ہوں گے “علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔”
• العلم الیقین – سماعت کی حقیقت۔
• عین الیقین – دیکھنے کی حقیقت۔
• حق الیقین – حقیقت کا یقین۔
آپ کو اس حقیقت پر بھروسہ کرنا ہوگا جو اس وقت آپ کے لئے کھولی گئی ہے۔ آپ پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ راستے کے کچھ سالک ، جب وہ چھٹے لیول پر اس حقیقت کو محسوس کرنے لگتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں کہ یہ کتنا مشکل ہے ، وہ اس (لیول) کی تُرشی (sour) کو چکھنے لگتے ہیں۔ جب آپ پھول کاٹتے ہیں تو آپ کو کانٹے ملتے ہیں، (ان کانٹوں کی وجہ سے) اس سے آپ کو تکلیف ہوگی لہٰذا (اس تکلیف کے ڈر سے) لوگ پھول کاٹنا پسند نہیں کرتے۔ اس (پھول) کو کاٹنے سے آپ کو مٹھاس ، شہد ، خوشبو ملے گی۔
لیکن جب سالک “مقام المریدیہ” تک پہنچتا ہے تو ولایت کا آغاز ہوتا ہے۔
وہ اس مقام کی تُرشی سے پیچھے ہٹنا شروع کردیتے ہیں۔ جب آپ مرید (کے مقام) تک پہنچنے کے لئے راستہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں تو آپ ولایت کی پہلی سطح پر پہنچ رہے ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دس لیولز (levels) کی ضرورت کے مطابق، ہم پہلے چھ درجات کی وضاحت کریں گے جو انسان کے لئے کھلتے ہیں۔
کچھ لوگ پیچھے ہٹ جاتے ہیں کیونکہ یہ تُرش ہوتا ہے۔ آپ بھاگ نہیں سکتے۔ آپ کو تُرشی چکھتے رہنا پڑے گی، کیونکہ اگر آپ کو یہ مل جاتی ہے تو یہ یہاں کی زندگی میں اور آخرت کی زندگی میں سب سے بہتر چیز ہے جو آپ حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ جو اس حقیقت کے ساحل میں داخل ہو کر گھس سکے گا اور اس حقیقت کے ساحل پر داخل ہو سکے گا (وہ) خدائی بارگاہ کی راہ میں ایک “عارف” (gnostic) بن جائے گا۔ اور یہ حاصل کرنے کےلئےآپ کو ایک مضبوط یقین رکھنا پڑے گا۔ کیونکہ یہ ایک خوبصورت تجربہ ہے جو آپ تُرشی چکھنے اور اس حقیقت تک پہنچنے کے بعد حاصل کریں گے ، یہ آپ کے ساتھ ہونے والا بہترین تجربہ ہوگا۔
لہذا جب آپ اس قربانی میں اُس یاد میں ختم ہو رہے ہوتے ہیں اور چھٹے درجے میں اس حقیقت تک پہنچ رہے ہوتے ہیں، تب آپ مزید چھوڑنا نہیں چاہتے۔
• آپ اس بات پر قائم رہنا چاہتے ہیں کہ اللہ پاک نے جو قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے، “واعتصمو بحبلِ اللہ جمیعاً”۔
• وہاں یہ حقیقت ہوتی ہے، علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین۔
• وہ محبت الشیخ، محبت النبی ﷺ اور محبت اللہ (عزوجل) کے ساتھ متوازی طور پر آگے بڑھتے ہیں۔
• اس کے متوازی علم الیقین ہے۔ آپ اپنے شیخ کے بارے میں سن رہے ہوتے ہیں آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بہت زیادہ سن رہے ہوتے ہیں ، آپ اللہ (عزوجل) کے بارے میں بہت زیادہ سن رہے ہوتے ہیں۔
• جب آپ سنتے ، سنتے ، سنتے رہتے ہیں تو مرشد آپ کو بلند مقام پر لے جاتے ہیں۔ جس وقت آپ نے مرشد ، نبی اکرم ﷺ اور اللہ (عزوجل) کی مکمل محبت کو قائم کرلیا تو آپ ایسے ہوجائیں گے کہ جیسے آپ ان کی بارگاہ میں موجود ہیں، آپ ان کو محسوس کرنے لگیں گے۔ جب آپ کسی سے بہت زیادہ پیار کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ آپ کے ذہن میں ہوتا ہے۔ (مثلاً) جب یہ شریف آدمی اپنی بیوی سے بہت زیادہ پیار کرتا تھا تو وہ اپنی بیوی کے سوا کسی کو نہیں دیکھ رہا ہوتا تھا۔ بائیں طرف جاتے ہوئے اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہے، دائیں طرف جاتے ہوئے اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہے۔ آگے جاتے ہوئے اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ جب وہ محبت نبی اکرم ﷺ اور مرشد کے پاکیزہ عشق کے لئے ہو؟ جب آپ کے پاس یہ (عشق) ہو گا تو وہ آپ کو اللہ (عزوجل) کے حضور، حبیب ﷺ کے حضور، مرشد کے حضور کی طرف لے جائے گا۔
• یہ آپ کو متوازی طور پر “بصارت” میں لے جائے گا، “عین” میں۔ کیا ہوتا ہے جب آپ اللہ (عزوجل) سے پیغمبر ﷺ سے اور اپنے مرشد سے محبت کرتے ہیں تو؟ تو کیا ہوگا؟ آپ انہیں دیکھنا شروع کردیں گے ، حالانکہ آپ انہیں (ظاہری طور پر) نہیں دیکھتے لیکن آپ ان کی موجودگی محسوس کرنے لگتے ہیں۔
• یہ آپ کو مشاہدہ کی حقیقت اور سماعت (سننا) کی حقیقت کی طرف لے جائے گا۔
• حق الیقین ۔ یہ آپ کو حقیقت کی حقیقت کی طرف لے جائے گا۔ اصل حقیقت جہاں اب کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔
• اس وقت آپ چاہیں گے، "اللہ عزوجل کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیجئے اور جدا نہ ہوں۔”
• لوگوں کے لئے نہیں جیسا کہ وہ آج کل لفظی طور پر ترجمہ کرتے ہیں ، یہ بھی ٹھیک ہے۔ مضبوطی سے تھامے رکھیں اور تقسیم نہ کریں۔ لیکن روحانی معنی یہ ہے کہ اصلی حقیقت کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور اللہ (عزوجل) کی بارگاہ سے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ سے اور اولیاء اللہ کی بارگاہ سے الگ نہ ہوں۔
ان کو تھام لیجئے اور ان کی موجودگی کو قائم رکھیں اور پوری دنیا کو چھوڑ دیجئے اور ان کی موجودگی میں رہیے۔ یہ اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جو اس حقیقت میں داخل ہوکر اپنے نفس پر سوار ہوکر پرامن اور “نفسِ مطمئنہ” تک پہنچنے کے قابل ہوا، جو اسے آگے لے جائے گا۔
یہ ایک خواب ، ایک خوبصورت خواب کی طرح لگتا ہے لیکن یہ کوئی خواب نہیں ہے۔
اس سفر کے خواہاں کے لئے (یہ کوئی خواب نہیں ہے)۔ (مگر) وہ جو اس کی تلاش نہیں کررہے وہ ایسے بچے کی طرح ہیں جو پہلے قدم پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہےاور چڑھ نہیں سکتا، اور کوشش کرتا ہےاور چڑھ نہیں سکتا، کوشش کرتا ہےاور چڑھ نہیں سکتا۔ وہ لوگ جو واقعتا کوشش کرتے ہیں ، وہ اس سطح پر پہنچ بھی جائیں گے کہ جس میں وہ (حقیقت کو) دیکھ سکتے ہیں اور مرشد کے خزانے آپ کے لئے کھُل جائیں گے، نبی ﷺ کے خزانے آپ کے لئے کھول دیئے جائیں گے ، اللہ (عزوجل) کے خزانے آپ کے لئے کھول دیئے جائیں گے۔
• تو اللہ سبحانہ وتعالی کی رسی کو تھامنا ایک درخت کی مانند ہے ، وہ درخت ایک مضبوط درخت ہے۔ بہت بڑا۔ اور آپ اس پر چڑھ رہے ہیں۔ اور وہ درخت کہ جب آپ اس پر چڑھ رہے ہوتے ہیں، اس کی چوٹی پر پہنچتے ہیں تو اس مقام پر آپ ہر چیز کو اپنے نیچے پاتے ہیں، ایک پہاڑ کی مانند۔ اور کچھ بھی اس درخت کو ہلا نہیں سکتا۔
• خزاں آتی ہے پتے گرتے ہیں۔ بہار آتی ہے اور نئے پتے آ جاتے ہیں۔ جب آپ اس درخت تک پہنچتے ہیں اور (خود ایک) درخت بن جاتے ہیں تو اس کا مطلب آپ کی زندگی کے ہر سائیکل (cycle) کی حقیقت میں ایک روحانی سائیکل ہوتا ہے جو اللہ سبحانہ وتعالی نے اسے خدائی بارگاہ میں عطا کیا ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو خدائی بارگاہ کے متلاشی ہیں اور (اس میں) داخل ہونا چاہتے ہیں ، پتوں کی طرح دوبارہ پیدا ہوں گے، پرانا علم جاتا ہے اور نیا علم آتا ہے ، بالکل اسی طرح جیسے پرانے پتے جاتے ہیں اور نئے پتے آتے ہیں۔
• جتنا آپ چڑھ رہے ہوتے ہیں آپ کو زیادہ سے زیادہ دیا عطا کیا جائے گا۔
• “و فوقَ کلِّ ذی العلمٍ علیم۔” ہر جاننے والے کے اوپر ایک جاننے والا ہوتا ہے۔ اور آپ اوپر اور اوپر جا سکتے ہیں حتٰی کہ آپ کو “سعادت” نصیب ہو جائے، وہ خوشی۔
• پھر آپ اولیاء تک پہنچ جائیں گے اور محمد ﷺ کی بارگاہ میں پہنچ جائیں گے۔ اولیاء کی محافل (میں) اور پھر ان سے(کبھی بھی) علیحدگی اختیار نہ کیجئے۔ کیونکہ اگر آپ اُن سے الگ ہوجاتے ہیں تو آپ اِن (مندرجہ ذیل لوگوں) سے الگ ہو جاتے ہیں؛
اّلذِین انعم اللہ علیہِم من الانبیاء، والصدیقین، والشہداء والصالحین وحَسُن اولئک رفیقاَ۔
(اپنے آپ کو اُن اولی الامر سے) الگ نہ کیجئے، اور آپ ان کی محفل میں ہوں گے اور آپ ان سے کبھی الگ نہیں ہوں گے۔
اس طرح جب آپ مضبوطی سے تھامے رکھیں گے اور اولیا کی محفل سے علیحدگی اختیار نہ کریں گے تو آپ کبھی بھی نہیں گِریں گے۔ کیونکہ جب آپ گر رہے ہوں گے تو وہ آپ کو باہر نکال لیں گے۔ اور چونکہ وہ آپ کو گرنے نہیں دیں گے لہٰذا وہ آپ کو مریدیہ کا لیول عطا فرما دیں گے۔
یہ المقام الاعتصم ہے:
اس کا مطلب ہے “اعتصم” یعنی کسی مسجد میں جیسے اعتکاف۔
اعتصم کا مطلب ہے کہ آپ اپنے آپ کو گناہوں اور غلطیوں میں پڑنے سے روکنے کی کوشش کریں۔
آٹھواں لیول:
جب آپ اولیاءاللہ کے ساتھ کو مضبوطی سے پکڑ لیں گے تو آپ آٹھویں لیول پر پہنچ جائیں گے-
“فَفِرُّوٓا إِلَى ٱللَّهِ”
یہ آٹھواں لیول ہے۔
فَفِرُّوٓا إِلَى ٱللَّهِ إِنِّى لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ ۔
جلدی سے، فوراً اللہ (عزوجل) کے پاس چلے جائیے۔ جلدی سے جائیے ، خدائی بارگاہ تک پہنچنے کے لئے دوڑ لگائیے۔ آپ پہلے ہی اندر موجود ہیں؛ آپ خدائی بارگاہ میں موجود اولیاء کی اُس محفل میں ہیں۔ فَفِرُّوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ ۔
اب مجھے حقیقت کا احساس ہوگیا ہے۔ آپ لوگ جو اب بھی راستے کی تلاش میں آرہے ہو ، اللہ عزوجل کے پاس بھاگ آؤ کہ یہی اصل راستہ ہے ، خوشی کا راستہ۔ اسی لئے وہ (مرشد) اپنے پیروکار سے اس کے ساتھ دوڑنے کو کہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم اپنے مشائخ کی بارگاہ میں ہوتے ہیں تو وہ آخرت کی بات کرتے ہیں۔ ان کی ساری باتیں آخرت کی ہوتی ہیں۔ وہ اپنی آنکھوں سے دنیا کو اتار کر پھینک رہے ہوتے ہیں۔
نواں لیول:
ہم نے آخری بار (اپنی گفتگو کو اس بات پر) چھوڑا تھا کہ آٹھویں لیول میں دور بھاگنا ہے ، کس طرف بھاگنا ہے؟ اللہ (عزوجل) کی طرف۔ جیسا کہ اللہ (عزوجل) نے فرمایا ، فَفِرُّوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ ، إِنِّى لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ ۔ اللہ عزوجل کے لئے بھاگنا بہت ضروری ہے اور یہ آپ کو "ریاضة" کے لیول پر لے آئے گا۔
• ریاضت کیا ہے؟
• جسمانی تعلیم کیا ہے؟
• ریاضة عربی میں کھیل کو کہتے ہیں۔
• ریاضة کوئی بھی ایسی چیز ہے جو آپ ورزش کرنے اور خود کو اس قسم کی ورزش میں ایڈجسٹ کرنے کے لئے کرتے ہیں تاکہ آپ کو یہ کام کرنے کی عادت ہوجائے۔
• کچھ لوگ 10 یا 15 یا 20 یا 30 پونڈ وزن اٹھاتے ہیں۔
• یہ ٹریننگ ہے۔ جیسے آپ کرتے ہیں: آپ نے کہا کہ آپ ٹینس ، ٹیبل ٹینس ، تیراکی ، فٹ بال ، باسکٹ بال (وغیرہ) کرتے ہیں، خواتین بھی سواری (وغیرہ) کرتی ہیں [صرف ایک شیخ]۔
آپ اور کیا کرتے ہیں؟ کھیلوں کی ٹریننگ ، تربیت ، تربیت… لہذا جب آپ ٹریننگ کر رہے ہوتے ہیں تو آپ اپنے جسم کو اور طاقتور بنا رہے ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے جہاں (جس نقطے پر) ہم توجہ مرکوز کررہے ہیں (وہ یہ ہے کہ)، مرید تربیت حاصل کرتا رہتا ہے۔ (مثلاً) جب آپ کہتے ہیں کہ آپ جنگلی گھوڑے کو پالتو بنانے کی ٹریننگ کر رہے ہوتے ہیں تو (بالکل اُسی طرح) آپ کو لازماً اپنے نفس کو مغلوب کرنے کی ٹریننگ لینی ہوگی۔
یہ نواں لیول ہے ، اب مکمل کنٹرول ہوتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے نویں لیول کی وضاحت کی کہ اپنی انا پر قابو پائیے اور اپنے نفس پر سوار ہوں۔
• جب آپ اپنے نفس پر سوار ہوتے ہیں تو ، یہ اونچائی کے سب سے اعلی لیول سے پہلے ہوتا ہے۔ جہاں اولیا اللہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اور (اب) آپ اس پر سوار ہوسکتے ہیں اور یہ آپ پر مزید سوار نہیں ہو سکے گا۔ آپ نے اپنے نفس کو سدھار لیا ہے۔
• اللہ عزوجل نے کہا ، والَّذِینَ… وہ لوگ جو اپنے (اللہ عزوجل کے) خوف سے بھرے دلوں سے صدقہ کرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے رب کی طرف لوٹ آنا ہے۔ وہ اللہ سبحانہ وتعالی کا خوف محسوس کررہے ہوتے ہیں اور وہ اس کی طرف لوٹ رہے ہوتے ہیں اور وہ اپنے نفس کو سُدھا رہے (tame) ہوتے ہیں کہ اپنے رب کی نافرمانی نہ کرے۔ اللہ (عزوجل) کے ارشاد کے مطابق 51:50 ، اور آیت اطیعواللہ واطیعوالرسول…(کے مطابق)۔ چنانچہ جب آپ نفس کو “سننے” کی تربیت دے دیتے ہیں۔
• ابھی آپ کا نفس نہیں سنتا۔
• (ابھی) آپ اپنے نفس کو خوش رکھنے کے لئے زیادہ وقت صرف کر دیتے ہیں بنسبت یہ کہ آپ اللہ (عزوجل) کو اپنے ساتھ خوش رکھنے میں وقت گزاریں۔
• انا/نفس دُنیا کی کسی بھی چیز سے خوش رہتے ہیں اور آخرت کی کسی بھی چیز سے ناخوش۔
• اسی لئے انا/نفس کی چالیں آپ کو دھوکہ دیں گی۔
تو ہمارے پاس یہ کرنے کی اجازت ہے اور یہ کھیل کا حصہ ہے لہذا اب ہمارے پاس کرکٹ اور پنگ پونگ ٹیبل ، ڈومنیو ٹیبل (Domino table) اور باسکٹ بال ٹیبل اور دوسرے ٹیبل کھیلنے کی اجازت ہے۔ وہ ٹیبل کا کپڑا بھی نکال سکتے ہیں ، کوئی سا بھی ٹیبل۔ تو (دراصل) یہ نفس کی کسی قسم کی چال ہے جو کہتا ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں یہ تو محض کھیل ہے، آپ کو خود اپنی تربیت کرنا ہوگی۔ لیکن دوسری طرف یہ ہمارے جسم کو مضبوط بنانے اور کھیل کود کرنے میں (مصروف رکھتا ہے)، اگرچہ اس میں کوئی گناہ نہیں ہے ، لیکن آپ کا نفس آپ کو زیادہ نماز پڑھنے یا ذکر اللہ کو زیادہ سے زیادہ کرنے یا قرآن مجید کو زیادہ پڑھنے یا حدیث مبارکہ کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی تربیت دینے میں آپ سے تاخیر کرواتا رہتا ہے۔ اور یہ (کام) نفس کو اجازت دیتا ہے کہ کھیلوں کے عنوان کے تحت جو کچھ اسے پسند ہے وہ کرے۔ یہ ان چالوں میں سے ایک ہے جو نفس ہمارے ساتھ کھیلے گا۔
یہ (نفس) مرشد کو نہیں جانتا ، یہ علیم کو نہیں جانتا ، یہ کسی کو نہیں جانتا۔ لہٰذا ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ کیسے؟ کوئی بھی جو کرنے والے کام ہیں ان کو کرنے کی تربیت دے کر۔ اس میں کوئی گناہ نہیں ہے لیکن یہ آپ کے کرنے والے (ضروری) کاموں میں تاخیر کرواتا ہے۔ لہذا ہم نفس کو تربیت دینا شروع کرتے ہیں اور اسے سچ بات کہنے کو قبول کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔ کیونکہ جو سب سے اہم ہے (وہ ہے) سچ کہنا۔ اگر آپ سچ نہیں کہتے تو (سمجھ جائیں کہ) آپ کھو/ہار چکے ہیں۔
حضرت یحیی بن یحیی (ق) ، نے امام مالک (ق) سے فرمایا ، مجھے مشورہ دیجئے۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کو تین نصیحتوں کا مشورہ دیتا ہوں اگر آپ ان کو کریں گے تو آپ محفوظ رہیں گے۔
1- یہ سارا علم جس کی علماء نے میراث پائی اور اُس کے بارے میں لکھا، اور میں بطور امام مالک (یہ بیان کرتا ہوں) کہ 600 اساتذہ مجھے تصوف پڑھاتے تھے ، اور 300 اساتذہ جو مجھے فقہ پڑھاتے تھے تو کل 900 اساتذہ ہوئے، یہ سب علماء جنہوں نے مجھے پڑھایا اور (دیگر) تمام علماء (نے جو تعلیم دی اُس کو) میں جمع کروں گا اور ایک جملے میں آپ کو (یہ تعلیم) دوں گا۔ تو انہوں نے پوچھا (کہ وہ) کیا بات ہے۔ (وہ بات یہ ہے کہ) اگر آپ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا جاتا ہے اور آپ نہیں جانتے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ میں نہیں جانتا۔ (یعنی) سچ بولیں۔ ہم نویں لیول پر یہی بات کر رہے ہیں – نفس کو سچ کہنے کی تربیت دینا۔
اب جب آپ عالم بن گئے ہیں اور علمائے کرام کے مابین ہر ایک یہ دکھانا چاہتا ہے کہ وہ زیادہ علم رکھتا ہے۔ ایک دفعہ جب میں اپنے چچا کے ہمراہ مولانا شیخ ناظم (ق) کے ساتھ تھا اور انھیں مالکی ، شافعی ، حنفی فقہ کی تعلیم دینے کے لئے ایک عالم دین (مرجع) سمجھا جاتا تھا۔ اور ہم علمائے کرام کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اور میں نے اپنے چچا سے کہا کہ وہ شیخ ناظم (ق) کو بولنے دیں۔ اور میرے چچا نے مولانا (ق) کی طرف دیکھا اور مولانا (ق) نے میرے چچا کی طرف دیکھا اور وہ کچھ نہیں بولے۔ مولانا (ق) نے کچھ نہیں کہا۔ بعد میں انہوں نے فرمایا کہ کبھی بھی (لوگوں کے) پیروں میں ہیرے نہیں پھینکا کرتے۔ یہ بے معنی ہے (کہ ایسے لوگوں کے سامنے بات کی جائے) کیونکہ ہر ایک اپنی انا اور اپنا غرور دکھانا چاہتا ہے اور کوئی بھی میری کہی بات نہیں سنے گا۔ بولنا ضروری نہیں ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کو خلاصةُ العلم دے رہا ہوں،
کہ جب آپ سے (کچھ) پوچھا جاتا ہے اور آپ نہیں جانتے تو کہئیے کہ میں نہیں جانتا۔ اپنے آپ کو نیچے لائیں۔ انا کو تربیت دیجئے نفس کو سچ کہنے کی تربیت دینا بہت ضروری ہے۔
2- جو معالجین کی تمام دوائیاں ہیں (اور) دوا کے علم کے پورے پھل کو ایک جملے میں آپ کو دوں گا۔ اُنہوں نے فرمایا، جب تک آپ میں کھانے کی خواہش باقی رہے کھانے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیجئے۔ یعنی کہ اپنی ناک تک (پیٹ بھر کر) مت کھائیے، (یعنی) بہت بھرا ہوا۔ اگرچہ آپ اسے بیک اپ کھانے (کے طور پر) کھانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ حدیث نبوی ﷺ ہے: پیٹ بیماری کا گھر ہے۔ اور انہوں نے فرمایا ، ہم ایسے لوگ ہیں جو بھوک لگنے تک نہیں کھاتے اور ہم پیٹ بھر کر کبھی کھانا نہیں کھاتے۔ میں آپ کو ساری دواؤں کا ثمر دے رہا ہوں اور پھر آپ کو اپنی زندگی میں کبھی بیماری نہیں ہوگی۔
یہ نفس کو سننے اور سچ کہنے کو قبول کرنے کی تربیت ہے۔
3- اگر دانشمندوں کی ساری حکمت ایک ساتھ اکٹھی کی جائے تو میں آپ کو (ایک چیز) دوں گا۔ اگر آپ لوگوں میں موجود ہیں تو ان کے بیچ خاموش رہیے۔ لہذا اگر وہ اس نقطے تک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ کوئی فیصلہ سنا دیتے ہیں تو گویا یہ آپ کا فیصلہ تھا اور گویا آپ نے وہ کہا جو ضروری تھا، تو اگر وہ (فیصلہ کرتے ہوئے) غلطی کرتے ہیں اور آپ خاموش رہتے ہیں تو کوئی بھی آپ کو قصوروار نہیں ٹھہرائے گا۔
تین حکمتیں جو انہوں نے ان کو تین جملوں میں دیں: (پہلی) سچ بولنا ، اگر مجھے نہیں معلوم تو میں یہ کہوں کہ میں نہیں جانتا۔ دوسری، بہت زیادہ کھانے سے گریز۔ تیسرا، خاموش رہنا ، (غیر ضروری) بات نہ کرنا۔
اس سے آپ نفس پر سوار ہونے کے لئے نفس/انا کی تربیت کرنے لگیں گے۔ پھر جب آپ نفس پر سوار ہوجاتے ہیں تو نفس آپ پر قابو نہیں پا سکتا۔ جب آپ کہتے ہیں کہ “میں نہیں کھا رہا” تو ، یہ “سمعن و اطعن” کہے گا۔ لیکن اگر آپ تربیت یافتہ نہیں ہیں تو نفس آپ پر قابو پالے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر میں آپ کو (ضرورت سے زیادہ) مزید سُوپ دیتا ہوں ، تو یہ نفس کی خواہشات کے مطابق ہوگا کہ مت کھائیے۔ طریقت میں نفس کی خواہشات کے ساتھ کوئی چیز نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ اگر شیخ کہے کہ سارا برتن کھا لو (تو تم پر لازم ہے کہ) تم سارا برتن کھا لو۔
شیخ نے ہمیں کتنی بار کھانا کھلایا اور کھلایا اور کھلایا جب تک کہ آپ خود کوایک کھُلی جگہ کی طرح نہ بنا لیں۔ یہاں تک کہ (کھانے کے) چھوٹے سے (حصے میں) بھی اگر آپ کہتے ہیں کہ کافی ہے (مجھے اور نہیں چاہئے) اور وہ اسے دُعا اور صلوات سے سنوار رہے ہوں تو آپ اپنی نافرمانی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ، یہ کہہ کر (غلط) جدوجہد کر رہے ہیں کہ “نہیں، میں اب زیادہ نہیں کھا سکتا ، یہ کافی ہے”۔ (مرشد کا یہ رویہ) کسی ایسی چیز کے لئے ہوتا ہے جو آپ کو مارنے نہیں والی (یعنی جو آپ کے لئے نقصان دہ نہیں ہے)۔ توآپ کا کیا خیال ہے اگر وہ آپ کو کسی بڑے کام کا حکم فرمائیں؟ اگر وہ کھانے کو کہیں ہے تو کھا لیجئے ، “نہ” مت کہیئے۔
جو شیخ الأعظم (ق) نے مجھے اور میرے بھائی کو کھانے کے لئے دیا تھا وہ گوشت میں کبھی نہیں بھولا۔ پرانے زمانے میں ریفریجریٹرز نہیں تھے لوگ گوشت کاٹ کر دھوپ میں لٹکاتے اور (سکھا کر) الماری میں لٹکا دیتے تھے۔ جب وہ کھانا چاہتے تو وہ اُس گوشت کو ابال لیتے تھے۔ تو ایک دفعہ ہم وہاں موجود تھے اور انہوں (شیخ الاعظم)نے فرمایا ، جب تک آپ کھانا نہیں کھا لیتے نہ جائیں۔ ہم دیر سے آیا کرتے تھے اور تہجد کی نماز پڑھتے اور واپس چلے جاتے۔ انہوں نے فرمایا کہ (یہ گوشت) کھاؤ اور چلے جاؤ۔ تب انہوں نے اپنی بیوی سے فرمایا ، جاؤ اور وہ گوشت لے آؤ۔ اوہ ، اُس سارے گھر اور باورچی خانہ سے اس گوشت کی بدبو آ رہی تھی۔ کیا آپ (اُن کے حکم کے خلاف) اپنا سر اٹھا سکتے ہیں؟ نہیں۔ کیا آپ کچھ کہہ سکتے ہیں؟ پھر انہوں نے اس برتن کو شیخ الاعظم عبد اللہ داغستانی (ق) کے سامنے پیش کیا۔
پھر انہوں نے یہ سارا گوشت بڑے بڑے حصوں میں تقسیم کیا اور ایک کٹورے میں ڈال دیا ، بدبودار بدبودار، بدبودار۔ کون جانے کہ (یہ گوشت) اس الماری میں کتنے عرصے سے پڑا تھا۔ امتحان۔ یہ ایک امتحان تھا (بظاہر ایسا لگتا تھا جیسے) وہ آپ کو زہر دینے کے لئے کچھ (کھانے کو) دے رہے ہیں۔ پھر انہوں نے فرمایا اسے کھاؤ۔ ہم نے دیکھا کہ ہم اسے نہیں کھا سکتے۔ اس کا جائزہ لیتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ گوشت اور ہڈیوں پر ہزاروں سفید کیڑے موجود تھے۔ (ان کا حکم تھا کہ) کھاؤ۔ اور مولانا شیخ (ق) دیکھ رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ کھاؤ۔ بھلا آپ (ایسا گوشت آنکھوں سے دیکھ کر) کیسے کھا سکتے ہیں؟
(پھر ہم نے ) بسم اللہ رحمٰن الرحیم (پڑھ کے کھانا شروع کیا) لیکن تقریبا الٹی کرتے ہوئے۔ آپ کے سامنے پڑی ہرچیز باہر نکلنے والی ہو، لیکن اگر آپ کو قے ہوجائے تو آپ کو طریقت سے باہر نکال دیا جائے گا۔ (چنانچہ) ایک طرف پانی تیار کرکے رکھا اور (کھانے کی) کوشش کرنے لگے۔ اور مولانا شیخ (ق) نے ایک بڑا ٹکڑا منہ میں ڈالا اور وہ پیٹ میں۔ ، دوسرا ٹکڑا ڈالا اور وہ بھی پیٹ میں۔ لہذا جیسے ہی ہم اپنے منہ میں (گوشت کا وہ ٹکڑا) ڈالتے بدبو ختم ہوجاتی کیڑے ختم ہو جاتے۔ وہ آپ کو پرکھنا چاہتے تھے۔ وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے پورا منظر بنا دیتے ہیں اور اسی طرح وہ آپ کی تربیت کرتے ہیں۔ پھر وہ آپ کو کامل بناتے ہیں ، پھر وہ آپ کو وہ دیتے ہیں جو وہ آپ کی امانت میں سے آپ کو دینا چاہتے ہیں۔
تو اب ہم آخری لیول کی طرف آتے ہیں۔
(چنانچہ) جب آپ کے نفس کو اطاعت گزاری کی تربیت دے دی جاتی ہے تو آپ کس طرح اطاعت کریں گے؟ سننے کے ذریعے؛ الاستماع۔
اگر اللہ (عزوجل) نے ان میں کوئی بھلائی پائی ہوتی تو وہ ان کو سننے پر مجبور کرتا اگر وہ سنتے تو وہ پلٹ جاتے اور پھر انکار کرتے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر نفس اچھا ہوتا تو یہ سنتا۔ لیکن اللہ (عزوجل) جانتا ہے کہ جب تک آپ اسے قابو کرنے کی تربیت نہیں دیں گے تب تک بُری نفس/انا کبھی نہیں سنیں گے۔ ہمیشہ جب نفس آپ پر سوار ہوتا ہے تو کوئی ایسا طریقہ نہیں کہ یہ سنے گا۔ آپ اپنے شوہر کو چھوڑ دیں، آپ اپنے بچوں کو چھوڑ دیں اور یہ صرف اس وجہ سے کہ آپ اپنی انا/نفس کو سن رہے ہیں۔ آپ کسی اور کو نہیں سنتے۔
اللہ عزوجل جانتا ہے کہ وہ نہیں سنیں گے کیونکہ انا/نفس ان پر سوار ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ سننے نہیں دے رہے، کیوں کہ آپ نفس کے قابو میں ہیں۔ لیکن آخری لیول کہ جس تک جب آپ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کرسماعت کے لیول – سمعنا واطعنا – پر پہنچ جاتے ہیں ۔
دسواں لیول:
جب آپ نے اپنے نفس پر سوار ہونے کےلئے اس کی تربیت کر دی تو آپ کہتے ہیں ، سمعنا واطعنا غفرانک ربَّنا و اِلیک المصیر۔
پھر آپ سننے کی طاقت کے تحت ہوتے ہیں۔ سننے کے لیول کے تحت ہونا سب سے اعلی لیول ہوتا ہے۔ نبی دو درجے کے ماتحت ہوتے ہیں، سننا اور ماننا۔ جبریل (ع) کو سننا جو پیغام لاتے ہیں اور پھر وہ پیغام (لوگوں تک) پہنچانا۔ لہذا اسلام کا پیغام جو اعلٰی درجے کا ہے وہ طریقت میں ہے۔
اعلی ترین لیول سننے کا لیول ہے اور وہ تمام نو (9) لیولز کے بعد آتا ہے جو ہم بیان کرچکے ہیں:
اس وقت ہم سن رہے ہوتے ہیں اور اطاعت کر رہے ہوتے اور توبہ کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے مالک کے پاس جا رہے ہوتے ہیں۔ لہذا جب آپ سنتے ہیں تو آپ ہر چیز کو قبول کرتے ہیں۔ جب آپ سنتے ہیں تو آپ 4 مختلف امور کے تحت ہوتے ہیں:
1) آپ ایمان کی طرف جانے کےلئے کفر کو چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ سن رہے ہوتے ہیں اور مان رہے ہوتے ہیں۔
• یہ دسویں اسٹیشن میں پہلی سطح ہے یا کفر سے ایمان تک جانے کیلئے پہلا سبٹائٹل(subtitle)۔
• کفر سے ایمان تک۔ یہ شرک نہ کرنے اور اللہ سبحانہ وتعالی پر ایمان لانے کے لئے سب سے اعلی درجہ ہے۔
2) “معصیت” سے “اطاعت” کی جانب جانا۔ نافرمانی اور گناہ سے فرمانبرداری کی جانب۔
4) یہ آپ کو سنت کی پیروی کرنے میں بدعت چھوڑنے کی اعلی سطح پر لے جاتا ہے۔ غفلت سے بیداری کی جانب۔
یہ چار سبٹائٹلز دسویں لیول کے تحت ہیں جو کہ استماع ہے۔
• لہٰذا وہ کفر سے ایمان کی جانب چلے گئے،
• معصیت سے اطاعت تک،
• بدعت سے سنت تک، غفلت سے بیداری تک۔
اسی لئے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا ، پچھتانا (دراصل) توبہ کرنا ہے۔
اور یہ سب سمعنا و اطعنا کے تحت ہے۔ اس سے پہلے پچھلی امتوں میں نبی اکرم ﷺ سے پہلے اللہ (عزوجل) نے کبھی بھی بنی اسرایل کی توبہ قبول نہیں کی جب تک کہ انہوں ن خود کو ہلاک نہ کرلیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدنا موسٰی (ع) اپنی خلوت سے تشریف لائے تو انہوں نے (اپنے لوگوں) کو سامری جادوگر کی پیروی کرتے ہوئے ایک بچھڑے کی پوجا کرتے پایا۔
انہوں (حضرت موسٰی) نے انھیں خود کو مارنے کا حکم دیا۔ یعنی وہ خود کو مار کر اللہ (عزوجل) سے توبہ کریں۔
سیدنا محمد ﷺ کی امت کے لئے ، انہوں نے فرمایا کہ “نہیں”۔ انہوں نے قرآن مجید اور سنت اور اجماع کے مطابق فرمایا ،
اے مومنو واپس لوٹ جاؤ اور توبہ کرو اور معافی مانگو کہ شاید کامیابی تم لوگ حاصل کر سکو۔
اور کچھ روایات میں 100 بار (استغفار پڑھنے کا کہا گیا ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ اوراد میں ہم 70 بار (استغفار) پڑھتے ہیں۔
اور نبی ﷺ نے فرمایا ،
توبہ برائی کو جلا کر خاک کر دیتی ہے اور برے کاموں کو صاف کر دیتی ہے۔
توبہ کرنا لازمی ہے، ہر مسلم کے کیلئے، چاہے وہ غیر مسلم ہو ، مرد ہو یا عورت ، بیمار یا صحت مند ، قیام میں ہو یا سفر میں۔ اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہے کہ ہر ایک پر یہ فرض ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم وہ جاننے کی کوشش کریں کہ کس طرف اللہ سبحانہ وتعالی ہمیں رہنمائی کر رہا ہے۔ پھر بھی وہ دس درجے ہیں۔ آپ بیک وقت کچھ (درجوں) پر کام کرسکتے ہیں ، لیکن آپ کو پہلے پہلا اور پھر دوسرا اور اسی طرح باقی (لیولز) کو (ایک ترتیب سے) مکمل کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء اللہ مرید کو خلوت نشینی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ 1 سے 10 لیول تک جاسکیں، وہ (مختلف لیولز میں) اوپر نیچے نہ کُودیں۔ کیونکہ اگر آپ اوپر نیچے کودیں گے تو آپ اپنی ایک ٹانگ توڑ سکتے ہیں۔
—————————————————————————————–
WATCH HERE: https://www.youtube.com/playlist…
ENGLISH LECTURE:https://nurmuhammad.com/10-steps-to-mureedia-leaving-e…/
Source