
Urdu – God's Light Nur like Laser Burning Away Sinful Rust in Iron of the Heart| R…
God's Light Nur like Laser Burning Away Sinful Rust in Iron of the Heart| Realities of the "Ayeneh" (mirror) and the reflection of La ilaha illallah to Muhammad Rasulallah (saws)
خدا کی روشنی، نور، گناہوں کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے لیزر کی رو شنی آئرن ( لوہے ) کا زنگ اُتارتی ہے| آئینہ کے حقائق اور "لا الہ الا اللہ" کا "محمد رسول اللہ" (ﷺ) پر عکس
اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ياأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُواللَّه وَأَطِيعُوٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ۔۔۔
اللہ (عزوجل) کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے۔اللہ (عزوجل) کے نام سے شروع کرتا ہوں جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔" ایمان والو! اللہ (عزوجل) کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی" سورۃ النسا٫ (4)آیت 59
اور ہمیشہ میرے اپنے لئے ایک یاد دہانی کہ اَنَا عَبْدُكَ الْعَاجِزُ، ضَعِیْفُ ، مِسْکِینُ وَ ظَالِمْ وَ جَھَلْ (یا رب، میں آپ کا عاجز، ضعیف، مسکین و ظالم و جاہل بندہ ہوں) لیکن اللہ (عزوجل) کا فضل ہے کہ ابھی بھی ہمارا وجود قائم ہے۔ ہم نے فنا ہونے کا راستہ اختیار کیا ہے۔ میں شیخ نہیں ہوں، یہ نہیں یا وہ نہیں ، صرف اللہ (عزوجل) کا بندہ ہوں اگر وہ ہمیں قبول فرماتا ہے، سیدنا محمد (ﷺ) کا عاشق ہوں اگر وہ (ﷺ)ہمیں قبول فرماتے ہیں ، ان شاء اللہ۔
یہ ہمیشہ میرے اپنے لئے ایک یاد دہانی ہے کہ ، کوئی کہی گئی بات جو (سننے میں ) بہت آسان لگتی ہے لیکن یہ پھر بھی بہت مشکل (قابل غور) ہے۔ آئینہ اور عکسبندی کا یہ معانی ہے —اور جسے ہم تمام اسلامی حروف (عربی حروف تہجی)، اور فن (آرٹ) میں دیکھتے ہیں جہاں وہ (لفظ) "ھو" لیتے ہیں ، اور وہ اس کی عکسبندی کرتے ہیں۔ وہ "کلام" (الفاظ) لیتے ہیں اور ہر ایک کلام کا دوسری طرف متناسب (بلکل ویسا لیکن اُلٹا لفظ ) عکس بناتے ہیں— اور ہم ایک کامل آئینے( کے عکس) میں بنائیں گئے ہیں ، تناسب میں بنے ہیں کہ سیدھا (حصہ ) بائیں کی جھلک ہے اور ہمارا اُلٹا ( حصہ ) دائیں کی جھلک ہے ۔
اور اس آئینے کا سب سے اونچا درجہ اور اس کا معانی "کلمے" میں ہے۔ جو کہ سب سے پہلا اصول ہے۔ چنانچہ جب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پہلا اصول سمجھ گئے تو انہوں نے محض "شریعت" کی سطح کو چھوا ہے۔ ہر علم کی ( اگلی منزل ) طریقت ، حقیقت ، معارفت اور عظمت ہوتی ہیں۔
آئینہ (کی حقیقت ) کی سب سے اُونچی منزل جو کہ سب سے اہم ہے ،"لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" (ﷺ) ہے۔ اور جب وہ اسے "لام الف (لا)" لکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ (ل اور الف ) جڑے ہوے ہیں، جبکہ یہ (الف کی ) جھلک ہے۔ اور ہمارا راستہ اس آئینے کو سمجھنے پر مبنی ہے۔ اور اُس حقیقت کو سمجھنا جو اللہ (عزوجل) چاہتا ہے کہ ہم کسی آئینے سے ، شیشے سے اور عکسبندی سے جانیں۔ آج جب ہم آئینہ کہتے ہیں تو ، ہم ایک ایسے شیشے کے بارے میں سوچتے ہیں جس پر کیمیکل لگا ہوتا ہے ، اور اس میں آپکو جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن اُس وقت کوئی شیشہ نہیں تھا ، یہ دھات کو پالش کرنے کے متعلق تھا— یعنی لوہے ، ایک دھات کو لے کر اور اُسےاس حد تک پالش کرتے تھے کہ یہ بہت صاف ہو جاتا اور بہت چمکدار ہو جاتا( کہ جھلک نظر آتی ) ۔ اور یہ اس کی اہمیت تھی کہ آپ نے کسی ایسی چیز کو پالش کیا جو زنگ آلود ، خراب اور گندے ہو جانے کی طبیعت رکھتی تھا۔ اور جب کسی چیز پر زنگ آ جاتا ہے تو اس سے کچھ نہیں جھلک سکتا۔ لہذا ہم پالش کرتے ہیں اور پالش کرتے ہیں ، اور پالش کرتے ہیں ، اور اگر یہ زنگ آلود ہے تو اس سے کچھ بھی نہیں جھلکے گا۔
اور وہ (اولیااللہ ) ہماری زندگیوں میں تشریف لائے اور ہمیں بتایا ، "نہیں ، پالش اور پالش ، اور پالش کرو۔ پالش کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ اتنی چمکدار ہوجاتی ہے کہ یہ جس کی طرف دیکھتی ہے اس کا عکس دیکھاتی ہے۔ تو آئینے میں موجود تصویر میرا عکس دیکھا رہی ہے۔ تو جب میں خود کو حقیقت کی طرف لے جاتا ہوں اور میں خود کو اللہ (عزوجل) کی طرف متوجہ کرتا ہوں — کیونکہ زندگی میں آپ جس چیز پر توجہ مرکوز(فوکس)کرتے ہیں وہ دراصل آپ پر فوکس کررہی ہوتی ہے۔ کیونکہ آپ نے اپنی توجہ اور اپنے دل کو متوجہ کیا۔ لہذا وہ (اولیا اللہ ) ہماری زندگیوں میں تشریف لاتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں ، "ہوشیار رہو ، اگر تم نے اپنے دل اور اپنی توجہ کو دنیا کی طرف رکھا تو یقینًا دنیا تمہاری طرف متوجہ ہو گی ، اور تمہیں کھینچ لے گی"۔
اسی وجہ سے اللہ (عزوجل) ان تمام فلموں میں دکھاتا ہے—کیونکہ ننانوے فیصد افراد مسجدوں میں نہیں جاتے۔ آپ کو لگتا ہے کہ اللہ (عزوجل) نے انہیں محبت سے پیدا کیا اور (پھر) اُس نے انہیں جلنے کیلئے چھوڑ دیا ؟ بلکہ وہ مختلف زرائع (میڈیا) کے زریعے سے متاثر کر رہا ہے کہ، "میری مخلوق کو اُنکے حواس میں واپس بلایا جائے"۔ اور ان زرائع (میڈیا) میں ، وہ ان مثالوں کے ذریعہ دکھاتے ہیں ، وہ یہ تمام حقائق دیکھاتے ہیں کہ جس پر آپ اپنی توجہ رکھو گے وہ آپ کی طرف توجہ کرتا ہے ۔ جب آپ شیطانیت اور برائی ، اور موت اور تباہی پر توجہ دیتے ہیں تو موت آپ کی طرف پلٹ کر نگاہ ڈالنا شروع کردیتی ہے ، کیونکہ آپ کو اس کی توجہ حاصل ہوگئی۔ آپ آگ اور گندگی اور بد روحوں اور شیطانوں اور عذاب اور جہنم پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں ، آپ جہنم پر توجہ دیتے ہیں ، اب جہنم بھی آپ کی طرف راغب ہوگئی۔ جہنم اب آپ کی طرف دیکھنا اور جھلکنا شروع ہو جائے گی، اور آپ اپنی طبیعت میں بھڑکتی آگ جیسے بہت غصے والے بن جاتے ہیں ۔ کیونکہ ( اب ) جہنم آپ کےاندر دوڑ رہی ہے اور آپ کے زریعے بات کر رہی ہے۔ اور ہرشیطانیت اور برائی جس پر ہم توجہ دیتے ہیں وہ آپ کے ذریعے ، آپکے سننے ، آپکی آنکھوں سے( دیکھنے)، بولنے کے زریعے جھلکنے لگتی ہے ۔
چنانچہ وہ ( اولیا اللہ) ہماری زندگیوں میں تشریف لاتے ہیں اور فرمایا: "ہوشیار رہو (کیونکہ ) آپ کا وجود بہت طاقتور ہے، ابھی آپ کو اس کی طاقت کا علم اور ادراک نہیں ہے۔ اس پر توجہ مرکوز کریں جو ابدی ہے اور جو خوبصورت ہے۔ اور انہوں نے ہمیں درس دیا ہے کہ اگر آپ اپنی دھات پالش کرتے ہیں ، اپنی دھات کو پالش کرتے جاتے ہیں تو آپ اتنے شفاف اوراتنے صاف ہوجاتے ہیں ، کہ آپ میں ایک حقیقت جھلکے گی ۔ تو جب وہ اللہ (عزوجل) پر توجہ دیں ، سیدنا محمد (ﷺ)کی محبت پر توجہ دیں، تب وہ ان پر توجہ مرکوز کرنے لگتے ہیں۔ آپ جتنے صاف ہیں ، جتنا زیادہ آپ ذکر کر رہے ہیں ، آپ جتنا زیادہ خود کو دھو رہے ہیں ، ہم اپنی بری خواہشات اور خراب کردار کو جتنا کم دے رہے ہیں ، ( اُتنا زیادہ) وہ حقیقت جھلک سکتی ہے۔ یہ (روشنی) زنگ آلود دھات سے نہیں ٹکراتی ۔ یہ کسی چمکدار چیز سے ٹکراتی ہے۔
جب اللہ (عزوجل) اپنے بندے کی طرف اس روشنی سے دیکھتا ہے ، وہ چمکتی ہے اور اِس دھات سے ٹکراتی ہے ، اور اس جھلک کے طور پر ، وہ پلٹ کر چمکنے لگتا ہے ، اور اللہ (عزوجل) اس کو (نور سے ) ملبوس کر رہا ہے ، اور اسے دوبارہ ملبوس کررہا ہے ، یہ (نور ) خلا میں نہیں جا رہا ، جہاں یہ ٹکرائے اور فنا ہو جائے۔ اس کی جھلک بن رہی ہے۔ جب وہ سیدنا محمد (ﷺ)پر توجہ مرکوز کرتے ہیں ، تب نبی اکرم )ﷺ(کی نظر اُن کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔
اسی لئے رسول اللہ (ﷺ)نے یہ ساری سمجھ اور راز دیئے ہیں کہ ، "تم پر ایک صلوات (درود ) بھیجو، تم مجھ پر آئینے میں ایک بار دیکھو اور میں تم پر دس بار پلٹ کر دائمی نظر رکھوں گا"۔ اور جب پیغمبر اکرم (ﷺ)آپ کی روح ، آپ کے وجود ، آپ کے تمام وجود پر نظر ڈال رہے ہیں تو قرآن کریم کی کن تجلیات کی نوازش ہو رہی ہے۔ "انا ھو ذکر" ، سورۃ یٰسین قرآن مجید کا قلب ہے اور اللہ (عزوجل) سیدنا محمد (ﷺ)کے قلب سے قرآن کے سارے راز عطا فرما رہا ہے۔ اور اللہ (عزوجل) تعلیم دے رہا ہے ، " إِنْ هُوَ الاَّ ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ " ، "وہ (ﷺ)تمام آسمانوں اور زمین کا ذکر ہیں۔
وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ إِنْ هُوَ الاَّ ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ
اور ہم نے اُن کو (یعنی نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) شعر کہنا نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ اُن کے شایانِ شان ہے۔ وه تو صرف ذ کر اور روشن قرآن ہیں۔
سورۃ یسین (36) آیت 69
اور وہ (ﷺ)میرے چلتے پھرتے (زندہ) قرآن ہیں ، جب وہ (ﷺ)آپ کی تعریف کریں گے تو آپ کون ہیں؟ کوئی نہیں ۔ اور یہ اُسکی بے حد بڑی رحمت ہے۔ اور اللہ (عزوجل) متحیّر ہے — " خُلُقٍ عَظِيمٍ "۔
وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ
"اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)"
سورۃ القلم (68) آیت 4
کہ وہ (ﷺ) آپ پر واپس دس بار تعریف (درود) بھیجیں گے ، یہ آئینہ آپ کو ملبوس (ڈریس)کرنا شروع کر دے گا۔ تو پھر اس حقیقت کا یہ فارمولا تصور کریں۔ کہ خود کوسیدنا محمد (ﷺ)کی محبت کی طرف متوجہ کریں اور اپنی صلوات (درود) بھیجنا شروع کریں اور صا ف ہوتا رہتا ہے ، صاف ہو تا رہتاہے ، صاف ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آئینہ اتنا پاک ہو جاتا، کیونکہ صرف تھوڑی سی طہارت ، آپ کی طرف سے تھوڑی سی کوشش ( کی ضرورت ہے ) ، اسی وجہ سے اللہ ( عزوجل ) نے فرمایا: "تم میری طرف ایک قدم بڑھاؤ ، اور میں تمہاری طرف ننانوے قدم بڑھاؤں گا"۔ یعنی آپ کا ذکر اور آپ کے اعمال آپ کو ٹھیک نہیں کریں گے۔ یہ میسج نہ کیا کریں کہ، "کہ میں 23 مرتبہ کرتا ہوں ، پھر میں 24 کرتا ہوں ، پھر میں نیچے کی طرف دیکھتا ہوں ، پھر میں اوپر جاتا ہوں ، اور پھر میں دائیں طرف جاتا ہوں ، اور پھر میں بائیں طرف جاتا ہوں" ، میں نہیں جانتا کہ وہ اسے کیا کہتے ہیں "اے۔پرسنیلیٹی"؟، جہاں آپ اتنےباریک بین ہوجاتے ہیں کہ آپ کی سمجھ بوجھ ختم ہو جاتی ہے۔ یہ اس بارے میں نہیں ہے کہ آپ خود کو کہیں بلند کرنے کیلئے کچھ کریں۔ آپ واقعی میں سوچتے ہیں کہ آپ خود کو زمین سے آسمانوں پر اٹھا سکتے ہیں؟ آپ کو محض ایک قدم اٹھانا تھا۔ صرف اس نیت کے ساتھ ، "یا ربی ، میں خود کو صاف کرنے کی نیت کر رہا ہوں۔ میں ذکر کرنے کی نیت کر رہا ہوں۔ میں خدمت کیلئے کوئی راستہ تلاش کرنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ میں ایک عَبدُﻙَ الْعَاجِزُ، ضَعِيفُ، مِسْكِينُ، وَظَالِمٌ، ہوں۔ میں خود پر ظلم کرتا ہوں ، میں غریب ہوں ، میں یتیم ہوں، میں ناچیز ہوں۔
میں خود کو نہیں اٹھا سکتا ، میں ایک قدم اٹھا رہا ہوں۔ اور میں صرف ان اعمال کے ساتھ پولش کرنا شروع کرتا ہوں ، یہ نہیں سوچتا کہ اپنے ذکر کے ساتھ اڑان بھر کہ میں واقعتا آسمانوں پر پہنچ جاؤں گا ، "کیا مُجھے اس طرح کرنا چاہئے؟ کیا مجھے اس طرح سے سانس لینا چاہئے؟کیا مجھے اِس کے ذریعے سانس باہر نکالنا چاہئے؟"۔ یہ سوالات جو آپ پوچھ رہے ہیں ، وہ بے نقاب کررہے ہیں، جو کہ اچھی بات ہے ، یہ آپ کی غلط فہمیوں اور دماغ کو بے نقاب کرتے ہیں۔ لیکن یہ(سوال ) پوچھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ کیونکہ سمجھنے کیلئے ان (سوالا ت کو) باہر آنا ہو گا۔
یہ راستہ عاجزی کا راستہ ہے۔ "یہ کہ آپ نے مجھے اوراد دئیے گئے ہیں اور شیخ نے مُجھے وظائف اور ذکر دیئے ہیں ، اور میں یہ ہر گز نہیں سوچ رہا کہ میں کہیں پہنچ رہا ہوں۔ میں پیار اور محبت کے سبب یہ کرنے جارہا ہوں۔ اور اس پیار اور محبت سے میں پیروی کرنے جا رہا ہوں۔ اور جب میں یہ کرنا شروع کروں گا ، تو وہ ایک قدم (جسکی ضرورت ہے وہ ) اُٹھ رہا ہے"۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ تھوڑا سا صاف کریں ، سیدنا محمد (ﷺ)کی نظر کو اپنے آئینے سے ٹکرانے دیں۔ وہ روشنی ، جب وہ اس آئینے سے ٹکرا جاتی ہے ، ہر چیز کو جلانا شروع کردیتی ہے۔ جیسے ہم نے ابھی پہلے کہا تھا کہ وہ اِن لیزرز کی یہ ویڈیوز جاری کررہے ہیں ، وہ مضبوط دھات سے (لیزر ) گزرتے ہیں اور وہ دھات کو نہیں جلاتے ، وہ زنگ اتار دیتے ہیں (سیدی (ق) لیزر جلانے کی آواز دیتے ہیں) ، جیسےاس میں سے کوئی آگ نکل رہی ہواور یہ بالکل نئے جیسا ہو جاتا ہے۔ اگر یہ توشیبہ کر سکتا ہے تو ، آپ (ﷺ) کی روح اور نظر کا تصور کریں۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں ، (یَا رَسُولَ اللہ) "اُنْظُر حَالَنَا " یا رسول اللہ (ﷺ)ہم پر نظرکرم فرمائیں"۔ اور بے مغز لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک جسمانی آنکھ ہے ، یہ آنکھ ان سب کائناتوں کے مضبوط ترین سورج سے زیادہ طاقتور ہے۔اور اگر کوئی سمجھنا چاہتا ہے کہ روشنی کیا کرتی ہے تو صرف ہماری اپنی کہکشاں میں سورج کا مطالعہ کریں۔ سورج کس قسم کی قوت اور طاقت رکھتا ہے؟
اس سورج میں روشنی کا سپیکٹرم ہے جو آپ کو نشو و نما دیتا ہے ، آپ کو ملبوس کرتا ہے ، برکت دیتا ہے۔ اس دھرتی پر آپ کو دیکھنے ، کھانے اور پینے کے قابل بناتا ہے۔ اگر آپ تھوڑا بہت قریب پہنچ جاتے ہیں تو یہ آپ کو جلا دے گا اور آپ کو راکھ اور مٹی سے بھی زیادہ خاک کردے گا ، اگر آپ اتنےقریب چلےگئے۔ اگر آپ قدرے قریب آگئے تو ، یہ آپ کو تابکاری (ریڈیشن) کے ذریعہ مار ڈالے گا۔ سورج سے نکلنے والے روشنی کے تمام سپیکٹرم تابکار (ریڈیوایکٹیو) ہیں ، اس کا بیشتر حصہ زمین سے (اوپر) فلٹر کرنا پڑتا ہے ، کیوں؟ کیونکہ اللہ (عزوجل) نے اگراسے برقرار رکھا تو یہ حقیقت زمین سے ٹکرائے گی، اس زمین پر ہر شخص فرائی ہو جائے گا۔ بہت سارے سپیکٹرم اور حقائق ہیں ، اور ہم صرف روشنی کے اس پورے سپیکٹرم سے ایک چھوٹا سا چینل لیتے ہیں جو سورج سے آتا ہے۔ وہ سورج سیدنا محمد (ﷺ)کی حقیقت کی تقلید کر رہا ہے ،(وہ سورج) اللہ نہیں ہوسکتا ، استغفر اللہ، اللہ (عزوجل) جیسی کوئی چیز نہیں ہو سکتی ، یہ ایک مضحکہ خیز تفہیم ہوگی۔ اللہ (عزوجل) اس مخلوق کے فہم سے بالاتر ہے۔
یہ روشنی ، کتنی طاقتور ہے کہ یہ ملبوس کرسکتی ہے۔ یعنی ، یہ نظر ، یہ آئینہ، اس عکسبندی کی حقیقت یہ ہے کہ ، "میں اپنی پوری صلاحیت سے صرف وہی کرتا ہوں جو انہوں نے مجھ سے کرنے کو کہا ہے" ، باریک بینی کی فکر نہ کریں کیونکہ یہ آپ نہیں ہیں جو خود کو کہیں بھی اٹھا لیں گے۔ آپ ایسا کرتے ہیں تاکہ آپ کچھ گندگی کو دور کرنا شروع کردیں۔ اور نبی کریم (ﷺ)کی یہ روشنی ہر طرح کے زنگ آلود کردار کو جلانے لگتی ہے ، يَا مُحْيِي الْقُلُوْبِ، يَا مَاحِي الذِّنُوْبِ ، وہ روشنی جو روح کو زندہ کرنے کے لئے آتی ہے وہی روشنی ہے جو ہر گناہ اور ہر برے عمل کو جلا دیتی ہے۔
عکاسی کی یہ حقیقت ہے کہ اُونچی ترین منزل پر کیا ہے "لا الہ الا اللہ" ، کیونکہ یہ دو آئینے ہیں۔ تو ہماری زندگی میں آپ پہلے کس دروازے پر آئے؟ جب اللہ (عزوجل) آپ کو متاثر کرے گا کہ "ان تمام خداؤں کو چھوڑ دو جن کی تم عبادت اور خدمت کرتے ہو "۔ اور ہر کوئی بہت سے خداؤں کی خدمت کرتا ہے۔ وہ تمباکو نوشی کرتے ہیں وہ تمباکو نوشی اُنکا خدا ہے کیونکہ وہ اسے ترک نہیں کرسکتے ۔ وہ شراب پیتے ہیں ، وہ نشے کی خدا ہے۔ کوئی بھی چیز جو آپ پر گرفت رکھتی ہے وہ آپ کا "رب" ہے۔ اور اللہ (عزوجل) فرماتا ہے ، "ان سب رب کو جھٹلاؤ ، اور سب سے اعلی ذات " رَبِّيَ الْأَعْلَى " کے پاس آجاؤ"۔ اور ہم سب کے دلوں میں الہام ہوا"لا الہ الا اللہ" کی طرف بڑھو، ہر شئے اللہ (عزوجل) کی واحدانیت (کا مظہر ہے )۔ ' یا ربی مجھے کچھ نہیں چاہیئے، ان تمام برائیوں اور ان تمام خواہشات سے، جو میرے پیروں میں زنجیروں جیسی ہیں، جب یہ میرے پاؤں سے لپٹتی ہیں اورمیرے ہاتھ پکڑ لیتی ہیں۔ جب میرے ہاتھ اور پاؤں جکڑتی ہیں ، یہ زنجیریں مجھے زمین پہ کھنچتی ہیں اور تمام بُری خواہشات ، اور پھر شیطان ایک بہت بڑا تالا پھینکتا ہے' — ہو سکتا ہے آپ کو ایک خواب آئے جہاں شیطان آپ کو گردن سے پکڑ رہا ہے۔ اور گھر گھر جاکر لوگوں کی گردنوں پر زنجیریں پھینکتا ہے ، اور پھر ان کے ساتھ چلتا ہے۔ مطلب شیطان نے تمہیں پکڑ لیا۔ جب اللہ (عزوجل) ہمیں آنے کی ترغیب دیتا ہے ، تو ہم خود کو "لا الہ الا اللہ" کے آئینے کی طرف راغب ہونا شروع کردیتے ہیں۔ اور جب آپ دیکھتے ہیں اور آپ مخلص ہیں ، اور آپ محبت سے آئے ہیں تو ، اللہ (عزوجل) پہلی حقیقت کی عکاسی کرنا شروع کر دیتا ہے ، "آئینے میں دیکھو اور یہ کیا ہے جو تم دیکھ رہے ہیں"۔ کیا ، جب بھی آپ آئینے میں دیکھتے ہیں ، آپ آئینے کو نہیں دیکھ رہے ہوتے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ آئینے کے تصور کو کوئی سمجھتا ہے یا نہیں۔ جب آپ آئینے میں دیکھتے ہیں تو آپ آئینہ نہیں دیکھ رہے ہو۔ آپ اللہ (عزوجل) کو نہیں دیکھ رہے ، آپ وہ دیکھتے ہو جسکی اللہ (عزوجل) آپ پر عکاسی کر رہا ہے۔ اور جب اللہ (عزوجل) کے سب سے اعلی مذہب (اسلام) کی طرف آتے ہیں تو سب کو کون سی ذات دیکھائی دیتی ہے۔ انھوں نے آئینے میں دیکھا تو انھوں نے پایا ، "محمد رسول اللہ "( ﷺ )۔
ہر ایک جس نے اسلام قبول کیا ، جو اسلام میں پیدا ہوا ، اعلی دین میں آیا، جو کہ دین ِاسلام ہے،انہوں نے "لا الہ الا اللہ" کے آئینے میں دیکھا ، اور اللہ (عزوجل) نے انھیں دکھایا : "محمد رسول اللہ (ﷺ)کے پاس جاؤ۔ لہذا انہوں نے اس آئینے میں دیکھا جوکہ حقیقی توحید ہے ، ہمارے پہنچنے کیلئے ، سب سے اُونچا کامل مقام ۔ انہوں نے "لا الہ الا اللہ" پر نگاہ ڈالی ، اور انہوں نے پورے خلوص کے ساتھ دیکھا ، "میرے رب مجھے آپکی ضرورت ہے ، میرے رب، آپ میرا مطلوب ہیں، میں آپ سے محبت کرتا ہوں ، میرے رب ، میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ دوسرے لوگ جو تعلیم دے رہے ہیں،مجھے نہیں (رب ) نہیں مل رہا ۔" اور بہت سے مذاہب سے ( لوگ ) آئے اور کہتے ہیں ، "میں نے سنی ہے جو وہ تبلیغ کرتے ہیں اور میں اسے قبول نہیں کر پاتا ، میں خدا کی وحدانیت جانتا ہوں۔ اور میں خدا کی وحدانیت کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔"
وہ کیسے اسلام میں داخل ہوئے؟ کیا کہنے سے؟
"لا الہ الا اللہ" نہیں ، بلکہ انھیں کہنا پڑا ، "لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ (ﷺ)۔
کیوں؟
کیونکہ آئینہ اشارہ دے رہا ہے ، وہ دیکھ رہے ہیں ، اور اللہ (عزوجل) جھلک دیکھارہا ہے — "محمد رسول اللہ( ﷺ)کے پاس جاؤ"۔تو ہماری زندگی میں سمجھنے کیلئے یہ آئینہ سب سے اہم ہے۔ اگر تم یہ سمجھ گئے تو تم سمجھ جاؤ گے کہ یہ تمام راہ ِمعرفت آئینے کی یہ حقیقت ہے۔ یہ کوئی آسان بات نہیں ہے اور "مجھے اپنے بچوں کو پڑھانا پڑا"۔ آپ "لا الہ الا اللہ"کے پاس آئے ، اور آپ پورے خلوص کے ساتھ دیکھ رہے ہیں ، اللہ (عزوجل) آپ کو کیا جھلک دیکھا رہا ہے ، "محمدرسول اللہ (ﷺ)کے پاس جاؤ ، وہ (ﷺ)کیا ؟ (وہ ) میری حقیقت کو رکھتے ہیں، میں انہیں اس حقیقت سے آراستہ کررہا ہوں۔ نہ زمین پر اور نہ ہی جنت پر ، بلکہ میں اپنے مومن کے دل میں ہوں جوکہ وہ چراغ ہیں۔
تو "لام الف" (لا) اس کا راز ہے۔ آپ اس "الف" (ا) کی طرف آرہے ہیں ، اور اللہ (عزوجل) کی "عزۃ" ، اللہ (عزوجل) کی وحدانیت ، اللہ (عزوجل) آپ پرعکس کی جھلک دے رہا ہے۔ فرماتا ہے: "اس حقیقت پر میری طاقت اور عظمت قائم ہے،خود کو "محمدرسول اللہ" (ﷺ)کی طرف راغب کرو"۔ اب وہ "توحید"اور "کلمہ طیبہ" (لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ ﷺ) کے سمندروں میں داخل ہیں ، جہاں انھیں اس "کلمہ" اور اس کی حقیقت سے صاف کردیا گیا ہے۔ نبی موسیٰ( علیہ السلام) یہ حقیقت چاہتے تھے ، "میں نہیں چاہتا جو مجھے کم درجے سے دیا گیا ہے ، میں اس حقیقت کے راز سے چاہتا ہوں جو تمام حقائق سے بالاتر ہے۔" کیونکہ یہ عظمت اور اللہ کے راز میں جاتا ہے ۔ اللہ (عزوجل) اس آئینے میں چھپا ہوا ایک مخفی خزانہ تھا ، چاہتا تھا پہچان لیا جائے ، آئینے میں پوشیدہ تھا۔
"كُنْت كَنْزاً مخفيا فَأَحْبَبْت أَنْ أُعْرَفَ؛ فَخَلَقْت خَلْقاً فَعَرَّفْتهمْ بِي فَعَرَفُونِي"
اللہ (عزوجل) فرماتا ہے : "میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں پس میں نے مخلوق کو تخلیق کیا… "[حدیث القدسی]
آپ کبھی بھی "لا الہ الا اللہ" کے پردے تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ کوئی بھی ، اور وہ بغیر مغز سوچ رہے ہیں کہ وہ اللہ (عزوجل) کے پاس جا رہے ہیں ، وہ صرف آئینے کے پاس جا رہے ہیں۔ اور اللہ (عزوجل) اپنے مخلص بندوں کے لئے فرماتا ہے ، “کیا آپ کو احساس ہے کہ آپ کیلئے ایک حد اور سرحد ہے اور اے میری مخلوق ، عاجزی اختیار کرو۔ کیا آپ واقعی سوچتے ہیں کہ آپ اس آئینے سے آگے جارہے ہیں اور پھر آپ اللہ (عزوجل) کے ساتھ ایک ہو جائیں گے ؟استغفراللّٰہ ایک حد ہے ، ایک سرحد ہے ، وہ حد پر رک گئے اور جب وہ مخلص تھے ، اللہ (عزوجل) نے ان پر "محمدرسول اللہ" (ﷺ) کی جھلکار کرنے لگا۔یہ وہ خزانہ ہے جسے میں چاہتا تھا کہ آپ ڈھونڈیں۔ میرے نام اس خزانے کو آراستہ کرتے ہیں ، میرے حقائق اس خزانے کو مزین کرتے ہیں۔ اگر آپ مجھے دیکھنا چاہتے ہو تو اُن (ﷺ)کی طرف دیکھو۔
سیدنا محمد (ﷺ)نے اپنے اصحابہ سے فرمایا: "اگر آپ نے مجھے دیکھا ہے تو ، آپ نے اللہ (عزوجل) کا عکس دیکھا ہے۔ مجھے دیکھا ( سے مراد ) مجھے اپنے دل سے اور اپنے اچھے کردار سے دیکھا ، تو آپ نے "لا الہ الا اللہ" کی جھلک دیکھی ہو گی۔ تو پھر اولیاء اللہ مل گئے ، اور پھر اب ان کی رہنمائی ہوئی ، "محمد رسول اللہ (ﷺ)کے پاس جاؤ"۔ وہ محمدرسول اللہ(ﷺ)کےآئینے میں دیکھنے لگے۔ اور اس کے نتیجے میں پیغمبر (ﷺ)پیچھے مُڑ کر دیکھ رہے ہیں اور ان کو فیض بخش رہے ہیں، انھیں فیض بخش رہے ہیں ، انہیں آراستہ کر رہے ہیں۔ اور وہ ان کو کس کے ساتھ آراستہ کر رہے ہیں، "لا الہ الا اللہ" (کے ساتھ)۔ آپ سمجھے؟ جہاں بھی آپ (ﷺ) نظر فرما رہے ہیں، وہ حقیقت کے ساتھ آپ کو آراستہ کر رہے ہیں ، نبی اکرم (ﷺ) فیض بخشتے ہیں، جب آپ فیض دیتے ہیں اور فیض بخشتے جاتے ہیں ، اور فیض دیتے جاتے ہیں تو ، رسول اللہ (ﷺ) آپ کو "لا الہ الا اللہ" سے فیض دے رہے ہیں۔ جب آپ صرف "لا الہ الا اللہ" کی طرف بڑھتے ہیں تو آپ کو صرف "محمدرسول اللہ ﷺ" کی سمجھ آئے گی۔ اخلاص کے سفر پر چلنے کا پہلا قدم یہ ہے ، اللہ (عزوجل) آپ کو "محمدرسول اللہ" (ﷺ)کی عظمت کے بارے میں درس دینا شروع کر دیں گے ۔ٹھیک ہے۔ پھر وہ آپ کو " ِان اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ" کی تعلیم دیں گے ، یہ "لا الہ الا اللہ" میں ہے۔
إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
"بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔"
سورۃ الاحزاب (33) آیت 56
چنانچہ جب اولیاء اللہ "لا الہ الا اللہ" کے اس سمندر کا سامنا کر رہے ہیں تو "لا الہ الا اللہ" سے براہ راست ، اللہ (عزوجل) انہیں "محمدرسول اللہ" (ﷺ)کے بارے میں تعلیم دیتا ہے۔ انھیں ذکر اور اس کی حقیقت کی تعلیم دیتا ہے کہ "محمدرسول اللہ " (ﷺ) کے اس آئینہ سے کیا عکاسی ہورہی ہے۔ اس کا سارا حسن ، اس کی ساری تجلی، اس کی ساری شان۔ اور پھر یہ" لا الہ الا اللہ" یہ ذکر کرتا ہے " ِان اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ" کا ذکر کرتا ہے ، "لا الہ الا اللہ" ، "محمدرسول اللہ "(ﷺ)کا ذکر کرتا ہے۔
پھر اللہ (عزوجل) ان کے لئے ( راستہ ) کھولتا ہے ، “اور گہرائی میں جاؤ۔ خود کو اب "محمدرسول اللہ "(ﷺ)کے آئینہ کی طرف متوجہ کرو۔ جب انہوں نےخود کو "محمدرسول اللہ" (ﷺ)کی حقیقت کی طرف متوجہ کیا ، تب اس نے "لا الہ الا اللہ" کی تمام تر حقیقتوں کی عکاسی کرنا شروع کردی ، لیکن قلبِ محمدی (ﷺ)کے درجہ پر ، کیونکہ وہ محبت میں گرفتار ہو گئے۔ وہ جو آئینوں کے درمیان نہیں پہنچ پائے ان کو محبت نہیں ہوئی ، وہ صرف یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ (عزوجل) سے محبت کرتے ہیں۔ اگر اللہ (عزوجل) آپ کا خلوص قبول کرتا ہے تو وہ آپ کو آئینے کے پاس لا تا ہے اس سے محبت کرنے کیلئے جس سے وہ (عزوجل) محبت کرتا ہے، جس میں اُس کی جھلک دیکھائی دیتی ہے ، وہی ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ وہ آپ کو اُنکی محبت کی کہانی میں لاتا ہے۔ دو ندیوں کے درمیان (سیدی شہادت اور درمیانی انگلی کے درمیان اشارہ کرتے ہیں)۔ جب آپ محبت کرتے ہیں تو ، وہ آپ کو سیدنا محمد (ﷺ)کی ساری عظمت کی طرف بھیجتا ہے ، اسی وجہ سے وہ تمام حقائق ، اور حقائق محمدیہ (ﷺ) کے بارے میں بات کرنے لگتے ہیں۔ حقیقت المحمدیہ (ﷺ) اعلیٰ درجہ کی تعلیمات ہیں۔ جب اللہ (عزوجل) اُنہیں ( حضور ﷺ) کے پاس بیجھتا ہے ، نبی کریم ، سیدنا محمد (ﷺ) اُنہیں قلبِ محمدیہ (ﷺ) کی گہرائی سے "لا الہ الا اللہ" کی ان حقیقتوں کے بارے میں تعلیم دینا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کہ اللہ کا حقیقی ذکر "محمدرسول اللہ" (ﷺ)کی لسان اور قلب سے ہونا چاہئے۔ اور وہ رسول (ﷺ) کی حقیقت اور محبت کی گہر ائی میں جاتے ہیں، رسول اللہ (ﷺ) کے قلبِ مبارک سے ، اب "لا الہ الا اللہ" کی جھلک کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ مکہ جاتے ہیں ، تو یہ دراصل سیدنا محمد (ﷺ)کی موجودگی ہے۔
اگر آپ آئینہ کو نہیں سمجھتے ، تو سارا سفر ظاہری لوگوں کے لئے الجھا ہوا ہے ۔ انہیں یہ نہیں سمجھ آئی ، اور یہ ٹھیک ہے وہ اسے سمجھے بغیر ہی مر گئے۔ کیونکہ اللہ (عزوجل) فرماتا ہے کہ "تم دنیا میں اندھے ہو (تو ) تم آخرت میں بھی اندھے رہو گے"۔
وَمَن كَانَ فِي هَٰذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ وَأَضَلُّ سَبِيلًا
"اور جو شخص اس (دنیا) میں (حق سے) اندھا رہا سو وہ آخرت میں بھی اندھا اور راہِ (نجات) سے بھٹکا رہے گا"
سورۃ الاسراء(17) آیت 72
اگر انہیں یہ سمجھ آگئی اور انہیں حقائق کے استاتذہ ( مشائخ ) کا ساتھ عطا ہو گیا ،تو وہ انہیں یہ درس دیں گے کہ جب آپ مکہ گئے، تو مکہ ایک ایکٹیو (متحرک ) حالت میں ہے۔ بائنری کوڈ میں یہ ایک متحرک حالت میں ہے ، اور وہاں سیدنا محمد (ﷺ)کی موجودگی ضرور ہونی چاہئے۔ "نبیین ، صدیقین ، شھداء وصالحین " اور اُن کے ساتھ اللہ (عزوجل) ، اُن کی تمام روحیں وہاں موجود ہیں ، یہ ایک متحرک حالت ہے اور مصروف ہے۔
وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا
"اور جو کوئی اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداءاور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔"
سورۃ النساء(4) آیت 69
اور انہوں نے اسے (مکہ المکرمہ کو ) مصروف اور مضطرب پایا اور وہاں بہت کچھ ہورہا ہے، یہ سیدنا محمد (ﷺ)کی موجودگی ہے، اس کی جھلک ہوتی ہے۔ جب وہ خلوص کے ساتھ آئے اور اللہ (عزوجل) کے گھر اخلاص سے آئے تو اللہ ( عزوجل) نے اپنے مخلص اور خلوص رکھنے والے بندوں سے فرما یا: "اگر تم واقعی مجھے ڈھونڈنا چاہتے ہو تو اب مدینہ چلے جاؤ" ، کیونکہ آئینے کا عکس اُن سے ٹکرایا۔ وہ گئے ، مصروف طواف کیا اور کہا "یا ربی یہ زبردست ہے"۔ لیکن جب انہوں نے مدینہ میں قدم رکھا تو انہوں نے اللہ (عزوجل) کی حاضری میں قدم رکھا ، کیوں؟ کیونکہ یہ وہ حالت ہے جہاں نبی کریم (ﷺ)مصروف نہیں ہیں ، نبی کریم ( ﷺ)، صرف اپنے رب کے ساتھ ، خلوت میں فنا کی حالت میں ہیں۔ اور رسول اللہ (ﷺ) نے تمام حدیثوں سے کیا بیان فرمایا ہے کہ "قلب المومن بیت اللہ"۔
قَلْبَ الْمُؤْمِنْ بَيْتُ الرَّبْ
"مومن کا دل رب کا گھر ہے۔" (حدیث قدسی)
کہ جب "مومن" پرسکون ہو جائے اور اللہ (عزوجل) کے سامنے مکمل طور پر حالتِ تسلیم میں ہوجائے کہ ، قرب ِ حق کے سوا کسی اور چیز میں مصروف نہ ہو ، آپ مدینہ منورہ میں، سیدنا محمد ﷺکے قلب مبارک میں کسے پائیں گے ؟اللہ (عزوجل) کو ،نورِ الہی کو۔ اور انہیں مدینہ منورہ میں امن و سکون ملتا ہے۔ انہیں مدینہ منورہ میں عکاسی کی وجہ سےسکون اور "عزۃ اللہ" ملتی ہے ۔ وہ" محمدرسول اللہ" (ﷺ)میں داخل ہوئے اور مدینہ منورہ میں "لا الہ الا اللہ" کے تمام حقائق کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مدینہ منورہ میں تجربات ناقابل تصور ہیں۔ مکہ میں تجربات ناقابل تصور ہیں لیکن اُنکی حقیقت مختلف ہے۔
اور یہ آئینہ اور عکس کا تصور ہے۔ تو ہماری زندگی میں ، اور ہماری زندگی میں سب کچھ اسی کے بارے میں ہے ، اور اسی وجہ سے نبی (ﷺ)نے بیان فرمایا: "مِنِّیْ وَ منْھمْ" کہ یہ شخصیات، میری آل ، میرے ساتھی ، میرے اولیاء اللہ –فی السماء و فی الارض "(آسمانوں میں اور زمین میں) –ان کی زندگی خود کو خود سے نجات دلانا تھی۔ جو لوگ خود کو نجات پا لیتے ہیں ، اور ذکر و حمد ، اور صلوات ( درود) اور اچھے کاموں کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ اور آپ ان کے کردار سے ، جو یہ عمل رکھتے ہیں، (یہ ثابت ہوتا ) دیکھ سکتے ہیں ۔ اگر وہ اللہ (عزوجل) کی تسبیح اور سیدنا محمد (ﷺ)کی شان میں حمد میں مصروف ہیں ، اور ان کے سارے اعمال محمدی ہیں اور ان کی ساری محبت، ان کا شعور، اس حقیقت المحمدیہ کے بارے میں ہے ، یہ ان لوگوں میں سے ایک ہے ، جب وہ صفائی (تزکیہ) کرتے ہیں اور عمل کرتے ہیں ، صفائی کرتے رہتے ہیں اور عمل کرتے رہتے ہیں ، تو سیدنا محمد (ﷺ) کا نور نبوی (ﷺ) ان کے ذریعہ چمکنے لگتا ہے۔ اور نہ صرف یہ کہ پیغمبر اکرم (ﷺ)یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ "وہ مجھ سے ہیں ، بلکہ جب وہ خود سے، اپنی ذات سے نجات پا لیتے تو ، میں ان سے ہوں گا۔ تم مجھے اُن میں دیکھو گے۔ تم مجھے ان میں محسوس کرو گے۔ تم ان کے ذریعہ میرے ساتھ کھاؤ گے۔ تم ان کے ذریعہ میرے ساتھ رہو گے۔ کیونکہ اُس نے اپنا آئرن لیا اور اُس نے اِسے پالش کیا تھا ، اور وہ اپنے راستے میں سمجھ گیا کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے ، اور وہ کوئی نہیں ہے۔ اور "زہد" کے اصولوں کا مقصد اپنی طرف توجہ کھینچنا نہیں تھا۔
آپ کو ایسا چاند ہونا تھاجو کچھ بھی نہیں تھا۔ جب آپ خود کو مور کی طرح زیب تن کرتے ہیں اور اشتعال انگیز رنگوں اور اشتعال انگیز دکھاوے کا استعمال کرتے ہیں تو ، یہ حقیقت ہے جس کے پیچھےآپ جارہے ہیں۔ چاند اور قمر کی حقیقت کچھ بھی نہ ہونا تھی۔ بالکل بھی کچھ نہ بنو ، تاکہ سیدنا محمد (ﷺ)کی عظمت آپ کے ذریعہ جھلک سکے ۔ اور اگر یہ جھلک آرہی ہے تو ، آپ کی ساری تعلیمات محمدیون کی ہوں گی۔ آپ کی ساری توجہ سیدنا محمد ﷺکی روشنی اور محبت پر ہوگی۔
اور سیدنا محمد (ﷺ)پورے قرآن کریم میں کہاں ہیں؟ یہ میرے اور آپ کے بارے میں نہیں ہے۔ اللہ (عزوجل) نے میرے اور آپ کے لئے جو حکم دیا ہے ،وہ حقائق ہیں جو اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد (ﷺ)کو دئیے ہیں۔ جب ہم داخل ہوئے تو ہم نے دروازے پرہی اپنے نفس کی نفی کی۔ آپ کے جسم میں یہ آئرن، آپ کا خون ہے۔ اب آپ کہتے ہیں شیخ "میں اس کو کیسے حاصل کروں گا" ، بہت آسان ، آپ میں جو آئرن جھلک رہا ہے اور جس کو پالش کرنے کی ضرورت ہے وہ کیا ہے ، آپ کا ہیموگلوبن ، جو آپ کو سرخ بناتا ہے۔ سرخ خون ، انسان کے جسم کے اندر موجود آئرن ہے۔ اللہ (عزوجل) نے ہمارے جسم میں آئرن دیا۔ جسم کے اندر یہ آئرن پالش کرنا پڑتا ہے۔ جب آئرن پالش اور صاف ہوجاتا ہے ، اور مستقل ذکر ، دیکھنے اور کھانے پینے سے پرہیز کرنے سے ، یہ آئرن پالش ہوجاتا ہے۔
یہ آئرن مضبوط ہو جاتا ہے۔ یہ "حد (آئرن)" ، یہ اتنا اہم ہے کہ اللہ (عزوجل) نے اس کے نام پہ ایک سورة رکھی ہے۔ میرے خیال میں یہ سورہ 57 (سورہ الحدید) ہے۔ یہ ،آئرن زمین سے نہیں ہے ،یہ ایسا عنصر آسمانوں سے ، کائناتوں سے ہے ، یہ زمین پر نہیں پایا جاتا، یہ زمین پر نہیں بنایا گیا،یہ زمین پر آتا ہے ، “تنزیلہ” (نیچے آتا ہے) آسمان سے زمین پر آتا ہے خلا اور ستاروں سے آتا ہے۔ یہ آئرن انسان کے اندر پایا جاتا ہے۔ اگر یہ پاک ہوجائے تو آئینہ کی یہ ساری گفتگو میرا خون ہے۔ اگر میں اسے صاف کرتا ہوں ، اسے دھوتا ہوں ، اس پر نگاہ رکھتا ہوں کہ میں کیا کھاتا اور پیتا ہوں ، میری ساری خصوصیات ۔میرے خون میں یہ آئرن چمک جائے گا۔ اور ذکر کی اہمیت اتنی ضروری ہے ، ہر وہ شخص جو تندرستی ، اور روحانی تندرستی ، اور جسمانی تندرستی کو سمجھتا ہو ، آپ کی بیماری کا تعلق آپ کے آئرن سے ہے۔ جب آپ اسے پالش کرتے ہیں ،آپ سانس لیتے ہیں ، سانس لیتے ہیں اور تمام نقشبندی شیوخ نقشبندی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ یہ رستہ سانس پر مبنی ہے۔ یہ وہ (موضوع ) ہے جس کے بارے میں اب بات بھی نہیں کی جاتی ، سارا "طریقہ" (روحانی راستہ) سانس پر مبنی تھا۔ سانس کیسے لی جائے اور اپنی سانسوں کا شعور رکھیں ، دیکھیں کہ آپ کے اندر انرجی کی حیثیت سے کیا آرہا ہے۔
یہ سانس اندر آتی ہے، "نفس الرحمہ " یہ مومن میں آتی ہے۔ یہ سانس ، پھیپھڑوں میں انرجی بھرتی ہے جہاں خون آرہا ہے۔ پھیپھڑوں سے خون یہ انرجی لے کر باہر نکلتا ہے۔ پھیپھڑوں سے یہ خون دل میں منتقل ہوتا ہے۔ جب یہ خون صاف کیا جارہا ہے یہ خون ذکر سے دھویا جارہا ہے ، دل میں داخل ہوتا ہے۔ جو دل ذکر کرتا ہے ، وہی وہ دل ہے جو انرجی سے روشن ہے۔ " بِذِكْرِ ّللَّهِ تَطْمَئِنُّ ْلْقُلُوبُ ۔"
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
"جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، جان لو کہ اللہ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ "
سورۃ الرعد (13) آیت 28
اور "ذاکرین" (اہل ذکر) ، وہ جو ذکر کے لئے اپنی زندگی جیتےہیں ، وہ ذکر کے ذریعےصاف اور پاک ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو ذکر نہیں کرتے ہیں ، کوئی ولی ایسا نہیں ہے جو ذکر نہیں کرتا ہے۔ کیونکہ تب یہ ایک گندے دل والا شخص ہے۔ یہ ناممکن ہے. یہ سو فیصد ہے اگر وہ اولیاء اللہ ہیں تو وہ ذکر کرتے ہیں۔ وہ ظاہری علما (مذہبی اسکالر) ہوسکتے ہیں اور وہ کوئی ذکر نہیں کرتے، اور ان کا علم بیکار ہے۔ لیکن اہل حقائق، ان کا دل زندہ ہے اور اللہ (عزوجل) کے لئے فیکٹری ہے کیونکہ اب ہم سمجھنے جارہے ہیں۔ ان کا دل اللہ (عزوجل) کے لگاتار ذکر اور سیدنا محمد (ﷺ)پر لگاتار صلوات (درود ) میں مصروف ہے ، کیوں کہ یہی ان کی فیکٹری کی طاقت ہے۔ ان کے پورے وجود کی فیکڑی کا ہیڈ کوارٹر دل ہے۔ تو ذرا تصور کیجئے اُس قدرۃ (طاقت) کا جو ان کے ذکر سی آرہی ہے ، ان کے ذکر سے جو روشنی آرہی ہے ، ان کے دل بجلی گھر کی طرح روشن ہیں –ایک سورج کے جیسے ۔
اس سے اتنی روشنی پیدا ہوتی ہے کہ لوگ اسے پوری دنیا میں محسوس کرسکتے ہیں۔ اس زمین پر ایسی کوئی جگہ نہیں ہے اگر آپ ان پر فوکس نہیں کرتے ہیں تو ان کی روشنی آپ کو متاثر کرے گی۔ اور اس زمین سے بالا تر کیونکہ ان کا تعلق یہاں سے نہیں ہے۔ ان کا تعلق سیاروں خلا اور وقت سے آگے آسمانوں میں جاتا ہے، سوچ کی رفتار سے۔ سیارہ مشتری ( جوپٹر)نہیں ، پیغمبر (ﷺ)پلوٹو پر نہیں ہیں۔ نبی اکرم (ﷺ)کی حقیقت سات آسمانوں اور جنت سے بالاتر ہے ، سوچ کی رفتار سے ان کی روح رابطہ قائم کرتی ہے اور وہ روشنی اور وہ "تجلیات" حاصل کرتی ہے۔
کیونکہ وہ کیا ( عظیم ) طاقت ہے۔ مطلب پھر یہ روشنیاں جو آرہی ہیں ، یہ انرجیاں جو آرہی ہیں ، ان کے دل کسی فیکٹری کی طرح بجلی کے منبع کی طرح ہیں۔ جیسے ہی ان کا خون اس فیکٹری میں داخل ہوتا ہے ، اس پر مہر لگ جاتی ہے ، اس کو فیض ملتا ہے ، اس کے گناہوں کو دھویا جاتا ہے ، يَا مُحْيِي الْقُلُوْبِ، يَا مَاحِي الذِّنُوْبِ " ، جو روشنی ان کے دل میں ظاہر ہوتی ہے ، اس سیل پر کسی بھی طرح کے زنگ کو جلا دیتی ہے ، اسے فیض دیتی ہے، اور پھر اسے جسم کے گیارہ ضروری اعضاء میں منتقل کرتی ہے۔
کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو ان حقائق کے قریب بھی پہنچ سکے اگر ان کا دل ذکر اللہ نہیں کر رہا ہواگر وہ وظائف اور ذکر اور عبادات نہیں کررہے ہیں۔ آپ ذکر کیوں کررہے ہیں اس کی فزیولوجی کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ، یہ آپ کے تفریحی مقاصد کے لئیے نہیں ہیں۔ یہ انرجیاں ہیں جو دل میں آتی ہیں ، یہی طاقت کا منبع ہے جو دل میں آتی ہے اور آئرن کے اس ٹکڑے کو صاف کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ تاکہ یہ ذکر اللہ سے ڈھکا ہو، ذکر اللہ کی برکات سمیٹے ، جو ذکر اور نبی اکرم (ﷺ) پر صلوات ( درود) پڑھنا بھی ہے ، یہ سب جڑے ہوئے ہیں۔ وہ فیضیاب اور مبارک آئرن پورے جسم میں جائے گا ، ہر خلیے کو روشن کرے گا اور جسم کی ہر رگ اور جسم کا ہر عضو اس نور سے روشن ہوگا۔ اس کے نتیجے میں وہ ایک اورگینک فیکٹری ہے۔ جو وہ تیار کرتے ہیں ، وہ انسانیت کیلئے بے حد فائدہ مند ہوتا ہے ، اور وہ کوئی بھی کچرا پیدا نہیں کرتے ۔ ان سے جو کچھ بھی آتا ہے وہ انسانوں کے لئے زرا مضر نہیں ہے۔ تو اب یہی ہے جسے آپ کلین فیکٹری کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں تو ، اس کے برعکس کیا ہوتا ہے۔
اس زمین پر ایسی فیکٹریاں ہیں کہ وہ محض چالو ہوجاتی ہیں اور اپنے تمام گردنواح کو ہلاک کرنا شروع کردیتی ہیں۔ آپ نے دھواں ان ممالک سے آتے دیکھا ہے جن میں کوئی ضابطے نہیں ہیں۔ انہوں نے ٹوائلٹ پیپر کے دو ٹکڑے بنانے کے لئے فیکٹری کو چالو کیا ، جسکی وجہ سے دس ہزار گھر ایندھن اور دھویں سے آلودہ ہو رہے ہیں۔ پھر انہوں نے فیکٹریوں کا معائنہ کیا اور کہا ، " کچرا دیکھو" ، ان کے عمل میں زہریلے تیزاب کا استعمال ہوتا ہے۔ فیکٹری کے فضلے سے نکلنے والا کچرا گردنواح کو مار رہا ہے ، ان کی پانی کی فراہمی میں جاتا ہے ، سب کچھ ختم اور تباہ کردیتا ہے۔ اللہ (عزوجل) فرماتا ہے ، "آپ جانتے ہیں کہ اس سے زیادہ کیا خطرناک ہے ، ایک انسان جس کا دل برا ہے"۔ جب اللہ (عزوجل) فرماتا ہے کہ "میں آپ کو افق اور آپکی ذات میں اپنی نشانی دکھاتا ہوں"۔
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
. ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم/افق میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔ کیا آپ کا رب (آپ کی حقانیت کی تصدیق کے لئے) کافی نہیں ہے کہ وہی ہر چیز پر گواہ (بھی) ہے۔
سورة فصلت / حم سجدہ (41) آیت 53
اطراف /افق میں ایک بری فیکٹری پر نظر ڈالیں ، جو بھی کوڑا وہ پیدا کررہی ہے، وہ اس کی سانس دس ہزار گھروں کو ہلاک کر رہی ہے ، اور فضلے سے ، دس ہزار گھروں کی پانی کی تمام فراہمی کو زہر آلود اور خراب کررہی ہے۔ اور ان سب میں تابکاری ہے ، ان میں ہر طرح کی آلودگی ہے ، غریب لوگ ان فیکٹریوں کے گرد مر رہے ہیں۔ اور پھر اللہ (عزوجل) نے ارشاد فرمایا ، "ایک ایسے انسان کا تصور کریں جس کا دل اس کارخانے سے زیادہ زہریلا ہو۔ ذکر نہیں کرتا ، صرف غضب اور غصے سے بھرا ہوا ہے۔ اس کے منہ سے آنے والی ہر چیز زہر ہے۔ ہر وہ چیز جو اس کی موجودگی اور اس کے وجود سے آتی ہے ہر چیز کے لئے زہرآلود اور زہریلی ہے۔ یہ غصہ اور زہرہے۔ اور اللہ (عزوجل) نے ارشاد فرمایا کہ "آپ معزز ہیں ، آخر کارخانہ بند ہو جائے گا ، جل جائے گا ، جو بھی اللہ (عزوجل) اس کے ساتھ کرنا چاہے ، آتش فشاں آئے اور اس کا احاطہ کر لے۔ لیکن آپ زہریلے کارخانے کے طور پر اپنے رب کے پاس کیسے جا سکتے ہیں۔ فرمایا کہ، "آپ کے منہ سے جو کچھ آیا وہ زہریلا کچرا تھا"۔ اور یہ سب کچھ آنتوں سے آیا ہے اور آپ کا وجود محض زہریلا تھا اور سب کو ہلاک کرتا تھا۔ تو یعنی ذکر، اور حقیقت ِ آئینہ ایک بے حدوسیع حقیقت ہے ۔
دل کو طاقتور بنانا ہے ، تقویت بخشنی ہے ، آئرن کو پاک اور پاکیزہ بنانا ہے ، دل میں داخل ہونا ہے ، صاف ستھرا کارخانہ بنانا ہے۔ جو یہ پیدا کرتا ہے ، پوری انسانیت اس سے کھائے گی۔ اس کی حقیقت ، یہ نہ صرف خود کو صاف کرتا ہے ، بلکہ یہ اپنے ارد گرد کسی بھی چیز کو آلودگی اور نقصان نہیں پہنچاتا۔ لیکن جو کچھ اس کی پیداوار ہے اس کا حتمی نتیجہ ابدی رہے گا۔ لوگ اس کے پھلوں سے نسل در نسل کھائیں گے۔ اور یہ اولیاء اللہ کے "فتوحات" ہیں۔ اس زمین پر ان کی مہر اور نقش چھوٹے تھے انہوں نے کسی کو تکلیف نہیں دی۔ لیکن انہوں نے لاکھوں لوگوں کو اس علم اور حقائق سے فائدہ پہنچایا جو انہوں نے پھیلائے۔ کہ آج بھی ہم کھا رہے رہے ہیں، پی رہے ہیں، اس کے ثمر کھا رہے ہیں۔ اس (کام ) کی مدد کرنا کوئی چھوٹی چیز نہیں ہے ، اس کی حمایت کرنا وہ چیز ہے جو (جب) ختم ہوتی ہے اور روح اور نسلوں تک جاتی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ (عزوجل) ہمیں زیادہ سے زیادہ سمجھ عطا فرمائے۔ جب ہم تفکُر یا مراقبہ کہتے ہیں، تو یہ کوئی چھوٹی چیز نہیں ہے۔ یہ تمام روحانی سفر کی آخری منزل ہے۔ تفکُر پہلا قدم نہیں ہے ، بلکہ وہ اس دنیا اور اس مادی دنیا میں اسے الٹا پڑھا رہے ہیں۔ یہ کمال کا آخری مرحلہ ہونا تھا۔ لہذا مطلب یہ ہے کہ یہ اجازت کہ تفکُر اور غور و فکر کی تعلیم دینا، یہ داخلہ کی درجہ نہیں ہے ، یہ تمام روحانیت کے لئے حتمی اور آخری کورس تھے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ (عزوجل) ہمیں سمجھ عطا فرمائے اور لیلۃ القدر کی ان پاک راتوں میں ، انشاء اللہ کل رات ہم قدر راتوں پر مزید تفصیل سے بات کرتے ہیں ، یہ ساری آئینہ (کی تفسیر) آپ کو مزید علم بخشتی ہے کہ لیلۃ القدر کیا ہے ، اور آپ کہاں کھڑے اور بیٹھے ہیں اسے وصول کرنے کیلئے، ان شااللہ۔
سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃَ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَالسَّلامُ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَبِحُرْمَةِ مُحَمَّدِ الْمُصْطَفیٰ
وَبِسِرِّ سُورَۃِ الْفَاتِحَه.
رومن اُردو میں یہ پوسٹ پڑھنے کے لئے:
To read the post in Roman urdu:
https://web.facebook.com/…/a.1306689683242…/318421139549033/
یہ مضمون انگلش میں پڑھنے کیلئے۔
Read English Transcript:
Https://web.facebook.com/1621830444573407/posts/3092220390867731/?D=w&_rdc=1&_rdr
یہ بیان اس لنک پر دیکھا جا سکتا ہے۔
Youtube link to watch this Suhbah:
Https://www.youtube.com/watch?V=yzqhuprnvai
یو ٹیوب چینل سبسکرائب کیجئے۔
Subscribe Now: The Muhammadan Way Sufi Realities
Https://www.youtube.com/channel/UC4E8QX7OgwYDgyuuXTBMrcg
شیخ سید نور جان میر احمدی نقشبندی (ق) کا فیس بک پیج لائک کیجئے۔
Official Page: Shaykh Nurjan Mirahmadi
Please Like and Share
Https://facebook.com/shaykhnurjanmirahmadi/
مضامین کے اُردو ترجمہ پڑھنے کیلئے
Read His Articles Translated in Urdu
Https://www.nurmuhammad.com/category/urdu/