
Urdu – شیخ سَیَّد نورجان مِیراَحمَدِی نَقشبَندِی (ق) کی سنہری تعلیمات سے اقتباس بِسْمِ…
شیخ سَیَّد نورجان مِیراَحمَدِی نَقشبَندِی (ق) کی سنہری تعلیمات سے اقتباس
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
اَلَّھُمَّ صَلِّ عَلَی سَیَّدِنَا محَمَّدٍ ﷺ وَعَلَی آلِ سَیَّدِنَا محَمَّدٍ ﷺ
Keep Communication Open:
The Secret to Understanding the Spiritual Path, And the Great Deception of This World
– شیخ سے رابطہ (بات چیت) قائم رکھیں ، روحانی راہ کو سمجھنے کا راز ۔
اوراس دنیا کا ایک بڑا فریب:
انشاء اللہ آج رات ہم سوال و جواب (لیں گے) ، انشاء اللہ کچھ سوالات ہیں جن کے بارے میں مجھے نہیں معلوم کہ جوابات بھی ہوں گے (شیخ مزاق میں کہتے ہیں)۔ اور فیس بک اور یوٹیوب سے انشاء اللہ۔ لہذا بات چیت کرتے رہیں اور اس بات چیت کو جاری رکھیں انشاء اللہ۔ جن (سوالات ) کا ہم انشاءاللہ جواب نہیں دیتے ہیں ہم اُن کو statfsmc@gmail.com پر دیکھیں گے ، اور پھر 'یحییٰ' کو مخاطب کرکے سوال لکھیں ، اور ہم اُسے دیکھیں گے اور اس کا جواب دیں گے۔ یحییٰ میرے ساتھ بیٹھ کر سوالات کو پڑھتا ہے اور ہم انشاء اللہ اپنی قابلیت کے مطابق جواب دینے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو ہمارے ساتھ رابطے اور تعلق میں رکھیں ، یہ بتائیں کہ آپ کیسے ہیں اور سب کیسا ہے۔ آپ کی روحانی مشقیں کیسی جا رہی ہیں تاکہ آپ کو رابطے اور ذمہ داری کا احساس ہو۔ کہ اِن دنوں میں جہاں لوگ رابطہ منقطع کر رہے ہیں اور تنہا ہو رہے ہی، یہ اہم ہے کہ اپنا روحانی رابطہ لازمی برقرار رکھیں۔ (اگر کوئی ) فکر ہے تو ، شیوخ کو علم رہے۔
أَعوذُ باللهِ مِنَ الشَّىطَاْنِ ارَّجِيمْ
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحمَنِ الرَّحِيمِ
The Shaykh knows what's in your heart
شیخ جانتے ہیں کہ آپ کے دل میں کیا ہے :
شیوخ کو روحانی آگاہی حاصل ہے اور جو اللہ (عزوجل) ان کے دلوں میں سمجھانے کیلئے القا کرتا ہے۔ یہ مت سمجھو کہ ان کی خاموشی (کی وجہ ) لاعلمی ہے، کہ وہ کسی کام کے متعلق بات نہیں کر رہے ہیں یا کسی معاملے پر کسی کو ڈانٹ نہیں رہے (تو وہ لاعلم ہیں) یہ اُنکا کام نہیں ہے۔ زیادہ خطرناک خاموش رہنے والے ہیں۔ وہ جو فوری طور پر جواب دیتے ہیں ، واپس بات کرتے ہیں ، چیخیں مارتے ہیں ، انٹرنیٹ پر لڑتے ہیں جیسا کہ ہمیں بہت سے مختلف خصائل نظر آتے ہیں ، یہ ایک مختلف سطح ہیں۔ یہ سوچنا کہ اگر شیخ میری بری خصوصیات پر کچھ نہیں کہہ رہے تو ، یہ نہ سمجھیں کہ وہ نہیں جانتے ۔ اللہ (عزوجل) دل کو متاثر کرتا ہے ، اور یہ کہ وہ حقیقت میں جاسوسِ قلب (دل کے جاسوس) ہیں۔ ان کے پاس مومن اور غیر مومن لوگوں کے دل میں جاسوسی کرنے کی صلاحیت ہے۔ کیونکہ دل میں ایک سگنل ہے جو بہشتی مخلوق کے لئیے نکلتا ہے۔ اور یہ اشارہ ہر ایک اپنے درجے (سطح) کے مطابق پڑھنے کے قابل ہے۔ بڑے اولیاء اللہ (اولیاء اللہ) ، تصور کریں کہ اللہ (عزوجل) نے ان کو صلاحیتوں میں سے کیا دیا ہے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے اولیا اللہ کے ساتھ تربیت حاصل کی پھر ان کے دلوں میں بھی قابلیت ہے۔ لہذا اس کا مطلب ہے کہ رابطہ رکھیں ، بات چیت جاری رکھیں ، طالب علم ہونے اور طریق کی پیروی کرنے کا احساس رکھیں۔ اور (نہ کہ تب رابطہ کریں ) جب آپ کو دُعا کی ضرورت ہوتی ہے یا آپ (کو رابطہ کرنے کیلئے ) ایک موقع چاہیئے اور زندگی میں کچھ ہو تب آپ دعا کی درخواست کر رہے ہو ۔ یہی طریقہ (روحانی راہ) کا نقطہ نظر ہے کہ یہ دو طرفہ تعلق ہے۔ آپ مدد کرتے ہیں ، آپ دیکھتے ہیں ، آپ حصہ لیتے ہیں ، کتابیں حاصل کرتے ہیں ، ویب سائٹ پر آتے ہیں ، مضامین پر جاتے ہیں۔ اور پھر شیخ کا کام دعا اور رہنمائی کرنا ہے ، سکھانا ہے۔ اس سے وہ رشتہ پیدا ہوتا ہے جو ایک تعلق بناتا ہے۔ آج کل انٹرنیٹ کی وجہ سے ہر شخص یہ کہتا ہے کہ ’میں اس کی پیروی کررہا ہوں ، میں اس کی پیروی کررہا ہوں‘ ، حقیقت میں یہ راستہ نہیں ہے جہاں آپ صرف سوچتے ہیں کہ میں یوٹیوب پر اس شیخ کو پسند کرتا ہوں اب میں اس کی پیروی کررہا ہوں۔ بیعت کا تصور اور، واجب التقلید (لازمی پیروی)۔ یہ "واجب التقلید" ہے کہ اسلامی عقیدے کے مطابق پیروی کی جائے "
…أَطِيعُواللَّه وَأَطِيعُوٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ… ﴿٥٩﴾
4:59 – “…Atiullaha wa atiur Rasula wa Ulil amre minkum…” (Surat An-Nisa)
“… Obey Allah, Obey the Messenger, and those in authority among you…” (The Women, 4:59)
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں ان کی بھی
Keep your line of communication open
بات چیت کا دروازہ کھلا رکھیں :
اس کا مطلب یہ ہے کہ ، صرف اسی تصور کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کا نفس شیوخ سے دوری رکھتا ہے۔ ‘اوہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میں کسی پریشانی یا سوال پر ای میل کرسکتا ہوں’۔ حقیقت میں آپ کا باطن اسے جانتا ہے ، لیکن آپ اس کی ہدایت پر عمل نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ وہ (جاسوس) ہیں ، جب آپ بولتے اور لکھتے ہیں تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ‘اوہ نہیں ، آپ کو معلوم ہے کہ ای میل ایک راستہ ہے ، آپ شیخ کے سوا زمین پر سب کو ای میل کرتے ہیں؟ آپ زمین پر کسی سے خوفزدہ نہیں ہیں سوائے شیخ کے۔ (اور کہتے ہیں) ’اور مجھے نہیں لگتا کہ شیخ تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے‘ ، پھر وہ (شیخ) کیا کر رہا ہے ، اُس کا کام ڈاکٹر کی طرح مریضوں کا معائینہ ہے۔ اگر ایک شیخ ہے جس کے کوئی طالب نہیں ہیں تو وہ شیخ نہیں ہے، وہ ایک بور شخص ہے [شیخ ہنستے ہیں]۔ وہ سارا دن کیا کرے گا؟ انشاء اللہ، اللہ عزوجل نے اس کی حیثیت کو بلند کیا یا اسے ہدایت دی ، اسے تقویٰ عطا کیا ، اسے سمجھ عطا کی ، علم عطا کیا تاکہ وہ لوگوں کی خدمت کر سکے۔ اگر وہ لوگوں کی خدمت نہیں کررہا ہے تو اُسکے لئیے مرنا بہتر ہے۔ اور وہ اپنے رب کے ساتھ یہ رشتہ جانتا ہے ، یا ربی اگر میں یہاں خدمت کے لئیے نہیں ہوں، کوئی ایسا نہیں ہے جسکی میں خدمت کر سکوں تو بہتر ہے میں بہشت میں اپنے گھر واپس چلا جاؤں۔ تو اُنکی زندگی (کا مقصد) اپنی قابلیت کے مطابق خدمت میں رہنا ہے ، اور انہیں اپنی سطح کا پتہ ہونا چاہئے اور (یہ بھی کہ) کہاں ان کی قابلیت کے مطابق اُنکی سطح رک جاتی ہے۔ بات چیت کرنا طالب علم کی ذمہ داری ہے۔ کہ سوالات پو چھیں ، رہنمائی حاصل کریں ، زندگی میں سمجھ حاصل کریں اور اپنی بات چیت کے سلسلے کو واضح (صاف ) رکھیں ۔ کہ آپ کی زندگی میں کیا ہو رہا ہے ، اور پھر ( مدد کریں ۔ آپ کتابیں حاصل کرتے ہیں ، مضامین پر جاتے ہیں ، آن لائن آتے ہیں ، دیکھتے ہیں ، حصہ لیتے ہیں۔ تب آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ 'نہیں ، نہیں ، میں اپنی زندگی میں خوابوں اور مختلف رابطوں اور علامتوں کے زریعے اس شیخ کے ساتھ جڑا ہوا ہوں۔' اور آپ کو یہ محسوس ہونے لگے گا کہ آپ جڑے ہوئے ہیں اور ایک ایسا شیخ ہے جس کو میرا علم ہے۔ اور اس کی نظر مجھ پر ہے ، اور میں تنہا نہیں ہوں۔ میں تنہائی کے سمندر میں لکڑی کی طرح نہیں بہہ رہا ۔ یہ اِن شیوخ کو معلوم ہے ، اگر شیخ کی آنکھیں آپ کے ساتھ ہیں ، اُنکے کان آپ کے کانوں کے ساتھ ہیں ، اُنکے خیالات آپ کے لئے دعا کر رہے ہیں۔ یہ سیدنا محمد (ﷺ )کا سیل فون ہیں۔ اس سے بڑھ کر خوبصورت (بات ) کیا ہو سکتی ہے کہ یہ معلوم ہو جائے سیدنا محمد (ﷺ )اب میری طرف دیکھ رہے ہیں۔ مجھ سے باتیں کر رہے ہیں ، جواب دے رہے ہیں ، مجھ سے بات چیت کر رہے ہیں۔ کچھ چھوٹے موبائل فون ہیں ، کچھ ہو سکتا ہے بڑے موبائل فون ہوں ، کیونکہ بڑے والے یہ سوچنا پسند کرتے ہیں کہ وہ بہت بڑے ہیں۔ لہذا یہ مت سمجھو کہ ‘ہم بہت بڑے ہیں’ ، ٹھیک ہے تو یہ بہت بڑا فون ہے لیکن ابھی بھی فون ہے۔ اس میں ایک اسپیکر اور کیمرا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا فون کتنا طاقتور ہے۔ دوسرے سرے پر (جو) ہے وہ طاقت ہے ، (جو کہ) سیدنا محمد (ﷺ )ہیں۔ جتنا ہم اپنے آپ کو خالی کر سکتے ہیں ، اُتنا ہم خدمت کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ خدمت کی یہ زندگی اور اس کی برکت اور اس کا لباس۔ لہذا اس رابطے کے سلسلے کو جاری رکھنا ضروری ہے۔ ای میل کرتے رہنا ، ہمارے عقیدے میں اہم اور ضروری ہے۔
Your spiritual Medicine is just for you
آپ کی روحانی دوا صرف آپ کیلئے ہے
مسئلہ یہ ہے کہ آپ دوسرے لوگوں کو بھی دیکھتے ہیں ، آپ کسی ویڈیو پر کلک کرتے ہیں اور آپ کا عقیدہ مختلف سمت میں جانا شروع ہو جاتا ہے۔ کسی دوست سے بات کرنا، سب سے زیادہ خطرناک طریقہ میں ساتھی لوگوں کی پیروی کرنا ہے۔ کیونکہ ہر شخص کو ایک بیماری ہوتی ہے۔ ہر شخص کا ایک علاج ہے اگر وہ واقعی کسی شیخ کی پیروی کرتا ہے، (تو) اُس (لڑکے یا لڑکی ) کیلئے ایک ذکر ہے ۔ اس کیلئے بیان کا ایک سلسلہ مختص ہے جو کہ اُس کیلئے ہے۔ ان ( اولیااللہ ) کے پاس سمجھ ہے اور دوا ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ جب وہ دوائیں ایک دوسرے کے ساتھ بانٹنا شروع کردیں۔ ‘اوہ شیخ نے مجھے ایسا کرنے کیلئے کہا ، شیخ نے مجھے اس کی تلاوت کرنے کیلئے کہا ، آپ اس کی تلاوت کرنا شروع کردیں ، آپ یہ شروع کر دیں’ ، نہیں ، نہیں آپ کے نسخے کا مقصد سڑک پر نسخہ (باٹنا) نہیں تھا۔ یہ تو منشیات فروش (کا کام) ہے [شیخ ہنستے ہیں]۔ ٹھیک ہے وہ سڑک پر دوا لے کر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ‘مجھے یہ نسخہ اپنے ڈاکٹر کی طرف سے ملا ہے آپ اسے ایک ہزار روپیہ کیلئے لینا چاہتے ہو ایک گولی؟’ آپ ڈیل deal کر رہے ہیں۔ یہ ہدایت نہیں ہے۔ ہدایت یہ ہے کہ آپ کو ای میل کے ذریعے شیخ کے ساتھ بیٹھنا ہوگا ، اپنے مسئلہ سامنے رکھنے ہوں گے ، تعلقات کو بڑھانا ہوگا اور پھر بیان کریں اور کوئی ایسا علاج طلب کریں جو آپ کیلئے موزوں ہو۔ اب آپ نے ایک رشتہ بنا لیا۔ اس مرحلے میں طریقت کا راز ، اور نفس کا راز ، اور اس بات کا راز ہے کہ شیطان کس طرح ایسا ہونے نہیں دے گا۔
Don't get involved in the play of Shaytan
شیطان کے کھیل میں شامل نہ ہوں
اس وقت آپ کو سمجھنا چاہئے ، ' مجھے ایسا نہیں لگتا کہ میں سوال پوچھوں گا ، میں ان کو کوئی سوال ای میل نہیں کروں گا‘ ، کیوں کہ شیطان آپ پر بہت بھاری ہو گیا ہے۔ آپ کو کہہ رہا ہے ، یہ تعلق مت بناؤ۔ ۔ انہیں اپنی رہنمائی نہ کرنے دو ، ہم ایسا نہیں کریں گے ، آپ کو اپنی مرضی حوالے کرنی ہو گے۔ وہ کیا چیز ہے جو اللہ (عزوجل) آپ سے واپس لینا چاہتا ہے؟ صرف وہ چیز ہے جو اللہ (عزوجل) نے آپ کو دی تھی۔ اللہ (عزوجل) آپ کا پیسہ نہیں چاہتا ، اللہ (عزوجل) آپ کی مرضی (اختیار ) چاہتا ہے۔ اللہ (عزوجل) کو صرف ایک ہی چیز عزیز ہے آپ کا اختیار (آزاد قوت ارادی) ۔ اختیار جس میں آپ سڑکوں پر چیختے ، چلاتے، شور مچاتے ، اور جو چاہیں کہہ سکتے ہیں ، جو چاہیں سوچ سکتے ہیں ، صحیح اور غلط جو آپ چاہیں ۔ اس لئے کہ اس آزاد ارادے میں ہی شیطان کا ٹھکانا رہتا ہے۔ وہ انسانوں (انسانوں کی ، انسانیت کی) آزاد مرضی کے ساتھ کھیلتا ہے اور وہ ان کے ساتھ کھیلتا ہے تعلیم دینے کے لئیے، ان کی رہنمائی کرتا ہے ، ’’ خودکشی کے لئے سڑکوں پر بھاگو‘‘۔ اپنی تمام آراء کا اظہار کریں اور چہرے کی تصویر بنوائیں ، اور اپنے آپ کو ہر قسم کے خطرے میں ڈالیں۔ اس دن تک جب کوئی آپ کے دروازے پر دستک دیتا ہے اور آپ کو آواز دیتا ہے ‘کیا تم وہ پاگل آدمی ہو جو باہر سڑک پر چیخ رہے تھے ، ہمارے ساتھ چلو ' اور اولیا اللہ ہماری زندگی میں آتے اور ہمیں سکھاتے ہیں ، نہیں یہ شیطان کا ٹھکانہ ہے۔ سڑک پر نہ نکلیں ، ان حالات میں شامل نہ ہوں، ہر طرح کی (بُری ) رہنمائی ملے گی۔
Your will must match the shaykhs to be guided
رہنمائی کیلئے آپکا ارادہ شیوخ کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیئے
آپ کی زندگی میں ہر قسم کا مسئلہ جس بارے میں آپ فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، جسے آپ اہم سمجھتے ہیں ، آپ کو ( مشائخ کی ) سننے کی ضرورت نہیں ، لیکن کم از کم آپ کو مشائخ سے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ 'آپ ان سے مختلف کیوں سوچتے ہیں؟ کیوں اُنکا ساز اپنی پوری تربیت کے ساتھ کچھ اور سُر گا رہا ہے ، اور آپکا ساز جس کی کوئی تربیت نہیں ہوئی وہ بالکل مختلف سُر میں ہے۔ تب آپ کا طریق ، آپ کا راستہ ہم آہنگی ( جہاں دونوں کے سُر مل جائیں ) اُس سطح تک پہنچنا ہے۔ لوگ سمجھنا چاہتے ہیں کہ طریقہ کیا ہے؟ طریقہ وہ راستہ ہے جس میں آپ کو اپنے دماغ کی بتائی ہوئی بات سے، اُس بات تک (ایک سفر طے کرنا ہے) جو (مشائخ کا) دماغ آپکو بتا رہا ہے، اور جو اُن کا دل آپکو بتا رہا ہے۔ اور یہی آپ کا طریق (راستہ )ہے۔ اس کو پیچیدہ نہ بنائیں کہ ' میرا طریق (راستہ ) اللہ (عزوجل) کی طرف ہے ’ ، وہ آخری حدف ہے اگر آپ خود کو یہ (سچ ) بتا دیں کہ یہ ناممکن ہے ۔ تو طریق (راستہ ) یہ ہے کہ 'میرا راستہ آپ کی رہنمائی کے تابع کیسے ہو ' ۔ تو اب یہ اتنا بڑا ہے [شیخ دو شہادت کی انگلیوں کے درمیان فاصلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں]۔ یہ یہاں سے آسمان تک نہیں ہے [شیخ پورے کمرے کی جگہ کی نشاندہی کرتے ہوئے] ، یہ کہنا کہ ' میں یہاں پہنچنے جا رہا ہوں ، میں اپنی نماز ادا کرنے جا رہا ہوں ، میں قرآن کی اِس آیت کا معجزہ دیکھانے جا رہا ہوں۔ میں اعلی سطح کی پیچیدہ ڈراونی چیزوں سے حاصل کرنے جا رہا ہوں۔ اتنا ہی' ایسا کیوں ہے کہ جب میں کوئی سوال پوچھتا ہوں تو میں اس طرف جانا چاہتا ہوں ، اور شیخ مجھے جو رہنمائی دے رہے ہیں وہ مکمل ایک سو اسی ڈگری الٹی جانب ہے۔ تو پھر میرا طریق A سے B کے نقطے تک ہے [شیخ نے دونوں شہادت کی انگلیاں ایک دوسرے کے سامنے کی] ، میں کس طرح زندگی گزار سکتا ہوں جس میں مجھے ان صاحب کی رہنمائی پر عمل پیرا ہونا ہے۔ 'اور وہ شخص آپ کی رہنمائی کررہا ہے کیونکہ آپ کا دل اُس سے جڑا ہوا ہے۔
If you feel a connection, then hold tight
اگر آپ کو شیخ سے کوئی تعلق محسوس ہوتا ہے تو پھر مضبوطی سے تھام لیں
اگر آپ کا دل نہیں جڑا ہوا ہے تو آپ کو کوئی وابستگی محسوس نہیں ہوگی ، آپ کو یہ محسوس نہیں ہوگا کہ یہ ایسی زبان ہے جس کو میں ذہن نشین کر سکتا ہوں ، تعلیم کا ایک طریقہ جس کو میں سمجھ سکتا ہوں، (تو) چینل کو تبدیل کر دیں۔ ہمیں اپنی رائے ای میل مت کریں۔ یہ سوپ کا کچن نہیں ہے اور (جس میں) آپ ہمیں بتائیں کہ پوری ترکیب کو کیسے تبدیل کیا جائے۔ آپ کو ڈھونڈنا ہے اور اپنے دل سے سچا ہونا ہے۔ آپ اپنا دل لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے میرے رب تو دل کا راہنما ہے ، میری ہدایت کی طرف رہنمائی کر۔ اور جب آپ صحرا میں موجود اونٹ کی طرح پہنچے ہیں، کہ آپ واقعی تلاش کر رہے ہوتے ہیں، حقیقی طور پر متلاشی ہوتے ہیں،آپ ایک نخلستان پہنچ جاتے ہیں اور آپ جانتے ہو کہ آپ اس تک پہنچ چکے ہو۔ آپ وہ چیزیں سن رہے ہوتے ہیں جو آپ سننا چاہتے ہیں۔ آپ جو تجربہ کرنا چاہتے تھے اس کا تجربہ کررہے ہیں۔ ہر قسم کی معجزانہ تفسیر آپ کے پاس آرہی ہے۔ تب اللہ (عزوجل) پوچھے گا ‘تم میرے کتنے احسانات کو جھٹلاؤ گے؟‘
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ﴿١٣﴾
55:13 – “Fabi ayyi alayi Rabbikuma tukazziban.”
(Surat Ar-Rahman)
“Then which of the favours of your Lord will you deny?” (The Beneficent, 55:13)
تو (اے گروہ جن وانس) تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ (سورہ الرحمن 13)
آپ نے ہدایت طلب کی۔ آپ کا دل ان کے ساتھ مل گیا۔ کیونکہ اس کو ملنا چاہئیے۔ اگر وہ ایسی سطح پر وائیبریٹ کر رہے ہیں اور (ایسی) زبان اور ایک (ایسی) تعلیم اور (ایسی) تفسیر دے رہے اور آپ اُسے نہیں سمجھ پا رہے۔ اور آپ کو اس میں دلچسپی نہیں ہے ، آپ کی وائیبریشن vibration کسی اور کیلئے ہے۔ اتنی سی بات ہے. یہ اتنی سادہ سا معانی ہے۔ اللہ (عزوجل) نے آپ کے دل میں ڈال دیا کہ ہماری بات سنیں ، آپ تفکر (غور و فکر) کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ آپ اپنے دل کو جوڑنے کا طریقہ جاننا چاہتے ہیں ، آپ اَن دیکھی سلطنت کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ آپ سیدنا محمد (ﷺ )سے بے پناہ محبت کو سمجھنا چاہتے ہیں ، (اسلئے) آپ کو اس چینل اور ان شیخ اور اُن شیوخ جو کہ اُنکی مدد کرتے ہیں کی طرف بھیجا گیا ہے ۔ اگر آپ کو ان مضامین میں دلچسپی نہ ہوتی تو آپ ان کے ساتھ نہیں جُڑ سکتے۔
Leave the bipolar state, come to a flatline
بائی پولر حالت (کبھی بےحد خو شی اور کبھی بے انتہا اداسی) چھوڑدیں۔
ساکن حالت، سیدھی ( فلیٹ ) لائن پر آئیں:
تو پھر میرا طریق (روحانی طریقت ) اور میرا راستہ اُس رضا سے ملنا ہے ، اپنی خواہش کو اس ہدایت کے ساتھ ملانا ہے جو اس فون کے ذریعہ آرہی ہے۔ " أَطِيعُواللَّه وَأَطِيعُوٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُم" ، اللہ عزوجل کی اطاعت ایک اشارے اور نشانی کے طور پر سیدنا محمد (ﷺ )کے قلب پر آرہی ہے۔ سیدنا محمد (ﷺ )کے مقدس قلب سے ہو کر اولی الامر تک ، وہ جو امر (حکم) پر عمل پیرا ہیں۔ اولی الکتاب (کتاب کے لوگ) نہیں ، اللہ (عزوجل) نے نہیں کہا تھا ‘میں آپ کو کتابیں پڑھنے والے لوگوں کے پاس بھیج رہا ہوں۔ اولی الامر ایک بہت ہی مخصوص لفظ ہے ، کہ وہ الف-میم-را (ا م ر) سے ملبوس ہیں۔ وہ جنہوں نے کتاب سیکھی اور کتاب سیکھائی۔ مطلب یہ را (ر) ، (ا) الف کو سمجھ گئے۔ ہر عزت اور اعزاز ، ہر علم اور حقیقت اس الف (ا) سے آتے ہیں ، سیدنا محمد (ﷺ )کے وجود اور حقیقت اور وسیلے کے ذریعے ، جسے محمداً قلب ، محمداً راستہ کہا جاتا ہے۔ حقیت المحمدیہ (محمداً حقائق)، کوئی کہتا ہے کہ ‘ہم نے کبھی محمداً نہیں سنا‘ ، کیونکہ شائد آپ اچھی طرح سے عربی نہیں پڑھتے ہیں اور پوری عربی دنیا جانتی ہے کہ وہاں ایک حقائق (حقیقت) ہے جو حقائق المحمدیہ کہلاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ (عزوجل) نے انہیں رَبَّانِيِّينَ بنادیا (لہذا) آیت الکریم میں اللہ عزوجل فرماتا ہے رَبَّانِيِّينَ میں سے ہو جاؤ
وَلَـٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ ﴿٧٩﴾…
3:79 – “…wa lakin kono rabbaniyena bima kuntum tu`allimoonal kitaba wabima kuntum tadrusoon.” (Surat Ali-Imran)
“…Be Lordly Souls/faithful servants/worshippers of Him, Because (of what) you have taught the Book and you have studied it earnestly.” (Family of Imran, 3:79)
“ ربانی ہو جاؤ کیونکہ تم کتابِ (خدا ) پڑھتے پڑھاتے رہتے ہو۔ “ (سورہ ال عمران : 79)
اللہ (عزوجل) اس بات کا اشارہ دے رہا ہے کہ یہ میرے اولی الامر ہیں۔ وہ سمجھ گئے کہ اللہ(عزوجل) کی کتاب سیدنا محمد (ﷺ )ہیں ، (جو کہ) میم (م) ہیں۔ أَطِيعُواللَّه الف (ا) وَأَطِيعُوٱلرَّسُولَ میم (م) وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ را (ر) ہے۔ وہ سمجھ گئے کہ اللہ کی کتاب سیدنا محمد (ﷺ )کی حقیقت ہے ، جو اللہ کی ایک ہمیشہ زندہ رہنے والی کتاب ہیں۔ انہوں نے اِسے جانا ، اور اب انہیں اس سے سیکھایا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہ کتاب ان کے دل سے بول رہی ہے ، ان کی آنکھوں سے بول رہی ہے ، زبان سے بول رہی ہے ، کانوں سے بول رہی ہے ، اس کا مطلب ہے کہ ان کی ساری صلاحیتیں اس میم (م) سے ملبوس ہو رہی ہیں۔ تو نتیجے کے طور پر ہر علم اور حقیقت دی جارہی ہے۔ اگر آپ اُس سمجھ اور اُس سطح پر وائیبریٹ (لرزش) کر رہے ہیں تو اللہ (عزوجل) آپ کو ہدایت کے لئے بھیج رہا ہے۔ تو پھر کیسے اِن اولی الامر کے ساتھ جڑا جائے۔ ، ایک جو یہ اولی الامر میرے لیئے ارادہ رکھتے ہیں ، اس کے مقابلہ میں ،جو میں اپنے لئے ارادہ رکھتا ہوں— کیسے یہ ( دو ارادے) ملائے جائیں ۔ جب میرا (ارادہ شیخ کی مرضی سے) مل جاتا ہے تو میں اوپر اور نیچے ، ڈولتا ہوتا ہوا محسوس نہیں کرتا ۔
وہ لوگ جو طب کو سمجھتے ہیں ، آپ مریض پر 'ای کے جی' کرتے ہیں تاکہ یہ دیکھیں کہ وہ ٹھیک ہیں یا نہیں اور اُنکے دل کی دھڑکن کو دیکھ سکیں۔ پہلے تو ہر جواب ، ہر رپلائی ، ہر رہنمائی اور ہر تفسیر آپ کے دل کے سگنل کو مضطرب ( ڈنواں ڈول) کر دیتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ، یہ آپکو تناؤ اور سختی کا شکار کر دیتی ہے ۔ ‘وہ ایسا کیوں کہتے ہیں، وہ یہ کیوں سیکھاتے ہیں ، ان سب چیزوں کا کیا ہو گا جن کی میں امید کر رہا ہوں؟ اور وہ سب چیزیں جو میں نے خریدنے اور بنانے کے بارے میں سوچا ہے اور اور یہ اور وہ’۔ آپ کے دل کے مانیٹر پر (دھڑکن کی ) لائن اوپر جاتی ہے ، واہ! بہت اوپر (شیخ آواز نکالتے پیں ( بہت خوشی ہوتی ہے ۔ اگلے بیان پر ، اوہ ! (شیخ آواز نکالتے ہیں) ، وہ بے حد نیچے آ جاتی ہے۔ بے حد اوپر، بے حد نیچے ۔ لہذا اب آپ کے دل کی دھڑکن غیر یقینی ہے۔ یہ اوپر جا رہی ہے ، نیچے جا رہی ہے ، یہ اوپر جا رہی ہے ، یہ نیچے جا رہی ہے ، جسے ہم آپ کی بائی پولر حالتBipolar state(ذہنی مرض) کہتے ہیں۔ ماہرین نفسیات یہ پسند نہیں کرتے ہیں (اور) کہتے ہیں کہ ’بائی پولر واقعی ایک خطرناک بیماری ہے‘ ، ہاں یہ بھی (خطرناک) ہے [شیخ ہنستے ہوئے]۔ کیونکہ آپ ان لوگوں کے ساتھ کبھی ملیں وہ واقعی خطرناک ہیں۔ ٹھیک ہے ، لہذا آپ کو رہنمائی مل رہی ہے ، آپ غیر یقینی ہو رہے ہیں۔ آپ لڑ رہے ہیں ، آپ اُنہیں رات کو سن رہے ہیں اپنے کمرے میں خود سے لڑتے ہوئے ‘میں ان کی پیروی نہیں کروں گا ، میں ایسا نہیں کروں گا۔ یہ اس طرح کیوں ہے ، وہ اس طرح کیوں ہے۔ ’تو دھڑکن اوپر جاتی ہے ، دھڑکن نیچے آتی ہے ، دھڑکن اوپر جاتی ہے ، دھڑکن نیچے آتی ہے ، لہذا سب کچھ بگڑ جاتا ہے۔ تو اب وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں فلیٹ لائن (مانیٹر پر دھڑکن کی سیدھی لائن) کے قریب تر ہو جاؤ۔ جب آپ جانتے ہو کہ آپ اپنے طریق (روحانی راستہ) کے قریب آرہے ہیں ، جب آپ کا طریق کانٹوں سے بھر جاتا ہے۔ آپ اوپر اور نیچے جاتے ہیں ، آپ ناراض ہیں ، آپ خوش ہیں ، آپ ناراض ہیں ، آپ خوش ہیں۔ اور اگر آپ واقعی اِن لوگوں کو دیکھیں گے تو وہ دو قطبی (bipolar) ہیں۔ وہ ایک دن مکمل خوش ہوتے ہیں اگلے دن پوری طرح پریشان ۔ ‘میں حاصل نہیں کرسکا ، ایسا نہیں ہوا جس طرح میری خواہش تھی' ، آپ خود کو ہر طرح کی وجوہات سے متاثر ہونے دیتے ہیں ۔
تو ہم کیسے جانیں کہ ہم اس طریق پر (کچھ ) حاصل کر رہے ہیں ، کیونکہ طریق (راستہ )بہت ہی چھوٹا ہے۔ آپ کی مرضی سے آپ کے شیخ کی مرضی تک—یہ آپ کا سارا راستہ ہے۔ اگر آپ اس سے میل کھاتے ہیں اور آپ اس تک پہنچ جاتے ہیں تو آپ فلیٹ لائن پر پہنچ جاتے ہیں۔ آپ نہ تو پرجوش ہیں اور نہ ہی افسردہ ، کیوں کہ آپ جانتے ہیں کہ جوش و خروش کے ہر لمحے میں کل کی ایک مشکل چھپی ہے۔ [شیخ ہنستے ہوئے] تو جوش کس بات کا۔ یہ بہت تھوڑی دیر کیلئے ہوتا ہے۔ اور ہر قسم کا غم اور افسردگی اللہ (عزوجل) اُسے دور کردے گا ، اگلا دن بہتر ہوگا۔ کیوں کہ آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے تسلیم کر لیا اور آپ نے خود کو پیش کر دیا ہے ، اور اس حالت میں اب کوئی مزید بے حد اوپر یا بے حد نیچے نہیں ہوتا ۔ آپ فلیٹ لائن کے قریب تر ہو رہے ہیں۔ اور پھر ڈاکٹر جانتے ہیں ، اور طب جانتا ہے کہ فلیٹ لائن کیا ہے؟ تم مر چکے ہو. اور سیدنا ابوبکر صدیق( علیہ السلام) نے ہمارے راستے کے بارے میں کیا فرمایا؟ "موت قبل الموت (موت سے پہلے کی موت)" ۔ کیوں (موت) ، کیونکہ مردہ آدمی کی نبض تسلیم میں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ خود کو نقصان پہنچا ؤ ، اس کا لفظی مطلب نہیں ہے، وہ لوگ جو لفظی معانی سنتے ہیں ۔ لیکن اللہ (عزوجل) کی مرضی کا مکمل مقابلہ کرنا، اللہ (عزوجل) کی مرضی کے تابع نہ ہونا ، اپنی خواہش کا اتنا مضبوط ہونا کہ کوئی مجھے کچھ نہیں کہہ سکے۔ اللہ (عزوجل) چاہتا ہے کہ اس کو کچل دیا جائے۔ کہ اُسے اوپر اور نیچے سے کچل دیا جائے اور اسے اپنی سیدھی لائن پر لایا جائے، پرجوش نہیں غمزدہ نہیں بلکہ تسلیم (تابع) میں۔ کیونکہ اللہ (عزوجل) فرماتا ہے کہ ‘وہ لوگ جو ہمارے راستے میں مارے گئے وہ زندہ ہیں'۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ﴿١٥٤﴾
2:154 – “Wa la taqolo liman yuqtalu fee sabilillahi amwatun, bal ahyaon wa lakin la tash’uroon.” (Surat Al-Baqarah)
“And do not say about those who are killed in the way of Allah, “They are dead.” Rather, they are alive, but you perceive [it] not.” (The Cow, 2:154)
اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے (سورہ البقرہ 154)
This world is a deception , what you see isnt reality
یہ دنیا ایک فریب ہے ، جو آپ کو دیکھائی دیتا ہے وہ حقیقت نہیں ہے :
یہ دنیا متضادات کی دنیا ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ آپ اس دنیا میں زندہ ہیں ، آپ کو لگتا ہے کہ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اپنے کانوں سے سنتے ہیں ، نہیں آپ چلتے پھرتے مردہ (لوگ ) ہیں۔ آپ زندہ نہیں ہیں ، آپ کو کچھ نظر نہیں آتا ہے۔ آپ وہ انسان ہیں جو تالاب کے نچلے حصے میں ہے اور مردہ ہے۔ یہ زندگی نہیں ہے ، یہ زندگی نہیں ہے، یہ وہ غلیظ دنیا نہیں ہے جو اللہ (عزوجل) ہمارے لئے چاہتا ہے ۔ جو واقعی اس دنیا (مادی دنیا) میں زندہ ہیں ، وہ اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے دل کے کانوں سے سنتے ہیں۔ انہوں نے ایسی توانائیاں اور خوبصورت حقائق دیکھے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہےاللہ (عزوجل) بیان کرتا ہے کہ ‘وہ آپ کی دنیا میں زندہ ہیں ، باقی مردہ چل رہے ہیں۔’ اور چلتے پھرتے مردہ (لوگ ) فلم میں کیا کرتے ہیں؟ وہ ایک دوسرے کا گوشت کھاتے ہیں۔ ہمارے چلتے پھرتے مردہ ٹیلی ویژن میں دیکھیں ، یہ سب گوشت کھانے والے ہیں۔ ہمارے چلتے پھرتے مردہ ریڈیو کو دیکھیں ، یہ سب گوشت کھانے والے ہیں۔ اب یہ دن میں چوبیس گھنٹے ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ یہ چلتے پھرتے مردوں کا ٹھکانہ ہے ، یہ زندہ لوگوں کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ وہ جو واقعتا اپنی حیات تک پہنچے وہ فرشتے کی زندگی گزارتے ہیں اور اُنکی حقیقت فرشتے جیسی ہے۔ تو کیا؟ لوگوں کو "موت قبل الموت " کی طرف لے کر جانا ، فلیٹ لائن پر لے جانا۔ تاکہ وہ آپ کو ایک آسمانی روشنی میں زندہ کریں جس میں آپ اس زمین پر رہتے ہیں لیکن اپنی آسمانی حقیقتوں کے ساتھ۔ اپنے آسمانی دل کے ساتھ ، اپنی آسمانی سماعت کے ساتھ ، اپنےا آسمانی نظاروں کے ساتھ۔ ایک ایسا دل جو خدائی موجودگی سے ہے۔ اور وہ دل کیسا ہوگا؟ اس میں ذکر اللہ (اللہ کا ذکر) بھرا ہوا ہوگا۔ کیونکہ یہ وہی ہے جو سورہ فاتحہ سے ، اور سورہ فاتحہ کی تفسیر سے ہے ، اللہ (عزوجل) ان کو سورہ الفاتحہ کے ان سات مقامات (اسٹیشنوں) سے تیار کرے گا۔ جب وہ اوپر پہنچ رہے ہونگے اور وہ " الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ " حاصل کر لیں گے۔
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾
الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾
1:1-2 – "Bismillaahir Rahmaanir Raheem.
Alhamdu lillaahi Rabbil 'aalameen" (Surat Al-Fatiha)
"In the Name of Allah, the Most Beneficent, the Most Merciful. Praise be to Allah, the Lord of the worlds" (The Opener)
شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے ِ
سب طرح کی تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام مخلوقات کا پروردگار ہے (سورہ الفاتحہ)
جب اللہ (عزوجل) بندے کو آیت کریم (القرآن کی آیت) کے ذریعے ملبوس کرتا ہے ، کہ ہر چیز حمد (تعریف) میں ہے۔ اور ان کے لئے ہر لطف اور حقیقت اور طاقت حمد میں شامل ہونا ہے۔ اور یہی وہ انرجی اور برکت ہے جو انہیں حاصل ہوتی ہے۔ اور اگر آپ انھیں حد سے زیادہ حمد کے دائرے (حلقہ ذکر )سے دور رکھتے ہیں تو انہیں ایسا لگتا ہے جیسے وہ مر رہے ہیں۔
وہ ایسی مچھلی کی طرح ہیں جو (پانی سے ) باہر نکل چکی ہے اور وہ نہیں جانتے کہ کام کیسے کرنا ہے۔ اُنہیں ہر وقت حمد کے دائرے (حلقہ ذکر ) میں رہنا ہوتا ہے۔ انہیں حمد اور تعریف کے اس سمندر میں ہونا پڑے گا۔ " الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ " سے اوپر ، اللہ (عزوجل) انھیں کہاں لے کر جاتا ہے ؟ ﷽"۔ کیونکہ سورۃالفاتحہ کی آیات آخر سے سے پہلا باب (دروازہ) ہیں۔ آخری دروازہ اور اس کا انعام جو اللہ (عزوجل) اس بندے کو دینا چاہتا ہے وہ اُس کے بعد ہے جب” میں آپ کو '' الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ 'سے ملبوس کر دیتا ہوں ، کہ آپ حمد کی ہر حقیقت کا لباس پہنے ہوئے ہوں ، اب میں آپ کو " اولی الباب" ( دروازے کے محافظوں) کے پاس لے جاؤں گا۔ اسی لئے ان کی سطح اعلی حقیقت کی حامل ہے۔
ایک بار جب بندہ تمام مختلف دروازوں میں داخل ہو جاتا ہے ، تو پھر وہ کون سا دروازہ ہے جہاں اب اللہ (عزوجل) اُس کو لے کر جانا چاہتا ہے؟ اب با (ب) پر جاؤ۔ اب ہمیشہ کے لئے علم کے شہر میں داخل ہو جاؤ۔ آپ کی روح ہمیشہ کے لئے علم کے شہر میں داخل ہوتی ہے۔ اس ب (با) کے نگران اور محافظ؛ (یعنی) " اولی الباب" کے پاس آؤ۔ اس ب (با) میں داخل ہو اور اس کے سارے علوم میں گُم ہو جاؤ۔ اور ب (با) کے نیچے ہر چیز ایک نقطے اور اس طاقت میں موجود ایک ڈاٹ کی طرح ہے۔ یعنی ہر وہ چیز جس سے اللہ (عزوجل) چاہتا ہے کہ بندے کو حقائق کے ساتھ ملبوس کرے، بندے کو حقائق سے نوازے ۔
تو پھر ہمارا طریق (راہِ طریقت ) اتنا ہی مختصر ہے جتنا کہ اُن کے مشوروں پر عمل کرنا اور اِس ایک چھوٹے سے اینچinch جتنی جگہ کے برابر مشکل ہے [شیخ شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے لائن کی نشاندہی کرتے ہیں]۔ کہ کیسے اُن کے مشوروں پر عمل کرنا ہے اور اپنی مرضی کی پیروی نہیں کرنی ۔ ہر سمجھ میں اپنی مرضی سے مداخلت نہ کریں۔ ہر سمجھ اور تعلیم اپنے دماغ میں داخل نہ ہونے دیں ، یہ پہلے ہی ختم ہوجائی گی۔ اس پر ہم نے پہلے بیان دیا ہے ۔ ان سے رہنمائی کیسے حاصل کی جاۓ اور اسے اپنے دماغ میں داخل نہ ہونے دیا جاۓ۔ جہاں آپ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ ‘ یہ کیسے ہونے والا ہے ، میں یہ کیسے کروں گا ، یہ ایسا کیوں ہے ، یہ ویسا کیوں ہے‘ ، یہ ہدایت پہلے ہی آپ کے دماغ میں گم ہو چکی۔ “کیوں اور کیسے” آپ کیلئے نہیں ہیں ، آپ کا کام محض یہ کرنا تھا۔ ‘کیسے’ ، جیسے ہی آپ کو ’’ کیسے ‘‘ کی سمجھ آجائے گی ، آپ کی سمجھ ختم ہو جائے گی۔ یہ (بات ) شیطان کے گھر میں داخل ہوگئی ہے جو آپ کا مغز (دماغ) ہے ، جو آپ کا سر ہے۔ یہ بات آپکے دل سے نکل گئی۔ ٹھیک ہے ، کیونکہ اولی الامر ، ان کو کمانڈ (حکم) ملتا ہے اور وہ کردیتے ہیں۔ وہ ایک مقبولیت کا ووٹ نہیں مانگتے ، 'کیا ہمیں یہ کرنا چاہئے ، کیا ہم کر سکتے ہیں ، کیا ہم یہ نہیں کر سکتے ہیں؟' تب وہ اولی المغز (دماغ کے افراد) ، دماغ کے لوگوں کا ٹھکانہ ہوگا۔ [شیخ ہنستے ہیں]. وہ اقوام متحدہ(United Nations) کی طرح ہو گا۔ کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ وہ دن اور ہفتوں تک بات چیت کرتے ہیں ، اور لکھتے ہیں ، لکھتے ہیں ، اور آخر میں وہ کسی بات پر راضی نہیں ہوتے ۔ کیونکہ یہ اولی المغز، دماغی لوگ ہیں۔ اولی الامر کو حکم ( امر ) آتا ہے اور وہ اسے پوری صلاحیت سے پورا کرتے ہیں ، تاکہ ان کا دل متحر ک ہوجائے ۔ زندگی میں یہ ہماری ساری جدوجہد بن جاتی ہے ، اسے سر (دماغ ) میں نہ جانے دیں ، اسے دل میں رکھیں۔ اسے اپنی پوری تیز رفتاری اور بہترین صلاحیت کے مطابق جیسا کر سکتے ہیں پورا کرنے کی کوشش کریں۔ اور یہ ہمارا طریق (راستہ ) ہے ، یہ بہت ہی چھوٹے سے چند قدم ہیں [شیخ ایک ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے دوسرے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں]۔
انشاء اللہ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ (عزوجل) ہمیں زیادہ سے زیادہ سمجھ عطا کرے اور اپنے آس پاس ہر چیز سے ترغیب لینے کی توفیق دے اور کچھ بھی ایسا نہیں جیسا آپکو دیکھائی دیتا ہے۔ یہ نہ سوچیں کہ آپ انٹرنیٹ دیکھتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ سڑکوں پر کیا ہو رہا ہے اور آپ کے خیال میں یہ دنیا بھر میں کیا ہورہا ہے ، ’اوہ اور اس بارے میں اور اُس بارے میں میری ایک رائے ہے'۔ ذرا محتاط رہیں ، کچھ بھی ایسا نہیں جیسا نظر آتا ہے۔ یہ جو کچھ ہورہا ہے وہ (فتنہ )شیطان کے گھر سےآرہا ہے۔ ہمارا کام اس حقیقت سے دور رہنا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ (عزوجل) ہمیں ملبوس کرے اور سیدنا محمد (ﷺ )کی محبت سے نوازے اور یہ محبت ایک ہدایت بن جاتی ہے جس میں ہمیں ہر قسم کی مشکل سے بچایا جاتا ہے۔
سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃَ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَالسَّلامُ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَبِحُرْمَةِ مُحَمَّدِ الْمُصْطَفیٰ وَبِسِرِّ سُورَۃِ الْفَاتِحَه
⚡For English:
https://m.facebook.com/1621830444573407/posts/3169496983140071/?d=n
⚡Watch Link:
https://web.facebook.com/shaykhnurjanmirahmadi/videos/582215665760073/
⚡Please Subscribe Now:
https://www.youtube.com/user/NurMir
⚡Please Like Our Main Page:
https://facebook.com/shaykhnurjanmirahmadi/