
Urdu – تذکرہِ حیاتِ مبارکہ حضرت شیخ شرف الدین الداغستانی (قدس اللہ سِرّہٗ) حصہ دوئم Ma…
تذکرہِ حیاتِ مبارکہ حضرت شیخ شرف الدین الداغستانی (قدس اللہ سِرّہٗ) حصہ دوئم
Mawlana Shaykh Sharafuddin ad Daghestani (Q)
(Part ii)
He Reported 42 Ahadith:
آپ 42 احادیث مبارکہ کے محدث ہیں:
حضرت مولانا شیخ شرف الدین (قَدس اللہ سِرّہٗ) نبی کریم ﷺ کے روحانی وارث تھے۔ اِس روحانی تعلق کی بناء پر آپ مقام الاحسان پرپہنچے ۔ آپ ق کا تعلق سیدنا المقداد بن الأسود الكندي )رضی اللہ عنہہ( کے خانوادہ سے تھا، جو سیدنامحمد ﷺ کے اصحاب میں سے ایک عظیم الشان صحابی تھے۔ جب آنحضور ﷺ مدینہ منورہ تشریف لے جاتے، سیدنا المقداد بن الأسود الكندي )رضی اللہ عنہہ( رسول کریم ﷺ کی نمائندگی کیلئے تعینات ہوتے ۔
حضرت مولانا شیخ شرف الدین (ق) 42 احادیث مبارکہ کے محدث ہیں جن میں سے ایک درج ذیل ہے: اللہ ( عزوجل ) کے حبیب، رسول کریم ﷺ نے فرمایا: "قیامت کے روز سورج مخلوق کے نزدیک کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ ایک میل پر آ جائے گا، اور انسان اپنے اعمال کے موافق پسینے میں پگّھر جائیں گے۔ کوئی تو ٹخنوں تک پسینے میں ڈوبا ہو گا، کوئی گھٹنوں تک، کوئی کمر تک اور کچھ کے منہ پسینے سے ڈھک جائیں گے۔ رسول کریم ﷺ نے اپنے دست ِمبارک سے اپنے منہ (رُخ ِانور) کی طرف اشارہ کیا ۔( صحیح مسلم )
حضرت مولانا شیخ شرف الدین ق کی پیٹھ (کمر) پر نبی کریم ﷺ کے دستِ مبارک کا نشان تھا۔ یہ مبارک پیدائشی نشان آپ کو اپنے آباؤ اجداد سیدنا المقداد بن الأسود الكندي رضی اللہ عنہہ سے وراثت میں ملا – جہاں نبی کریم ﷺ نے اپنا دستِ شفقت رکھا تھا ۔ اور سیدنا المقداد اور ان کی آل کیلئے دعا کی تھی۔ سیدنا شیخ شرف الدین ق کی پشت پر وہ نشان ہمیشہ روشن رہا، جیسے آپ کا چہرہ منور چمکتا تھا۔ آپ کو نبی کریم ﷺ سے سِرّ (راز) ملا تھا :کہ آپ اپنے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے، اتنا ہی واضح طور پر دیکھ سکتے تھے ، جتنا کہ سامنے دِکھائی دیتا تھا۔
آپ کے چچا ، حضرت شیخ محمد المدنی (قَدس اللہ سِرّہٗ)نے آپکو (خلافت دی) سلسلے کا جانشین مقرر کیا اور اپنے گاؤں کی قیادت سونپی۔ انہوں نےگاؤں کی توسیع کی تاکہ زیادہ مہاجرین پناہ لے سکیں ، سڑکوں کو وسیع کیا اور شہر میں پانی لائے۔ وہ روس سے آنے والے ہر مہاجر کا استقبال کرتے تھے، ان کی ضروریات کو پورا کرتے ، کھانا اور رہائش کی پیشکش کرتے اور بدلے میں کچھ نہیں مانگتے تھے۔ نتیجے میں ، ہجرت کرنے والوں کو روسیوں کیلئے چھوڑے ہوئے گھر کی جگہ ایک نیا گھر اور نئی سرزمین میں سکون ملا ۔ خاص طور پر ایک حیات حضرتِ شیخ کی صحبت میں شامل ہونے پر خوشی محسوس کر رہے تھے۔ جو تعلیمات داغستان میں فروغ پائیں اس سے سینکڑوں سال پہلے وسطی ایشیاء میں یہی تعلیمات ملتی تھیں ۔آپ کے ساتھ، آپ کے گاؤں میں ، آپکی موجودگی کی برکت سے، آپکی بابرکت شخصیت سے خدائی فضل و احسان، محبت اور مسرت ملی جو انہوں نے روسی فوجیوں کے ظلم و ستم سے کھودی تھی۔
From His Sayings
On Sultan adh-Dhikr (Dhikr of the Heart):
آپ کےاقوال زریں :
سلطان الذكر (ذکرِ قلبی ) کے بارے آپ ق نے فرمایا:
جو بھی اس مقام میں داخل ہوگا وہ اللہ ( عزوجل ) کے اسم مبارک کے جوہر کا روحانی مشاہدہ (تجربہ) کرے گا اور وہاں تلک پہنچ جائے گا۔ یہ تمام اسمائے مبارکہ کا سُلطان ہے ۔کیونکہ یہ تمام اسماء کےمفہوم کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور اِسی کی طرف تمام صفات پلٹ جاتی ہیں۔ یہ تمام صفات کے حاصلِ کلام سا ہے اور اسی وجہ سے اس کو اسم الجلالہ– سب سے بڑا اسم الاعظم کہا جاتا ہے –کیونکہ وہ اعلیٰ ترین ہے اور وہ پاک ہے اور وہ سب سے بڑی ذاتِ عظیم ہے۔ ذہنی عقل کے ذریعے ان بھیدوں کا ثمر حاصل کرنا، ناممکن ہے۔ انسانی جسم خدا کےمعنوی حقائق کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ انسانی بدن، اُس عجب ذاتِ واحد کی مملکتِ خفی تک پہنچ سکے۔
اہل مقصود کیلئے، صرف حیرت در حیرت ہے!!!
ایک بار جب وہ مخفی علوم کے اِن مقامات میں داخل ہوجاتے ہیں–تو وہ محوِ حیرت ہو کر کھوجاتے ہیں!!!
پھر اہلِ صفات کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ لوگ جو بہت اعلیٰ درجے کے ہیں کہ اُن میں سے ہر ایک پر اللہ کی ایک صفت کا صیغہ ِ راز ظاہر ہوتا ہے ، جو انہیں ڈھانپ دیتا ہے، انہیں سنوار دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی اُن کا اسم الجلالہ کے زیور سے سنگھار ممکن نہیں! جس میں تمام اسمائے مبارکہ شامل ہیں–ماسوائےتمام ننانوے صفات کے پوشیدہ راز (سرِ خفی ) میں داخل ہونے پر ۔ اُس وقت اُنھیں اُس مقام میں داخلے کی اجازت ملے گی جہاں اسم مبارک کا نور ہے ، وہ اسم جو سب اسمائے مبارکہ اور صفات مبارکہ کو گھیرے ہوئے ہے، وہ نام –اللہ– اُسکے نور سے گھونگھٹ اُٹھانے کی اجازت ہو گی۔
اگر سالک سب سے عظیم نام "اللہ" سے ذکر الٰہی جاری رکھتا ہے تو ، وہ ذکر کے ان مراحل سے گزرنا شروع کردے گا جو کے سات منازل ہیں۔ ہر سالک جو دن میں 5،000 سے 48،000 بار خاموشی سے اللہ کا ذکر کرتے رہتا ہے ، وہ اس مقام الا حسان تک پہنچ جائے گا جہاں اس کا ذکر کامل (بے عیب )ہوجاتا ہے۔ اُس وقت زبان کو حرکت دیئے بغیر وہ اپنا دل ” اللہ ، اللہ “ کے نام کی تلاوت کرتے ہوئے پائے گا۔ وہ اپنے اندر کی تمام گندگی جلا کر اپنی باطنی قوت کو تقویت بخشے گا ، کیوں کہ ذکر کی آگ کسی بھی قسم کی ناپاکی کو نہیں چھوڑتی ۔ اُن روحانیت کی طاقت سے چمکتے ہوئے زیورات کے سوا کچھ باقی نہ رہے گا۔
جب ذکر انکےقلب میں داخل ہوتا ہے اور اسے تقویت بخشتا ہے ، وہ عروج کی جانب بڑھتا چلا جائے گا جب تک کہ وہ اس مقام تک نہ پہنچے جہاں وہ مخلوق میں ہر شئے کا ذکر محسوس کرنے لگے۔ وہ ہر شئے کو اپنے ساتھ ذکر کرتے ہوئے سنے گا، اُس طور پر جیسے اللہ (عزوجل ) نے اُس کے مقدر میں چاہا ہے۔ وہ اللہ( عزوجل ) کی ہر تخلیق کا اپنا لہجہ اور دوسروں سے مختلف راگ سنتا ہے۔ کسی (ایک مخلوق کا ذکر) سُننے کا اثر دوسری ( مخلوق کے ذکر ) سنُنےپر نہیں پڑتا ، لیکن وہ ان سب کو بیک وقت اور واضح طور پر سنتا ہے اور وہ ذکر کے مختلف قسموں میں فرق کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
"جب سالک اس کیفیت سے گزرتا ہے ، ذکر میں ہمیشہ بڑھتا چلا جاتا ہے تو وہ مشاہدہ کرے گا کہ اللہ (عزوجل) نے جو بھی پیدا کیا وہ اُسی(سالک کے ) جیسا ذکر کر رہا ہے۔ اس وقت اُسے احساس ہوگا کہ وہ منفرد کامل وحدت پر پہنچ گیا ہے۔ ہر چیز ایک ہی ذکر کر رہی ہے اور ایک ہی لفظ استعمال کر رہی ہے۔ اسکے مشاہدہ سے کسی بھی طرح کے اختلافات مٹا دیئے جائیں گے ، اور وہ اسی سطح پر اپنے ساتھ ہر کسی کو ایک ہی جیسا ذکر کرتا ہوا پائے گا۔ یہ ایک میں سب کی کیفیتِ وحدت ہے۔ یہاں وہ شرک خفی کی تمام اقسام کو مکمل طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا اور ساری تخلیق واحد میں واحد کے طور پر ظاہر ہوگی– یہ اسکے روحانی سفر کے سات مراحل میں پہلا قدم ہے۔ "
"کیفیتِ وحدت سے وہ کیفیتِ وحدت کے جوہر کی طرف سفر کرے گا ، جس میں ہر ایک وجود ، فنا ہوجائے گا ، اور صرف اللہ کی وحدانیت ظاہر ہوگی۔"
"پھر وہ کامل سادگی کی بنیادی منزل کا سفر کرے گے ، جہاں وہ کسی بھی شبیہہ میں ظاہر ہونے کے قابل ہو جائے گا۔"
"وہاں سے وہ اس منزل کی طرف سفر کرے گا جسے اسما٫ کی منزل کہا جاتا ہے، یہ منزل رازوں کی ہے، جس میں تخلیقات کے نمونہ کو غیب سے ظاہر کی دنیا میں رونما کیا گیا ہے۔ اس سے وہ اسمائے مبارکہ اور صفات مبارکہ کے مدار میں تیرے گا اور وہ انکے تمام مخفی علم کو جان لے گا۔
“تب وہ مخفی در مخفی منزل کا سفر کرے گا–جو کچھ پوشیدہ ہے اس کا نچوڑ۔ اُسے وہ سب کچھ معلوم ہوجائے گا جو وحدتِ منفرد کی حیثیت سے پوشیدہ ہے۔ وہ اسکی ساری طاقتیں اور تمام اشکال دیکھے گا۔
"وہاں سے وہ نام اور اعمال کے جوہر کے کامل حقائق کی منزل کی طرف سفر کرتا ہے۔ وہ ان سب میں ، ان کے جزو(ایٹم) اور "کُل" میں ظاہر ہوگا۔ وہ انتہائی عظیم نام کے ساتھ ڈھانپا جائے گا اور عظمت کا تاج پہنا کر اس کو شان و شوکت عطا کی جائے گی۔
"پھر وہ اپنی شان دار ریاست سے دنیاوی جنت کی ریاستوں میں اللہ کے نزول (منزالہ) کا سفر کرتا ہے۔ وہ اسی منزل میں پہنچتا ہے ، جو دنیاوی مقام کے قریب ہے ، اس سے آگے ذاکر کے پاس اسکی تلاوت کے ذریعے پہنچنے کی کوئی حالت نہیں ۔ اس کے باطن میں صبح طلوع ہوتی ہے اور خورشیدِ کامل اس کے باطن میں طلوع ہوتا ہے اور اس کے جسم سے ظاہر ہوتا ہے ، جیسا کہ ذکر کے ذریعے، اس کے دل اور اُس کی روح میں ظاہر ہوا ہے۔ نتیجے میں ، جب اس کے جسم اور اعضاء میں خورشیدِ کامل ظاہر ہوگا تو وہ اس کیفیت میں ہوں گے جس کا ذکر حدیثِ قدسی ﷺ میں ہوا ہے–اللہ وہ کان (سماعت) بن جائے گا جس سے وہ سنے گا؛ وہ آنکھیں (بصارت )جس سے وہ دیکھے گا؛ وہ زبان جس سے وہ بات کرے گا ؛ وہ ہاتھ جس سے وہ تھامے گا؛ وہ پیر جس سے وہ چلےگا۔پھر وہ خود کو جان جائے گا، اور اعلانیہ کہے گا ، ”میں بے بس اور بالکل کمزور ہوں“۔’ کیونکہ اُس وقت وہ خدائی طاقت کو سمجھ جاتا ہے!
جب بھی آپ سے مشورہ کیا جاتا اگر آپ فرماتے " جو چاہے کرو" ، وہ شخص کبھی بھی کامیاب نہ ہوتا ۔ لیکن جب آپ فرماتے: "اِس طور کرو اور اُس طور کرو" تب وہ شخص کامیاب ہو جاتا۔
آپ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کبھی بھی ایسی کسی شئے کا تذکرہ کرنا پسند نہ کرتے جو گزر چکی ہوتی۔ انہوں نےکبھی بھی غیبت نہ سُنی اور غیبت کرنے والے کو اپنی مجلس سے خارج کر دیتے ۔یہ منقول ہے کہ جب بھی لوگ آپ کی صحبت میں بیٹھتے ، دنیا کی محبت ان کے دلوں سے مٹ جاتی۔وہ فرماتے تھے : "کبھی تلاوت یا ذکر کیے بغیر فارغ نہ بیٹھیں کیونکہ موت تمہارا پیچھا کر رہی ہے۔"
وہ فرمایا کرتے تھے: "انسان کے لئے خوشگوار لمحہ وہ ہے جب وہ مر جاتا ہے ، کیونکہ جب وہ مرتا ہے تو اس کے گناہ اسی کے ساتھ مر جاتے ہیں!!!"
آپ نے فرمایا: "ہر سالک جو دن میں روزے رکھنے ؛ رات کو عبادت میں جاگنے اور بھائیوں کی خدمت کی عادت اور تربیت نہیں رکھتا ، اُسے اس راہ میں کوئی بھلائی حاصل نہیں ہوگی۔"
شرف الدین الداغستانی(ق)کے حوالے سے امام الطریقہ حضرت شاہِ نقشبند ق کےاکتشاف:
Shah Naqshband’s Disclosure Concerning Shaykh Sharafuddin (Q)
آپ(ق)کے جانشین ، ہمارے شیخ الاکبر ، حضرت عبداللہ الداغستانی (ق) نے اپنی ایک مجلس کے دوران بیان فرمایا: “ایک بار ، میری ایک خلوت نشینی کے دوران ، شیخ شرف الدین میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے شاہِ نقشبند(ق) کی عظمت اور خصائص بیان فرمائے ۔ انہوں نے اُن(شاہِ نقشبند) کی ثناء فرمائی اور فرمایا کہ شاہ نقشبند کس طرح قیامت کے دن شفاعت فرمائیں گے۔ انہوں نے فرمایا، ‘اگر کوئی شاہِ نقشبند ق کی چشمانِ مبارک پر نگاہ دوڑائے تو وہ ان کو (وجد میں) گھومتے دیکھے گا ، سیاہ پر سفید اور سفید پر سیاہ۔آپ ق نے اپنی روحانی طاقت کو قیامت کے دن کیلئے بچایا اور اِس زندگی میں استعمال نہ کرنے کا عزم کیا ۔
"بروزِ حشر آپ ق اپنی دائیں چشمِ مبارک سے نور ظاہر فرمائیں گے جو باہر نکل کر ایک دائرے کی صورت آپ ق کی بائیں چشمِ مبارک میں داخل ہوجائے گا اور اس عمل کے دوران اجتماع میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو (اپنے ہالے میں) گھیرے گا۔جس جس تک بھی یہ نور رسائی حاصل کرے گا وہ جہنم سے نجات پائے گا اور داخلِ جنت ہوگا۔آپ قدس اللہ سرہ کی اِس شفاعت سے چار جنتیں پُر ہوجائیں گیں۔
“جب وہ اس عظیم واقعے کی وضاحت فرما رہے تھے تو میں نے ایک طاقتور کشف مشاہدہ کیا، جس میں، (حضرت شیخ عبداللہ الفائز الداغستانی ق) یومِ حشر کا مشاہدہ فرما رہے تھے اور حضرت شاہ نقشبند ق اپنی شفاعت کا نور بھیجتے ،اور لوگوں کو بچاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ جب میں اُس تصورِ(شفاعت)کا مشاہدہ کر رہا تھا ، مجھے شاہ نقشبند ق سے بہت زیادہ پیار محسوس ہوا ، اور میں اُن قدس اللہ سرہ کے پاس بھاگ کر آیا اور آپ قدس اللہ سرہ کے دستِ مبارک کا بوسہ لیا۔ پھر وہ مشاہدہ ختم ہوا اور میرے شیخ تشریف لے گئے۔ میں نے ذکر اور قرآن کریم کی تلاوت اور دعا کے ساتھ اُس دن کی خلوت نشینی کو جاری رکھا۔رات کے وقت ، جب میں نے نمازِ عشاء ادا کرلی، مجھ پر ایک خودفراموشی کی کیفیت طاری ہوگئی جس نے مجھے حالتِ مشاہدہ میں ڈال دیا۔ میں نے شاہ نقشبند قدس اللہ سرہ کو خلوت گاہ میں داخل ہوتے دیکھا۔ آپ قدس اللہ سرہ نے مجھ سے فرمایا، ’’میرے بچے، میرے ساتھ آؤ‘‘ تب میری روح نے مرا جسم چھوڑ دیا اور میں نے اپنے جسم کو نیچے ساکن دیکھا۔میں نے شاہ نقشبند حضرت شیخ محمد اویسی البخاری ق کی ہمراہی اختیار کی۔
"ہم نے زمان و مکاں کا سفر طے کیا ، جسمانی بصارت کی طاقت سے نہیں ، نہ ہی راستہ دیکھتے ہوئے جگہ پر پہنچے، بلکہ ایسی طاقت کا استعمال کرکے جس میں ہم کسی جگہ کے بارے میں (محض)سوچتے اور ہم وہاں پہنچ جاتے۔مسلسل تین راتیں اور چار دن (بغیر رکے)، ہم نے سفر کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔
تنہائی میں میرا معمول تھا کہ جب میں روزمرہ کی خوراک اور پانی چاہتا تو اپنے کمرے کا فرش کھٹکھٹاتا۔ نیچے سے دستک سن کر ، میری اہلیہ مجھے خوراک دے جاتیں۔ پہلے دن انہوں نے کوئی دستک نہ سنی۔ دوسرے دن انہوں(زوجہ) نے پھر کوئی دستک نہیں سنی۔ آخر وہ اتنی پریشان ہوگئیں کہ انہوں نے دروازہ کھولا اور مجھے وہاں ساکن پایا۔ وہ شیخ شرف الدین قدس اللہ سرہ کے پاس گئیں اور عرض کی ، ‘(حضرتِ شیخ! تشریف لائیےاور اپنے بیٹے پر نظرِ کرم فرمائیے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ پردہ فرما گئے ہوں۔ ’آپ قدس اللہ سرہ نے اُن سے فرمایا،" وہ زندہ ہے۔ واپس جاؤ ، اور کسی کو مت بتانا۔ وہ لوٹ آئے گا۔"
اُس زبردست طاقت کے ساتھ تین دن اور چار راتوں کے سفر کے بعد شاہ نقشبند ق رک گئے۔ آپ قدس اللہ سرہ نے فرمایا، 'کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کون ہے جو افق پر ظاہر ہو رہا ہے؟' بے شک، میں جانتا تھا ، لیکن حضرتِ شیخ کے احترام سے میں عرض گزار ہوا، "میرے آقا ق ، آپ بہتر جانتے ہیں۔" پھر جب وہ شخصیت قریب آئی اور مزید قریب آئی آپ قدس اللہ سرہ نے فرمایا، 'کیا اب آپ اِن بزرگ کو پہچانتے ہیں؟' میں نے پھر احترام کے ساتھ عرض کی، "اے میرے شیخ ، آپ بہتر جانتے ہیں ،" حالانکہ میں نے دیکھا کہ وہ میرے شیخ(مرشد پاک) ہیں۔ آپ قدس اللہ سرہ نے فرمایا ، "یہ آپ کے شیخ ، شیخ شرف الدین الداغستانی قدس اللہ سرہ ہیں"
"" کیا تم جانتے ہو کہ اِن(مرشد پاک) کے پیچھے وہ کون سی مخلوق ہے؟ (اس زمین کے سب سے اونچے پہاڑ سے بھی بڑی ایک دیوقامت مخلوق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ، جسے وہ رسی کے ساتھ کھینچ رہے تھے)۔ میں نے احترام کے ساتھ ایک بار پھر کہا ، ’’ اے میرے شیخ ، آپ بہتر جانتے ہیں۔ ‘‘ آپ قدس اللہ سرہ نے فرمایا ، ‘یہ شیطان ہے ، اور آپ کے شیخ مختار ہیں کیوں کہ اِس سے قبل کسی دوسرے شخص کو اِسکا اختیار نہیں تھا۔ چونکہ ہر ولی کو ایک خاص اختیار(عطا) کیا جاتا ہے ، اسی طرح آپ کے شیخ کو بھی اختیار عطا کیا گیا ہے۔ اپ(شیخ شرف الدین ق) کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر دن اور ہر رات میں ، ہر اس شخص کی طرف سے جو شیطان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے ، آپ کے شیخ اُن لوگوں کو اُن کے تمام گناہوں سے پاک کرنے ، ان گناہوں کو شیطان کے پیچھے پھینک دینے اور سب کو سیدنا محمد ﷺ کے حضور پاک و صاف پیش کرنے کے مجاز ہیں۔ پھر اپنی روحانی طاقت کے ساتھ ، وہ ان کے دلوں کو بلند فرمارہے ہیں ، ان کو بندگی کے لئے تیار فرما رہے ہیں ، تاکہ نور کے (اُس)دائرے میں (شامل)رہیں جس کو میں(شاہِ نقشبند) قیامت کے دن پھیلاؤں گا۔ میں اِس(شفاعت)کے ذریعے سے چار جنتیں بھروں گا۔یہ شیخ شرف الدین ق کی خصوصیت کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ ، جو لوگ ان چاروں جنتوں میں(داخل ہونے) سے رہ گئے ہیں وہ پیغمبر اکرم سرکارِ دوعالمﷺ کی شفاعت و اجازت سے،جن کو اللہ تعالی نے یہ اختیار دیا ہے،
شیخ شرف الدین ق کی شفاعت میں داخل ہوں گے ۔ یہ وہ زبردست اختیار ہے جو شیخ شرف الدین کو عطا کیا گیا ہے۔ جب وہ شیطان کے گلے کو جکڑے ہوے ہیں، وہ اس زمین پر گناہوں کے اثر کو محدود فرمارہے ہیں۔
تب آپ(شاہِ نقشبند ق) نے فرمایا،" اے میرے بیٹے ، آپ اِس محبت کو جو اپنے دل میں رکھتے ہو کاشت کر رہے ہو۔ جس طرح واٹر وہیل جو ایک کھیت کو سیراب کرتا ہے لیکن دو کھیتوں کو(بیک وقت) سیراب نہیں کرسکتا ، اسی طرح جو محبت آپ اپنے شیخ کے لئے بڑھا رہے ہیں وہ آپ کے شیخ کے لئے ہی ہونا چاہئے۔ اگر آپ اسے دو شیخوں کے درمیان تقسیم کرتے ہیں تو یہ واٹر وہیل(wheel) کی طرح ناکافی ہوسکتی ہے بالکل اُس واٹر وہیل کی مانند جو دو کھیتوں کو مناسب طریقے سے سیراب کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اپنے دل کو یہاں وہاں جانے کی آزادی نہ دیں۔ آپ کی یہی محبت گولڈن چین کے ذریعے مجھ تک پہنچے گی اور نبی کریمﷺ تک جاری رہے گی۔ اسے ہم دونوں کے مابین آدھے حصے میں مت تقسیم کریں۔ آپ کے شیخ امتِ محمدیہﷺ کیلئے، انسانیت کیلئے جو کچھ کر رہے ہیں، اُن سے پہلے کسی بھی ولی کو اُس کا اختیار نہیں دیا گیا ہے۔
“پھر شاہِ نقشبند ق مجھے چار دن اور تین راتوں تک اُسی طاقتور انداز میں دوبارہ سفر سے واپس لائے۔ میں(روح) دوبارہ اپنے جسم میں واپس آیا۔ میں نے محسوس کیا کہ میری روح اپنے جسم میں داخل ہورہی ہے اور میں اسے جسم کے عضودر عضو اور خلیہ در خلیہ (سیل) میں داخل ہوتے دیکھ رہا تھا اور اِس مشاہدے سے ہر سیل کی ذمہ داری جان رہا تھا۔ تب مشاہدہ ختم ہوگیا اور میں نے دستک دی کہ میرے جسم کو تقویت دینے کیلئے میری زوجہ کھانا اور چائے لائیں۔ شاہ نقشبند قدس اللہ سرہ کا یہ انکشاف میرے شیخ ، حضرتِ شیخ شرف الدین الداغستانی ق کے بارے میں تھا۔
شیخ شرف الدین ق کے شاگردوں میں سے ایک ، جن کی عمر 120 برس ہے اور برصا میں رہائش پذیر ہیں، ایسکیجی علی اُستا روایت فرماتے تھے،
"میرے شیخ ایک حیرت انگیز شیخ تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے جب میں نوجوان تھا ، میں استنبول میں تھا ، اور میں نے ابھی ہی شیخ شرف الدین کے حضور راہِ طریقت ہر قدم رکھا تھا۔ میں داغستان سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک دوست سے ملا لیکن وہ ضدی تھا اور تصوف پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ میں اس سے بات کروں گا اور اس کا دل نرم(کرنے کی کوشش) کروں گا اور اسے اپنے شیخ کی معجزاتی روحانی قوت کے بارے میں بتاؤں گا۔ اس کے برعکس ، وہ مجھے قائل کرنے اور میرے عقائد کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ میں نے اپنی تسبیح کو دیوار پر لٹکایا اور ذکر کرنا چھوڑ دیا۔ تقریباً جلد ہی ، میں اپنی نفسانی خواہشات کے زیرِ اثر آگیا اور دو بار میں نے گناہ کا ارتکاب کیا۔
“ایک ہفتہ کے بعد ، میں سرکیجی گیا اور میں نے شیخ(شرف الدین ق) کو راستے میں دیکھا۔ وہ بھی اپنے راشدیہ کے سفر پر اُسی ضلع(سرکیجی) میں پیدل گزر فرما رہے تھا۔ جب میں نے انھیں ایک طرف سے آتے دیکھا تو میں اُن سے بچنے کی کوشش میں دوسری طرف بھاگ گیا۔ جب میں نے اپنے آپ کو دوسری سڑک پر چھپا لیا تو مجھے اپنی کندھے پر ایک ہاتھ محسوس ہوا اور شیخ نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا، 'اے علی ، تم کہاں جارہے ہو؟' میں آپ قدس اللہ سرہ کے ساتھ واپس آگیا اور راستے میں، میں اس انداز میں سوچ رہا تھا ،کہ 'میں خود کو شیخ سے مزید نہیں چھپا سکتا اور شیخ مجھے (راہِ طریقت پر)دوبارہ واپس آنے(کی اجازت) نہیں دیں گے۔
ہم نے اسوقت تک (سفر)جاری رکھا جب تک کہ ہم کسی حُسین افندی نامی شخص سے نہ ملے۔ شیخ شرف الدین ق نے مجھ سے فرمایا، ‘جب آپ پہلی بار میرے پاس آئے تو میں نے آپ کی طرف نگاہ کی، اور میں نے آپ میں برا کردار دیکھا۔ ہر شخص میں اچھے کردار کے ساتھ برا کردار مخلوط ہے۔ جب آپ نے بیعت کی تو سبھی برے اعمال جو آپ نے پہلے انجام دیئے تھے میں نے انہیں اچھے افعال میں بدل دیا، ماسوائے دو چیزوں کے، جنسی خواہش اور غصہ ۔ پچھلے ہفتے ہم نے آپ سے وہ دو برے کردار ، خواہش اور غصے کو بھی دور کردیا۔ ’جب آپ قدس اللہ سرہ نے ان دو باتوں کا ذکر کیا تو میں جان گیا کہ وہ میرے ساتھ تشریف فرما، میری جنسی خواہش اور میرے غصے کو ملاحظہ فرما رہے تھے ، اور میں (ندامت و شرمندگی) سے اشک بہانے لگا اور رونے اور آہ و زاری و فریاد کرنے لگا۔جب میں رو رہا تھا ، شیخ شرف الدین ق اس شخص حسین کے ساتھ ایسی زبان میں بات کرنے لگے جو میں نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی، حالانکہ میں داغستان سے تھا اور میں اپنے علاقے کی تمام زبانیں جانتا تھا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ شیخ شرف الدین شامی زبان میں گفتگو فرما رہے تھے جو کہ ایک انتہائی نایاب زبان ہے۔
“دو گھنٹے کے رونے کے بعد ، آپ قدس اللہ سرہ نے فرمایا ،‘ بہت اشک بہا لیے! اللہ عزوجل نے آپ کو معاف کیا اور نبی ﷺ نے آپ کو معاف فرما دیا۔میں نے عرض کی اے میری میٹھے شیخ کیا واقعی آپ نے مجھے معاف فرما دیا؟ کیا نبی کریمﷺ نے مجھے معاف فرمایا؟ کیا اللہ عزوجل نے مجھے معاف فرمایا؟ کیا بیدار آنکھوں والےمشائخ(اہلِ فراست حضراتِ گرامی)نے مجھے واقعی معاف کر دیا ہے؟ میں نے سوچا کہ میں خود ہی کچھ کر رہا ہوں ، لیکن اب میں نے محسوس کیا ہے کہ آپ سب مجھے دیکھ رہے ہیں۔آپ ق نے فرمایا "اے میرے بیٹے، ہم دربارِ رسالت مآبﷺ اور دربارِ الہٰیہ کے سوالی ہیں ہم اُن سے جو بھی سوال کرتے ہیں ، وہ اِسی طرح قبول فرماتے ہیں جیسے ہم اُن کی حضوری میں موجود ہیں اور ہم ایک ہیں۔(فنا فی الرسولﷺ و فنا فی اللہ)
میں نے اظہارِ عقیدت کیلئے عرض کی کہ چونکہ اب میری توبہ قبول فرمالی گئی ہے مجھے اللہ عزوجل کے حضور اور تعظیمِ سرکارﷺ میں اور درِ مرشد پر شکرانے کا مناسب ترین اظہار کس طرح کرنا چاہیے؟
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا میلاد شریف منا کر ، یا کسی بھیڑ کا عطیہ کرتے ہوئے ، یا کچھ اور صدقہ دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا، 'ہم آپ سے جو چاہتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ : آپ طریقہ نقشبندیہ کے ذکر پر قائم رہو۔'یہ ہے جو شیخ شرف الدین قدس اللہ سرہ کی معیت میں میرے ساتھ ہوا"
ایسکیجیٰ علی اُستا کے دوستوں میں سے ایک جو اُن کے ساتھ داغستان سے ہجرت کرچکے تھے ،جب وہ داغستان میں تھے، تو انہیں شیخ شرف الدین ق کی طرف سے ایک خط موصول ہوا تھا ، جس میں لکھا تھا کہ "داغستان چھوڑ دو۔ اب وہاں مزید کوئی روحانیت نہیں، اب یہ روحانی حصار میں نہیں ہے، کیونکہ یہاں بہت زیادہ ظلم ہے۔ یہاں ترکی اور راشدیہ آجائیں۔" اَس شخص نے شیخ شرف الدین ق کا خط لے کر اُسے نظرانداز کرتے ہوئے ایک طرف رکھ دیا اور یہ سوچنے لگا کہ ،" میں اپنی ساری جائداد اور جو کچھ میں یہاں رکھتا ہوں اُسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ "جلد ہی روسیوں نے شہر فتح کرلیا اور اُس سے سب کچھ چھین لیا۔ پھر اُسے شیخ کا بھیجا ہوا خط یاد آیا۔ آخر کار وہ ترکی اور راشدیہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ اُس کی تاخیر کے نتیجے میں اس نے اپنے کنبے اور اپنی املاک کو کھو دیا تھا۔
ایک بار شیخ شرف الدین استنبول تشریف لائے اور ہوٹل مسرت میں قیام پذیر رہے۔ اُن سے شیخ ضیاء نامی بزرگ نے پوچھا ، "آپ کا وصال کیسے ہو گا؟؟" انہوں نے فرمایا ، "کیا یہ آپ کے لئے ایک اہم سوال ہے ، کہ میں کیسے مروں گا؟" انہوں نے کہا ، "یہ بات میرے دل میں آئی کہ یہ سوال پوچھو۔ "انہوں ق نے فرمایا،" جب آرمینیا سے حملہ ہوگا تب میں انتقال کر جاؤں گا ، اور اُس وقت ظلم کا دور دورا ہوگا۔ " پھر حضرت شیخ ضیاء نے اُس رات وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور اللہ سے دستِ سوال دراز کیا:
" اے اللہ عزوجل ، ہم سے مشکل ، آرمینینوں کا حملہ دور فرما اور ہمیں ہمارے پیارے شیخ بخش(واپس عطا کر) دیے جائیں۔ “ اگلے ہی دن شیخ شرف الدین (ق) نے اُن سے فرمایا ،" اے شیخ ضیا ، آپ ساری رات نماز پڑھتے رہے ہیں؟ آپ کی دعا قبول ہوگئی۔ یہ مشکل مجھ سے اٹھالی گئی ہے لیکن میری بجائے آپ مصائب کا شکار ہوجائیں گے اور بالاخر شہادت پائیں گے۔ ”ہوٹل میں ہونے والے اس واقعے کے آٹھ سال بعد ، آرمینی اور یونانی راشدیہ میں داخل ہوئے حضرت شیخ ضیاء أفندي کو گولی مار کر شہید کردیا گیا اور حضرت شیخ شرف الدین ق کی پشین گوئی پوری ہوئی۔
ایک بزرگ جناب یوسف أفندي، جو 1994 میں 100 سال کے تھے ، مندرجہ ذیل تذکرہ روایت فرماتے ہیں:
"ایک بار شیخ شرف الدین ق کو ایسکیشیر میں جیل بھیج دیا گیا تھا ، اور میں آپ ق کا محافظ تھا۔ اُس جیل میں ایک اور عظیم شخصیت تھی ، مشہور شیخ ، سعید نورسی قدس اللہ سرہ، مولانا شیخ شرف الدین ق کو اپنے خلیفہ ، شیخ عبد اللہ ق، اور دوسرے مردین کے ساتھ جیل بھیج دیا گیا تھا ، اور سعید نورسی ق کو بھی اُن کے مریدین سمیت جیل بھیجا گیا تھا۔ جب سعید نورسی ق کو شیخ شرف الدین ق کے اُسی جیل میں قید ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے مریدین کو آپ ق سے پوچھنے کے لئے بھیجا کہ کیا انہیں کسی چیز کی ضرورت ہے اور آپ ق کو مدد کی پیش کش کی۔ حضرت شیخ شرف الدین ق نے فرمایا ، "آپ کا شکریہ ، لیکن ہمارے پاس نہ کچھ ہے اور نہ ہی ہمیں کسی شے کی حاجت ہے۔"
"حضرت سعید نورسی ق کے یہ شاگرد بار بار مولانا شیخ شرف الدین ق کے پاس آتے رہے ، اور آپ ق سے پوچھا کہ کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟ وہ ہمیشہ نفی میں جواب فرماتے۔ ایک دن مولانا شیخ شرف الدین ق نے حضرت سعید نورسی ق کے مریدوں سے فرمایا کہ وہ اپنے شیخ سے پوچھیں ، ‘ہم یہاں کیوں ہیں؟’ حضرت سعید نورسی ق کے مرید، اُن کے پاس گئے اور اُن سے پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا ، ‘ہم یہاں سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے مقام، مقام اختیارِسکوت و خاموشی پر رسائی کیلئے موجود ہیں۔
جب انہوں نے یہ سوال پوچھا اور شیخ سعید نوری ق نے اپنا جواب دیا ، تو یہ بحث کا اختتام تھا۔
"اس تبادلے نے مجھے بہت پریشان کردیا اور میں گہری سوچ میں ڈ وب گیا۔ پھر میں نے شیخ سے عرض کیا ، ‘آپ کے یہاں ہونے میں کیا راز ہے؟’ آخر کار ، میرے اصرار پر، شیخ شرف الدین ق نے جواب عنایت فرمایا، ‘مجھے بہت سے لوگوں کے راز، یہ لوگ ، جو بلا وجہ جیل میں بند ہیں، اُٹھانے کیلئے یہاں بھیجا گیا تھا۔ میں ان لوگوں کی مدد و حمایت کر رہا ہوں۔ اللہ عزوجل نے مجھے یہاں بھیجا ، کیونکہ آپ سب یہاں جمع ہو چکے ہیں ، اور آپ کو جمع کرنا مشکل ہے۔ میں یہاں آپ کو الوداع کرنے کے لئے حاضر ہوں، کیونکہ جلد ہی ہم اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔ ہم آپ کے راز آپ کو پہنچانے جارہے ہیں۔ ہمارے لئے کوئی جیل نہیں ہے، ہم ہمیشہ حضور کی بارگاہ میں رہتے ہیں اور ہم کبھی بھی کسی جیل سے متاثر نہیں ہوتے۔ آپ سب، تھوڑی دیر کے بعد ، رخصت ہونے جارہے ہیں لیکن آپ دوبارہ ملیں گے۔ جب ایک اہم شخص کا انتقال ہو گا اور آپ سب اکھٹے ملیں گے۔ '' حضرت سعید نورسی ق کے مرید ، دوسرے قیدیوں نے اور جیلرز سب دھیان سے سن رہے تھے۔ "
وصال شریف:
His Passing:
تقریباً تین ماہ بعد آپ کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔ آپ نے حضرت شیخ عبد اللہ(ق) سے فرمایا: "میں جلد ہی اِس عالم سے پردہ کرنے والا ہوں، کیونکہ میں اپنی طاقت کا بہت سا حصہ سورۃ الانعام کے راز پانے میں صرف کر چکا۔" آپ نے اپنی وصیت تحریر فرمائی، اور حضرت شیخ عبد اللہ(ق) کو عرشِ ہدایت پر اپنا جانشین مقرر کیا۔ وصال سے تین روز قبل آپ نے سلطان الاولیا ، حضرت مولانا شیخ عبد اللہ الفائز الداغستانی (ق) اور اپنے کچھ دوسرے مریدین کو بلایا اور فرمایا: " تین ماہ سے میں سورۃ الانعام کے سمندر میں غوطہ زن ہوں، کہ اسکی آیات میں ایک آیت سے سلسلہ نقشبندیہ کے تمام اولیاء کے نام نکال سکوں ، جن کی تعداد 7007 ہے۔ الحمدللہ ، میں نے ان کے نام، القابات سمیت نکال لیے ہیں اور انہیں اپنی نجی کتاب میں درج کردیا ہے ، جو میں اپنے جانشین ، حضرت شیخ عبد اللہ (ق) کو دے رہا ہوں۔ اس میں اولیاء کے تمام مختلف گروہوں کے نام ہیں جو امام مہدی (علیہ السلام ) کے دور میں موجود ہوں گے۔
اگلے روز، آپ نےاپنے خلیفہ، حضرت شیخ عبداللہ الدغستانی ق کو بلایا اور اُن سے فرمایا:
" اے میرےبیٹے یہ میری وصیت ہے۔ میں دو دن کے بعد دنیا سے پردہ کرنے والا ہوں۔ نبی کریم ، حضرت سیدنا محمد ﷺ کے حکم پر ، میں آپ کو سلسلہ نقشبندیہ میں اپنی جانشینی اور ساتھ میں اپنے چچا جان سے ملنے والے پانچ دیگر سلاسل بھی تفویض کررہا ہوں ، ۔ سلسلہ نقشبندیہ اور دیگر پانچ سلاسل میں وہ سارے راز جو مجھے عطا ہوئے اور وہ تمام اختیارات جو مجھے میرے پیشواؤں نے عطا فرمائے تھے–وہ سب آپکو تفویض کرتا ہوں ۔ سلسلہ نقشبندیہ میں جن مریدین نے آپ سے بیعت کی ہے ، وہ دیگر پانچ سلاسل میں بھی بیعت ہو گئے –انہیں ان کے راز بھی حاصل ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ جلد ہی آپ کیلئے ترکی چھوڑنے اور دمشق (شام الشریف) جانے کی افتتاح ہوگی [اس وقت شدید لڑائی کی وجہ سے پہنچنا بہت مشکل تھا] ۔
حضرت شیخ عبد اللہ (ق) نے فرمایا: "انہوں نےمجھے یہ وصیت فرمائی اور میں نے اسے چُھپانے کی کوشش کی جیسے میں خود کو چھپانا چاہتا تھا۔"
آپ کا وصال شریف 27 جمادی الاول ، بروز اتوار ، 1355 ھ ( 1936 عیسوی) کو راشدیہ شریف میں ہوا۔ آپ کے جسدِ اطہر کو راشدیہ کے قبرستان میں پہاڑ کی چوٹی پر سپردِ خاک کردیا گیا۔ اُن کی مسجد اور زاویہ آج تک کھلے ہوئےہیں ، اور بہت سارے لوگ انکی زیارت کی سعادت اور برکات حاصل کرنے جاتے ہیں۔ وہی تسبیح کے دانے جن پر حضرت شیخ شرف الدین ختم خواجگان (مرشدین کا ذکر) کرتے تھے وہ اب بھی دیوار پر لٹکے ہوئے ہیں۔
ہمارے شیخ الاکبر ، حضرت شیخ عبداللہ (ق) ، سیدنا شیخ شرف الدین (ق) کے خلیفہ اور جانشین کا فرمان ہے: "جب حضرتِ شیخ کی وفات کی اطلاع ملی تو سب آپ کے گھر آپ کی زیارت کی برکات لینے آئے۔ یہاں تک کہ نئی جمہوریہ ترکی کے صدر اتاترک نے بھی ایک وفد احترام میں روانہ کیا۔ ہم نے مولانا کے جسدِ مبارک کو غسل دیا۔ جب ہم نے انہیں غسل کیلئے لٹایا ، تو انہوں نے اپنے ہاتھ اوپر بڑھائے کہ پانی کا پیالہ بن جائے، جب ہم نے غسل دیا، انکےتمام مریدین اس رسم ِ طہارت کا پانی آکر پیتے تھے۔ جب ہر مرید تبرک لے چکا ، تو انہوں نےاپنا دستِ مبارک واپس اصل جگہ رکھ دیا۔یہ انکی کرامات کے سمندر سے ایک کرامت تھی ، اور یہ بعد از وصال ظاہر ہوئی۔
اگلے دن جب ہم نے اُن کا جسدِ مبارک دفن کیا ، تو اُن کی آخری رسومات میں تین لاکھ سے زیادہ لوگ حاضر ہوئے اور شہر لوگوں کی بھیڑ کو جگہ نہیں دے سکا۔ وہ" یلوفا "،" برصا" اور "استنبول" سے آئے تھے۔ یہ ایک بہت بڑا مجمع تھا اور سوگواران کا ایک بہت بڑا جمِ غفیر اُمڈ آیا۔ مرد حضرات رو رہے تھے ، خواتین رو پڑیں اور بچے بھی رو رہے تھے۔ اللہ عزوجل ہر عہد اور صدی میں اپنے اولیا کے درجات بلند فرمائے۔
اُن کے ایک مرید ، جناب یوسف افندی نے کہا ، "یہ سچ ہے کہ ہم نے خود کو آپکے تمام مریدین کے ساتھ کبھی بھی ایک ہی جگہ نہیں پایا ( کیونکہ ) بہت سارے لوگ تھے – لیکن ان کی وفات کے وقت ، تمام شہروں– برصا ، اداپزر ، یلوفا،استنبول ،ایسکیسہر ، اور نغازی ، ازمیر –میں آپ کی وفات کی خبر پہنچی اور ان شہروں کے سب لوگ آپکی نماز جنازہ پڑھنے کے لئے جمع ہوئے۔"
حضرت شیخ شرف الدین (ق) کی بہت سی تصانیف ہیں ، لیکن سب کُتب جنگِ بلقان میں کھو گئیں۔ اس کے باوجود ،آپ کے خاندان میں سلسلہ نقشبندیہ کے اسرار پر مشتمل بہت ساری دستاویزات باقی ہیں ۔ مریدین وہاں ان کُتب کو پڑھنے جاتے ہیں۔ انہوں نےاپنا راز (سِرّ) اپنے جانشین ، سلطان الاولیا ، مولانا و سیدنا شیخ عبد اللہ الفائز الداغستانی(ق)سونپا ہے ۔
2/2