
Urdu – Tafsir Quran 72:16 Keep Your Tariqat—Stay Firm on your Spiritual Path طريقة …
Tafsir Quran 72:16
Keep Your Tariqat—Stay Firm on your Spiritual Path
طريقة (روحانی سلاسل) اپنایئے— اپنے روحانی راستے پر استقامت رکھیں۔
﷽
وَأَن لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاءً غَدَقًا۞
اور یہ ( اللہ نے وحی کی ہے ) کہ اگر وہ طریقت (راہِ حق) پر قائم رہتے تو ہم انہیں بہت سے پانی / بارش کے ساتھ سیراب کرتے۔
سورۃ الجن(72) آیت 16
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنِ وَالصَّلاۃُ والسَّلامُ علیٰ اَشْرَفِ الْمُسْلِمِیْنْ سَیِّدِنَا وَ مَولَانَا مُحَمَّدٌ المُصْطَفَیٰ ﷺ بِمَدَدَکُم وَ نَظَرَکُم سَیِّدِی یَارَسُولْ کَرِیْم یَا حَبِیْبُ الْعَظِیْمْ، اُنْظُرْ حَالَنَا وَ اِشْفَالَنَا وَ بِمَدَدَکُمْ۔ مَدَدْ یَا سَیِّدِی، یَا سُلْطَانُ الْاَوْلِیَا مَولَانَا شَیْخْ عَبْدُ اللّہ اَلْفَائِزْ الدَاغِسْتَانِی، مَولَانَا شَیْخْ مُحَمَّدْ نَاظِمْ الْحَقَّانِی، سُلْطَانُ القُلُوبَنَا مَولَانَا شَیْخْ ہِشَّامْ قَبَانِی، مَدَدْ اَلْحَقْ یَا حُجَّتُ اللہ الْمُخْلِصْ۔
اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۞
اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۞
اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے
وَ أَطیعُوا اللّٰهِ وَأَطیعُوا الرَّسُول وَأُولی الأمرِ مِنْکُمْ۞
اے ایمان والو! اللہ )عزوجل( کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی۔
اور ہمیشہ اپنے لئے ایک یاد دہانی کہ اَنَا عَبْدُكَ الْعَاجِزُ، ضَعِیْفُ ، مِسْکِینُ وَ ظَالِمْ وَ جَھَلْ ]یا رب، میں آپ کا بندہِ عاجز، ضعیف، مسکین اور ظالم اور جاہل ہوں) [ لیکن اللہ (عزوجل) کے فضل سے ابھی تک زندہ
ہوں اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ( عزوجل )ہمیں راہِ فقر میں قبول فرمائے۔
9th Surat is At-Tawbah (Repentance)
Start Muharram with an intention to Leave Bad and Move Towards Goodness
ہر مہینے کا ایک باب (دروازہ) ہوتا ہے اور دروازے کے دربان ، اہل باب، وہ اولیاءاللہ کو اور اولیاءاللہ کے پیرکاروں کو ان 12 دروازوں سے گزارتے ہیں۔ جس میں سب سے پہلا( دروازہ) ذوالفقار (دو دھاری تلوار) کے ساتھ امام علیؑ ہیں ۔ اور آخری (دروازہ ) سیدنا مہدی ؑ کے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ چاند کے حقائق ہیں اور قمر (چاند) کے راستے پر سفر کرنے کے( حقائق ہیں)۔
پہلا مہینہ اور 9 کی سلطنت ، 9 کی طاقت ؛ اور قرآن کریم کی 9 سورۃ توبہ ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں ہے ۔ تو یہ دروازہ حقائق کا دروازہ ہے— ایک ایسا دروازہ جس میں ذبیحہ (قربان) ہونا ہے ، خاک ہونا ہے ۔ یہ راہِ معارفت ظاہری (شکل ) کو اجازت نہیں دے گا اور نہ ہی دماغ کو اجازت ملے گی ۔ تو محرم کا پہلا مہینہ باب التوبہ ہے۔ تو محرم (میں ) تمام تر مشکلات سے اللہ (عزوجل ) کی ہر قوم کو نجات عاشورہ ( 10 محرم کے دن ) ملی ۔تو یعنی محرم اور محرم کی اہمیت یہ ہے کہ آپ قدم بڑھاتے ہیں اور اللہ ( عزوجل ) سے مانگتے ہیں: 'یا ربی ، مجھے آپ کی طرف جانے والے راستے پر چلا دیجئے کسی حرام کے بغیر ، میں برا ئی چھوڑنے اور بھلائی کی طرف ہجرۃ (ہجرت) کرنے کا طلبگار ہوں۔
8th Holy Month is Shaban – 9 x 8 = 72 is Reflection of 27
Malakut Controls the World of Form
دوسرا مہینہ آتا ہے اور 9 کو دوسرے مہینے سے ضرب دینے پر 18 کی طاقت کھل جاتی ہے۔ اور قرآن کریم کی 18 سورۃ غار( الکھف) ہے۔ لہذا ہم اس میں کئی بار داخل ہوئے ، صرف ہمارے سمجھنے کیلئےکہ یہ آٹھواں مہینہ (شعبان) ہے۔ اور آٹھ کو نو سے ضرب دینے پر 72 حا صل ہوتا ہے۔ 72 عکاس ہے 27 کا ۔ اور ہر مقدس رات 27 تاریخ کو ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 72 کا راز آسمان (ملکوت ) سے ہے۔ غیب کی دنیا سے ہے— نہ کہ نظر آنے والی دنیا سے کیونکہ ہمارے پاس مُلک (مادی دنیا) ہے— بلکہ ملکوت سے اور ملکوت وہ ہے جو مُلک کو کنٹرول کرتا ہے۔ غائب ، نظر آنے والی دنیا کو کنٹرول کرتا ہے۔ نظر نہ آنے والے ایٹم ، الیکٹران ، وہ شکل پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ ہم صرف اس فارم کو سمجھتے ہیں کیونکہ ہم اپنی حقیقتوں میں نہیں جا رہے ۔ اللہ ( عزوجل ) نے سورۃ یاسین میں اس کی وضاحت کی ہے ’’ كُلِّ شَيْءٍ ‘‘، ملکوت میں ہر شئے ہے اور اس میں ساری طاقت ہے۔ یہ اس مادی دنیا کو کنٹرول کر رہا ہے۔
﷽
فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ۞
پس پاک ہے وه اللہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور جس کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے۔
سورۃ یسین (36) آیت 82
72nd Name of Allah [AJ]— Al-Mu’akhir (the Delayer)
72nd Name of Prophet [saws] — Al Makin (the Firm)
اسماءاللہ الحسنیٰ72 — المؤخر جل جلاله
[جسے چاہے پیچھے کر دینے والا، موخر کرنے والا]
نبی کریم ﷺ کا بہترواں72 اسم مبارک
[سیدنا مکینﷺ [مضبوط
جیسے ہی ہم نبی کریم (ﷺ) کے ماہِ مبارک، شعبان المعظم کے مہینے میں داخل ہوتے ہیں ، پھر دروازے کے لوگ (اہل باب) ، ہمیں 72 سورۃ کی طرف راغب کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ توجہ دو اور اس سورۃ سے پڑھیں اس کا معانی سمجھیں ۔ یہ اس گیٹ کی تفصیل دے گی جس میں آپ داخل ہو رہے ہیں۔ اللہ ( عزوجل) کا 72 اسماءاللہ الحسنیٰ المؤخر (جل جلاله) ہے ۔ اور سیدنا محمد (ﷺ) کا 72 نام ، دلائل الخیرات میں، سیدنامکینﷺ [مضبوط] ہے۔ لہذا ، اس کا مطلب ہے پھر یہ اسرار ، یہ ادراک (ہیں) جیسے وہ اس دروازے میں داخل ہورہے ہیں۔
پھر ان کا راستہ قرآن کریم پر مبنی ہے۔ تو سورۃ الجن اس کے بعد اس ملکوت کی حقیقت کو بیان کرنے جارہی ہے اور اس راہ کے بندے کیلئےکیا چیز بن کے ابھر رہی ہے۔ کہ وہ غار میں داخل ہوئے (دوسرے مہینے) ، انہوں نے 27 اور بادشاہت کو سمجھا اور کس طرح بادشاہت کی حقیقتوں کو حاصل کیا جائے (تیسرا مہینہ میں ) وہ 36 ویں میں چلے گئے ۔ جو قران پاک کا دل تھا (چوتھا مہینہ) ۔ سیدنا محمد ( ﷺ ) کا دل تھا، سیدنا یسین (ﷺ) ۔ اور اب شعبان کے مہینے میں (آٹھویں مہینہ) داخل ہوئے۔
Be Loving Even to the Hand That Crushes You
|اِس ہاتھ سے بھی پیار کرو جو آپ کو کچلتا ہے|
اور اللہ (عزوجل) اور نبی کریمﷺ اور اولیاء اللہ کی یہ تعلیمات ہیں، انہوں نے ہمیں امام علی (علیہ السلام )کے ایک قول سے یہ سمجھایا کہ محبت کریں، حتیٰ کہ اُس ہاتھ سے بھی جو آپ کو کچلتا ہے، "اس ہاتھ سے بھی پیار کرو جو آپ کو کچل دیتا ہے۔"
كُنْ كَالزَّهْرَةِ الَّتِيْ تُعْطِيْ عِطْرُهَا حَتَّى لِلْيَدِ الَّتِي تَسَحَّقُهَا – الإمام علي بن أبّي طالب
"وہ پھول بنو جو اپنی خوشبو اُس ہاتھ تک بھی پہنچاتا ہے جو اُسے کچل دیتا ہے"(امام علی علیہ السلام)
یہ راہ آسان راہ نہیں ہے ۔ یہ راہ مادی دنیا کے شعور سے ہرگز نہیں ہے۔ اگر آپ اِسے کسی مادی شخص کو سمجھانا چاہیں تو ، وہ سمجھتے ہیں کہ آپ پاگل ہیں۔ یہ راہ اللہ عزوجل کی سلطنت کی راہ ہے۔ اور ہم نے مختلف مواقع پر بات کی ہے کہ کس طرح اللہ کے ہر نبی کو ایک ایسی راہ اختیار کرنا پڑی جس میں اُنھیں کچلا گیا۔ کیوں؟ تاکہ سیدنا محمدﷺ کی حضور رہ سکیں۔
Awliya (saints) are Roses in the Garden of Prophet ﷺ
اولیاء کرام گلشنِ نبی کریم ﷺ کے گلاب ہیں
یہ پھول جس کو وہ بیان کرتے ہیں وہ گلاب ہے اور ہم اسے گلِ محمدی (نبی کریم ﷺ کا پھول) کہتے ہیں۔ گلاب پھولوں کا سلطان ہے، خوشبوؤں کا سلطان ہے۔ ہم پہلے بھی اس پر بات کر چکے ہیں کہ یہ پھول ، جن کو اللہ (عزوجل) بیان کرنا چاہتا ہے ، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے خاکِ سیدنا محمدﷺ میں خود کو دفن کیا۔ انہوں نے ایک راستہ اختیار کیا جس میں فنا ہونا ہے۔
لہذا جب کوئی نہیں سمجھتا تو ، ہمیشہ مثال (تشبیہ) دی جاتی ہے ۔ آپ اس دنیا (مادی دنیا) میں فنا کو کہاں دیکھتے ہیں؟ بیج میں ۔ بیج اور زندگی کا ہر بیج میں ، وہ (بیج) سوچتا ہے، وہ کچھ ہے اور یہ سوچتا ہے کہ بس یہی (حقیقت )ہے ، میں اللہ (عزوجل) کی تخلیق میں سب سے بہتر ہوں۔ اور لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں ، لیکن تم صرف ایک بیج ہیں۔ تم اس تک نہیں پہنچ پائے جو اللہ (عزوجل) تم سے چاہتا تھا۔ اگرچہ تمہیں لگتا ہے کہ تم عظیم ہو اور اگرچہ اللہ (عزوجل) نے اس بندے پر جو کچھ بھی جال بچھایا ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس کو سر کر لیا ہے۔
The Purity of the Teen (Soil) is what makes the Seed Perfect
طین(مٹی) کی پاکیزگی ہی بیج کو کامل بناتی ہے
یہ (مشائخ)ہماری زندگی میں تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں ، کہ’ نہیں نہیں ‘، اللہ کے یہ بندے (اولیائے کرام) سمجھ چکے ہیں کہ وہ صرف ایک بیج ہیں اور جیسے ہی انہوں نے خود کو مٹی میں بویا ، وہ سمجھ گئے کہ یہ وہ (خود) نہیں تھے جو کچھ بننے والے تھے بلکہ یہ مٹی کی طاقت ہے۔ تو ، اس کا مطلب ہے مٹی کامل ہے۔ سو اس کا مطلب ہے کہ جب ہم سیدنا طہ ﷺ ، رسول اللہﷺ، طاہر الہادی،کہتے ہیں تو یہ کامل طین، ایک کامل مٹی ہیں۔ کہ جو کچھ بھی آپ اس مٹی میں لگائیں گے وہ کامل و اکمل نکلے گا۔ اللہ (عزوجل) بیج کی پرواہ نہیں کررہا ، بیج اچھا ہے یا برا ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ فرماتے ہیں، میں نے جو کچھ بھی اس مٹی میں ڈال دیا وہ خوبصورت نکلنے والا ہے۔
﷽
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ۞
یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔
سورۃ المومنون (23)، آیت12
We Are Seeds – Plant Yourself in the Reality of Prophet (s) to Reach your Full Potential
ہم بیج ہیں – اپنی پوری صلاحیت ) استعداد )حاصل کرنے کیلئےنبی کریم (ﷺ) کی حقیقت میں خود کو بوئیں۔
یہی وجہ ہے کہ خود کو مٹانا ہے ۔ "یا ربی ، میں کچھ نہیں ہوں ، میں کچھ بھی نہیں ہوں۔’ جب وہ آپ کو مٹی میں پھینک دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ تنہائی کا راستہ اختیار کریں گے۔ آپ خود کو الگ تھلگ کرنے لگتے ہیں ، خود کو دور کرنا شروع کرتے ہیں ، خود کو سمجھنے کی کوشش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس حقیقت تک پہنچیں ، کہ یہ بیج وہ (حقیقت )نہیں جو میں چاہتا ہوں۔ میں وہ چاہتا ہوں جو آپ کے پاس میرے لئے پڑا ہوا ہے ۔ نبی کریم (ﷺ) کی اس حقیقت میں خود کو بیجئے ۔ نبی کریم (ﷺ) کی حقیقت تشریف لائے گی اور ہر چیز کو کُچلنا شروع کر دے گی اور پھول کھلنا شروع ہو جائیں گے جو اللہ ( عزوجل ) چاہتا ہے ، خوبصورت باغ۔
Halaqa Zikr (Circles of Zikr) are Gardens of Paradise
حلقہ ذکر جنت کے باغات ہیں
یہی وجہ ہے کہ ریاض الصالحین۔ یہ جنت کے باغات ہیں کیونکہ یہاں ان کے پھول کھل رہے ہیں۔ نبی اکرم(ﷺ) نے کیوں فرمایا کہ حلقہ ذکر اور جنت کے حلقوں (رِيَاضِ الْجَنَّةِ) میں آیئے؟
حَديثُ اِبْنِ عُمَرِقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
إِذَا مَرَّرَتْهُمْ بِرِيَاضِ الْجَنَّةِ فَاِرْتَعُوْا
الُوا: وَمَارِيَاضِ الْجَنَّةِ يَارَسُولِ اللهِ ؟
قَالَ:حَلْقُ الذِّكْرِ, فَإِنَّ لِلَّهِ تَعَالَى سَيَّارَاتٌ مِنَ الْمَلَاَئِكَةِ يُطَلِّبُوْنَ حَلْقَ الذِّكْرِ، فَإِذَا أَتَوْا عَلَيْهُمْ حَفُّوْابِهُمْ
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
سیدنا عمر ؑ کے بیٹے سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا:
"جب تم جنت کے باغات سے گزرتے ہو تو ان میں سے فائدہ اٹھاؤ۔"
صحابہ اکرام نے عرض کی:
"یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) جنت کے باغات کیا ہیں؟"
آپ (ﷺ) نے جواب فرمایا :
"ذکر کے حلقے۔ اللہ (عزوجل ) کےمحرک (سَيَّارَاتٌ) فرشتے ہیں جو ذکر کے حلقے ڈھونڈتے ہیں اور جب انھیں مل جاتا ہے تو ان کو قریب سے گھیر لیتے ہیں۔ [امام ترمذی سے روایت ہے]
Angels Carry the Fragrance of Sincere Hearts to Divine Presence
فرشتے مخلص دلوں کی خوشبو بارگاہ الہی میں لے جاتے ہیں۔
اور اولیا اللہ (اولیاء کرام) یہ بیان کرتے ہیں کہ نہ صرف وہ حلقہ ، اہل الذکر ( ذکر کرنے والے لوگ ) ہیں ، بلکہ وہ جنت کے پھول ہیں— خوشبودار ، خوبصورت پھول۔ جب ہم نعت پڑھتے ہیں تو ، ہر ایک جو سیدنا محمد(ﷺ)سے محبت کرتا ہے ، اللہ ( عزوجل ) انہیں ان کی روح سے خوشبو عطا فرماتا ہے۔ جب وہ تعریف کرتے ہیں تو ، وہ ایک انوکھی خوشبو پیدا کرتے ہیں اور ملائکہ وہ خوشبو چنتے ہیں۔ وہ ہمارے الفاظ سننے نہیں آ رہے ۔ فرشتوں کا الفاظ سے کوئی تعلق نہیں ۔ آپ اپنی فینسی زبان میں سب کچھ دعا مانگ سکتے ہیں ، اگر فرشتوں کو خوشبو نہ آئے جو خوشبو وہ چاہتے ہیں تو وہ نہیں آتے۔ اگر آپ کی زبان اچھی بات کر رہی ، لیکن آپ کا دل غلیظ ہے ، تو فرشتے بہت دور رہتے ہیں۔ وہ کلام (الفاظ) نہیں اٹھاتے ۔ وہ لوگوں کے الفاظ نہیں اٹھاتے ۔ وہ خوشبو ان لوگوں کے دلوں سے نکلتی ہے جو مخلص ہیں۔
تو ، یہ وہ کیاریاں ہیں جن میں یہ پھول سیدنا محمد(ﷺ) کی محبت میں کھلتے ہیں ، ہر ایک خوشبو کے ساتھ جسے فرشتے خدا کی بارگاہ میں لے جا رہے ہیں۔ تو ، پھر وہ خود کو اس مٹی میں لگانا سمجھ گئے۔ جب وہ خود کو لگاتے ہیں تو وہ فنا ہوتےجارہےہیں ، وہ نا چیز بنتے جا رہے ہیں۔
Sayyidina Khidr [AS] Was Sent to Crush Sayyidina Musa [AS]
سیدنا خضر ؑ ، سیدنا موسی کو ؑ کچلنے کیلئےبھیجے گئے
جب وہ ناچیز بنتے جا رہے ہیں ، تو پھر یہ راہِ معرفت اُنہیں تعلیم دینا شروع کردیتی ہے کہ ، اس مٹی میں ایک زندگی بھر کا سفر ہے۔ تو ، پھر اعلی درجے سے ، نچلے درجے تک (امتحان ہے )۔ سب سے اعلی نبی تھے۔ نبی موسی ؑ—جو کچھ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہوا تھا ، وہ کافی نہیں تھا کہ وہ اپنی قوم کیلئے رسول بن جائیں۔ اُنہوں نے فرمایا ، ‘یا ربی ، میں جانا چاہتا ہوں جہاں یہ دونوں دریا ملتے ہیں۔ جہاں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ملتے ہیں۔ ''
﷽
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا۞
اور (وہ واقعہ بھی یاد کیجئے) جب موسٰی (علیہ السلام) نے اپنے (جواں سال ساتھی اور) خادم (یوشع بن نون علیہ السلام) سے کہا: میں (پیچھے) نہیں ہٹ سکتا یہاں تک کہ میں دو دریاؤں کے سنگم کی جگہ تک پہنچ جاؤں یا مدتوں چلتا رہوں۔
سورۃ الکھف (18) آیت( 60)
ہم پہلے بھی اس پر بات کر چکے کہ اُنہیں اپنا تاج اُتارنا پڑا ، اپنے رسالت (کا تاج) اور میرے ایک بندے کے پاس جانا ہے ، جو ایک محمدی سفیر(ولی) ہے۔ اور یہ کہ محمدی سفیر پھولوں کو کچلنے والے ہاتھ جیسا ہے ، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بہت سخت تھے۔ کلیم اللہ —جن سے اللہ ( عزوجل ) نے بات کی۔ آپ کو نہیں لگتا وہ ان تمام حقائق کو جانتے ہیں۔ لیکن انہوں نے حکم کی تعمیل کی کہ اس راستے کیلئے، ہم آپ کو کچل ڈالیں گے۔ ہم نے جو کچھ بھی آپ کو دیا ہے اس کے ساتھ ، آپ لوگوں میں مشہور ہیں ، لیکن ہماری بارگاہ الہی میں ، اس (شہرت ) کی کوئی وقعت نہیں ۔
Prophet Muhammad [saws] is the City of Knowledge and Imam Ali [as] is the Gate
نبی اکرم ، سیدنا محمد (ﷺ) علم کا شہر ہیں اور
امام علی ؑ اس کا دروازہ ہیں
یہ طریقہ کرشنگ (کچلے جانے ) پر مبنی ہے۔ یہ طریقہ امتحان پر مبنی ہے۔ یہ طریقہ کردار کے معیار پر مبنی ہے۔ اور پھر کیوں گیٹ کے مالک بَابُهَا؟ امام علی (علیہ السلام )، نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا: "میں شہر ہوں ، لیکن امام علی (علیہ السلام ) کے پاس حاضر ہوں۔ وہ اس دروازے کے نگہبان ہیں۔ "
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :
"أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَعَلَىٌ بَابُهَا، فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِينَةَ فَلْيَأْتِ مِنْ بَاْبُهَا"
پیغمبر اکرم (ﷺ) نے فرمایا: "میں علم کا شہر ہوں اور امام علی ؑاس کا دروازہ / دربان ہیں ، لہذا جو شخص شہر سے چاہتا ہے وہ اسکے دروازے / دربان سے لے جائے"۔ [صحیح حدیث امام ترمذی]
This is Garden of Nabiyeen, Siddiqeen, Shuhada was Saliheen [Prophets, Truthful Ones, Witnesses, and Righteous]
لہذا ، اس کا مطلب ہے کہ دربان حاضر ہوتا ہے اور ہمیں سکھاتا ہے کہ آپ کچلے جانے والے ہیں۔ اور اس کرشنگ میں ، اس ہاتھ سے میٹھا بنو جو آپ کو کچل دیتا ہے کیونکہ پھر یہ باغ جو وہ بناتے ہیں ، یہ گلاب کے باغات ہیں۔ یہ صالحین ہیں، صدقین ہیں، شہداء (گواہ) ہیں — یہ انبیا٫ سے عنایت پاتے ہیں۔
﷽
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ۞
اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے، وه ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں۔
سورۃ النسا٫(4) آیت (69)
All Prophets Sought Help From Sayyidina Muhammad [saws]
سب انبیاء نے سیدنا محمد (ﷺ) کی مدد طلب کی
اور حتی کہ نعت میں (اشعار بیان کرتے ہیں کہ ) تمام انبیا٫ کو کچلا جار ہا ہے، سیدنا محمد (ﷺ) سے عنایت پانے کیلئے ۔ پھر ہم سب نعت میں دیکھ رہے ہیں کہ سارے انبیا٫ مدد کیلئے آپ (ﷺ) کے دروازے پر آتے ہیں۔ جو بھی پہُنچنا چاہتا تھا وہ باغ میں گیا۔
شاہِ مدینہ ، شاہِ مدینہ
!طیبہ کے والی ، سارے نبی تیرے در کے سوالی
The Essence of the Rose Only Comes Out When It’s Crushed
گُلاب کا عطر صرف تب حاصل ہوتاہے، جب اسے کُچلا جاتا ہے
پھر اللہ (عزوجل) نے فرمایا کہ حسنِ گلاب، آپ کی زندگی کانٹوں کی ایک بیل ہے۔ اور آپ خود کو ایک خوبصورت گلاب بنا رہے ہیں ، لیکن تمہیں ، کوئی بھی تمہارے گلاب کی اصل تعریف نہیں کرسکتا جب تک کہ میں تمہیں نچوڑ نہ دوں۔ایسے گلاب کا کیا فائدہ جسے آپ سونگھ نہیں سکتے؟ کیا یہ رنگ ہے؟ یا نہیں ، ہم اہل عطر(خوشبو)ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جو گلاب اور گلاب کی مہک سے محبت کرتے ہیں۔ جی، آپ کو خوشبو اور مہک صرف اسلئے ملی ہے کیونکہ گلاب کو کچلا گیا۔ لہذا اللہ (عزوجل) اس دنیا (مادی دنیا) کیلئےحقیقت دےرہا ہے۔ کہ میں تمہیں گلاب بناؤں گا۔ میں تمہیں عاشقین (محبت کرنے والوں) سے بنانا چاہتا ہوں۔ میں تمہیں سیدنا محمدﷺ کی حقیقت کی گہرائی میں لے جانے والا ہوں۔ لیکن انسانیت کوتمہارا واحد فائدہ تب ہے اگر تمہیں کچل دیا جائے۔کیونکہ گلاب ، جب یہ کچل جاتا ہے ، تو یہ بےپناہ مہک جاری کرتا ہے۔
Broken Heart Awliya Release an Essence & Fragrance That Attract Humanity
دل سوز اولیاء (ٹوٹے ہوئے دل سے) ایک ایسا عطر اور خوشبو جاری کرتے ہیں جو انسانیت کو راغب کرتی ہے۔
اس کا مطلب ہے دل سوز عاشقین ، وہ انسانیت کیلئےخوشبو جاری کرتے ہیں۔ دل شکستہ اور آزمائے ہوئے، وہ ایک نور ، ایک روغن ، ایک خوشبو ، انسانیت کیلئےایک عطر جاری کرتے ہیں جو لوگوں کو اس حقیقت کی طرف راغب کرتے ہیں۔ یہ مہک ہے ، اب آپ گلاب کی حقیقت میں جا رہے ہیں۔ جو خود کو جانتا ہے ، اپنے رب کو جانتا ہے ۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَهْ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ
"جو خود کو جانتا ہے ، اپنے رب کو جانتا ہے۔"
سیدنا محمد ﷺ
You are in Rose-Training Facility at a Rose Garden
– How You Get Through the Thorns Determines the Quality of Your Flower
آپ گلاب کے باغ میں ، گلاب کے ادارے میں زیرِ تربیت گلاب ہیں —
آپ کانٹوں سے کیسے گذرتے ہیں(یہ)آپ کے پھول کا معیار طے کرتا ہے
اگر وہ خود کو گلاب جانتا ہے تو ، اللہ (عزوجل) ارشاد فرماتا ہے ، 'اگر آپ ان قالینوں پر(صفوں میں) بیٹھے ہوئے ہیں تو ، آپ زیرِتربیت گلاب ہیں۔' بیشک آپ کہیں کہ میرے آنے کا مقصد نہیں تھا ، میں 5 منٹ کیلئےآیا تھا ۔ میں اتفاقی طور پر رک گیا۔ یہاں حادثے نہیں ہوتے! اگر آپ کو یہ پتہ معلوم نہ ہوتا تو کوئی راستہ نہیں تھا کہ اللہ (عزوجل) آپ کو یہاں آنے دیتا ۔ چاہے آپ چالاک ترین ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کا مطلب ہے پھر یہ ہمارے نفس کی آگاہی ہے۔ جو خود کو جانتا ہے وہ اپنے رب کو جانتا ہے۔ اگر آپ خود کو جانتے ہیں تو ، آپ گلاب کے تربیتی ادارے میں زیرِ تربیت ہیں۔
اور اللہ (عزوجل) چاہتا ہے کہ آپ اپنی پوری زندگی میں جان لیں کیونکہ ایک وارنننگ آرہی ہے ، کہ آپ کی زندگی کانٹوں کی ایک بیل ہے۔ آپ ان کانٹوں سے کیسے گزرتے ہیں یہ، آپ کے پھول کا معیار طے کرے گا۔ اور اگر آپ زندگی میں مشکلات سے گذرنے کے قابل ہوں اور واقعتاً ایسا پھول کھلنا شروع ہو جائے گا جس کی طرف لوگ کھنچے چلے آیئں ۔ اُن کا جذبہ ، اور اُن کی کشش ، شاید ہزاروں ، شاید لاکھوں افراد ان کی طرف راغب ہوئے۔ کیونکہ اب وہاں ایک پھول ہے اور اس کی خوشبو مہک اُٹھی ہے۔ اور اللہ (عزوجل) چاہتا ہے کہ ہم جانیں ، کیا تم جانتے ہو کہ ہم تمہارے کتنے پھولوں کو کچلتے ہیں کہ تھوڑا سا تیل پیدا ہو سکے ؟ اس کا مطلب ہے وہ لوگ جن سے محبت ہوتی ہے ، ان کی حقیقت بارگاہِ الہی سے لگاتار کچلی جارہی ہے۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جب ہم حقیقت کو سمجھتے ہیں تو ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کچل رہا ہے۔بس اتنا ہے کہ تمہاری زندگی مشکل میں ہے۔
Be the Flower, Not the Hand That Crushes It
!پھول بنیں ،وہ ہاتھ نہیں جو اسے کچلتا ہے
آپ ہاتھ بننے کی بجائے گلاب بننے کو ترجیح دیں کیونکہ یہ گلاب کا سکول ہے۔ اگر کوئی آکر کہے ، ‘نہیں ، میں ہاتھ بننا چاہتا ہوں۔’ وہ ہاتھ اللہ (عزوجل) کے دستِ قدرت سے اِس طرح کچل دیا جائے گا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ اچھا مقام نہیں ہے جس کی چاہ کی جائے۔ ہماری زندگی (کا مقصد ) پھول بننا ہے۔' یا ربی ، میں محبت کے راستے پر چلنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں۔ میں اپنی محبت کا راستہ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں محبت کی مثال بننے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اور اللہ (عزوجل) جب وہ فرماتا ہے ، ‘میں قبول کرتا ہوں ، پھر میں اسے کچل ڈالوں گا۔’ اس وقت آپ کی خوشبو اور آپ کی خوبصورت حقیقت اس تخلیق کیلئے رحمہ (رحمت) ہوگی۔
Sacrifice of Imam Hussain [AS] is Example of How Others Come Against Us
امام حسین علیہ السلام کی قربانی ہمارے لیےمثال ہے کہ کیسے دوسرے ہمارے خلاف ہوجاتے ہیں
ہم امام حسین علیہ السلام کے یوم پیدائش پر ہیں۔ اُن کی مثال کیا تھی؟ ہم نیکی کرنے آئے تھے۔ انہوں نے آپ ؑ کو کربلا بلایا۔ ہمیں سکھانے آئیے۔ اپنے گھرانے کی نمائندگی کرنے آئیے۔ اور اُنہوں نے کیا کیا؟ انہوں نے امام حسین (علیہ السلام) کو قتل کیا ، قتل کیا۔ لہذا ، کوئی بھی مسلمان جو اپنی زندگی میں مشکل ہونے کی شکایت کررہا ہے ، وہ (اولیا) ہماری زندگی میں آکر تعلیم دیتے ہیں ، آپ دراصل میں ہمارے راہ کی وراثت پا رہے ہیں ۔ جب آپ جانتے ہو کہ آپ کو زندگی میں آزمایا جا رہا ہے اور کچلا جارہا ہے تو ، امام حسین (علیہ السلام) تشریف لاتے ہیں اور اصحاب النبی، سب کچلے گئے۔ وہ آکر سکھاتے ہیں ، آپ دراصل سیدنا محمد (ﷺ)کے اصل راستے کی وراثت پارہے ہیں۔
کہ آپ کی زندگی مشکل سے بھر ی ہوئی ہے۔ آپ نیکی کرنے آئے تھے ، لیکن یہ دنیا (مادی دنیا) شیطانوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ خود کو کیا کہتے ہیں ، وہ خود کوکس مذہب کے نام سے پکارتے ہیں ، وہ خود کون سا قبیلہ کہتے ہیں۔ آپ کا اپنا قبیلہ ، آپ کا اپنا طریقہ ، آپ کا اپنا راستہ آپ کو کچل دے گا۔ آپ کے اپنے لوگ جو آپ کے خیال میں آپ کی قوم ہیں ، وہ آپ کو کچل دیں گے۔ اور یہ اصحاب النبی ا ور اہل بیت النبی کی میراث تھی۔ کہ ہم نے اللہ (عزوجل ) کیلئےکیا ، جو بھی کیا ، لوگوں کیلئےنہیں ۔کیونکہ اگر آپ زندگی میں لوگوں کیلئے کچھ کریں گے تو لوگ آپ کو کچل دیں گے۔ اُنھیں جو بھی اچھا نظر آئے گا اور اس کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ یہ دنیا (مادی دنیا) گلاب پسند نہیں کرتی ۔ جب بھی انہیں کوئی گلاب نظر آتا ہے ، وہ اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ زندگی کی حقیقت ہے۔
For Ashiqeen, the Only Source of Relief is Love of Sayyidina Muhammad [saws]
عاشقانِ رسول کیلئے ، واحد نجات سیدنا محمد (ﷺ) کی محبت ہے۔
یہ امتحان کی حقیقت ہے ، جہاں ہر قسم کی مشکلات ، عاشقان (محبت کرنے والوں) کے پاس آتی ہے۔ کیونکہ جیسے ہی وہ پریشان ہوجاتے ہیں ، جیسے ہی وہ مشکل میں پڑجاتے ہیں ، جیسے ہی وہ غمگین ہوجاتے ہیں ، انہیں سیدنا محمد (ﷺ) کی محبت میں واپس جانے کی تربیت دی جاتی تھی ، اور تعریف و توصیف کرتے ہیں ، اللہ ( عزوجل ) کی تسبیح کرتے ہیں ، سیدنا محمد (ﷺ) پر درود بھیجتے ہیں اور وہ صرف سیدنا محمد (ﷺ)کی محبت میں راحت پاتے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں ، یہ خوبصورت روشنی اور دلفریب مہک آتی ہے۔
کیونکہ اللہ ( عزوجل ) چاہتا ہے کہ غلیظ دنیا (مادی دنیا) پر توجہ نہ دی جائے۔ میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ یہ کتنا گھناؤنی ہے۔ جیسے ہی آپ دیکھیں ، وہ آپ پر حملہ کرنے جا رہے ہیں۔ اور آپ سیدنا محمد (ﷺ) کے غار میں واپس بھاگتے ہو، جہاں آپ اللہ ( عزوجل ) کی حمدو ثنا٫ کرنے ، اور سیدنا محمد (ﷺ) کی عظمت کی تعریف و توصیف کرنے پر اپنی واحد خوشی پائیں گے۔ ابھی تک نہیں ہوا ہے؟ فکر نہ کرو ، یہ (امتحان) آرہا ہے۔ تو کوئی کہے کہ میں نہیں جانتا ، شیخ آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں ۔ فکر نہ کرو ، یہ (امتحان )آرہا ہے۔ کسی کو بھی اس سے نہیں بچے گا۔ تو ، کیا تمہیں لگتا ہے کہ تم وہاں جانے والے ہو جہاں تمہیں جا رہے ہو ان لوگوں کی طرح آزمائش کیے بغیر جو آپ سے پہلے آئے تھے؟ ان کی زندگی سے ، ان کی رقم سے ، ان کی جائدادسے ، گھر والوں سے اور ان کے بچوں سے ( اُنہیں آزمایا گیا)۔ کچھ بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا جب تک ہم اس حقیقت کو نہ سمجھیں۔
﷽
أحَسِبَ النّاسُ أنْ يُتْرَكُوا أنْ يَقُولُوا آمَنّا وهم لا يُفْتَنُونَ ۞ ولَقَدْ فَتَنّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا ولَيَعْلَمَنَّ الكاذِبِينَ۞
کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ (صرف) ان کے (اتنا) کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی۔ اور بیشک ہم نے ان لوگوں کو (بھی) آزمایا تھا جو ان سے پہلے تھے سو یقیناً اللہ ان لوگوں کو ضرور (آزمائش کے ذریعے) نمایاں فرما دے گا جو (دعوٰی ایمان میں) سچے ہیں اور جھوٹوں کو (بھی) ضرور ظاہر کر دے گا۔
سورۃ العنكبوت(29) آیت 2-3
When in Difficulty, Remember Suffering of Ahlul Bayt in Karbala
جب مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو کربلا میں اہل بیت کا دکھ یاد رکھیں
تو ، ان مقدس راتوں میں ، ان کی یاد رہے ، ہر بار جب ہمیں لگتا ہے کہ ہماری زندگی مشکل تھی ، وہ ، دستک دیتے ہیں ، معاف کیجئے گا! ہمیں اپنے ہی لوگوں نے قتل کیا۔ وہ اذان دے رہے تھے اور انتظار کر رہے تھے ۔ جیسے ہی اذان ختم ہوئی ، وہ قتل کرنے لگے ۔ مجھے اور آپکو نہیں ، نواسہِ رسول جو سیدنا محمد (ﷺ)پر کھیل رہے تھے۔ انہوں نے کیوں نہ دیکھا!؟ انہیں کیوں نہ یاد آیا ، کہ اوہ آپ نواسے ہیں کیونکہ انہیں پرواہ نہیں ۔
اور اللہ ( عزوجل ) ہمارے لئے ایک آگاہی دے رہا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ اولیا اللہ یہ سمجھ گئے تھے کہ یہی ہے جو اللہ ( عزوجل ) چاہتا ہے —تسلیم— خود کو اللہ کی مرضی کے سپرد کرنا۔ لہذا ، وہ ہمیں سمجھاتے ہیں کہ فنا کے اس راستہ میں لگاتار کچلا جاتا ہے، (امتحان ) درجات (اسٹیشن) پر مبنی ہے ۔ اگر درجات اونچی ہے تو ، ان کو زیادہ نچوڑا جاتا ہے ، کیونکہ وہ زیادہ خوشبو سے مہک اُٹھتے ہیں اور زیادہ خوبصورت روشنیاں خارج کرتے ہیں۔
Allah [AJ] says in Holy Qur’an To Follow Tariqa – 72:16-17
قرآن مجید کی سورۃ الجن، 72بہترویں سورۃ ، میں اللہ ( عزوجل ) کیا فرما رہا ہے؟ اس مہینے (ماہِ شعبان) کی یہ سورۃ ہے۔ اس کے حقائق عارفین (جاننے والوں) کیلئے ہیں اور ان لوگوں کیلئےجو اس باب (دروازے) میں داخل ہوتے ہیں۔ سورۃ الجن کی آیت نمبر 16 اور آیت 17۔ ابھی ہم 16 آیت پر بات کریں گے۔
﷽
وَأَن لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاءً غَدَقًا۞
اور یہ ( اللہ نے وحی کی ہے ) کہ اگر وہ طریقت (راہِ حق) پر قائم رہتے تو ہم انہیں بہت سے پانی / بارش کے ساتھ سیراب کرتے۔
سورۃ الجن(72)آیت 16
"اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ " ( اس راستے پر ثابت قدم رہیں)۔ لہذا ، جب وہ طريقة (روحانی سلاسل ) کو نہیں سمجھتے اور حتی کہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں کسی طريقة (روحانی راستہ) کا ذکر نہیں ۔ اللہ ( عزوجل ) وضاحت فرما رہا ہے ، 'نہیں ، نہیں ، موجود ہے۔' اور یہ سورۃ الجن کی حقیقت ، اللہ ( عزوجل ) نبی کریم (ﷺ) سے فرما رہا ہے ، اپنی کمیونٹی کو بتایئے— اور خوفناک انگریزی ترجمہ ، اس کو تو پڑھنا نہیں چاہیئے—یہ ایسے شروع ہوتا ہے، "اور اگر وہ اپنے طريقةپر قائم رہتے ، اگر وہ اپنے طريقةپرثابت قدم رہتے ، تو یقینا ہم انہیں پینے کیلئے"ما٫" دیتے ، وافر مقدار میں پانی۔" لہذا ، یہ بیان کرنے کے بعد کہ ہماری زندگی کا آغاز اس پھول جیسا ہے ، لگاتار امتحان ، مسلسل آزمائش۔
اللہ ( عزوجل ) خبردار کررہا ہے ، کہ یہ طريقة (راستہ) جس میں آپ داخل ہو گئے ، یہ راستہ جس پر آپ چل رہے ہو؛ اگر آپ طريقة (روحانی راہ) میں نہیں ہیں تو ، آپ کا راستہ اسلام ہے۔ یہ آپ کا دین اور آپ کے ایمان کا راستہ ہے۔ اگر اللہ ( عزوجل ) آپ کو اس سے زیادہ سمجھانا چاہتا تو آپ کو کوئی شک نہ ہوتا اور آپ کو کسی طريقة (روحانی راہ) میں شامل ہونے کی ترغیب مل چکی ہوتی۔ کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ آپ اپنا راستہ واضح کریں ، یہ مت کہو کہ آپ صرف خالی اسلام ہیں۔ کوئی حرج نہیں ، یہ عام لوگوں کیلئےہے۔ جب اللہ ( عزوجل ) اس سے بھی بلند تر کوئی چیز چاہتا ہے تو ، حتی کہ وہ اسلام میں اس کی وضاحت کرتا ہے۔ طريقة (راستوں) کی طرف آئیں ، یہ راستوں کا مکتب ہے۔ ان کی پوری حقیقت ، جاگنا ، ان کی ساری حقیقت یہی راہ ہے۔
Stay Firm on Your Tariqa (Path) and Keep Your Feet Planted Deep
اور اللہ ( عزوجل ) ارشاد فرماتا ہے کہ جس راستے پر تم چل رہے ہو، استقام، مظبوطی سے اپنے پیر اس راستے پر گاڑھ لو، کیونکہ تمہیں بائیں اور دائیں طرف سے مار پڑے گی۔ اس پر شک نہ کرو۔ نہ مت کہو۔ ہر مشکل اور تکلیف اُسی پر آتی ہے جسے اللہ ( عزوجل ) محبت کرتا ہے۔ استقام ایسی معمولی بات نہیں جس کے بارے (وہ کچھ عام سی تشریح) لکھتے ہیں۔ وہ اسے بت پرستی (سے جوڑ کے) اس بارے میں کچھ احمقانہ چیزیں لکھتے ہیں۔ اس کا بت پرستی سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ اس کا تعلق اللہ کے حکم سے ہے کہ اپنے (روحانی )راستے پر مظبوطی سے قائم رہو، اپنے قدم گہرے جما لو ۔
﷽
وَأَن لَّوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَأَسْقَيْنَاهُم مَّاءً غَدَقًا۞
اور یہ ( اللہ نے وحی کی ہے ) کہ اگر وہ طریقت (راہِ حق) پر قائم رہتے تو ہم انہیں بہت سے پانی / بارش کے ساتھ سیراب کرتے۔
سورۃ الجن(72)آیت 16
Awliya Are Like Trees and Mountains With Deep Roots
اولیااکرام درختوں اور پہاڑوں کی مانند گہری جڑیں رکھتےہیں۔
اور ان کے ساتھ رہو جو درختوں کی طرح ہیں ، چٹان پر پھول کی طرح نہیں۔ وہ سدا بہار ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں کہ وہ درخت ہیں ، اوتاد – یہ اولیا اللہ کے درجات ہیں۔ وہ قطب ہیں اور وہ اوتاد ہیں۔ وہ پلیئر پیگ (مظبوطی سے جڑے ہوئے کیل) جیسے ہیں ، وہ گہرے جڑے ہوئے ہیں۔
﷽
وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا۞
اور پہاڑوں کو جیسے میخیں۔ سورۃ النباء(78) آیت 7
لیکن درختوں کی مشابہت کی دنیا میں ، ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ان کے استقام (مظبوط ہے) ۔ اللہ (عزوجل نے ان کو جڑیں دی جو بہت گہری ہیں ، اور اس کے نتیجے میں ، ان کا مسلسل امتحان لیا جارہا ہے ۔ اور بائیں اور دائیں طرف سے تھپڑ مارے جارہے ہیں ۔ اور وہ زرا حرکت نہیں کرتے ۔ اور وہ سبز رہتے ہیں ، وہ سر سبز رہتے ہیں۔ ایسی دنیا میں جو ہمیشہ دم توڑ رہی ہے ، اور پودے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور درخت آتے اور چلے جاتے ہیں (لیکن اولیا٫ ) وہ ایک مستقل حالت "حی" میں رہتے ہیں۔ سبز رنگ حیات (دائمی زندگی ) کی علامت ہے۔ ان کی جڑیں گہرائیوں میں قائم کی گئی ہیں اور اللہ ( عزوجل ) فرماتا ہے ، ان کے ساتھ رہو
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ۞
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔
سورہ التوبہ (9) آیت 119
Secret of Maai – Meem and Alif
Nothing Comes between Allah [AJ] and Sayyidina Muhammad [saws]
ماءِ کا راز — م+ ا
اللہ (عزوجل ) اور رسول اللہ (ﷺ) کے درمیان کچھ نہیں آتا۔
اپنا استقام رکھیں ، اور یقینا اگر آپ اپنے راستے پر ڈٹے رہیں گے ، تو ہم آپ کو ما٫( کے حقائق) سے آراستہ کریں گے۔ ما٫کیوں؟ کیونکہ یہ اہل الحیات ہیں۔ اللہ ( عزوجل ) نے ما٫سے کیوں بیان کیوں فرمایا ہے کہ میری قدرہ ، میری طاقت ، میرا عرش اسی ما٫پر ہے۔
﷽
وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ… ۞
اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ سورہ ہود (11) آیت 7
ما٫کیا ہے؟
میم +الف۔
میم اور الف کے مابین کچھ نہیں ہے۔ یہ عزۃ اللہ و عزۃ الرسول ہے۔ ہر حقیقت اس ما٫سے سامنے آتی ہے کیونکہ اس ما٫(پانی) کی حقیقت یہ ہے کہ سیدنا محمد (ﷺ) اور اللہ ( عزوجل ) کے مابین کچھ نہیں آتا ۔ تو ، پھر اس کا الٹ "امِ"ہے (ا +م ( تم "ام ِ (اُمی) کیوں کہتے ہو؟ اللہ (عزوجل) اور سیدنامحمد ﷺ کے درمیان کوئی استاد نہیں ہے۔ دوسری طرف ما٫ہے۔ سمجھے؟ یہ نہیں کہ وہ پڑھے ہوئے نہیں ۔ پاگل لوگ ایسے کہتے ہیں۔ (مطلب ) یہ ہے کہ اللہ ( عزوجل ) نے کسی کو نبی (ﷺ)کو تعلیم دینے کی اجازت نہیں دی۔ انہیں کسی سے پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ " شَدِيدُ الْقُوَىٰ"۔’ اللہ ( عزوجل ) کا فرمان ہے کہ ان کو ایک ایسی ذات کی طرف سے سکھایا گیا ہے جو کہ شدید قوت رکھتی ہے – اللہ ( عزوجل ) خود (معلم ہیں )!
﷽
عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ۞
ان کو بڑی شدید قوّتوں و الے رب نے (براہِ راست) علمِ (کامل) سے نوازا۔
سورۃ النجم ( 53) آیت 5
If You Stay Firm, Allah [AJ] Shower You With Maai and Oceans of Hayat
تو 'مَاءِ' کا راز ، اللہ ( عزوجل ) فرماتا ہے ، 'میں تم پر کرم فرماؤں گا ، تمہیں وافر مقدار میں پانی (آبِ رحمت ) دوں گا۔‘ اس کا مطلب ہے ، ان مشکلات کے ذریعے جو تمہیں لگتا ہے تمہیں پیش آئیں گی ۔ اپنی تربیت کے ساتھ ، تم ہماری طرف سے پانی کے سمندروں میں تیرو گے ، سمندرِ حیات (ہمیشہ رہنے والے) ، طاقت کے سمندر سے، ہماری بارگاہ سے ۔ یہ دنیا (مادی دنیا) تمہیں کچل دے گی ، لیکن ہم تمہیں جنت میں اٹھا رہے ہیں۔ آپ'مَاءِ'کے حقائق سے آراستہ ہونگے ۔ آپ اس قدرۃکی حقیقتوں سے اور ان روشنیوں سے اور ان نعمتوں سے آراستہ ہوں گے۔ اپنے راستے پر قائم رہو۔
Stay Firm On Your Tariqa Through Testing
آزمائش میں اپنے طریقہ پر ثابت قدم رہیں
پھر ہم فورا، اگلی آیت 17 میں جائیں گے۔
لِّنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَمَن يُعْرِضْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذَابًا صَعَدًا۞
تاکہ ہم اس (نعمت) میں ان کی آزمائش کریں، اور جو شخص اپنے رب کے ذِکر سے منہ پھیر لے گا تو وہ اسے نہایت سخت عذاب میں داخل کر دے گا
سورۃ الجن(72)آیت 17
اس کا مطلب ہے کہ اپنے طریقت (روحانی سلسلہ ) کو برقرار رکھیں۔ اللہ ( عزوجل ) اس کے بارے میں کیا بات کر رہا ہے اس پر اندازہ نہ لگائیں، نہ کریں۔ اللہ ( عزوجل ) نے پھر وضاحت کی ، نہیں ، ہاں ، وہ صحیح بات فرما رہا تھا۔ وہ طریقہ (روحانی سلسلہ) کے بارے فرما رہا ہے ، اور پھر اللہ ( عزوجل ) نے ان کی وضاحت کی ،' ہو سکتا ہے ہم ان کی آزمائش کریں'۔ استقامت اپنائیں اور اپنا راستہ پر ڈٹے رہیں۔ ہر چیز فتنہ بن جائے گی۔ آپ کی بیوی اور بچے آپ کیلئےفتنہ ثابت ہوں گے۔
﷽
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ ۚ وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۞
اے ایمان والو! بیشک تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں پس اُن سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم صرفِ نظر کر لو اور درگزر کرو اور معاف کر دو تو بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
سورۃ التغابن ( 64) آیت 14
If You Leave the Circles of Zikr, You Will Be Tested By Other Means
اگر آپ ذکر کی انجمن ( حلقہ) چھوڑ دیتے ہیں تو آپ کو دوسرے طریقوں سے آزمایا جائے گا:
آپ کی زندگی میں ہر چیز آپ کیلئےمشکلات کا باعث ہوگی ۔ اور اللہ ( عزوجل ) فرماتا ہے ، 'بہتر ہے ، تم اپنے ایمان پر قائم رہو'۔ اور کیوں؟ 'تاکہ ہم ان کا امتحان لے سکیں'۔ اس میں اور جو بھی منہ پھیرتا ہے ، یعنی طریقت ، آپ کے راہ میں آزمائش ہوگی۔ جس نے ذکر اللہ (یاد) سے منہ موڑ لیا ، جو شخص اللہ کے ذکر سے روگردانی کرے گا ، وہ اُسے سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔ انعام کے ساتھ ، خطرہ آتا ہے۔ انعام کے ساتھ ، خطرہ آتا ہے۔ اللہ ( عزوجل ) نے ہمیں وارننگ دی ہے ، 'یہ اسٹیشن (درجہ )میں آپ کو دینا چاہتا ہوں ، اس لئے نہیں کہ آپ ( مجلس میں ) اچھا کھانا کھائیں اور ذکر کریں ۔ لیکن میں آپ کے درجات (اسٹیشن) کو بلند کرنا چاہتا ہوں۔ اور آپ کی حقیقت کو بلند کرنا چاہتا ہوں ۔آپ پر حقیقت کا ہر سمندر نچھاور کرنا چاہتا ہوں۔ اپنے ایمان اور اپنے آداب پر قائم رہو۔ '
اور اگر ایک لمحے کیلئےبھی تم اپنی ہوشیاری میں یہ سوچتے ہو کہ میں چلا جاؤں اور ذکر اللہ چھوڑ دوں۔ وہ کہتے ہیں ، ’’ اوہ ، ذکر ا للہ ( کا طریقہ ) یہ ہے، یہ ہے' ۔ نہیں ، نہیں ، اللہ ( عزوجل ) کا ذکر تو ذکر ہے اور اہل ِ ذکر اللہ میں شامل ہوناہے ۔ اور وہ حلقوں اور انجمن میں بیٹھتے ہیں اور وہ اللہ ( عزوجل ) کی تعریف (حمدو ثنا٫) کرتے ہیں ۔ اور وہ اللہ (عزوجل ) کے سب سے پیارے نبی (ﷺ) کی تعریف ( نعت ) پڑھتے ہیں۔
اگر آپ اسے چھوڑ دیتے ہیں تو ، جان لیں کہ مشکل آنے والی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ اسٹیشن جو اللہ ( عزوجل ) عطا کرنا چاہتا تھا۔ وہ اسے عطا کرے گا ، کیونکہ وہ آپ سے محبت کرتا ہے۔ وہ عطا کرے گا، چاہے آپ زمین پر بیٹھے ہوئے اعمال (وظائف، حمدو ثنا٫ تفکر ومراقبہ) کریں یا آپ کو لگے کہ آپ دنیا (میں مگن ) دوڑرہے ہیں اور چاہے جو بھی احمقانہ کام تم کرنا چاہو۔ آپ کا تزکیہ اُس دنیا میں ہو جائے گا ۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر مشکل اور پریشانی اس بندے کی طرف آنا شروع ہوجائے گی جب تک کہ وہ اُس مقصد تک نہ پہنچ جائے جس تک اللہ ( عزوجل ) نے ان کو پہنچانا چاہا تھا۔ آپ خوبصورت (طریقے ) سے پہنچ سکتے ہو… وہاں بیٹھ کر ذکر کریں ، تعریف (حمدو ثنا٫ )کریں ، روئیں اور سیدنا محمد (ﷺ)سے محبت کریں۔ یا تم دوسرے راستے پر چلو اور ہر مشکل تمہیں آکر کچل دیتی ہے ، جب تک کہ تم رو پڑو ( گریہ زاری کرو)،خون اور پسینہ اور تمہارے بہہ رہے ہوں اور تم تب بھی وہ ( درجہ) حاصل کرلو گے جو اللہ ( عزوجل ) اس بندے کو دلانا چاہتا تھا۔ لہذا ، ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ( عزوجل ) ہمیں نیکی کے ذریعہ ، اچھے اعمال سے ، آسانی کے ذریعہ اسکو حاصل کرنے کی ترغیب دے، نہ کہ انا پرستی کے زریعے۔
ان شا٫اللہ
🧙♂️شیخ سید نور جان میر احمدی نقشبندی قَدس اللہ سِرّہٗ
Read Article in English: https://nurmuhammad.com/tafsir-7216-keep-your-tariqat-…/
Watch this Sohba here: https://www.youtube.com/watch…