![Reality of Mirrors and Sayedena Khidr [AS] اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الر...](https://nurmuhammad.com/wp-content/uploads/Urdu-Reality-of-Mirrors-and-Sayedena-Khidr-AS-اَعُوْذُ.jpeg)
Urdu – Reality of Mirrors and Sayedena Khidr [AS] اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الر…
Reality of Mirrors and Sayedena Khidr [AS]
اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۞
اللہ عزوجل کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۞
اللہ (عزوجل) کے نام سے شروع کرتا ہوں جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے ۔
أَطیعُوا اللّهَ وَأَطیعُوا الرَّسُول وَأُولی الأمرِ مِنْکُمْ۞
‘اے ایمان والو! اللہ (عزوجل) کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی۔’ میں خود پر ظلم کرنے والوں میں سے ہوں، اَنَا عَبْدُكَ الْعَاجِزُ، ضَعِیْفُ ، مِسْکِینُ وَ ظَالِمْ وَ جَھَلْ ( یا رب، میں آپ کا بندہِ عاجز، ضعیف، مسکین اور ظالم اور جاہل ہوں) لیکن اللہ (عزوجل) کے فضل
سے میں ابھی تک زندہ ہوں اور اللہ (عزوجل) ہمیشہ اپنی رحمہ اور رحمت کا مینہ ہم پر برساتا رہے۔ ان شاء اللہ (عزوجل) ۔
سیدنا محمد (ﷺ) کی حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ مومن اپنے بھائی کا آئینہ ہے اور ایک حقیقت رکھتاہے کہ یہ دنیا ، یہاں ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنا عکس دیکھتے ہیں۔ اس 'میں کون ہوں' کہ آئینے میں ، یہ مجھے میری غلط تصویر دکھاتا ہے اور مجھے کیا بُلایا جاتا ہےاور وہ(لوگ) میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں، یہ مجھے ایک احساس (شناخت ) دیتا ہے کہ میں کون ہوں ، لیکن یہ میری حقیقت نہیں ہے۔ یہ میری حقیقت کی شکل تک نہیں ۔ یہ سب کچھ وہم /فریبِ نظرمکان جیسا ہے اور ہمارے روحانی راستے میں موجود یہ آئینہ ، اسے توڑنا ہے کہ ہم اس وہم اور فریب کی دنیا کو توڑ دیتے ہیں۔ یہ فریب جو ہمارے والدین نے ہمیں دیا ، ہمارے دوستوں نے ہمیں دیا اور جس نے بھی ہمیں بلایا ، وہ ہم پر جو بھی(عکس) ڈالتے ہیں کہ ہم کون ہیں اور ہمیں کیا ہونا چاہئے، (سب) وہم اور فریب کا ایک راستہ ہے۔
حَدَّثَنَا أَصْبَغُ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي خَالِدُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: الْمُؤْمِنُ مَرْآةُ أَخِيهِ، إِذَا رَأَى فِيهَا عَيْبًا أَصْلَحَهُ.
سیدنا ابوہریرہ نے روایت ہے کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا ‘مومن اپنے بھائی کا آئینہ ہے۔ جب اُسے اس (آئینہ) میں کوئی عیب نظر آتا ہے تو اسے اسکی (اپنی ) اصلاح کرنی چاہئے۔’
اس حدیث پاک کے ساتھ سیدنا محمد (ﷺ) جو حقیقت لائے ہیں وہ حقیقت کا ایک سمندر ہے کہ مومن اپنے بھائی اور بہن کا آئینہ ہے۔ یعنی جب آپ کو زندگی میں ایک مومن مل جاتا ہے اور ہر شخص مومن نہیں ہوتا ۔ یعنی یہ بات اُس سطح پر ہورہی ہے جس کے پاس ایمان ہے۔ تو ، یہ وہ لوگ نہیں جنہوں نے (محض) اسلام قبول کیا۔ یہ اُس سطح پر ہے جن کو اللہ (عزوجل) نے نور عطا فرمایا۔ ان کو نور عطا کیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ ایمان ، ایک یقین رکھتےہیں۔
اس ایمان کی روشنی کی وجہ سے وہ جھلک( رفلیکشنز) ہیں۔
لہذا ، جو بھی ان کی طرف دیکھتا ہے ، وہ اصل میں اُ نہیں نہیں دیکھتا، کیونکہ آئینےکے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ اسی وجہ سے آپ اپنی روحانی کلاس میں، یہ وہ (اہم ) باتیں ہیں، جن کےآپ نوٹس بناتے ہیں اور پھر آپ کچھ باتیں ہائی لائیٹ کرتے ہیں اور پوسٹ کرتے ہیں۔ کہ یہ اہل ایمان، جہاں کہیں بھی زندگی میں ہوں، اگر ہمیں اتنے خوش نصیب ہیں کہ کسی کو ڈھونڈ لیتے ہیں ، تو جب ہم ان سے معاملات رکھتےہیں ، ان کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں ، ان سے سیکھتے ہیں تو وہ محض آئینہ ہیں۔ کیونکہ سیدنا محمد (ﷺ)کی باتیں 1000 فیصد درست ہیں۔ میں شیخ کو نہیں دیکھ رہا ، میں شیخ کے کردار کو نہیں سمجھ رہا ۔ شیخ کے ساتھ میری بات چیت جس سطح پر ہے، جہاں میں سمجھتا ہوں کہ میں اُنہیں جانتا ہوں، وہ غلط ہے۔ آپ نہیں جانتے ، کیونکہ وہ خود کو بھی نہیں جانتے۔ وہ بھی خود کو جاننے کے سفر پر ہیں۔ لہذا ، کوئی بھی کسی کو جاننے کا دعوی نہیں کرسکتا جب کہ وہ خود کو بھی نہیں جانتے۔ یہاں تک کہ اگر وہ خود کو جانتے بھی ہوں تو بھی وہ خود کو نہیں جانتے کیونکہ اللہ (عزوجل) ہر لمحہ ایک نئی تجلی میں ہے۔ اور نبی کریم (ﷺ) کو (میراث ) مل رہی ہے لہذا ہر لمحہ نبی کریم (ﷺ) ایک نئے تجلی میں ہیں اور ہر لمحے روحانی طالبوں کو نئے تجلی کے ساتھ اُوپر اُٹھایا جا رہاہے۔ کوئی ایک مقام نہیں ہے جہاں پہنچ کر آپ کہیں ، ‘اب میں خود کو جانتا ہوں۔’ اس کی گنجائش لامحدود ہے۔ تو ، پھر آپ یہ نہیں کہہ سکتے ، ‘میں اُنہیں (شیخ کو ) جانتا ہوں۔’ جبکہ میرا راستہ اُنہیں (شیخ کو ) جاننا نہیں، بلکہ اپنے نفس کو جاننا تھا۔
اس کے نتیجے میں، اُس آئینے (شیخ ) کے ساتھ میرا رابطہ کس طور کا ہے۔ اور وہ آئینہ جھلک دکھا رہا ہے کہ میں کون ہوں، کیونکہ مجھے اپنی ذات کو سمجھنے کی تربیت نہیں ہے ۔ میری روحانی فراست نہیں ہےکہ اپنے باطن میں جاؤں اور اپنے کردار کے نقائص دیکھوں ۔ لہذا ، اسی وجہ سے وہ تربیت کرتے ہیں کہ ان کی تصویر دیکھتے رہیں، ویڈیوز دیکھتے رہیں، ان کی کمپنی (رفاقت ) جاری رکھیں، یہ آئینہ ہے، یہ آپ کیلئے آئینہ ہے کہ (آپ ) جانیں ، نہ کہ وہ (شیخ) کون ہے، بلکہ آپ کون ہو۔ کیونکہ نور جو اُن سے پھوٹ رہا ہے ، آپکو، آپکی تمام ناگوار ( جارحانہ) باتیں دیکھائے گا، آپکو، آپ کا سارا غصہ نظر آئےگا۔
جب بھی وہ آپ کو غصہ دلائیں آپ کو اسےلکھتے رہنا چاہیئے کیونکہ یہ ایک اسکول ہے ، یہ فلسفہ کی کلاس نہیں ہے۔ جب بھی مجھے غصہ آئے، مجھے لکھنا چاہئے ، کیوں اس نے یہ بات کہی، جو بھی بات کہی اور میں غصہ ہو گیا ، میں پریشان ہو گیا ، میں الجھن میں پڑ گیا ، جو کچھ بھی مجھے (محسوس ) ہوا، مجھے (میری بیماری ) دکھائی جارہی ہے، یہ ایڈوانس میڈیکل ٹیکنالوجی کی طرح ہے ، یہ ایم آر آئی جیسا اور سی ٹی اسکین ، جیسا ہے ، جیسے ہی آپ کو نظر آئے — (کوئی بہت زور سے چھینکتا ہے ) 'وہو ، یاہو' الحمد اللہ ، حق ، یہ ایک بہت بڑا حق تھا — لہذا یہ ایم آر آئی جیسا ہے ، جیسے ہی وہ دیکھتے ہیں ، آپ ان کی ویڈیو دیکھ رہے ہیں ، ان کی تصویر دیکھ رہے ہیں ، یا تفکر کرنا سیکھ رہے ہیں ، ان کی تمام شبیہہ آپ کو متاثر کرنے لگتی ہے اور یہ ان تمام بیماریوں کو ختم کرنا شروع کردیتی ہے ، یہ ایم آر آئی کا طریقہ ہے ۔ جب آپ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو ، آپ کے اندر موجود (چھپی بیماریوں) چیزوں کو سامنے لانا پڑتا ہے تاکہ آپ کی گہری صفائی ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ ان (اولیااللہ ) سے بات چیت کرتے ہیں تو ، ان کی بات چیت، صرف آپ کے (رویہ ) کی نقل کر رہی ہے، کیونکہ ہر چہرے میں وہ ہر بندے کے ساتھ مختلف ہیں،کیونکہ ہر ایک کی تجلی مختلف ہے ، ایک مختلف حقیقت ہے۔
جیسے ہی آپ مکمل طور پر آئینے کے سامنے آجائیں ، آپ کے ساتھ ان کی بات چیت (رویہ) بالکل مختلف ہوجائے گا اور اب آپ آئینے کی پوری موجودگی میں ہوں گے۔ جب آپ تفکراور غور و فکر کرتے ہیں ، یا آپ گھر میں اکیلے ویڈیو (بیان) دیکھتے ہیں یہ آئینہ آپ کو جھلک دیکھا رہا ہے۔ اگر آپ نے یہ راستہ سنجیدگی سے اختیار کیا ہے ، تو آپ ایک کتاب میں ہر وقت اپنا محاسبہ اور اپنا اِحتساب لکھتے رہیں گے۔ اس نے مجھے غصہ دلایا ، اس نے مجھے ناراض کیا ، اس نے مجھے پریشان کردیا ، اس نے مجھے الجھایا ، اس نے مجھے سوالات کرنے پر مجبور کردیا۔ اس نے مجھے شک کرنے پر مجبور کر دیا اور یہ شیخ نہیں ہیں۔ یہ وہ آئینہ ہے جو آپ کو ( آپ کی) جھلک دکھاتا ہے کہ یہ وہ بیماریاں ہیں جو آپ کے اندر چھپی ہیں یا وہ عیاں ہیں اور اللہ (عزوجل) چاہتا ہے کہ آپ ان کو جانیں ورنہ آپ کیسے صاف (تزکیہ) کرسکتے ہیں اور جس چیز کو آپ نہیں دیکھتے ، اس کو صاف کرنے کے ذمہ دار کیسے ہو سکتے ہیں۔ لہذا ، وہ ( اولیااللہ ) ذمہ دارہیں ، ان (کردار کی بیماریوں کو) باہر لائیں۔
ایک بار جب آپ (اپنے کردار کی ) صفائی کرنے لگتے ہیں اور صاف کرتے ہیں اور صاف کرتے چلےجاتے ہیں تو پھر وہ آپ کو سکھانا شروع کردیتے ہیں کہ تزکیہ کی منزل سے آگے بڑھنا شروع کریں تو ’عشق’ ( محبت الہی) کی منزل شروع ہو جاتی ہے۔ آپ خود سے محبت نہیں کرسکتے ، آپ نہیں جانتے کہ کیسے ، ہمیں نہیں معلوم کہ کیسے (محبت) کرنی ہے۔ جب ہم قربِ حقکی محبت میں اُن ( اولیااللہ ) کی طرف دیکھنا شروع کرتے ہیں تو ، وہ ہمارے دلوں میں اُس قرب حق کی جھلک بننے لگتے ہیں۔ یعنی اس آئینہ داری کا راز یہ ہے کہ جب میں اُن (اولیااللہ) سے محبت کرتا ہوں، کیونکہ میں خود سے واقعتا محبت نہیں کرسکتا، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ تکبر اور غرور کی حالت کے بغیر کیسے رہنا ہے۔ لہذا ، پھر ہمیں سکھایا جاتا ہے ، فنا ہو جاو، فنا ہو جاو اور مِٹ جاو۔ محبت کی یہ حقیقی کیفیت ہے ، جب ہم اُن سے پیار کرتے ہیں ، ان کا احترام کرتے ہیں ، ان کی خدمت میں حاضر ہوجاتے ہیں، اپنی زندگی کو طروق (طریقت) اور اس روحانی راستے کے پابند کرتے ہیں اور، پھر ہمیں ایک محبت ہونے لگتی ہے۔ اور پھر اللہ (عزوجل) ان کے دل میں راز رکھ دیتا ہے، میرے لیئے— اُس کیلئے جو تلاش کر رہاہے ، ‘میں نہیں جانتا کہ اس محبت کو اپنے اندر کیسے ڈھونڈوں’۔ بہت سے لوگ توقع کرتے ہیں کہ دنیا ان سے محبت کرے لیکن وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کیسے خود سےواقعی محبت کرنی ہے ، خود کو درست کرنا ہے ، خود کو کامل بنانا ہے۔ وہ تمام غلط مقامات پر پیار ڈھونڈتے ہیں ، سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں کو تبدیل کرسکتے ہیں ، ‘ایسے ہو جاو ، ویسے ہو جاو تاکہ میں خوش ہوسکوں۔’ طریقت آکر سکھاتی ہے ‘نہیں ، نہیں، اللہ (عزوجل) یہ نہیں چاہتا ، یہ محبت نہیں ہے کہ لوگوں کو اپنے مطابق تبدیل کرنے اور بدنے کی کوشش کی جائے۔(اس سے ) تمہیں پتہ نہیں چلے گا کہ تم کون ہیں۔ تم نے اپنی زندگی کے منظر میں ہیرا پھیری کر دی، تم نے (اپنی زندگی کے ) کرداروں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی بجائے کہ اللہ (عزوجل) کرداروں کو کنٹرول کرتا ۔ ہر ایک کردار میری زندگی اور (میری کہانی کے ) منظر میں یہ بتانے آئے گا کہ اللہ (عزوجل) اس منظر میں کیا چاہتا ہے۔ ایک بار جب میں ایک سالک بن جاتا ہوں اور میں اپنے کردار پر کام کرنا شروع کر دیتا ہوں تو ، مجھے احساس ہوتا ہے کہ اب آئینوں کے اس گھر میں ہر شخص میرے ہی کردار کی جھلک دیکھا رہا ہےکیونکہ میں اسے اپنے اندر نہیں دیکھ پاتا۔ تم جانتے ہو(سیدی اپنی کمر /پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہیں) کہ یہاں سے کاٹ دینا اور کچھ باہر کھینچنا (اپنا آپریشن کرنا) بہت مشکل ہے ۔ ‘میں اسے (بیماری کو ) نہیں دیکھ سکتا’ ، لیکن اگر میں اُوپر (سامنے ) شیشہ رکھ دوں اور دیکھوں تو (نظر آئے گا) اور بہت سی دوائیوں کا عکس نظر آئے گا۔ میں آئینے میں دیکھ کر (بیماری ) دیکھ سکتا ہوں۔ لوگ ہمارے لیئے اس ( شیشہ کی ) حقیقت جیسا کام کرنے کیلئے ہیں۔ جب اللہ (عزوجل) آپ کو طروق(روحانی راستوں) میں داخل کرتا ہے ، تو وہ تمام طلبہ کو شیخ کے عکس کی معمولی سے جھلک بنا دیتا ہے۔ ایک بات ، شیخ مکمل آئینہ ہے جو ان تمام حقائق کو بھیجتا ہے ، آپ اسے کبھی نہیں جانتے ۔ یہ کہنا ، ‘اوہ! میں شیخ کو تھوڑا ساجانتا ہوں۔ آپ کو کچھ پتہ نہیں ہے ، آپ خود کو بھی نہیں جانتے ، آپ نے یہ تک نہیں دیکھا کہ وہ واقعی کیسے نظر آتے ہیں ، ان کی مادی جسم کی شکل نہیں دیکھنی بلکہ روشنی کی دنیا میں ان کی تصویر (شکل ) کیا ہے۔ پھر تمام طلبا آئینوں کے طور پر کام کرتے ہیں لہذا آپ کی سب کے ساتھ بات چیت ( کے دوران ) جو کچھ بھی عادتیں ( دوسروں کی خامیاں) سامنے آ رہی ہے ، وہی کچھ خامی آپ میں ہے۔ اس وجہ سے آپ دوسرے لوگوں پر الزام نہیں لگاتے کہ وہ ایسے ہیں ، وہ ویسے ہیں ، وہ یہ ہیں– نہیں ، کیونکہ میں یہاں اس ہسپتال میں اپنی بیماری کا پتہ لگانے (ڈھونڈنے) کیلئے آیا ہوں۔ میں اپنی بیماری جاننے کے لئے ہسپتال آیا ہوں (نہ کہ ) میں ہسپتال کی تشخیص کیلئے ہسپتال آیا ہوں—یہ غرور کی بات ہوگی۔
میں اس عشق کے ہسپتال میں محبت تک پہنچنے آیا ہوں اور میری بیماریاں مجھے روک رہی ہیں۔ میری بیماریاں ہر اُس شئے پہ پردہ ڈال رہی ہیں ، جو میں مانگ رہا ہوں ، جو میں مانگ رہا ہوں ، ‘یا ربی ، اوہ! مجھے یہ دروازے عطا فرمائیے ، میرے لئے یہ راہیں کھول دیجئے، مجھے سیدنا محمد (ﷺ) کی بارگاہ میں حاضر ہونے دیجئے۔ نبی کریم (ﷺ) یاد دلاتے ہیں ‘پھر اپنی بیماریاں دور کرو ، ان خامیوں کو دور کرو’ ، تو پھر ہر ایک اس چیز کا عکس ہوتا ہے جو اللہ (عزوجل) چاہتا ہے کہ تمہیں معلوم ہونا چاہئے۔ جب لوگ مجھ پر غصہ ہوتے ہیں تو کچھ میری فطرت میں جارحیت (غصہ) اور عدم برداشت ہے۔ جب کوئی شخص مجھ سے بدتمیزی کرتا ہے تو ، اللہ (عزوجل) چاہتا ہے کہ میں اس کا ذائقہ چکھوں ، ‘تم نے دیکھا کیسے یہ بدتمیزی دل دُکھاتی ہے ، بدتمیزی مت کرو ، لوگوں کے دلوں ت توڑ دو۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ دُعا ہے ، اسی وجہ سے اگر تم ان کے دعاؤں کی نقل کرتے ہو تو تمہارا راستہ آسان ہوجاتا ہے
﷽
وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ۞
اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، بے شک اللہ بندوں کو دیکھنے والا ہے
سورۃ غافر(40) آیت 44
جب میں ان خامیوں کی وجہ سے بہت زیادہ بے بس ہو جاتا ہوں تو میں کہتا ہوں ، 'یا ربی ، میں جانتا ہوں آپ دیکھ رہے ہیں ، میں جانتا ہوں کہ یہ حد ہے ، یہ بہت زیادہ ہے۔ میں اسے سمجھتا ہوں ، میں سمجھتا ہوں جو بھی میرے پاس آرہا ہے ، یہ ایسی چیز (خامی ) ہے جس پر مجھے کام کرنا ہے۔ مجھے سمجھ آ گیا ۔اگر آپ دعا نہیں کر رہے ہیں تو اللہ (عزوجل) یہ سوچتا ہے کہ تمہیں یہ(سبق) نہیں ملا ، لہذا وہ ان کرداروں میں سے مزید بھیجتا رہتا ہے جو مشتعل کرتے ہیں اور غصہ دلاتے رہتے ہیں ، لیکن ہوشیار (طالبعلم) ، جو طریقت میں سبقت رکھتا ہے ، وہ لکھ رہا ہے اور لکھتا ہے کہ 'کیوں ، کیوں یہ شخص ایسا کہتا ہے میں ناراض ہوجاتا ہوں ، اس شخص نے ایسا کیوں کہا ، میں مشتعل ہوجاتا ہوں ، کیوں شیخ اس طرح بات کرتا ہے میں بن جاتا ہوں …'، میں اپنے بارے میں سیکھناشروع کرتا ہوں ۔ میں خود کو سمجھنے کے لئے یہاں آیا تھا اور پھر یہ محبت ان کے دل میں بھر دی جاتی ہے۔ جب میں ان سے محبت کرنا شروع کرتا ہوں تو یہ اللہ (عزوجل) کی سچی محبت کا عکس ہوتی ہے اور اسی وجہ سے یہ اولیا اللہ پڑھتے ہیں 'کہ مجھے آپ میں محبت مل گئی ، مجھے آپ میں ایک عشق الہی ملا۔ اور اس محبت کو ڈھونڈ لینے کی وجہ سے ، اللہ (عزوجل) نے اُسے میرے ہی دل میں دوبارہ منعکس کیا اور میں عاشقین بن گیا۔
کیونکہمیں نے اپنی برائی اور اپنے برے کردار ، اور تکبر اور خود پسندانہ (رویہ) سے محبت نہیں کی۔ یہ محبت، جسے میں نے چاہا اور میں نے (کردار) صاف کیا اور میں نے تصفیہ کیا،صاف کرتا چلا گیا، مسلسل تذکیہ کی اور محاسبہ کی زندگی گزار دی کہ 'میں کیوں پریشان ہو رہا ہوں؟ اس بات چیت (رابطہ) میں اللہ (عزوجل) مجھے کیا دکھانے کی کوشش کر رہا ہے میں پریشان کیوں ہوگیا۔ ' لہذا ، مسلسل صفائی جاری رہتی ہے، کیونکہ ایسا گھر جو صاف نہیں ، رہنے کے قابل عمل نہیں ہوتا۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے ، 'میں نے سال میں ایک بار صاف کیا تھا' ، آپ کے گھر کو ہر روز ، ہر روز ، ہر روز صاف ہونا ہے ، (دل ) کی مسلسل صفائی کرنا یہ ہمارے لیئے تصوف ہے۔
لیکن اس محبت میں ہم اپنی ذات میں یہ محبت الہی نہیں پا سکتے ، اسے آئینے میں ڈال دیا گیا ہے۔ جیسے ہی ہم نے تلاش کیا ، مجھے معلوم ہوا کہ جب مجھے ان (اولیااللہ )کے اندر وہ محبت مل گئی تو میں نے واقعتا اللہ (عزوجل) کو پالیا۔ جب مجھے شیخ کی محبت ، سیدنا محمد (ﷺ)کی محبت ، ان اولیاء اللہ کی محبت ، ان ( اولیا) سے میری محبت میں مجھے محبت الہی مل گئی، جس کے نتیجے میں اللہ (عزوجل) نے میرے دل میں یہ محبت پیدا کردی کہ 'آپ جس کے ساتھ محبت کرتے ہو، اُس کے ساتھ ہو گے'۔ جیسے ہی میں ان سے محبت کرتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ سیدنا محمد (ﷺ) کا نور ان(اولیا) میں جھلک رہا ہے ، اللہ (عزوجل یہ نور سیدنا محمد (ﷺ) میں جھلک رہا ہے ، اگر مجھے یہ معلوم نہیں، تو میں نہیں جانتا کہ میں کہاں جارہا ہوں ۔ وہ کیسے کوئی دروازہ کھول سکتے ہیں جب آپ کو یہ معلوم ہی نہیں کہ آپ کس کی موجودگی میں کھڑے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ آدب کا اسکول ہے ۔ آپ ابھی تک نہیں جانتے کہ آپ اپنی صلوات(درود) کس کو بھیج رہے ہیں؟ کوئی آکر کہتا ہے ، 'اوہ! میں اللہ (عزوجل) کا ذکر کرتا ہوں ، میں اللہ (عزوجل) کا ذکر کرتا ہوں 'جیسے اس کا خیال تھا کہ وہ سب سے اونچی منزل تک پہنچ گیا ہے۔ نہیں ، اللہ (عزوجل) کا ذکر نبی کریم (ﷺ) پر صلوات (درود) ہے ، آپ ابھی تک اس عکس اور اس آئینے کے آدب نہیں سمجھ سکے۔ یہ آئینہ اتنا طاقت ور ہے کہ'لا الہ الا اللہ ' اس آئینے پر عکس جاری کرتا ہے جسے ‘محمد رسول اللہ’ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جب آئینہ ٹوٹ جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ سب کچھ بکھر جاتا ہے ۔ یہ ساری تخلیق'لا الہ الااللہ ' کو واپس لوٹ جائےگی۔ لہذا ، جب اللہ (عزوجل) ہر چیز کو موت کے ذائقہ چکھائے گا، تو ہر فرشتہ فوت ہوجائے گا ، ہر جنت ٹوٹ پڑے گا ، ہر چیز منہدم ہوجائے گی۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ کہ اللہ (عزوجل) نے آئینے کو توڑ دیا اور حقیقت میں کچھ بھی واقعتا موجود نہیں تھا ، یہ صرف ایک عکس(جھلک) تھی۔ ، یہ 'لا الہ الااللہ ' کی طرف واپس لوٹ جاتا ہے۔
لہذا ، مطلب یہ ہے کہ آئینے کے مفہوم کی گہرائی ناقابل تصور ہے۔ ہماری ساری ٹیکنالوجی مصنوعی سیاروں کے اس آئینہ داری پر مبنی ہے ، ہر سگنل کسی نہ کسی جگہ منعکس( آئینہ ) ہو رہا ہے تاکہ آپ کو بھیجا جائے۔ آپ کا ‘مدد’ (مانگنا) منعکس ہورہا ہے۔ جیسے ہی آپ اپنی مدد مانگتے ہو ، شیخ آپ کی روح کو ایک عکس بھیج رہے ہیں اور منعکس ہونے کا یہ سلسلہ جاری ہوتا ہے اور آکر آپ سےٹکراتا ہے۔ کیونکہ وہ سب ان حقائق کا عکس بھیج رہے ہیں۔ لہذا ، یہ حقیقتوں کا ایک لامحدود سمندر ہے ۔ دراصل (مولانا جلال الدین محمد بلخی) رومیؑ کے اشعار / اقوال میں تنہائی اور خلوت اور محبت اور محبت ڈھونڈنے کا یہ (معانی ہے ) ‘میں واقعتا اس وقت تک اللہ (عزوجل) سے محبت نہیں کرسکتا جب تک کہ میں اپنے محبوب کو نہ پاؤں’۔ جب میں نے اُن (شیخ) کو پالیا جو میرے لیئے سیدنا محمد (ﷺ)کی نمائندگی کرتے ہیں ، تو مجھے محبت ہوگئی۔ اور اس محبت میں یہ ایک جھلک بن گئے۔ اور یہ محبت احترام کی ہے ، یہ رومانٹک محبت نہیں ہے ، یہ ‘احترام’ کی محبت ہے جیسے آپ سیدنا محمد (ﷺ)سے محبت کرتے ہیں ، رومانوی اور دنیاوی غلیظ معانی میں نہیں۔ یہ ایک عشق ہے اور اسی لئے یہ نعتیں بہت خوبصورت ہیں۔ یہ ایک عشق ہے کہ انہیں ایک محبت الہی ملی ہے جو اتنا پُرتاثیر نشہ (سرور) ہے کہ اگر انہیں سیدنا محمد (ﷺ) کے چہرے کی اک نظر مل جائے تو وہ مدہوش ہو جاتے ہیں۔ بہت خوش ، بہت بابرکت ، اتنے پرجوش (کہ )وہ اس خوشی میں پانی پر چل سکتے ہیں ، اس فضل اور اُس چہرہِ اقدس کی بے پناہ رحمت اور فراخدلی سےکہ آپ(ﷺ) نے واقعی میری طرف دیکھا ہے اور میں اپنے سارے غلط اور اپنے تمام بُرے (اعمال) کی وجہ سے جانتا ہوں کہ میں آپ (ﷺ) کے چہرہِ اقدس کی نظر کا مستحق نہیں ہوں۔ لیکن آپ رسول کریم (ﷺ) ہیں ، ‘وجہہ الکریم’ ، اللہ (عزوجل) کا کریم/سخی چہرہ ہیں کہ آپ نے مجھ پر نظرِ کرم ڈالی ، تمام مشکلات دور کردیں ، ہر طرح کی مشکل چھین لی ، میری ساری مایوسی چھین لی ، میرا احساس( چھین لیا) کہ مجھے 'مقام' حاصل کرنا ہے اور میرے حاصل کرنے کیلئے کوئی مقام نہیں لیکن آپ (ﷺ) نے میری طرف دیکھا۔ آپ (ﷺ) نے میری طرف دیکھا اور میری زندگی واضح ہوگئی کہ مجھے دیکھئےاور مجھے تھامیئے اور مجھے اپنی منزل تک لے جائیے اور بس اتنی ہی میری ضرورت ہے۔ کیونکہ اگر (میری ) اس گھٹیا حالت میں آپ (ﷺ) نے مجھ پر نظر ڈالی ہے تو مجھے یقین ہے کہ ہر چیز دُھل گئی اور پاکیزہ ہو گئی اور صاف ہو گئی اور پھر اس دنیا کا باقی معاملہ صرف ایک وہم ہے اور وقت ہے جو ہم گزار رہے ہیں۔ یعنی اس ڈھونڈنے کی راہ کے بے حد حقائق ہیں کہ سیدنا محمد (ﷺ) کی تعلیمات، وہ کوئی خالی باتیں نہیں ہیں ، وہ سطعی چیزیں نہیں ہیں ، وہ سمندر ہیں جس کا ایک لفظ ‘وحی القرآن’ ہے ، جسے اللہ (عزوجل) بیان فرما رہا ہے ‘کہ وہ (ﷺ) محض کلام نہیں کرتے۔ اُن (ﷺ) کا ارشاد وحی ہے ’۔
﷽
إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ۞ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ۞
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔
سورۃ النجم (53) آیت 3-4
وہ (ﷺ) محض کلام نہیں کرتے۔ اُن (ﷺ) کا ارشاد وحی ہے، یہ کس قسم کی طاقت ہے کہ سیدنا محمد (ﷺ) کا ہر کلام ( گفتگو) ، ہر لفظ ، ہر زبان اور ہر سانس، اس حقیقت کا بے پناہ سمندر ہے۔ لہذا ، مطلب ہماری زندگی کا مقصد، اس منزل تک پہنچنا ہے۔ ہماری زندگی کا مقصد ان انجمنوں کے آئینے میں رہنا ہے ۔ ان احباب اور محبت کرنے والوں کو تلاش کریں ، ان کی صحبت رکھیں ، طلباء کی رفاقت رکھیں۔ ان کے کردار کے جنون میں آپ کو اپنا عیب معلوم ہو جاتا ہے۔ آپ کو (اپنی خامی ) مل جاتی ہے ۔کہ اگر تم اس مقام تک پہنچنے کی تلاش کر رہے ہو، قربت (سیدنا محمد ﷺ کی بارگاۃ ) تک پہنچ جاو، تو تمہیں اپنی خامیاں مل جائیں گی۔ تم سمجھ جاؤ گے کہ کیوں ہر ایک مشتعل اور غصیلا اور پریشان ہے اور تم لکھتے جاتےہو ، لکھتے جاتے ہو ، لکھتے جاتے ہواور پھر تم اپنی تحریر میں ظاہر ہوجاؤگے۔ ‘جو خود کو جانتا ہے وہ اپنے آقا کو پہچان لے گا’۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَهْ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ
‘جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ ’
حضرت سیدنا محمد (ﷺ)
پہلے ‘رب’ وہ خامیاں ہیں جو مجھ پر حکومت کرتی ہیں۔ وہ بڑے شیطانوں کی طرح ہیں جو میرے کردار میں شامل ہیں ، مجھے غصہ دلاتے ہیں ، مجھے اس طرح سے اُکساتے ہیں ، آپ اللہ (عزوجل) کی خدمت نہیں کررہے ہیں ، آپ ان شیطانوں کی خدمت کر رہے ہیں جو آپ کے کردار کو پلٹ دیتے ہیں۔ اگر آپ اِن سے نہیں لڑتے اور انھیں مارنا شروع نہیں کرتے تو آپ اللہ (عزوجل) تک کیسے پہنچیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ پھر جب میں خود کو جاننا شروع کروں تو ، میں جانتا ہوں کہ مجھےکیا چیز بڑھکا رہی ہے اور میں اب اس سے لڑنے کے لئے تیار ہوں۔ اس شخص کو تھپڑ مارنے کیلئے نہیں جس نےتمہیں پریشان کیا ہو بلکہ خودکو تھپڑ مارنا ، گھر جاؤ 'ٹھک' ، تم جانتے ہو وہ (پٹائی کی ) چیزیں لیں اور ’پاؤ ، پاؤ ، پاؤ’ ( خود کو مارنے کی آواز) ۔ کچھ فلموں میں یہ دیکھا ہے (مارنے کی آواز) اور بعض اوقات تمہیں لگتا ہے کہ تم اپنی مارکھانے کےمستحق ہو ، 'مجھے یقین نہیں آتا میں نے ایسا کیا اور نہیں جانتا کیا کرنا چاہئے'۔لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اپنی زندگی میں، میں اس طرح کیسے کرسکتا ہوں— استغفار کریں ، روئیں ، خود کو سزا دیں ، اپنے لئے سزا کے طور پر کچھ کریں۔ تلافی کریں کہ تم یہ کرنا چھوڑ دو۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم کچھ برا کرتے رہو اور پھر اگلے دن (نارمل) گزارؤ۔
لہذا ، تب وہ اس آئینہ کی حقیقت ، اسکا معانی سمجھ گئے۔ جس پر آج ہم بات کر رہے تھے تو یہ ایک اہم مضمون تھا۔ یہ سارا تفکر ، یہ پوری غوروفکر کی دنیا، عالمِ ملکوت سے ہے۔ انہیں ظاہری (مادی) دنیا میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔یہ عالمِ ملکوت ہے، جس تک وہ پہنچنا چاہتے ہیں۔ وہ دنیا عالمِ ملکوت ہے جس سے وہ رابطہ کرنا چاہتے ہیں لہذا ہم سیدنا خضر (علیہ السلام) کی حقیقت کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور سیدنا خضر (علیہ السلام) کا ایک بندہِ غیب ہیں جو دیکھائی نہیں دیتے۔ دہ دیکھائی دینے والے بندے نہیں ہیں ۔ قرآن مجید میں نبی موسی (علیہ السلام) کی مثال ہے کہ وہ ایک علم چاہتے تھے۔ اور 'میں ایک ایساعلم چاہتا ہوں جہاں دونوں دریا ملتے ہیں۔( لآ اِلَهَ اِلّا اللّه ُمُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ)۔
تو ، اس کا مطلب ہے، لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ الف،لام،لام ،ہا ، واو مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ سے ٹکرایا۔ یہ "ھ" اور "و"
ھ + و= ھو
( لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ— ھُو—مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ)
اُنہوں(نبی موسیؑ) نے فرمایا کہ میں وہ چاہتا ہوں جہاں وہ (دو دریا) ملتے ہیں ، میں آپ کے ‘ھو’ کے خادم سے ملنا چاہتا ہوں۔ وہ سیدنا یشوعؑ کے ساتھ نکلے اور سیدنا یشوعؑ کے ساتھ وہ تشریف لے جارہے تھے اور آپ ؑ کے پاس دوپہر کے کھانے کیلئے ایک سوکھی مچھلی تھی ، آپؑ تھک گئے اور کہنے لگا ، چلو کچھ لنچ لیتے ہیں ، ہم نے کیا کھانا ہے؟ انہوں نے (حضرت یشوعؑ) نے کہا یہ ’’ عجیب ‘‘ ہے۔ حضرت یشوعؑ نبی موسیٰ سے کہہ رہے ہیں، یہ بہت عجیب بات ہے ، مجھے افسوس سے بتانا پڑ رہا ہے۔ جب ہم وہاں پیچھے، اُس چٹان پر تھے تو یہ ‘ حوتی ‘ —ہر لفظ اللہ (عزوجل) کی پروگرامنگ کی طرح ہے— یہ مچھلی جسے "حو+تی" کہا جاتا ہے۔ یہ ‘ حو تی ‘ جو مردہ اور خشک تھی ، زندہ ہو گئی ، اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔اور اس سمندر میں کود پڑی۔
﷽
۞ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا
(خادم نے) کہا: کیا آپ نے دیکھا جب ہم نے پتھر کے پاس آرام کیا تھا تو میں (وہاں) مچھلی بھول گیا تھا، اور مجھے یہ کسی نے نہیں بھلایا سوائے شیطان کے کہ میں آپ سے اس کا ذکر کروں، اور اس (مچھلی) نے تو (زندہ ہوکر) دریا میں عجیب طریقہ سے اپنا راستہ بنا لیا تھا (اور وہ غائب ہو گئی تھی)
سورۃ الکھف (18) آیت 63
چنانچہ "لا الہ الا اللہ محمدرسول " کے درمیان ایک "حوتی" اٹھی اور پانی میں کود پڑی کیوں کہ انہوں نے سیدنا خضر (علیہ السلام) کو نہیں دیکھا تھا۔ وہ وہاں کھڑے نہیں تھے اور ( ایسا نہیں کہ ) وہ وہاں سے گزرے اور دیکھا نہیں کیونکہ بھوک لگی تھی۔ وہ کوئی ایسے نہیں جو دیکھائی دیں ۔ یعنی ہماری زندگی میں ایسا نہیں ہوگا کہ آپ کہیں جاکر اُن (حقائق) سے ملو گےاور آپ کے پاس(حقائق) تشریف لے آئیں گے جیسے تم حضرت مریم (علیہ السلام) کی طرح ہو، کہ یہ(حقائق) تمہاری پاس کھانے کی میز کے طور پر آئیں گے۔ یہ زندگی ڈھونڈنےکیلئے ہے۔حتی کہ 'کلیم اللہ ' (حضرت موسیؑ) جو اللہ (عزوجل) سے بات کرتے ہیں ، اللہ (عزوجل) اس بندے سے ملنے کا اشارہ دیتا ہے، اس حقیقت سے ملنے کیلئے اُنہیں اپنی رہنمائی کی عقل استعمال کرنی پڑی۔ اور انہوں نے فورا (اشارہ) سمجھ لیا جب کسی مردہ مچھلی میں جان آگئی ، ' میں یہی ڈھونڈ رہا تھا'۔ اللہ (عزوجل) کا ایک بندہ ہے جس کے پاس ‘محُی القلوب ومحی الذنوب’ (دلوں کو زندہ کرنے والا ، گناہوں کو مٹانے والا) کا راز ہے، جس کے پاس " محمد رسول اللہ" کی میراث ہے کہ وہ اپنے نور سے ‘محی القلوب’ فورا ہی ہر چیز کو زندہ کردیتے ہیں کیونکہ نور المحمدی( ﷺ) نور الانور ، سیرت الاسرار (ہر راز کا نور ہے اور ہر نور کا راز ہے ) ، یہ ہر وجود کا راز ہے۔ جب وہ اس پر نور ڈالتے ہیں جس پر اللہ (عزوجل) نور ڈالنا چاہتا ہے۔ ، "محی القلوب" روشنی آنے کی وجہ سے ، یہ ہرمردہ چیز کو زندہ کرتا ہے۔"محی الذنوب" یہ ہر گناہ کو کچل دیتا ہے کیونکہ یہ گناہ ہے جو اسے مردہ کرتا ہے۔ گناہ ہیں جو چیزوں (نعمتوں) کو روکتے ہیں ۔ لہذا ، ایک ہی شاٹ میں اپنی روشنی (نور) کے ساتھ وہ گناہ کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس نور کے ذریعہ اس گناہ کو ختم کرنے کی وجہ سے یہ دوبارہ زندہ ہوجاتی ہے۔ وہ ؑ جانتے تھے کہ ‘ھو’ کا یہ خادم اُس حقیقت سے ہے اور یہ حقیقت ہی ہے جو وہ چاہتے تھے ، 'آئیے واپس چلیں'۔ تو ، سیدنا خضر ؑ ایسے نہیں جنہیں دیکھا جاسکے۔ اُنہیں اس حقیقت کیلئے کسی علامت کی تلاش کرنی پڑی۔ تب آپ صحبت میں سمجھ گئے کہ سیدنا خضر (علیہ السلام) کو دیکھنے کیلئے اچھے کردار کی ضرورت ہے۔ اور نبی موسی (علیہ السلام) دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں ، 'مجھے سماعت کی صفت مل گئی لیکن یا ربی مجھے آپ کو دیکھنے دیجئے۔’ لہذا ، وہ ایک اعلی سطحی کی 'بصیر '، اعلی سطح بصارت چاہتے تھے ۔ چنانچہ ، جب اُنہوں نے نبی کریم (ﷺ) سے پوچھا تو اللہ (عزوجل) نے فرمایا ، 'جاؤ ، ہم اپنی شان کو پہاڑ پر بھیجتے ہیں '۔ اللہ (عزوجل) کی شان نور المحمدی (ﷺ) ہے۔ اس وقت نبی کریم ( ﷺ) کا نور نمودار ہوا اور نبی موسی (علیہ السلام) ، 'خاشیہ' ہوگئے۔ انہوں نے اپنی روح کے ساتھ روشنی 'انا اول المسلمین' کا مشاہدہ کیا ، سیدنا محمد کے پرچم تلے اپنی شہادت دی ، 'اول المسلمین' قبول کرنے کے لئے اپنی حقیقت کی نفی کی۔ اس کا مطلب ہے کہ اب میں ‘لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘ قبول کر رہا ہوں ۔
اس کا مطلب ہے کہ اس راستے میں ہر ایک کی نفی ہو گی اور نیچے لایا جائےگا۔ اس کے نتیجے میں، اب وہ ان بندوں (خادموں) سے ملنا چاہتے تھے ، اللہ (عزوجل) نے اُنہیں سیدنا خضر (علیہ السلام) کے پاس بھیجا جو آنکھوں سے دیکھائی نہیں دیتے ، یہ دل کی آنکھ سے دیکھے جاتے ہیں، اور اسی وجہ سے وہ اُن ( کی جگہ سے) آگے گزر گئے۔ . جب وہ واپس آئے اور اپنے تفکر سے سمجھا، کہ یہ وہ جگہ ہے۔ اُس وقت انہیں سیدنا خضر (علیہ السلام) سے ملایا گیا، جو سلسلہ نقشبندیہ کے 11 واں شیخ ہے تاکہ آپ کی اہمیت کو واضح کیا جاسکے کہ سیدنا خضر (علیہ السلام) کے پاس جو کچھ بھی راز ہے، کیونکہ وہ زندہ ہیں، وہ حی القیوم ہے ، وہ "بحرالحیات" کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ زندہ ہے اور اُن کا راز طریقۃ میں گُزرتا ہے اور ان شیوخ کے ذریعہ جن کو طریقۃ سے اجازت ملی ہے ، وہ سیدنا خضر (علیہ السلام) کا راز رکھتے ہیں۔ ۔ وہ حی القیوم کے خادم ہیں۔وہ ، جنہیں اس حقیقت سے اجازت ملی ہوئی ہے ۔ وہ’ ھو’کی اس حقیقت کے خادم ہیں ، انہیں ھدایت سے "ھ" عطا کیا گیا ہے۔ اہلِ محبت، احباب سے"و"سے عطا کیا گیا ہے اور وہ "و"سے عطا کیا گیا ہے ھو کے خادم ہیں ، اور یہ حقائق کا شہر ہے جہاں عَلِيٌّ بَابُهَاہیں۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘أَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمٍ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا
نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اورعلی (علیہ السلام) اس کا دروازہ / دربان ہیں۔
حضرت سیدنا محمد ﷺ
لہذا ، اس کیلئے آپ کا سر(دماغ/عقل) کٹنے کی ضرورت ہے کیونکہ آپ انہیں اِن آنکھوں سے نہیں دیکھ پائیں گے۔ اس کیلئےسر کسی اہمیت کا حامل نہیں، اس کی اہمیت کم کر دیں، پیچھے چھوڑ دیں، یہاں آپ کے سر کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ آپ کو اچھے دل کی ضرورت ہے۔ اس وقت نبی موسی (علیہ السلام) کا سیدنا خضر (علیہ السلام)سے تعارف کرایاگیا ، آپ ؑ نے اب اپنے دل سے دیکھا ، اور سب سے پہلی بات جو سیدنا خضر (علیہ السلام)سے کی گئی کہ اس راستے میں، بات نہ کیجئے، مجھ سے کوئ سوال نہ کیجئے۔
﷽
قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَن شَيْءٍ حَتَّىٰ أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا۞
(خضرعلیہ السلام نے) کہا: پس اگر آپ میرے ساتھ رہیں تو مجھ سے کسی چیز کی بابت سوال نہ کریں یہاں تک کہ میں خود آپ سے اس کا ذکر کردوں۔
سورۃ الکھف (18) آیت 70
کیوں؟ کیونکہ جیسے ہی آپ بات کرنا شروع کریں گے آپ کا خراب کردار مجھ پر پردہ ڈالے گا۔ پوچھ گچھ کرنا اور شک کرنا، آپ کی( آنکھوں ) پرپردہ گرا دے گا، میں نظر نہیں آوں گا ، لہذا ہماری صحبت کی نوعیت ختم ہوجائے گی۔ یہ ان کو وارننگ دی جارہی تھی ، ان کو وارننگ دی جارہی تھی کہ مت پوچھئے ، مت پوچھئے کیونکہ اللہ (عزوجل) آپ کے دل کی اعلی پاکیزگی کا تقاضا کرتا ہے جس میں شک نہ ہو ۔ کیونکہ شک دل میں پردہ لاتا ہے۔ جب وہ کوئی شک نہیں رکھتے تو وہ پانی پر چلتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں۔ اسی لئے اللہ (عزوجل) کے بندےنے فرمایا، 'سوالات مت پوچھیئے ۔' اس لئے نہیں کہ وہ سوالات برداشت نہیں کرسکتے اور اچھے جواب نہیں دے پاتے۔ فرمایا ، 'یہ راستہ سوال پوچھنے کیلئے نہیں ، یہ راستہ دل کی پاکیزگی کیلئے ہے۔'
تو ، پھر آپ نبی موسی علیہ السلام کی مشکل کا تصور کریں، آپ ؑ اُس کے ساتھ ہیں جنہیں آپؑ دیکھ نہیں سکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ پھر وہ ایک کشتی پر سوار ہوئے اور تصور کریں، کوئی کشتی توڑدےاور نبی موسی علیہ السلام اس پر بیٹھے ہوئے ہیں (سیدی ہنستے ہوئے) ، وہ فرماتے ہیں ، ‘میں خدا کا نبی ہوں ، آپ نے اس غریب کی کشتی کو کیوں توڑا۔’ کیونکہ وہ (لوگ) سیدنا خضر (علیہ السلام) کو دیکھ نہیں سکتے ، وہ صرف نبی موسی علیہ السلام کو ہی کشتی کو توڑتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ تو ، اسی وجہ سے وہ چونک گئے، ‘میں خدا کا نبی ہوں ، آپ نے ایسا کیسے کیا ، لوگ میرے خلاف ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ آپؑ ادھر اُدھر چیزیں توڑرہیں ہیں۔ اور یہ اتنا مشکل امتحان تھا۔
اور پھر اُنہوں نے نے کہا 'لڑکا چل بسا' ، (موسیؑ) نے فرمایا ، 'اس لڑکے کا انتقال کیسے ہوا جس کا وہ مجھ پر الزام لگائیں گے ، کوئی آپؑ کو نہیں دیکھ پاتا۔ ہم چل رہے ہیں اور اچانک لڑکا مر گیا ، انہوں نے فرمایا' اوہ دیکھو نبی موسی علیہ السلام گھوم رہے ہیں ، وہ کشتیاں توڑ رہے ہیں اور لوگوں کو جان سے مار رہے ہیں' (شیخ ہنسے)۔ اور پھر آپ سمجھے کہ یہ امتحان کتنا مشکل تھا اور اسی وجہ سے وہ ایسا کہہ رہے تھے کہ ، 'براہ کرم ، آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں' اور وہ فرماتے ہیں ، 'آپ جانتے ہیں ، یہ ایسی بات ہے جو سامنے آنے والی نہیں ہے۔' اس بارے میں مت پوچھئے۔ کیونکہ وہ خود کو عیاں نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن اس بات کی فکر کی وجہ سے کہ جب لوگ یہ چیزیں رونما ہوتی دیکھیں تو وہ کیا کہیں گے اور وہ آپ کو نہیں دیکھ پائیں گے۔ اور پھر وہ دیوار کے پاس گئے ، وہ ( سیدنا موسیؑ) تھک چکے تھے اور اُنہیں دیوار کی مرمت کا حکم دیا گیا لیکن سیدنا خضر (علیہ السلام) مدد نہیں کر رہے تھے ، نبی موسیٰ علیہ السلام خود تھک چکے تھے ، بھوکے تھے۔ 'تو میں کیوں دیوار ٹھیک کرنے کیلئے رقم طلب نہیں کرسکتا'۔سیدنا خضر (علیہ السلام نے فرمایا 'مت پوچھئے' اور پھر آخر میں پردہ ہو گیا اور انہوں نے (سیدنا خضرؑنے) فرمایا ، ‘یہ وہ جگہ ہے جہاں میں اور تم ، ہم الگ ہو جاتے ہیں ، یعنی سیدنا خضر علیہ السلام نے پھر سوالات سے پردہ کر لیا۔
سیدنا عبد اللہ الفائز الدغستانی ، نقیب الامتہ و عزۃ الامتہ (ق) فرماتے ہیں وہ ایک علماء کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور وہ ایک گاڑی میں سوار ہوئے اور پھر وہ بیٹھے ہوئے تھے ، ایک تیسرےشیخ نمودار ہوئےاور اُن شیخ نے دونوں پر نظر دوڑائی اور پوچھا ، 'کون کس کا شیخ ہے؟ کیا آپ اس کے شیخ ہیں یا وہ آپ کے شیخ ہے؟' اُنہوں نے پہلے دوسرے سے پوچھا۔ دوسرے نے کہا ، 'وہ نہ تو میرا شیخ ہے اور نہ ہی میں ان کا شیخ ہوں۔' اور پھروہ شیخ داغستانی (ق) سے بات کرنے لگے اور شیخ داغستانی (ق) ابھی بھی اُس تیسرے آدمی سے جو سیدنا خضر (علیہ السلام) تھے ، اُن سے بات کرتے رہے ، اُن سے بات کرتے رہے۔دوسرے آدمی نے کہا ، ‘میں کسی کو نہیں دیکھ پا رہا ۔ وہ کہاں چلے گئے ؟’ انہوں (ق) نے فرمایا ، ‘تمہارے برے کردار کی وجہ سے تمہارا اُن سے پردہ ہو گیا ، اللہ (عزوجل) آزمائش کر رہا تھا۔ آپ کو یہ کہنے میں کیا مسلہ تھا کہ وہ میرے شیخ ہیں اور میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ لیکن علماء کے تکبر کی وجہ سے ، وہ ایک مور کی طرح ۔ وہ (ق) کبھی بھی ایسی بات کہنے کی کوشش نہ کرتے۔ لہذا ، اس کا مطلب کیا ہے کہ اس راہ میں ہمیں دیکھنے کیلئے اور اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے ، آپ کی نماز کام نہیں آئے گی۔ وہ (ق) وہاں اس لئے نہیں پہنچے کیونکہ انہوں نے نماز پڑھی اور حیرت انگیز تعداد میں نماز پڑھیں۔ وہ وہاں اپنی زکوٰۃ کے ذریعہ نہیں پہنچے ، وہاں اپنے صوم کے ذریعہ نہیں پہنچے ، وہ اپنے روزے کے ذریعہ وہاں نہیں پہنچے، وہ اپنے اچھے کردار کے ساتھ وہاں پہنچے۔
لہذا ، اگر آپ ایک اچھا دل رکھتے ہیں، پیار کرنے والا دل رکھتے ہیں تو یہی سارا راستہ ہے۔ اس محبت بھرے دل اور اچھے کردار کے ساتھ ، وہ تربیت دے رہے ہیں ، اپنا تفکر کریں ، اپنا مرقبہ کریں۔سلسلہ نقشبندیۃ عالیہ کے شجرہ میں سے کسی بھی شیخ سے جب آپ رابطہ کرنا سیکھ لیں ، ایک بار جب آپ سیکھ لیں جو کچھ آپ نے کرنا ہے ، آپ شیخ سے مانگتے ہیں، ’مدد مدد ،سیدی ہمیں سیدنا خضر (علیہ السلام) کی روشنی سے (نوری) لباس عطا کیجئے "یا سیدنا عباس خضر بِمَدْدَکُمْ وَ نَظَرکُمْ" کہ آئیے، آکر آپ مجھ پر اپنا فیض بھیجئے ، اپنا(نورانی لباس مجھے عطا کیجئے اور اسی وجہ سے اس زمین پر مقامات ہیں۔ ایک مسجد اموی ( دمشق) میں جہاں سیدنا (خضر علیہ السلام) کا نام لکھا ہوا ہے۔ جب آپ وہاں صاف ستھرا دل کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو سیدنا خضر (علیہ السلام) ظاہر ہوتے ہیں، اپنا سلام دیتے ہیں ، آپ کو جو کچھ بھی فیض اور برکت دیتے ہیں۔ اور دوسرا ایک (مقام ) ہم استنبول گئے ، استنبول نہیں بلکہ ہم بُرصا گئے اور اس مسجد میں ایک بڑی خوبصورت 'واو' تھی ، اور تمام مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سیدنا خضر (علیہ السلام) کیلئے مقام ہے ، یہاں بیٹھو اپنے دل کو جوڑیں ، اور آپ وہاں بیٹھ گئے ، اور فورا سیدنا خضر (علیہ السلام) (آجائیں گے ) اچھے دلوں ، پرخلوص دلوں کے لئےکیوں پردہ کریں گے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سارا راستہ اچھا کردار( اپنانے) اور دل کو آزاد کرنے ، برے کردار کو توڑیں ، آئینے کو توڑیں اور حقائق کھولیں ، تفکر اور انرجی کے حقائق، عالم ِملکوت کے حقائق۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ (عزوجل) ہمیں زیادہ سے زیادہ سمجھ عطا فرمائے ، ان انوارات اور ان نعمتوں کا زیادہ سے زیادہ (نوری ) لباس عطا فرمائے اور یہ مبارک ارواح ہمارے لئے سہولت (آسانی) دیں ، ہمارے لئے ملک اور ملکوت کے درمیان ایک پل کی طور سہولت (آسانی ) دیں۔ وہ ایک پل کی حیثیت سے آتے ہیں کہ وہ ہمیں ملکوت کے ان علوم کی تعلیم دینا شروع کردیتے ہیں جو مادی دنیا تک پہنچتی ہیں۔ ہم اس پر ،(سیدی ہوا میں ایک لکیر بناتے ہیں) اس پل پرملکوت کی طرف چلنا چاہتے ہیں اور ملکوت کے بارے میں علوم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان ارواح سے اس ملکوت کی تعلیم دینے لگتی ہیں ، وہ اس محبت اور اس عشق اور اچھے کردار کے طلبگار ہیں ۔
سبحان ربك رب العزة عما يصفون وسلام على المرسلين والحمد لله رب العالمين،
بحرمتی محمد( ﷺ) المصطفی و بسر سورۃ الفاتحہ
اور اسی وجہ سے ان (اولیااللہ ) میں عیب ہوتے ہیں ، اللہ (عزوجل) ان شیوخ کو عیب دیتا ہے تاکہ لوگ ان کو جج کریں ، اور چیزوں کا جج کریں۔ اللہ (عزوجل) ایک ٹوٹے ہوئے پرندے میں راز چاہتا ہے ، اُس میں نہیں جسے آپ سمجھتے ہو کہ کامل مور کی طرح ہے اور وہی ( کامل) ہو گا۔ نہیں ، نہیں ، یہ وہ چیزیں ہیں جو ٹوٹی ہوئی ہیں۔ حبيب العجمي ؑ، بہت سے اولیاء اللہ ، شیخ عبد اللہ الفائزالدغستانی (ق) ، جو بڑے علماء کے نزدیک 'یہ کون ہے' کی طرح نظر آتے ہیں۔ کون سے ہیں، جس کے بارے میںمولانا (ق) گفتگو کررہے تھے۔ امام شافعی (علیہ السلام) کے شیخ ، زیادہ خاص نظر نہیں آتے تھے اور جب وضو کرتے تو امام شافعی (علیہ السلام) انکے وضو کا پانی پیتے اور دوسرے امام (یہ عمل دیکھ کر) بیہوش ہوتے اور کہتے ، 'یہ پانی گندا ہے ، ختم ہو چکاہے ، وضو کا پانی ہے ، ختم ہوگیا ہے ، تم نے جو کچھ ابھی کیا ہے اس سے مجھے ناگواری محسوس ہوئی'۔ کیونکہ وہ ایسا نہیں لگتے تھے جیسے وہ بڑی شخصیت ہوں، وہ کسی عام آدمی جیسے شخص کی طرح لگتے تھے ۔ انہوں (ق) نے فرمایا، 'اگر تم جانتے کہ ان میں کیا خاص ہے تو ، یہ حیات (زندگی ) کا انسان ہے۔ ہر چیز جو ان سے ٹپکتی ہے وہ حیات کے سمندرسے ہے۔ اور پھر مولانا (ق) نے ساری کہانی سنائی کہ جو عالم ان کے مخالف ہوا، وہ اپنے برے کردار کی وجہ سے بہوش ہو گیا ، لیکن بہوش ہوئے ہی آپؑ نے انکشاف کیا کہ وہ (علیہ السلام) کون تھے۔ جب وہ ہوش میں آیا تو اس نے آپؑ کا ہاتھ چوما۔ اس کا مطلب ہے کہ 'معارفہ' کا یہ طریقہ ہر ایک کے جاننے کیلئے نہیں کھلا ہوا۔ لوگ قرآن پڑھ رہے ہیں، لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ سیدنا خضر (علیہ السلام) دیکھائی نہیں دیتے۔ اچھے کردار کا ہونا یہ دل کا راستہ ہے۔ جب آپ کے پاس اچھا کردار ہوتا ہے تو یہ ویڈیو گیم کی طرح ہوتا ہے ، آپ ہر جگہ ایک راز ڈھونڈتے ہیں ، 'اوہ ایک راز ضرور ہونا چاہئے ، کوئی چیز ضرور ہونی چاہئے ، کوئی راز ضرور ہونا چاہئے' ۔ اس وجہ سے نبی موسی علیہ السلام نے سیدنا خضر (علیہ السلام) کو ایک مچھلی کے ذریعہ ڈھونڈا۔ اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ کیلئے اور اس حقیقت سے شیخ ، ولی کو تلاش کرنا آسان ہو گا۔ اگر نبی موسی (علیہ السلام) نے اُنہیں مچھلی کے ذریعہ ڈھونڈا ہے تو ، اُنہیں احساس ہوا کہ میری مچھلی جو مری ہوئی تھی وہ زندہ ہوگئی ، یہ وہی ہیں۔ ان میں چیزوں کو زندہ کرنے کی طاقت ہوتی ہے ، وہ ہمیشہ سرسبز شیوخ ہیں۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں ، ہر شئے سبز رنگ کی ہو جاتی ہے ۔کیونکہ حیات کا سمندر کھل رہا ہے اور ان کی روح کے گرد رواں دواں ہے ، ان کے ذریعہ کوئی ‘ہاکس پوکس’ نہیں ، یہ اللہ (عزوجل) کے ذریعہ ایک تحفہ ہے جو ان کی روح کو دیتا ہے ، اور یہ سیدنا محمد کی قوم کے 'خواص' سے ہیں۔ یہ اللہ (عزوجل) کی نعمت ہے اور جو کسی کے نماز یا زکوٰۃ کے ذریعہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ ان شاء اللہ ، اللہ (عزوجل) ہمیں (نوری ) لباس پہنائے ، ہمیں برکت عطا فرمائے۔
شیخ سید نورجان میراحمدی نقشبندی (ق)
English Transcript:
https://web.facebook.com/…/a.16933514440…/3056916541064783/…
Watch here:
https://www.youtube.com/watch…