
Urdu – Muraqbah Series
شیخ السیّد نورجان میراحمدی نقشبندی (ق) کی سنہری تعلیمات سے اقتباس
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ-
الّھمَّ صَلِّ عَلَی سیدِنَا محَمَّدٍ ﷺ وَعَلَی آلِ سیَّدِنا محَمَّد ﷺ
مراقبہ سیریز۔ مرحلہ-1
اسلامی/صُوفی مراقبہ کیسے کیا جائے؟
مرحلہ 1، یہ وہ نقطہ ہے جہاں سے (مراقبہ کی) شروعات کی جاتی ہے۔ صوفی مراقبہ کی شفا بخش طاقت کے بارے میں وہ سب کچھ جو آپ کو جاننے کی ضرورت ہے۔ رابطہ شریف ، مراقبہ ، تفکّر کے بارے میں جانئیے؛ یہ تمام صوفی مراقبہ جات کے لئے مرکزی بنیاد ہے۔
مرحلہ- 2 تک پہنچنے کےلئے، مرحلہ 1 میں موجود مندرجہ ذیل اقدام کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
-(۱)۔ رابطہ شریف کا طریقہ کار، شیخ (مرشد) سے مربوط ہونا
(۲)۔ جسم، ذہن کا پیغمبرانہ مراقبہ اور نقشبندی طریقہ کے گیارہ أصول،
(۳)۔ مریدی کے دس اصول-برائی کو چھوڑنا اور پا رسائی کی جانب بڑھنا
(۴)۔ روزانہ کی مشقوں کے ُٹولز ، اوراد
(۵)۔ مرکزی بنیادی اوراد ۔ کیسے ادا کئے جائیں
(۶)۔ پیغمبرانہ مراقبہ پر مزید آرٹیکل 1
(۷)۔ رابطہ شریف یا مراقبہ کیا ہے؟ نظر اور مشاہدہ کی حقیقت
(۲)۔ جسم، ذہن کا پیغمبرانہ مراقبہ اور نقشبندی طریقہ کے گیارہ أصول،
نقشبندیہ کے 11 اصول جن کا تعلق جسم، دماغ اور روح سے ہے۔
مراقبہ، سلسلہ نقشبندیہ کے 11 اصولوں سے کیسے نسبت رکھتا ہے:
خلوت کا مطلب ہے تنہائی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ باطنی طور پر خدا کے ساتھ رہتے ہوئے ظاہری طور پر لوگوں کے ساتھ رہنا۔ خلوت کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی بیرونی خلوت اور دوسری اندرونی خلوت۔
بیرونی خلوت کے متلاشی سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ خود کو کسی ایسی نجی جگہ پر الگ کردیں جو لوگوں سے خالی ہو۔ وہاں وہ خود رہ کر ، ذکرِ الٰہی پر دھیان دیتا ہے تاکہ اس حالت تک پہنچ سکے جس میں آسمانی سلطنت آشکار ہوجائے۔ جب آپ بیرونی حواس کو قابو کرلیتے ہیں تو ، آپ کے اندرونی حواس آسمانی سلطنت تک پہنچنے کے لئے آزاد ہو جائیں گے۔
یہ آپ کو دوسری قسم میں لے آئے گا: (یعنی) اندرونی خلوت۔
اندرونی خلوت کا مطلب ہے لوگوں میں رہتے ہوئے خلوت میں رہنا۔
اس میں سالک کا دل اپنے رب کے ساتھ موجود رہنا چاہئے اور جسمانی طور مخلوق کے درمیان رہتے ہوئے بھی اُن سے غیر حاضر رہنا چاہئے۔
• کہا جاتا ہے ، "سالک خاموش ذکر (ذکرِ خفی) میں اپنے دل میں اتنا گہرا ملوث ہوگا حتٰی کہ اگر وہ لوگوں کے مجمع میں داخل ہوجائے تو بھی ان کی آوازیں اُسے سنائی نہیں دیں گی۔
• ذکر کی حالت اس پر قابو پا لیتی ہے۔ خدا ئی بارگاہ کا ظہور اسے کھینچ رہا ہوتا ہے اور اسے اپنے رب کے سوا سب سے بے خبر کررہا ہوتا ہے۔
• یہ خلوت کی سب سے اعلٰی حالت ہے ، اور حقیقی خلوت سمجھی جاتی ہے ، جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے: "بندے جن کا نہ تو کاروبار اور نہ ہی نفع اُن کوخدا کی یاد سے ہٹاتا ہے" [24:37]۔ نقشبندی سلسلہ کا یہی طریقہ ہے۔
نقشبندی سلسلہ کے مشائخ کی بنیادی خلوت، اندرونی خلوت ہے۔
• وہ اپنے رب کے ساتھ ہیں اور ساتھ ہی وہ لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔
• جیسا کہ پیغمبر (ص) نے ارشاد فرمایا ، "میرے دو رخ ہیں: ایک میرے خالق کے سامنے ہے اور ایک مخلوق کے سامنے ہے۔" شاہ نقشبند (ق) نے اجتماع کی فضیلت پر زور دیا جب انہوں نے فرمایا: طریقتونا اصحبت و الخیر فی الجمیعت ("ہمارا راستہ اجتماع ہے ، اور نیکی اجتماع میں ہے ")۔
کہا جاتا ہے کہ وہ مومن جو لوگوں سے گھل مل سکتا ہے اور ان کا بار اُٹھا سکتا ہے، اُس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں سے دور رہتا ہے۔ اس نازک نکتہ پر امام ربانی (ق) نے فرمایا ،
"یہ جاننا ضروری ہے کہ سالک ابتداء میں بیرونی خلوت کو لوگوں سے الگ تھلگ ہونے کےلئے، اللہ رب العزت اور عالی مرتبت پروردگار کی عبادت اور اس پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے استعمال کرسکتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اعلی مقام پر پہنچ جائے۔
اس وقت اسے سید الخراز (ق) کے الفاظ میں ، اپنے مرشد سے یہ تلقین کی جائے گی کہ ، “ کمال معجزاتی قوتوں کی نمائش میں نہیں ہے ، بلکہ کمال لوگوں میں بیٹھنا، خریدو فروخت کرنا، شادی کرنا اور بچے پیدا کرنا ہے؛ مگر پھر بھی ایک لمحہ کے لئے بھی اللہ کی بارگاہ نہ چھوڑنا۔"
(الف)- جسمانی مراقبہ:
1۔ شعور کے ساتھ لی گئی سانس ("ہوش در دَم):
ہوش کا مطلب ہے "شعور"۔ دَر کا مطلب ہے "اندر"۔ دَم کا مطلب ہے "سانس"۔
اس کا مطلب ہے ، مولانا عبد الخالق الغجدوانی (ق) کے مطابق،
" عقلمند سالک کو اپنی سانسوں کو لاپرواہی سے ، اپنے اندر آنے اور باہر جانے سے بچانا چاہئے ، اور اس طرح وہ اپنے دل کو ہمیشہ خدا کی موجودگی میں رکھے گا؛ اور اسے لازمی طور پر عبادت اور بندگی کے ساتھ اپنے سانسوں کو زندہ کرنا ہو گا اور اس عبادت کو زندگی سے بھرپور اپنے رب کے پاس روانہ کرنا ہوگا ، کیونکہ ہر ایک سانس جو (خدا کی) موجودگی (کے احساس) سے اندر آتی یا باہر جاتی ہے وہ (سانس) زندہ ہے اور خدائی بارگاہ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ غفلت کے ساتھ اندر آنے والی اور باہر جانے والی ہر سانس مردہ ہوتی ہے ، خدائی موجودگی سے منقطع ہوئی۔۔
حضرت عبید اللہ الاحرار (ق) نے فرمایا،
"اس طریقہ میں سالک کے لئے سب سے اہم مشن اپنی سانسوں کی حفاظت کرنا ہے ، اور جو شخص اپنی سانسوں کی حفاظت نہیں کرسکتا ، اس کے بارے میں کہا جائے گا ، “اُس نے خود کو کھو دیا۔ “
حضرت شاہ نقشبند (ق) نے فرمایا،
"یہ طریقہ سانس پر مبنی ہے۔ لہذا ، ہر ایک کے لئے لازم ہے کہ وہ سانس کو اندر لے جاتے وقت اور باہر نکالتے وقت اس کی حفاظت کرے اور مزید یہ کہ سانس کے اندر جانے اور باہر نکلنے کے درمیانی وقفے میں (بھی) اس سانس کی حفاظت کرے۔"
شیخ ابو الجنب نجم الدین الکبرا (ق) نے اپنی کتاب ، فاتحہ الجمال میں فرمایا ،
"ذکر ہر ایک جاندار کے جسم میں اپنی سانس ضرورت کے طور پر- حتٰی کہ مرضی کے بغیر – اطاعت کی نشانی کے طور پر بہہ رہا ہے ، جو کہ ان کی تخلیق کا ایک حصہ ہے۔ ان کی سانس کے ذریعے ہر اندر جاتی ہوئی اور باہر آتی ہوئی سانس کے ساتھ الہی نام اللہ کے حرف "ہا" کی آواز بنتی ہے اور یہ خدا کی انفرادیت پر زور دینے کے لئے غیبی جوہر کی علامت ہے۔ لہذا خالق کے جوہر کو سمجھنے کے لئے اس سانس کے ساتھ حاضر ہونا ضروری ہے۔
نام ’’ اللہ ‘‘ جس میں ننانوے نام و صفات شامل ہیں ، چار حروف پر مشتمل ہے ، الف ، لام ، لام اور ایک ہاہ (اللہ)۔ اہل تصوف کا کہنا ہے کہ اللہ کے مکمل چھپے ہوئے وجود کا اظہار اللہ رب العزت کے (نام کے) آخری حرف “ہ” جو الف کے ذریعے واولائیز (vowelize) ہوتا ہے، کیا جاتا ہے۔ یہ اللہ ربُ العزت کی مکمل طور پر چھپی ہوئی ذات کی نمائندگی کرتا ہے"ہا۔" یہ خدا کے مطلق غیب "واحدانیت" کی نمائندگی کرتا ہے۔ پہلا لام شناخت (تعریف) کی خاطر ہے اور دوسرا لام زور (مبالغہ) کی خاطر ہے۔
اپنی سانس کو بے پروائی سے بچانا آپ کو (اللہ کی) مکمل موجودگی میں لے جائے گا ، اور مکمل موجودگی آپ کو مکمل وژن کی طرف لے جائے گی ، اور مکمل وژن آپ کو اللہ کے ننانوے نام اور صفات کے مکمل اظہار کی طرف لے جائے گا۔ اللہ آپ کو اپنے ننانوے نام و صفات اور اس کے دیگر تمام صفات کے ظہور/انکشاف کی طرف لے جاتا ہے ، کیونکہ یہ کہا جاتا ہے کہ ، "اللہ کی صفات انسانوں کی سانسوں کی طرح بے شمار ہیں۔"
یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ سانس کو لاپرواہی سے بچانا سالکین کے لئے مشکل ہے۔ لہذا انہیں معافی کے ذریعے(استغفار سے) اس (سانس) کی حفاظت کرنی چاہئے کیونکہ استغفار اس کو پاک و صاف کرتا اور پاکیزگی بخشتا ہے۔ اور یہ سالک کو ہر جگہ اللہ عزوجل کے حقیقی مظہر کے لئے تیار کردیتا ہے۔
2- اپنے ہر قدم کا دھیان رکھیں ("نظر بر قدم"):
آپ کی مرضی اور رضائے الٰہی ایک ہونی چاہئے۔ ق ، د ، م [قدم] – اللہ قادر ، مخلوق میں حضرت محمد (ص) کی رضا کے مطابق ہے۔ (نبی پاک (ص) کی رضا اللہ عزوجل کی رضا ہے۔)
اس کا مطلب یہ ہے کہ سالک کو چلتے پھرتے اپنی آنکھیں (جو خواہشات کی نمائندگی کرتی ہیں) اپنے پیروں پر رکھنی چاہئیں (پیر آپ کی مرضی کی نمائندگی کرتے ہیں)۔ جہاں بھی وہ اپنے پیر رکھنے جا رہا ہے، اس کی آنکھیں ضرور وہاں ہونی چاہئیں۔ اسے ادھر اُدھر اپنی نظر ڈالنے کی اجازت نہیں ہے ، کہ دائیں یا بائیں یا اپنے سامنے دیکھے۔ کیوں کہ غیر ضروری نظارے دل پر پردہ ڈال دیں گے۔
“دل پر زیادہ تر پردے اُن تصویروں کے ذریعہ پڑتے ہیں جو آپ کی روز مرہ زندگی کے دوران آپ کی آنکھوں سے آپ کے دماغ میں منتقل ہوتی ہیں۔”
یہ آپ کے دل کو ہنگاموں سے پریشان کرسکتی ہیں اُن مختلف قسم کی خواہشات کے باعث جو آپ کے ذہن پر (اِن تصاویر کی وجہ سے) نقش ہو چکی ہیں۔ یہ تصاویر دل پر پردے کی طرح ہوتی ہیں۔
وہ بارگاہِ خداوندی کی روشنی کو روک دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوفی اولیاء اپنے پیروکاروں کو، جنہوں نے مستقل ذکر کے ذریعہ اپنے دلوں کو پاک کرلیا ہوتا ہے ، اپنے پاؤں کے علاوہ کسی اور طرف نظر کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ ان کے دل آئینے کی طرح ہوتے ہیں ، جو ہر شبیہ کو با آسانی منعکس کرتے اور وصول کرتے ہیں۔ اس سے وہ اپنے راستے سے مڑ سکتے ہیں اور ان کے دلوں میں نجاست آسکتی ہے۔ تو سالک کواپنی نگاہیں نیچے کرنے کا حکم دیا جاتا ہے تاکہ وہ شیطانی تیروں کے حملے کی زد میں نہ آ سکے۔
نگاہوں کو نیچے کرنا بھی عاجزی کی علامت ہے؛ مغرور اور متکبر لوگ کبھی بھی اپنے پاؤں کی جانب نہیں دیکھتے۔ یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ ایک شخص نبی پاک (ص) کے نقش قدم پر چل رہا ہے ، کہ جب وہ چلتے تو کبھی دائیں یا بائیں نظر نہیں کی، بلکہ ثابت قدمی سے اپنی منزل کی طرف جاتے ہوئے صرف اپنے پَیروں کی طرف ہی دیکھتے۔ یہ ایک اونچے درجے کی حالت کی علامت بھی ہے کہ جب سالک اپنے پروردگار کے سوا کہیں نظر نہیں کرتا۔ اس شخص کی طرح جو جلد منزلِ مقصود تک پہنچنے کا ارادہ رکھتا ہے ، اسی طرح اللہ عزوجل کی خدائی بارگاہ کا متلاشی بھی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہوتا ہے ، اپنے دائیں یا بائیں طرف نہیں دیکھ رہا ہوتا ، دنیا کی خواہشات کی طرف نہیں دیکھ رہا ہوتا ، بلکہ صرف خدائی بارگاہ کی تلاش میں ہوتا ہے۔
امام ربانی احمد الفاروقی (ق) نے اپنے مکتوبات کے 295 خط میں ارشاد فرمایا:
“نظریں {آپ کی ہَّوا، مادی خواہشات ہیں} قدم سے پہلے حرکت کرتی ہیں اور قدم نگاہوں کی پیروی کرتا ہے۔ اعلیٰ حالت کی طرف بڑھنا پہلے پہل مشاہدہ کے ذریعہ (ممکن) ہوتا ہے ، اس کے بعد قدم (کا مرحلہ آتا) ہے۔ جب یہ قدم نگاہوں کے عروج کی سطح پر پہنچ جاتا ہے تو پھر نظریں دوسری حالت کی طرف بڑھا دی جائیں گی کہ جن کی پیروی نتیجتاً قدم کریں گے۔ تب نظریں اور بھی اونچی اُٹھا دی جائیں گی اور نتیجتاً قدم ان کی پیروی کریں گے ۔ اور اسی طرح (اونچی اُٹھتی رہیں گی) جب تک کہ نگاہیں ایک کمال کی حالت تک نہ پہنچ جائیں کہ جہاں وہ قدم کو (بھی) کھینچ لیں۔ ہم کہتے ہیں ، جب قدم نگاہوں کے پیروی کرتا ہے ، تو مرید نبی پاک (ص) کے نقش قدم کی پیروی کے لئے تیاری کی کیفیت کو پہنچ چکا ہوتا ہے۔ لہذا نبی کریم (ص) کے نقش قدم کو ہر قدم کا ماخذ سمجھا جاتا ہے۔ ''
حضرت شاہ نقشبند (ق) نے فرمایا ، "اگر ہم اپنے دوستوں کی غلطیوں پر نگاہ ڈالیں گے تو ہم بے دوست رہ جائیں گے ، کیونکہ کوئی بھی کامل نہیں ہے۔” قدم مرضی کی علامت ہیں، اپنی مرضی کو مرشد کی مرضی سے ملاتے ہوئے پھر نبی (ص) پھر ہمارے رب (کی مرضی سے ملائیں) ۔ اعطیواللہ و اعطیو الرسول و الولی الامر منکم۔
3- گھر کا سفر ("سفر در وطن")
برائی سے جنتوں کی جانب ہجرت
اس کا مطلب ہے کسی کا اپنے وطن کی جانب سفر کرنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سالک تخلیق کی دنیا سے خالق کی دنیا کا سفر کرتا ہے۔ اسی نسبت سے نبی(ص) نے فرمایا ، "میں اپنے رب کی جانب ایک حالت سے بہتر حالت کی طرف اور ایک مقام سے ایک اعلی مقام کی طرف جارہا ہوں۔" کہا جاتا ہے کہ سالک کو حرام کی خواہش سے خدائی بارگاہ کی خواہش کی طرف سفر کرنا چاہئے۔
نقشبندی صوفی طریقہ اس سفر کو دو قسموں میں تقسیم کرتا ہے۔
پہلا بیرونی سفر اور دوسرا اندرونی سفر ہے۔
(a)- بیرونی سفر:
بیرونی سفر ایک کامل مرشد، جو آپ کوتھام لے اورآپ کی منزل کی جانب آپ کی راہنمائی کرے، کی تلاش میں آپ کا ایک سرزمین سے دوسری سرزمین کا سفر ہے۔
یہ آپ کو دوسرے زُمرے میں جانے کا اہل بنتا ہے، (یعنی) اندرونی سفر کا۔ ایک بار جب انہیں ایک کامل مرشد مل جاتا ہے ، تو اُن کو کسی اور بیرونی سفر پر جانے سے منع کردیا جاتا ہیں۔ بیرونی سفر میں بہت سی مشکلات ہوتی ہیں جن کو مبتدی (beginner) حرام کاموں میں پڑے بغیر برداشت نہیں کرسکتے ، کیونکہ ان کی عبادت کمزور ہوتی ہے۔
دوسری قسم اندرونی سفر ہے۔
(b)۔ اندرونی سفر:
اندرونی سفر کے لئے سالک کو اپنے اخلاقِ رزیلہ (low manners ) کو چھوڑنا اور اعلی آداب کی طرف چلنا ، اپنے دل سے تمام تر دنیاوی خواہشات کو نکالنا ہوتا ہے۔
اسے ناپاکی کی کیفیت سے پاکدامنی کی حالت کی طرف اُٹھا لیا جائے گا۔ اس وقت اسے مزید اندرونی سفر کی ضرورت نہیں رہے گی۔
وہ اپنے دل کو پاک کر چکا ہو گا ، اسے (یعنی اپنے دل کو) پانی کی طرح خالص ، کرسٹل کی طرح شفاف ، آئینے کی طرح چمکائے ہوئے ، اپنی روزمرہ کی زندگی کے لئے ضروری تمام معاملات کی حقیقتوں کو ظاہر کرتے ہوئے، اپنے تئیں بغیر کسی بیرونی اقدام کی ضرورت کے۔
اس کے دل میں ہر وہ چیز ظاہر ہوگی جو اس کی زندگی اور آس پاس کے لوگوں کی زندگی کے لئے ضروری ہے۔
4- مجمع میں خلوت ("خلوت در انجمن”)
خلوت کا مطلب ہے تنہائی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ باطنی طور پر خدا کے ساتھ رہتے ہوئے ظاہری طور پر لوگوں کے ساتھ رہنا۔ خلوت کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی بیرونی خلوت اور دوسری اندرونی خلوت۔
بیرونی خلوت کے متلاشی سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ خود کو کسی ایسی نجی جگہ پر الگ کردیں جو لوگوں سے خالی ہو۔ وہاں وہ خود رہ کر ، ذکرِ الٰہی پر دھیان دیتا ہے تاکہ اس حالت تک پہنچ سکے جس میں آسمانی سلطنت آشکار ہوجائے۔ جب آپ بیرونی حواس کو قابو کرلیتے ہیں تو ، آپ کے اندرونی حواس آسمانی سلطنت تک پہنچنے کے لئے آزاد ہوں جائیں گے۔
یہ آپ کو دوسری قسم میں لے آئے گا: اندرونی خلوت۔
اندرونی خلوت کا مطلب ہے لوگوں میں رہتے ہوئے خلوت میں رہنا۔
اس میں سالک کا دل اپنے رب کے ساتھ موجود رہنا چاہئے اور جسمانی طور مخلوق کے درمیان رہتے ہوئے بھی اُن سے غیر حاضر رہنا چاہئے۔
کہا جاتا ہے ، "سالک خاموش ذکر میں اپنے دل میں اتنا گہرا ملوث ہوگا کہ ، حتٰی کہ اگر وہ لوگوں کے مجمع میں داخل ہوجائے تو بھی ، ان کی آوازیں اُسے سنائی نہیں دیں گی۔
ذکر کی حالت اس پر قابو پا لیتی ہے۔ خدا ئی بارگاہ کا ظہور اسے کھینچ رہا ہوتا ہے اور اسے اپنے رب کے سوا سب سے بے خبر کررہا ہوتا ہے۔
یہ خلوت کی سب سے اعلٰی حالت ہے ، اور حقیقی خلوت سمجھی جاتی ہے ، جیسا کہ قرآن کریم میں مذکور ہے: "بندے جن کا نہ تو کاروبار اور نہ ہی نفع اُن کوخدا کی یاد سے ہٹاتا ہے" [24:37]۔ نقشبندی سلسلہ کا یہی طریقہ ہے۔
نقشبندی سلسلہ کے مشائخ کی بنیادی خلوت، اندرونی خلوت ہے۔ وہ اپنے رب کے ساتھ ہوتے ہیں اور ساتھ ہی وہ لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پیغمبر (ص) نے ارشاد فرمایا ، "میرے دو رخ ہیں: ایک میرے خالق کے سامنے ہے اور ایک مخلوق کے سامنے ہے۔" شاہ نقشبند (ق) نے اجتماع کی فضیلت پر زور دیا جب انہوں نے کہا: طریقتونا اصحبت و الخیر فی الجمیعت ("ہمارا راستہ اجتماع ہے ، اور نیکی اجتماع میں ہے ")۔
کہا جاتا ہے کہ وہ مومن جو لوگوں سے گھل مل سکتا ہے اور ان کا بار اُٹھا سکتا ہے، اُس مومن سے بہتر ہے جو لوگوں سے دور رہتا ہے۔ اس نازک نکتہ پر امام ربانی (ق) نے فرمایا،
"یہ جاننا ضروری ہے کہ سالک ابتداء میں بیرونی خلوت کو لوگوں سے الگ تھلگ ہونے کےلئے، اللہ رب العزت اور عالی مرتبت پروردگار کی عبادت اور اس پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے استعمال کرسکتا ہے ، یہاں تک کہ وہ اعلی مقام پر پہنچ جائے۔
اس وقت اسے سید الخراز (ق) کے الفاظ میں ، اپنے مرشد سے یہ تلقین کی جائے گی کہ ، ‘کمال معجزاتی قوتوں کی نمائش میں نہیں ہے ، بلکہ کمال لوگوں میں بیٹھنا، خریدو فروخت کرنا، شادی کرنا اور بچے پیدا کرنا ہے؛ مگر پھر بھی ایک لمحہ کے لئے بھی اللہ کی بارگاہ میں نہ چھوڑنا۔"
5- ضروری ذکر ("یاد کرد")
’یاد‘ کے معنی ذکر ہیں۔ "کرد" ہے ذکر کا جوہر۔
سالک کو اپنی زبان پر نفی اور اثبات کے ذریعہ ذکر کرنا لازم ہے جب تک کہ وہ اپنے دل کے تفکر (مراقبہ) کی حالت پر نہ آجائے۔
یہ حالت ہر روز زبان پر نفی (لا الہ الا) اور اثبات( الااللہ) کی تلاوت 5000 بار اور 10,000 بار کے درمیان کرنے سے حاصل کی جا سکے گی۔ جس سے مرید کے دل سے ایسے عناصر مٹ جائیں گے جو اس کو داغدار اور زنگ آلود کرتے ہیں۔
یہ ذکر دل کو پالش کرتا ہے اور سالک کو ظہور (manifestation ) کی حالت میں لے جاتا ہے۔
اسے لازم ہے کہ وہ روزانہ ذکر کرے ، دل سے یا زبان سے ، اللہ کی ذات کے نام سے ، جو دوسرے تمام ناموں اور صفات پر مشتمل ہے ، یا نفی و اثبات کا ذکر لا الہ الا اللہ کے ذریعے سے کرتے ہوئے۔
یہ روزانہ ذکر سالک کو خدائے واحد جو عظیم ہے، اُس کی مکمل موجودگی میں لے آئے گا۔
نقشبندی صوفی اساتذہ کا انداز مطالبہ کرتا ہے کہ سالک آنکھیں بند کرے ، منہ بند کرے ، دانت صاف کرے ، اپنی زبان کو اپنے منہ کی چھت سے لگائے ، اور اپنی سانس تھام لے۔ اسے نفی اور اثبات کے کا ذکر دل سے کرنا ہوگا ، جس کا آغاز لفظ “لا” ("نہیں") سے ہوگا۔
اس نے اس "لا" کو اپنی ناف کے نیچے سے اپنے دماغ تک اٹھا یا، اپنے دماغ تک پہنچنے پر لفظ "لا" (اس بات کی علامت ہوگا کہ) اپنے سر کو حقائق تک پہنچنے کے لئے استعمال نہیں کرنا۔ لفظ “الہٰ” ("خدا") پکاریں جو دماغ سے دائیں کندھے تک جائےگا، اور پھر بائیں کندھے تک۔ جہاں سے مرید دل کے ساتھ “الا اللہ” کو ٹکرائے گا ("اللہ کے سوا")۔
جب یہ لفظ ( الا اللہ) دل سے ٹکرا جاتا ہے تو اس کی انرجی اور حرارت جسم کے تمام حصوں میں پھیل جاتی ہے۔ سالک جس نے اس دنیا میں موجود تمام چیزوں کو "لا الہٰ" کے الفاظ سے ختم کر دیا ہے ، “الا اللہ” کے الفاظ سے إقرار کرتا ہے کہ جو کچھ موجود ہے وہ خدائی بارگاہ میں فنا ہو چکا ہے۔
سالک اس کو ہمیشہ دل میں لاتے ہوئے ہر سانس کے ساتھ، سانس اندر لے جاتے ہوئے اور سانس باہر نکالتے ہوئے دہراتا ہے، اس تعداد کے مطابق جو اس کے مرشد نے بتائی ہے۔
سالک آخر کار اس حالت میں پہنچ جائے گا جہاں ایک ہی سانس میں وہ لا الہ الا اللہ تئیس (۲۳) بار دہرا سکتا ہے۔
ایک کامل شیخ لا الہ الا اللہ ہر سانس میں لاتعداد بار دہرا سکتے ہیں۔
اس مشق کا مفہوم یہ ہے کہ واحد مقصد اللہ ہے اور ہمارے لئے کوئی دوسرا مقصد نہیں ہے۔
اس سب کے بعد خدا تعٰالیٰ کو یکتا وجود کے طور پر دیکھنا، مرید کے دل میں نبی پاک (ص) کی محبت ڈال دیتا ہے اور اس وقت وہ (مرید) کہتا ہے ، محمدالرسول اللہ ("محمد (ص) خدا کے نبی ہے") جو کہ خدائی بارگاہ کا دل ہے۔
6- واپسی ("باز گیشت")
یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں سالک ، جو نفی اور اثبات کے ذریعہ ذکر کرتا ہے ، حضور کے اس قولِ مبارک کو سمجھ لیتا ہے ،”اے میرے خدا ، آپ میرا مقصد ہیں اور آپ کی خوشنودی میرا مقصد ہے"، جو الحق ہے۔
اس قول کی تلاوت سالک میں خدا کی توحید کے شعور میں اضافہ کرے گی ، یہاں تک کہ وہ اس حالت تک پہنچ جائے جس میں ساری مخلوق کا وجود اس کی نظروں سے مٹ جائے۔
وہ جو کچھ بھی دیکھتا ہے ، وہ جہاں بھی نظر کرتا ہے، وہ مطلق واحد (Absolute One ) ہوتا ہے۔ (ہر چیز بحر قدرة میں موجود)۔
نقشبندی سلسلہ کے مرید اس طرح کے ذکر کی تلاوت اپنے دلوں میں سے وحدانیت کے راز کو نچوڑ کر نکالنے کے لئے اور اپنے آپ کو انوکھی خدائی بارگاہ کی حقیقت کے سامنے کھولنے کےلئے کرتے ہیں۔
اگر مبتدی اپنے دل میں اس ذکر کی طاقت ظاہر ہوتے ہوئے نہیں پاتا تو اس کو اس ذکر کو چھوڑنے کا کوئی حق نہیں۔ اسے ضرور اپنے شیخ کی تقلید کرتے ہوئے اس کی تلاوت کرتے رہنا چاہئے ، کیونکہ نبی (ص) نے فرمایا، "جو شخص کسی گروہ کی تقلید کرے گا وہ ان کا ہوگا۔" اور جو شخص اپنے استاد کی تقلید کرے گا تو کسی دن اس کو اپنے دل میں یہ راز کھلا ہوا مل جائے گا۔
"باز گشت" کے معنی اللہ سبحانہ و تعالٰی کی طرف مکمل مطیع ہو کر اور اس کی مرضی کے مطابق سر تسلیم خم کرکے لوٹنا، اور اس کی پوری تعریف کرنے میں مکمل عاجزی دکھانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور (ص) نے اپنی مناجات میں ذکر فرمایا کہ ، “اے اللہ عزوجل ، ہم نے آپ کا اس طرح سے ذکر نہیں کیا جیسا کہ آپ کا ذکر کرنے کا حق ہے۔”
اگر سالک اللہ عزوجل کی مدد اور اللہ عزوجل کی یاد کے ساتھ ذکر نہیں کرتا تو وہ اپنے ذکر میں اللہ عزوجل کے حضور حاضر نہیں ہوسکتا، اور اپنے ذکر میں اللہ کے راز و صفات کو ظاہر نہیں کرسکتا۔ جیسا کہ حضرت بایزید (ق) نے فرمایا: "جب میں اس کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ اس کا مجھ کو یاد رکھنا میرے ذکر سے پہلے ہے۔" سالک خود ذکر نہیں کرسکتا ہے۔ اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ ہی اس کے ذریعہ ذکر کرتا ہے-
(ب)۔ روحانی مراقبہ:
7- توجہ ("نگاہ دشت")
"نگاہ" کا مطلب ہے نظر۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سالک کواپنے دل کا دھیان رکھنا چاہئے اور برے خیالات کو اپنے دل میں داخل ہونے سے روک کر اپنے دل کی حفاظت کرنا چاہئے۔
برے رجحان دل کو خدا کے ساتھ شامل ہونے سے روکتے ہیں۔ نقشبندیہ سلسلہ میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ سالک کے لئے پندرہ (۱۵) منٹ تک اپنے دل کو برے رجحانات سے بچانا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کے لئے وہ ایک حقیقی صوفی سمجھا جائے گا۔
تصوف دل کو برے خیالات سے محفوظ رکھنے اور اسے کمتر رغبت سے بچانے کی طاقت ہے ۔ جو شخص ان دو مقاصد کو پورا کرے گا وہ اپنے دل کو جان لے گا ، اور جو اپنے دل کو جان جائے گا وہ اپنے رب کو پہچان جائے گا۔ حضور اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا ، "جو اپنے آپ کو جانتا ہے وہ اپنے رب کو جانتا ہے۔"
ایک صوفی شیخ نے فرمایا ، "چونکہ میں نے دس راتوں تک اپنے دل کی حفاظت کی ، اس لئے میرے دل نے بیس سال تک میری حفاظت کی ہے۔"
حضرت ابوبکر القیطانی (ق) نے فرمایا ، "میں 40 سال سے اپنے دل کے دروازے پر محافظ تھا ، اور میں نے اسے اللہ عزوجل، قادر مطلق اور اعلی کے سوا کسی کے لئے کبھی نہیں کھولا ، یہاں تک کہ میرا دل اللہ رب العزت اور برتر کے سوا کسی کو نہ جانتا رہا۔"
حضرت ابوالحسن الخرقانی (ق) نے فرمایا ، "40 سال ہوچکے ہیں کہ اللہ عزوجل میرے دل کی طرف دیکھ رہا ہے اور اس نے اپنے سوا کسی کو نہیں دیکھا۔ اور میرے دل میں اللہ عزوجل کے سوا اور کسی کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔”
8- یاد ("یاد دشت")— "روحانی مراقبہ"
اس کا مطلب یہ ہے کہ ذکر کی تلاوت کرنے والا شخص ہر سانس میں نفی اور اثبات کے ساتھ اپنے دل کو اللہ سبحانہ وتعالی کی بارگاہ چھوڑے بغیر اس کی حفاظت کرتا ہے۔ (دل کی ہر ڈھڑکن پر اللہ کا ذکر ، اس کے ساتھ ہی ہوش میں اندر داخل ہونے والی سانس پر “ھُو اللہ” اور باہر نکلنے والی سانس پر “ھُو”۔ )
اس کا تقاضا ہے کہ سالک اپنے دل کو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں مسلسل حاضر رکھے۔
اس کی مدد سے وہ خدا کے انوکھے جوہر کی روشنی کو محسوس اور ظاہر کرسکتا ہے۔
اس کے بعد وہ خیالات کی چار مختلف شکلوں میں سے تین کو ختم کرتا ہے: انا پرست خیالات ، بُرے خیالات ، اور فرشتہ صفت خیالات، (اور) خیالات کی صرف چوتھی شکل ، حقانی یا سچی سوچوں کو برقرار رکھتے ہوئے اور ان کی تصدیق کرتے ہوئے (ان کو قائم رکھتا ہے)۔
یہ سالک کو اپنے تمام تر تصورات کو ترک کرکے اور صرف حقیقت، جو اللہ عزوجل کی واحدانیت ہے، کو قبول کرنے کے ذریعے تکمیل کے اعلی درجے کی طرف لے جائے گا۔
9- وقت کی آگاہی ("وقوف زمانی”)
اس کا مطلب ہے کسی کا اطمینان دیکھنا اوراُس کے لاپرواہی کے رجحان کی جانچ کرنا۔
سالک کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس نے روحانی پختگی کی طرف بڑھنے میں کتنا وقت گزارا ہے اور اسے یہ پہچانا ہوگا کہ وہ خدائی بارگاہ کی طرف اپنے سفر میں کس مقام پر پہنچا ہے۔
سالک کو اپنی تمام کوششوں سے ترقی کرنی ہوگی۔
اسے لازمی طور پر اپنا سارا وقت صرف اسی واحد مقصد (یعنی) خدائی محبت اور خدائی بارگاہ کے مقام پر پہنچنے کے لئے صرف کرنا ہوگا ۔
اسے لازماً آگاہ رہنا چاہئے کہ اس کی تمام کوششوں اور اُس کے تمام تراعمال میں اللہ عزوجل چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کا گواہ ہے۔
سالک کو ہر دن اور ہر رات اپنے اعمال اور اپنے ارادوں کا حساب کتاب کرنا چاہئے اور ہر ایک گھنٹے ، ہر سیکنڈ اور ہر لمحے اپنے اعمال کا تجزیہ کرنا چاہئے۔
اگر وہ اچھے ہیں ، تو وہ اس کے لئے خدا کا شکر ادا کرے۔ اگر وہ برے ہیں ، تو اسے ضرور توبہ کرنی چاہئے اور اللہ عزوجل سے معافی مانگنا چاہئے۔
حضرت یعقوب الچرخی (ق) نے فرمایا کہ ان کے شیخ حضرت علاؤالدین العطار (ق) نے فرمایا،
"افسردگی کی حالت میں آپ کو استغفار بہت زیادہ پڑھنا چاہئے، اور خوشی کی حالت میں اللہ کی حد سے زیادہ حمد کریں۔" اور انھوں نے فرمایا ، "ان دونوں حالتوں (یعنی) تنگی اور خوشحالی کا خیال رکھنا وقوف زمانی کہلاتا رکھتا ہے۔”
حضرت شاہ نقشبند (ق) نے اس حالت کی وضاحت یہ بیان کرتے ہوئے فرمائی ، "آپ کو خود سے آگاہ ہونا پڑے گا۔ اگر آپ شریعت کی پیروی کر رہے تھے تو آپ کو اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنا چاہئے ، ورنہ آپ کو معافی مانگنی چاہئے۔”
اس حالت میں سالک کے لئے ضروری ہے کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی وقت کی مدت کو محفوظ رکھیں۔ اسے اپنی زندگی کے ہر لمحے میں اپنے وجود پر نگاہ رکھنی ہوگی اور پرکھنا ہو گا کہ وہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں تھا یا اپنی انا کی موجودگی میں۔
حضرت شاہ نقشبند (ق) نے فرمایا ، "آپ کو چانچنا ہوگا کہ آپ ہر لمحہ کیسے گذارتے ہیں: موجودگی کے ساتھ یا غفلت میں۔"
10- نمبروں کی آگاہی ("وقوف عددی")
اس کا مطلب یہ ہے کہ ذکر کی تلاوت کرنے والے سالک کو دل کے ذکرِ خفی پر مشتمل تکرار کی صحیح تعداد کا خیال کرنا چاہئے۔( علمِ حروف کا مطالعہ ، اللہ 66 بناتا ہے ، لا الہ الا اللہ 165 بناتا ہے یہ مختلف علوم کو کھول دے گا۔ )
ذکر کا حساب کتاب محاسبہ کرنے کی خاطر نہیں ہوتا بلکہ دل کو بری خیالوں سے بچانے اور شیخ کی تجویز کردہ تکرار کو جلد از جلد پورا کرنے کی کوشش میں زیادہ توجہ مرکوز کرنے کےلئے ہے.
گنتی کے ذریعہ ذکر کا ستون یہ ہے کہ اس ذکر کی ذریعے پکارے جانے والے کی موجودگی کو اپنے دل میں لایا جائے اور ایک ایک کر کے گنتی جاری رکھی جائے تاکہ اس سمجھ تک اپنی توجہ لائی جا سکے کہ ہر کوئی اس ذاتِ واحد کا محتاج ہے جس کی نشانیاں ہر مخلوق میں ظاہر ہو رہی ہیں۔
حضرت شاہ نقشبند (ق) نے فرمایا ، "ذکر میں تعداد کا مشاہدہ (observance ) آسمانی علم حاصل کرنے کی حالت میں پہلا قدم ہے۔”
اس کا مطلب یہ ہے کہ گنتی سے انسان یہ پہچان جاتا ہے کہ زندگی کے لئے صرف ایک ہی (ذات) ضروری ہے۔ تمام ریاضی کی مساوات کو نمبر ۱ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ساری مخلوق صرف ذاتِ واحد کی محتاج ہے۔
11- دل کی آگاہی ("وقوفِ قلبی)"
اس کا مطلب ہے سالک کے دل کو خدائی موجودگی کی طرف راغب کرنا ، جہاں وہ اپنے محبوب کے علاوہ کسی اور کو نہیں دیکھے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام حالتوں میں اس کے ظہور/جلوہ کا تجربہ کریں۔
حضرت عبید اللہ الاحرار (ق) نے فرمایا ، "دل کی آگاہی کی کیفیت یہ ہے کہ خدائی بارگاہ میں اس طرح سے حاضر ہوں کہ آپ اس کے سوا کسی اور کی طرف نگاہ نہ کر سکیں۔"
ایسی حالت میں ایک شخص دل کے اندر ذکر کی جگہ کو مرکوز کرتا ہے کیونکہ یہ طاقت کا مرکز ہے۔
اچھے اور برے تمام خیالات اور الہامات ، ایک کے بعد ایک دل کے اندر محسوس ہوتے اور ظاہر ہوتے رہتے ہیں ، چکر لگاتے اور بدلتے رہتے ہیں ، روشنی اور تاریکی کے درمیان، مستقل انقلاب میں۔
دل کے اس ہنگامے کو قابو کرنے اور اسے کم کرنے کے لئے ذکر کی ضرورت ہوتی ہے۔
مرقبہ سب سے اعلی (عبادت) ہے اور ایک ہی وقت میں تینوں (جسم، روح اور ذہن) کو استعمال کرتا ہے۔
یہ مراقبہ کی کوانٹم فزکس (physics) ہے۔
احادیث نبوی(ص) کا سائنسی ثبوت:
"دائمی دن" کا آسمانی تصور،
ایک حدیث میں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
"آپ کے رب کے ساتھ ایک دن آپ کی گنتی کے ہزار سال کی طرح ہے۔"
اس حدیث کی تصدیق سائنس میں آئن اسٹائن کی تھیوری آف ریلیٹیویٹی (theory of relativity ) کرتی ہے۔ درحقیقت ، وقت کے پھیلاؤ (time dilation) کا فارمولہ بتاتا ہے کہ جیسے جیسے کوئی شے روشنی کی رفتار کے قریب آتی ہے وقت سست رفتار ہوتا جاتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں ، جیسے ہی ہم دائمی کائنات ("اپنے رب کے ساتھ ایک دن") کے قریب ہوتے ہیں وقت کم ہو جاتا ہے۔
لیکن ہمارے فریم آف ریفرنس کے باہر ایک ساکن مبصّر (observer ) کے لئے ("دائمیت" کے باہر)، وقت زیادہ لمبا ہوگا (آپ کی گنتی کے ہزار سال)۔
لہذا حدیث میں ، "آپ کے رب کے ساتھ ایک دن" کے اظہار کا مطلب ہے " روح کے سفر کے حوالے سے وقت کی اکائی" اور عبارت "آپ کی گنتی" کا مطلب ہے "روح کے سکُوت (at rest) کا فریم آف ریفرینس۔”
لہذا ، حدیثِ مبارکہ کو اس سائنسی طریقے سے پڑھا جاسکتا ہے؛
“روح کا روشنی کی رفتار کے قریب سفر کرنے کا ایک دن، روح کے سکُوت کے فریم آف ریفرینس میں ہزار سال کے برابر ہے ۔ "
ہمیشگی اللہ تعالٰی کے لئے ہے ، لہذا جیسے ہی ایک روح ہمارے رب کی آسمانی بادشاہی کی طرف بڑھتی ہے وقت، دُنیا کے جلنے کے مظہر کے طور پر کم ہوتا جاتا ہے۔
لیکن دوسری روح کے لئے جو آسمانی بادشاہی کی طرف نہیں بڑھ رہی (یعنی ایک ایسی روح جس کے سفر کی رفتار روشنی کی رفتار کے قریب نہیں آرہی) ، وقت کم نہیں ہوگا۔
اس سائنسی تضاد (paradox) کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ، جو” C” (یعنی) آسمانی سلطنت کی طرف سفر کررہی ہے ، وہ ایک مختصر "دن" کا سامنا کرے گی جس کی ویلیو اس روح کے سیکڑوں سال کے برابر ہوگی جو ابدیت کی طرف نہیں بڑھ رہی۔
اس حدیث کی وضاحت سائنسدانوں کی جڑواں پیراڈوکس (twin paradox ) سے بھی ملتی ہے۔ جڑواں پیراڈوکس ذیل میں زیربحث ہے۔
مراقبہ کے تصور کا ریاضیاتی مظہر:
ایک اور حدیث میں ، پیغمبر اسلام (ص) فرماتے ہیں۔
"مراقبہ کا ایک گھنٹہ 70 سال کی عبادت سے بہتر ہے۔"
جیسا کہ مولانا شیخ (ق) ہمیں بیان فرماتے ہیں ،
مراقبہ کا ہدف فنا فی الشیخ (مرشد میں فنا ہوجانا) ہے کیونکہ یہ روحانی عمل دُنیا کو جلا دیتا ہے اور نورِ رسول (ص) کو ظاہر کر دیتا ہے۔
لہذا جب ہم روحانی مراقبہ کر رہے ہوتے ہیں ، تو ہم ایک کشتی کی مانند ہوتے ہیں جو ہمارے مرشد (ق) کے ذریعے نبی پاک (ص) کی مبارک روشنی کی جانب بہت تیز سفر کررہی ہوتی ہے۔
ریاضی کے لحاظ سے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری کشتی ایک رفتار v پر چل رہی ہے جو روشنی کی رفتار C کے قریب تر ہے۔
وقت کے پھیلاؤ کے فارمولے کے مطابق ، یہ انتہائی تیز سفر وقت کو کم کر دیتا ہے کیونکہ دُنیا کی گندگی جل (کر ختم ہو) جاتی ہے۔
اس کے نتیجے میں ، مراقبہ کرنے والی روح کا وقت اس روح کے وقت کی نسبت بہت چھوٹا ہو گا جو مراقبہ میں مشغول نہیں ہے۔
یا اس کے برعکس ، مراقبہ میں مشغول روح، اپنے حرکت کے فریم کے ہر اکائی وقت کے لئے، ساکن فریم میں وقت کے یونٹس (units) کی موثر تعداد پائے گی۔
لہٰزا دنیا (ساکن فریم آف ریفرینس) میں وقت کی ویلیو کئی گُنا ہوجاتی ہےجب کہ آخرت (روح کا فریم آف ریفرینس جو روشنی کی رفتار کی جانب بڑھ رہا ہوتا ہے) میں یہ صرف ایک معمولی سی مقدار ہوتی ہے۔
ہم پھر سے وہ تمام حکمتیں دیکھتے ہیں جو ہمارے پیارے نبی (ص) کے کلام پاک میں پوشیدہ ہیں۔
پیغمبر اکرم (ص) کے کلام پاک میں ایک اور معجزہ چھپا ہوا ہے۔ آئن اسٹائن کی اسپیشل تھیوری آف ریلیٹیویٹی ہمیں بتاتی ہے کہ وقت کی کم رفتار کا مشاہدہ کرنے کے لئے ، سفر کرنے والی چیز کی رفتار روشنی کی رفتار کے انتہائی قریب ہونی چاہئے۔ لہذا اگر ہم وقت کی وہ ویلیوز (values) لیں جو پیغمبر اسلام (ص) نے ہمیں اپنی حدیث میں بیان فرمائی ہیں اور انھیں ٹائم ڈائیلیشن (time dilation ) کے فارمولے میں ڈال دیں تو ہمیں V کے لئے کم سے کم ویلیو مل جائے گی جو C کے بالکل قریب تر ہے۔
آئیے ایک بار پھر حدیث پاک پر نظر ڈالیں:
"مراقبہ کا ایک گھنٹہ 70 سال کی عبادت سے بہتر ہے۔"
حدیث
حسابی نقطہ نظر سے ، حدیثِ مبارکہ ہمیں مسافر ہستی (1 گھنٹہ) کے لئے گزرتا ہوا وقت اور ساکن فریم آف ریفرینس (70 سال) کے لئے گذرتا ہوا وقت مہیا کرتی ہے۔
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ایک گھنٹہ مراقبہ ہمیں کم از کم 70 سال کی عبادت کا صلہ عطا کرے گا۔ ان دو اوقات کا تعلق ٹائم ڈائیلیشن کے فارمولے سے ہوتا ہے:
لورینٹز مساوات (Lorentz equation) پر واپس آنے کے لئے ، ٹائم ڈائیلیشن مراقبہ کا ایک ریاضیاتی مظہر ہے۔
مراقبہ جتنا مضبوط ہوگا ، دنیا میں گزرے ہوئے وقت کی ویلیو اتنی ہی زیادہ ہوگی۔
تصوف میں ، سب سے زیادہ طاقتور مراقبہ جات وہ ہیں جو ایسے مشائخ کے ساتھ کئے جائیں جو سیدنا ابوبکر الصدیق (ر) کا راز تھامے ہوئے ہوں۔ کیونکہ سیدنا محمد (ص) کے کامل خُلفاء ہونے کی باعث ، انہیں نبی کریم (ص) کے نور تک فوری رسائی حاصل ہوتی ہے ، لہذا ان پر مراقبہ کرنا ہمیں انتہائی تیز رفتاری سے ، یعنی وقت کی ایک بہت ہی کم مقدار میں ، نورِ رسول (ص) کی طرف لے آتا ہے۔
چنانچہ نقشبندی مراقبہ کی ویلیو بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے (decoupled exponentially )، کیونکہ مراقبہ کے دوران ایک بے حد چھوٹا وقت مراقبہ سے باہر کی ایک بے حد بڑی اکائی کے برابر ہوتا ہے۔
سیدنا عبید اللہ الاحرار(ق) نے مولانا کی کتاب میں جو کہا ہے اس کی ایک وجہ ہے:
"ہمارا طریقہ( صدیق کا راستہ) ایک ایسا راستہ ہے جس میں ہر لمحہ میں تمام حالتیں تیزی سے (کئی گُنا) بڑھ جاتی ہیں۔ ایک سیکنڈ ایک ہزار سال کی ویلیو کے برابر بڑھ سکتا ہے۔”
گولڈن چین کے بیسویں شیخ الأعظم، حضرت عبیداللہ الاحرار (ق)
ٹوئن پیراڈوکس (twin paradox ):
تھیوری آف ریلیٹیوٹی کے ٹائم ڈائیلیشن کے اصول کی وضاحت کے لئے سائنسدان اکثر جڑواں پیراڈوکس کے تصور کو استعمال کرتے ہیں۔
نور اور دنیا نام کے جڑواں بچوں، جن کی عمریں 20 سال ہیں، کے ایک سیٹ پر غور کریں ۔
نور زمین سے 20 نوری سال کے فاصلے پر واقع ایک دوسرے سیارے ("سیارہ آخرة") کے سفر پر روانہ ہوا۔
اس کا خلائی جہاز زمین کے مقابلہ میںC 0.95 کی رفتار تک پہنچنے کے قابل ہے جہاں اس کا جڑواں بھائی موجود ہے۔
سیارے آخرة پر پہنچنے کے بعد ، نور اسی رفتارC 0.95 سے زمین پر لوٹتا ہے۔
واپسی پر ، نور کو پتہ چلا کہ زمین پر 42 سال گزر چکے ہیں ، جبکہ اس نے صرف 13 سال خلاء میں سفر کرتے ہوئے گزارے۔ لہذا اس کا بھائی دنیا اب 62 سال کا ہے جب کہ نور صرف 33 سال کا ہے۔
یہ جڑواں پیراڈاکس وقت کی ویلیو کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) کے اقوال کی مثال ہے۔ بے شک ،
نور نے 13 سال کی ویلیو حاصل کی جس کے دوران وہ ابدیت کی طرف گامزن تھا۔
گویا 13 سال سے وہ مراقبہ کررہا ہے۔
دوسری طرف ، اس کے جڑواں بھائی ، دنیا نے 42 سال کا عرصہ حاصل کیا جس کے دوران وہ ساکن تھا ، یعنی ، وہ ابدیت کی طرف نہیں بڑھ رہا تھا۔ گویا وہ عام عبادت میں مصروف تھا۔
چنانچہ زمین پر اس کی واپسی پر {جب وہ اپنے مراقبہ کو ختم کرتا ہے}، تو نور نے اپنے 13 سال کے مراقبہ کے لئے 42 سال کی عبادت کی ویلیو حاصل کرلی ۔
کچھ دلچسپ نمبر:
اللہ = الیف 1 ، لام 30 ، لام 30 ہا 5
= الیف 1 ، لام لام ہا = 65 ، 1-6-5
اگر آپ اسلام کی پیروی کرتے ہیں تو: "5" ستون
وہ آپ کی امام کی جانب رہنمائی کریں گے، ایمان کے “6” اصول
= احسان وحدانیت "1" توحید:
= 1 6ایمان، 5 ستون۔ 5-6-1
لا الہ الا اللہ- 165
—————————————————————————————-
URDU TRANSLITERATION:
(2) NAQSHBANDIYAH SILSILAH KE 11 USOOL JIN KA TALLUQ JISM, DIMAGH AUR ROOH SE HAI
Muraqba, silsila Naqshbandiyah ke 11 usoolon se kaisay nisbat rakhta hai :
khalwat ka matlab hai tanhai. Is ka matlab yeh hai ke baatini tor par kkhuda ke sath rehtay hue zahiri tor par logon ke sath rehna. Khalwat ki do kismain hain. Pehli bairooni khalwat aur doosri androoni khalwat .
Bairooni khalwat ke mutlashi se taqaza kya jata hai ke woh khud ko kisi aisi niji jagah par allag kar dein jo logon se khaali ho. Wahan woh khud reh kar, zikar e Ellahi par dheyaan deta hai taakay is haalat taq poanch sakay jis mein aasmani saltanat aashkaar hojaye. Jab aap bairooni hawaas ko qaboo kar lete hain to, aap ke androoni hawaas aasmani saltanat taq pounchanay ke liye azad hon jayen ge .
Yeh aap ko doosri qisam mein le aeye ga : androoni khalwat .
Androoni khalwat ka matlab hai logon mein rehtay hue khalwat mein rehna .
Is mein salk ka dil –apne rab ke sath mojood rehna chahiye aur jismani tor makhlooq ke darmain rehtay hue bhi unn se ghair haazir rehna chahiye .
• Kaha jata hai," salk khamosh zikar mein –apne dil mein itna gehra mulawis hoga ke, hatta ke agar woh logon ke majmaa mein daakhil hojaye to bhi, un ki aawazian ussay sunai nahi den gi .
• Zikar ki haalat is par qaboo pa layte hai. Kkhuda yi bargaah ka zahuur usay khech raha hota hai aur usay –apne Rabb ke siwa sab se be khabar kar raha hota hai .
• Yeh khalwat ki sab se aala haalat hai, aur haqeeqi khalwat samjhi jati hai, jaissa ke quran kareem mein mazkoor hai :" bande jin ka nah to kaarobar aur nah hi naffa unn kokhda ki yaad se htata hai" [ 24 : 37 ]. Nqshbndi silsila ka yahi tareeqa hai .
Nqshbndi silsila ke mashaiykh ki bunyadi khalwat, androoni khalwat hai .
• Woh –apne rab ke sath hain aur sath hi woh logon ke sath hotay hain.
• Jaissa ke Paighambar ( s ) naay irshad farmaya," mere do rukh hain : aik mere khaaliq ke samnay hai aur aik makhlooq ke samnay hai." Shah Naqshband ( q ) naay ijtima ki fazeelat par zor diya jab unhon naay kaha : " hamara rasta ijtima hai , aur neki ijtima mein hai".
Kaha jata hai ke woh momin jo logon se ghul mil sakta hai aur un ka baar uttah sakta hai, uss momin se behtar hai jo logon se daur rehta hai. Is naazuk nuqta par imam Rabbani ( q ) nay farmaya ,
" yeh janna zaroori hai ke salk ibtida mein bairooni khalwat ko logon se allag thalag honay ke liye, Allah rab ulizzat aur alii mrtbt parvar-digaar ki ibadat aur is par tavajja markooz karne ke liye istemaal karsaktha hai, yahan taq ke woh Alla maqam par poanch jaye .
Is waqt usay syed kharaz ( q ) ke alfaaz mein, –apne murshid se yeh Talqeen ki jaye gi ke,' kamaal mojzati quwatoon ki numayesh mein nahi hai, balkay kamaal logon mein baithna, khareedo farokht karna, shadi karna aur bachay peda karna hai ؛ magar phir bhi aik lamha ke liye bhi Allah ki bargaah nah chhorna. "
Jismani Muraqba :
1. Shaoor ke sath li gayi saans (" hosh Dur Dam )
hosh ka matlab hai" shaoor ". Dar ka matlab hai" andar ". Dam ka matlab hai" saans" .
Is ka matlab hai, molana Abdul Alkhaliq al-Ghujdawani ( q ) ke mutabiq ,
"aqalmand salk ko apni saanson ko la parwahi se, apne andar anay aur bahar janey se bachana chahiye, aur is terhan woh apne dil ko hamesha Khuda ki mojoodgi mein rakhay ga aur usay laazmi tor par ibadat aur bandagi ke sath apne saanson ko zindah karna ho ga aur is ibadat ko zindagi se bharpoor apne Rabb ke paas rawana karna hoga, kyunkay har aik saans jo ( Khuda ki ) mojoodgi ( ke ehsas ) se andar aati ya bahar jati hai woh ( saans ) zindah hai aur khudai bargaah ke sath jurri hui hai. Ghaflat ke sath andar anay wali aur bahar janey wali har saans murda hoti hai, khudai mojoodgi se munqita hui"
Hazrat Abaid Allah alahrar ( q ) nay farmaya ,
" is tareeqa mein salk ke liye sab se ahem mission apni saanson ki hifazat karna hai, aur jo shakhs apni saanson ki hifazat nahi karsaktha, is ke barey mein kaha jaye ga, “as nay khud ko kho diya. “
hazrat Shah Naqshband ( q ) nay farmaya ,
" yeh tareeqa saans par mabni hai. Lehaza, har aik ke liye lazim hai ke woh saans ko andar le jatay waqt aur bahar nikaltay waqt is ki hifazat kere aur mazeed yeh ke saans ke andar jaaney aur bahar niklny ke darmiyani waqfay mein ( bhi ) is saans ki hifazat kere. "
Sheikh abbu al janb Najam Aldeen Kubra ( q ) neh apni kitaab, Fatiha al-Jamal mein farmaya ,
" zikar har aik jandaar ke jism mein apni saans zaroorat ke tor pr- hatta ke marzi ke baghair- itaat ki nishani ke tor par beh raha hai, jo ke un ki takhleeq ka aik hissa hai. Un ki saans ke zariye har andar jati hui aur bahar aati hui saans ke sath ellahi naam Allah ke harf " ha" ki aawaz banti hai aur yeh kkhuda ki infiradiat par zor dainay ke liye ghaibi johar ki alamat hai. Lehaza khaaliq ke johar ko samajhney ke liye is saans ke sath haazir hona zurori hai .
Naam' ' Allah ' ' jis mein ninanway naam o sifaat shaamil hain, chaar huroof par mushtamil hai, alif, laam, laam aur aik hah ( Allah ). Ahal tasawuf ka kehna hai ke Allah ke mukammal chupay hue wujood ka izhaar Allah rab ulizzat ke ( naam ke ) aakhri harf “ہ” jo alif ke zariye vowelize hota hai, kya jata hai. Yeh Allah Rab ulizzat ki mukammal tor par chhupi hui zaat ki numaindagi karta hai" ha." yeh kkhuda ke mutlaq ghaib" wahdaniyat" ki numaindagi karta hai. Pehla laam shanakht ( tareef ) ki khatir hai aur dosra laam zor ( mubaligha ) ki khatir hai.
Apni saans ko be parwai se bachana aap ko ( Allah ki ) mukammal mojoodgi mein le jaye ga, aur mukammal mojoodgi aap ko mukammal mushahida ki taraf le jaye gi, aur mukammal mushahida aap ko Allah ke ninanway naam aur sifaat ke mukammal izhaar ki taraf le jaye ga. Allah aap ko apne ninanway naam o sifaat aur is ke deegar tamam sifaat ke zahuur / inkishaaf ki taraf le jata hai, kyunkay yeh kaha jata hai ke," Allah ki sifaat insanon ki saanson ki terhan be shumaar hain. "
yeh har koi jaanta hai ke saans ko la parwahi se bachana salkeen ke liye mushkil hai. Lehaza inhen maffi ke zariye ( astaghfar se ) is ( saans ) ki hifazat karni chahiye kyunkay astaghfar is ko pak o saaf karta aur pakizgee bkhshta hai. Aur yeh salk ko har jagah Allah azzwajal ke haqeeqi Mazhar ke liye tayyar kardaita hai .
2- Apne har qadam ka dheyaan rakhen (" Nazar Bar Qadam" ) :
aap ki marzi aur razaye Ellahi aik honi chahiye. Q, daal, meem [ qadam ] – Allah Qadir , makhlooq mein hazrat Mohammad ( s ) ki Raza ke mutabiq hai. ( Nabi pak ( s ) ki Raza Allah azzwajal ki Raza hai. )
is ka matlab yeh hai ke salk ko chaltay phirtay apni ankhen ( jo khwahisaat ki numaindagi karti hain ) –apne peeron par rakhni chahiye ( paiir aap ki marzi ki numaindagi karte hain ). Jahan bhi woh apne paiir rakhnay ja raha hai, is ki ankhen zaroor wahan honi chahiye. Usay idhar udher apni nazar daalnay ki ijazat nahi hai, ke dayen ya baen ya apne samnay dekhe. Kyun ke ghair zurori nazary dil par parda daal den ge .
“Dill par ziyada tar parday unn tasweeron ke zareya parte hain jo aap ki roz maraah zindagi ke douran aap ki aankhon se aap ke dimagh mein muntaqil hoti hain. ”
Yeh aap ke dil ko hungamon se pareshan kar sakti hain unn mukhtalif qisam ki khwahisaat ke baais jo aap ke zehan par ( inn tasaveer ki wajah se ) naqsh ho chuki hain. Yeh tasaveer dil par parday ki terhan hoti hain .
Woh bargaah khuda wandi ki roshni ko rokkk deti hain. Yahi wajah hai ke sufi aulia –apne pirokaron ko, jinhon ne mustaqil zikar ke zareya –apne dilon ko pak karliya hota hai, –apne paon ke ilawa kisi aur taraf nazar karne ki ijazat nahi dete hain. Un ke dil aayiny ki terhan hotay hain, jo har Shabeeh ko ba aasani munakis karte aur wusool karte hain. Is se woh –apne rastay se murr satke hain aur un ke dilon mein najasat askati hai. To salk ko apni nigehain neechay karne ka hukum diya jata hai taakay woh shaytani teeron ke hamlay ki zad mein nah aa sakay .
Nigahon ko neechay karna bhi aajzi ki alamat hai ؛ maghrour aur mutaqabbir log kabhi bhi –apne paon ki janib nahi dekhte. Yeh is baat ka bhi ishara hai ke 1 shakhs Nabi pak ( s ) ke naqsh qadam par chal raha hai, ke jab woh chaltay to kabhi dayen ya baen nazar nahi ki, balkay saabit qadmi se apni manzil ki taraf jatay hue sirf –apne pairon ki taraf hi dekhte. Yeh aik ounchay darjay ki haalat ki alamat bhi hai ke jab salk –apne parvar-digaar ke siwa kahin nazar nahi karta. Is shakhs ki terhan jo jald mnzlِ maqsood taq pounchanay ka iradah rakhta hai, isi terhan Allah azzwajal ki khudai bargaah ka mutlashi bhi taizi se agay barh raha hota hai, –apne dayen ya baen taraf nahi dekh raha hota, duniya ki khwahisaat ki taraf nahi dekh raha hota, balkay sirf khudai bargaah ki talaash mein hota hai .
Imam Rabbani Ahmed Al-Farooqi ( q ) neh –apne Maktoobat ke 295 khat mein irshad farmaya :
“Nazrain { aap ki hawwa, maadi khwahisaat hain } qadam se pehlay harkat karti hain aur qadam nigahon ki pairwi karta hai. Aala haalat ki taraf barhna pehlay pehal mushahida ke zareya ( mumkin ) hota hai, is ke baad qadam ( ka marhala aata ) hai. Jab yeh qadam nigahon ke urooj ki satah par poanch jata hai to phir nazrain doosri haalat ki taraf barha di jayen gi ke jin ki pairwi nateejatan qadam karen ge. Tab nazrain aur bhi onche uttah di jayen gi aur nateejatan qadam un ki pairwi karen ge. Aur isi terhan ( onche uthtee rahen gi ) jab taq ke nigehain aik kamaal ki haalat taq nah poanch jayen ke jahan woh qadam ko ( bhi ) khech len. Hum kehte hain,' jab qadam nigahon ke pairwi karta hai, to mureed Nabi pak ( s ) ke naqsh qadam ki pairwi ke liye tayari ki kefiyat ko poanch chuka hain. Lehaza Nabi kareem ( s ) ke naqsh qadam ko har qadam ka maakhuz samgha jata hai.' '
hazrat Shah Naqshband ( q ) neh farmaya," agar hum –apne doston ki ghaltion par nigah dalain ge to hum bey-dost reh jayen ge, kyunkay koi bhi kaamil nahi hai." qadam marzi ki alamat hain, apni marzi ko murshid ki marzi se milatay hue phir Nabi ( s ) phir hamaray Rab ( ki marzi se milayen).
3- Ghar ka safar (" Safar Dur watan" )
Buraiee se Jannaton ki janib hijrat.
Is ka matlab hai kisi ka –apne watan ki janib safar karna. Is ka matlab yeh hai ke salk takhleeq ki duniya se khaaliq ki duniya ka safar karta hai. Is se mutaliq hai ke Nabi ( s ) ney farmaya," mein –apne rab ki janib aik haalat se behtar haalat ki taraf aur aik maqam se aik aala maqam ki taraf ja raha hon." kaha jata hai ke salk ko haraam ki khwahish se khudai bargaah ki khwahish ki taraf safar karna chahiye .
Nqshbndi sufi tareeqa is safar ko do qismon mein taqseem karta hai .
Pehla bairooni safar aur dosra androoni safar hai .
Bairooni safar aik kaamil murshid, jo aap ko thaam le aur aap ki manzil ki janib aap ki rahnomai kere, ki talaash mein aap ka aik sarzamen se doosri sarzamen ka safar hai .
Yeh aap ko dosray zumray mein janey ka ahal bantaa hai, androoni safar ka. Aik baar jab inhen aik kaamil murshid mil jata hai, to unn ko kisi aur bairooni safar par janey se mana kardiya jata hain. Bairooni safar mein bohat si mushkilaat hoti hain jin ko mubtadi ( beginner ) haraam kamon mein parre baghair bardasht nahi kar saktay, kyunkay un ki ibadat kamzor hoti hai .
Doosri qisam androoni safar hai .
Androoni safar ke liye salk ko apne ikhlaq-e-razeela ( low manners ) ko chhorna aur Alla aadaab ki taraf chalna, –apne dil se tamam tar dunyawi khwahisaat ko nikalna hota hai .
Usay napaaki ki kefiyat se pakdamni ki haalat ki taraf uttah liya jaye ga. Is waqt usay mazeed androoni safar ki zaroorat nahi rahay gaya .
Woh –apne dil ko pak kar chuka ho ga, usay pani ki terhan khalis, crystal ki terhan shafaaf, aaiine ki terhan chmkaye hue, apni roz marrah ki zindagi ke liye zurori tamam mamlaat ki haqeeqaton ko zahir karte hue, –apne tain baghair kisi bairooni iqdaam ki zaroorat ke. Is ke dil mein har woh cheez zahir hogi jo is ki zindagi aur aas paas ke logon ki zindagi ke liye zurori hai.
4- Majmaa mein khalwat (" khalwat Dur Anjuman” )
Khalwat ka matlab hai tanhai. Is ka matlab yeh hai ke baatini tor par kkhuda ke sath rehtay hue zahiri tor par logon ke sath rehna. Khalwat ki do qasmein hain. Pehli bairooni khalwat aur doosri androoni khalwat .
Bairooni khalwat ke mutlashi se taqaza kya jata hai ke woh khud ko kisi aisi niji jagah par allag kar dein jo logon se khaali ho. Wahan woh khud reh kar, zikar e Ellahi par dheyaan deta hai taakay is haalat taq poanch sakay jis mein aasmani saltanat aashkaar hojaye. Jab aap bairooni hawaas ko qaboo kar lete hain to, aap ke androoni hawaas aasmani saltanat taq pounchanay ke liye azad hon jayen ge .
Yeh aap ko doosri qisam mein le aeye ga : androoni khalwat .
Androoni khalwat ka matlab hai logon mein rehtay hue khalwat mein rehna .
Is mein salk ka dil –apne Rabb ke sath mojood rehna chahiye aur jismani tor par makhlooq ke darmain rehtay hue bhi unn se ghair haazir rehna chahiye .
Kaha jata hai," salk khamosh zikar mein apne dil mein itna gehra mulawis hoga ke, hatta ke agar woh logon ke majmaa mein daakhil hojaye to bhi, un ki aawazian ussay sunai nahi den gi .
Zikar ki haalat is par qaboo pa layte hai. Khudayi bargaah ka zahuur usay khech raha hota hai aur usay –apne Rabb ke siwa sab se be khabar kar raha hota hai .
Yeh khalwat ki sab se aala haalat hai, aur haqeeqi khalwat samjhi jati hai, jaissa ke quran kareem mein mazkoor hai :" bande jin ka nah to kaarobar aur nah hi naffa unn kokhda ki yaad se htata hai" [ 24 : 37 ]. Nqshbndi silsila ka yahi tareeqa hai .
Nqshbndi silsila ke mashaiykh ki bunyadi khalwat, androoni khalwat hai. Woh –apne rab ke sath hotay hain aur sath hi woh logon ke sath hotay hain. Jaissa ke Paighambar ( s ) ny irshad farmaya," mere do rukh hain : aik mere khaaliq ke samnay hai aur aik makhlooq ke samnay hai." Shah Naqshabnd ( q ) ny ijtima ki fazeelat par zor diya jab unhon ny kaha : " hamara rasta ijtima hai, aur neki ijtima mein hai".
Kaha jata hai ke woh momin jo logon se ghul mil sakta hai aur un ka baar uttha sakta hai, uss momin se behtar hai jo logon se daur rehta hai. Is naazuk nuqta par imam Rabbani ( q ) ne farmaya ,
" yeh janna zurori hai ke salk ibtida mein bairooni khalwat ko logon se allag thalag honay ke liye, Allah rab ulizzat aur alii mrtbt parvar-digaar ki ibadat aur is par tavajja markooz karne ke liye istemaal karsaktha hai, yahan taq ke woh Alla maqam par poanch jaye .
Is waqt usay syed Khazaar ( q ) ke alfaaz mein, –apne murshid se yeh Talqeen ki jaye gi ke,' kamaal majzati quwatoon ki numayesh mein nahi hai, balkay kamaal logon mein baithna, kharedo farokht karna, shadi karna aur bachay peda karna hai ؛ magar phir bhi aik lamha ke liye bhi Allah ki bargaah mein nah chhorna. "
5- Zururi zikar (" yaad kard" )
' yaad' ke maienay zikar hain." kard" hai zikar ka johar .
Salk ko apni zabaan par nifi aur asbat ke zareya zikar karna lazim hai jab taq ke woh –apne dil ke tfkr ( muraqba ) ki haalat par nah aajay .
Yeh haalat har roz zabaan par nifi ( laa elah ila ) aur asbat ( ilallah ) ki talawat 5000 baar aur 10, 000 baar ke darmain karne se haasil ki ja sakay gi. Jis se mureed ke dil se aisay anasir mit jayen ge jo is ko daghdar aur zeng alood karte hain .
Yeh zikar dil ko polish karta hai aur salk ko zahuur ( manifestation ) ki haalat mein le jata hai .
Usay lazim hai ke woh rozana zikar kere, dil se ya zabaan se, Allah ki zaat ka naam se, jo dosray tamam naamon aur sifaat par mushtamil hai, ya nifi o asbat ka zikar laa elah ila Allah ke zariye se karte hue .
Yeh rozana zikar salk ko khuday-e-wahid jo azeem hai, uss ki mukammal mojoodgi mein le aeye ga .
Nqshbndi sufi asatzh ka andaaz mutalba karta hai ke salk ankhen band kere, mun band kere, daant saaf kere, apni zabaan ko –apne mun ki chhat se lagaye, aur apni saans thaam le. Usay nifi aur asbat ke ka zikar dil se karna hoga, jis ka aaghaz lafz “لا” (" nahi" ) se hoga .
Is ne is" laa" ko apni naaf ke neechay se –apne dimagh taq utha ya, –apne dimagh taq pounchanay par lafz" laa" ( is baat ki alamat hoga ke ) –apne sir ko haqayiq taq pounchanay ke liye istemaal nahi karna. Lafz “الہ” (" Khuda" ) pukaarain jo dimagh se dayen kandhay taq jaye ga, aur phir baen kandhay taq. Jahan se mureed dil ke sath “الا اللہ” ko tkraye ga (" Allah ke siwa" ) .
Jab yeh lafz ( ila Allah ) dil se takra jata hai to is ki energy aur hararat jism ke tamam hisson mein phail jati hai. Salk jis ne is duniya mein mojood tamam cheezon ko" laa ala" ke alfaaz se khatam kar diya hai, “الا اللہ” ke alfaaz se iqrar karta hai ke jo kuch mojood hai woh khudai bargaah mein fanaa ho chuka hai.
Salk is ko hamesha dil mein laatay hue har saans ke sath, saans andar le jatay hue aur saans bahar nikaltay hue dohrataa hai, is tadaad ke mutabiq jo is ke murshid ne bataaye hai .
Salk aakhir-kaar is haalat mein poanch jaye ga jahan aik hi saans mein woh laa ala ila Allah taees (23) baar dohra sakta hai .
Aik kaamil Sheikh laa ala ila Allah har saans mein la tadaad baar dohra satke hain .
Is mashq ka mafhuum yeh hai ke wahid maqsad Allah hai aur hamaray liye koi dosra maqsad nahi hai .
Is sab ke baad kkhuda taala ko yaktaa wujood ke tor par deikhna, mureed ke dil mein nabi pak ( s ) ki mohabbat daal deta hai aur is waqt woh ( mureed ) kehta hai, Muhammadur Rasool Allah (" Mohammad ( s ) kkhuda ke nabi hai" ) jo ke khudai bargaah ka dil hai .
6- Wapsi (" Baaz Ghasht" )
Yeh aik aisi haalat hai jis mein salk, jo nifi aur asbat ke zareya zikar karta hai, huzoor ke is qoul mubarak ko samajh laita hai, ”ae mere kkhuda, aap mera maqsad hain aur aap ki khushnodi mera maqsad hai ", jo Al-Haq hai .
Is qoul ki talawat salk mein kkhuda ki toheed ke shaoor mein izafah kere gi, yahan taq ke woh is haalat taq poanch jaye jis mein saari makhlooq ka wujood is ki nazron se mit jaye .
Woh jo kuch bhi daikhta hai, woh jahan bhi nazar karta hai, woh mutlaq wahid ( absolute one ) hai. ( har cheez behar-e-Qudrah mein mojood ) .
Nqshbndi silsila ke mureed is terhan ke zikar ki talawat –apne dilon mein se wahdaniyat ke raaz ko nichor kar nikaalny ke liye aur –apne aap ko anokhi khudai bargaah ki haqeeqat ke samnay kholnay ke liye karte hain .
Agar mubtadi –apne dil mein is zikar ki taaqat zahir hotay hue nahi paata to is ko is zikar ko chorney ka koi haq nahi. Usay zaroor –apne Sheikh ki taqleed karte hue is ki talawat karte rehna chahiye, kyunkay nabi ( s ) ne farmaya," jo shakhs kisi giroh ki taqleed kere ga woh un ka hoga." aur jo shakhs –apne ustaad ki taqleed kere ga to kisi din is ko –apne dil mein yeh raaz khula hwa mil jaye ga .
" ba’az gasht" ke maienay Allah Subhana o taala ki taraf mukammal Mutee ho kar aur is ki marzi ke mutabiq sir tasleem khham karkay lotna, aur is ki poori tareef karne mein mukammal aajzi dikhnana hai. Yahi wajah hai ke huzoor ( s ) ne apni munajat mein zikar farmaya ke, “Ay Allah azzwajal, hum ne aap ka is terhan se zikar nahi kya jaisa ke aap ka zikar karne ka haq hai. ”
Agar salk Allah azzwajal ki madad aur Allah azzwajal ki yaad ke sath zikar nahi karta to woh –apne zikar mein Allah azzwajal ke huzoor haazir nahi ho sakta, aur –apne zikar mein Allah ke raaz o sifaat ko zahir nahi karsaktha. Jaisa ke hazrat Bayazeed ( q ) ne farmaya :" jab mein is ke paas pouncha to mein ne dekha ke is ka mujh ko yaad rakhna mere zikar se pehlay hai." salk khud zikar nahi karsaktha. Usay yeh samajh lena chahiye ke Allah hi is ke zareya zikar karta hai.
ROOH MURAQBA:
7- Tavajjah (" nigah dasht" )
" nigah" ka matlab hai nazar. Is ka matlab yeh hai ke salk ko apnay dill ka dheyaan rakhna chahiye aur buray khayalat ko –apne dil mein daakhil honay se rokkk kar –apne dil ki hifazat karna chahiye .
Buray rujhan dil ko kkhuda ke sath shaamil honay se roktay hain. Naqshbandi silsila mein yeh aitraaf kya gaya hai ke salk ke liye pandrah minute taq –apne dil ko buray rujhanaat se bachana aik bohat barri kamyabi hai. Is ke liye woh aik haqeeqi sufi samgha jaye ga .
Tasawuf dil ko buray khayalat se mehfooz rakhnay aur usay kamtar raghbat se bachanay ki taaqat hai. Jo shakhs un do maqasid ko poora kere ga woh –apne dil ko jaan le ga, aur jo –apne dil ko jaan jaye ga woh –apne rab ko pehchan jaye ga. Huzoor akrm ( s ) neh irshad farmaya," jo –apne aap ko jaanta hai woh –apne rab ko jaanta hai. "
Aik sufi Sheikh neh farmaya," chunkay mein neh das raton taq –apne dil ki hifazat ki, is liye mere dil neh bees saal taq meri hifazat ki hai. "
Hazrat abubaker Qaitani ( q ) neh farmaya," mein 40 saal se –apne dil ke darwazay par Muhafiz tha, aur mein neh usay Allah azzwajal, Qadir mutlaq aur Alla ke siwa kisi ke liye kabhi nahi khola, yahan taq ke mera dil Allah rab ulizzat aur bartar ke siwa kisi ko nah jaanta raha. "
Hazrat abulhasan al-Kharqani ( q ) neh farmaya," 40 saal ho chukay hain ke Allah azzwajal mere dil ki taraf dekh raha hai aur is neh –apne siwa kisi ko nahi dekha. Aur mere dil mein Allah azzwajal ke siwa aur kisi ke liye koi gunjaish nahi hai. ”
8- yaad (" yaad dasht" ) —" rooh muraqba "
Is ka matlab yeh hai ke zikar ki talawat karne wala shakhs har saans mein nifi aur asbat ke sath –apne dil ko Allah Subhana watala ki bargaah chhorey baghair is ki hifazat karta hai. ( dil ki har dhurkan par Allah ka zikar, is ke sath hi hosh mein andar daakhil honay wali saans par “ھو اللہ” aur bahar niklny wali saans par “ھو”. )
Is ka taqaza hai ke salk –apne dil ko Allah azzwajal ki bargaah mein musalsal haazir rakhay .
Is ki madad se woh kkhuda ke anokhay johar ki roshni ko mehsoos aur zahir karsaktha hai .
Is ke baad woh khayalat ki chaar mukhtalif shaklon mein se teen ko khatam karta hai : anaa parast khayalat, buray khayalat, aur farishta sift khayalat, ( aur ) khayalat ki sirf chothi shakal, Haqqani ya sachhi sochon ko barqarar rakhtay hue aur un ki tasdeeq karte hue ( un ko qaim rakhta hai ) .
Yeh salk ko –apne tamam tar tasawurat ko tark karkay aur sirf haqeeqat, jo Allah azzwajal ki wahdaniyat hai, ko qubool karne ke zariye takmeel ke Alla darjay ki taraf le jaye ga.
9- Waqt ki aagahi (" waqoof Zamani”)
Is ka matlab yeh hai ke kisi ka itminan dekna aur iss ke la parwahi ke rujhan ki jaanch karna .
Salk ko yeh maloom hona chahiye ke is ne Rohani pukhtagi ki taraf bherne mein kitna waqt guzara hai aur usay yeh pehchana hoga ke woh khudai bargaah ki taraf –apne safar mein kis maqam par pouncha hai .
Salk ko apni tamam koshisho se taraqqi karni hogi .
Usay laazmi tor par apna sara waqt sirf isi wahid maqsad ( yani ) khudai mohabbat aur khudai bargaah ke maqam par pounchanay ke liye sirf karna hoga .
Usay laziman aagah rehna chahiye ke is ki tamam koshisho aur uss ke tamam tar amaal mein Allah azzwajal chuute se chuute tafseel ka gawah hai .
Salk ko har din aur har raat –apne aamaal aur –apne iraadon ka hisaab kitaab karna chahiye aur har aik ghantay, har second aur har lamhay –apne aamaal ka tajzia karna chahiye .
Agar woh achay hain, to woh is ke liye kkhuda ka shukar ada karta hai. Agar woh buray hain, to usay zaroor tauba karni chahiye aur Allah azzwajal se maffi maangna chahiye .
Hazrat Yaqoob al-Charakhi ( q ) nay farmaya ke un ke Sheikh hazrat Alau Din al-Attaar ( q ) nay farmaya,
" afsurdagi ki haalat mein aap ko astaghfar bohat ziyada parhna chahiye, aur khushy ki haalat mein Allah ki had se ziyada hamd karen." aur unhon nay farmaya," un dono halaton ( yani ) tangi aur khushhali ka khayaal rakhna waqoof Zamani kehlata rakhta hai. ”
Hazrat Shah Naqshband ( q ) nay is haalat ki wazahat yeh bayan karte hue farmai," aap ko khud se aagah hona parre ga. Agar aap Shariat ki pairwi kar rahay thay to aap ko Allah azzwajal ka shukar ada karna chahiye, warna aap ko maffi maangni chahiye .
Is haalat mein salk ke liye zurori hai ke woh chuute se chuute waqt ki muddat ko mehfooz rakhen. Usay apni zindagi ke har lamhay mein –apne wujood par nigah rakhni hogi aur parakhna ho ga ke woh Allah azzwajal ki bargaah mein tha ya apni anaa ki mojoodgi mein hai .
Hazrat Shah Naqshband ( q ) nay farmaya," aap ko janchna hoga ke aap har lamha kaisay gzarte hain : mojoodgi ke sath ya ghaflat mein.
10- Numbron ki aagahi (" waqoof adadi" )
Is ka matlab yeh hai ke zikar ki talawat karne walay salk ko dil ke khamosh zikar par mushtamil takraar ki sahih tadaad ka khayaal karna chahiye. ( ilm-al-huroof ka mutalea, Allah 66 banata hai, laa alh ila Allah 165 banata hai yeh mukhtalif aloom ko khol day ga).
Zikar ka hisaab kitaab muhasba karne ki khatir nahi hota balkay dil ko buri khayalon se bachanay aur Sheikh ki tajweez kardah takraar ko jald se jald poora karne ki koshish mein ziyada tavajja markooz karne ke liye hai .
Ginti ke zareya zikar ka sutoon yeh hai ke is zikar ki zariye pukare jaanay walay ki mojoodgi ko –apne dil mein laya jaye aur aik aik kar ke ginti jari rakhi jaye taakay is samajh taq apni tavajja layi ja sakay ke har koi is zaat-e wahid ka mohtaaj hai jis ki nishanain har makhlooq mein zahir ho rahi hain .
Hazrat Shah Naqshband ( q ) ny farmaya," zikar mein tadaad ka mushahida ( observance ) aasmani ilm haasil karne ki haalat mein pehla qadam hai. ”
Is ka matlab yeh hai ke ginti se ensaan yeh pehchan jata hai ke zindagi ke liye sirf aik hi ( zaat ) zurori hai. Tamam rayazi ki masawaat ko number? Ki zaroorat hoti hai. Saari makhlooq sirf sirf zaat-e wahid ki mohtaaj hai.
11- Dil ki aagahi (" Waqoof-e-qalbi ) "
Is ka matlab hai salk ke dil ko khudai mojoodgi ki taraf Raghib karna, jahan woh –apne mehboob ke ilawa kisi aur ko nahi dekhe ga. Is ka matlab yeh hai ke tamam halaton mein is ke zahuur / jalva ka tajurbah karen .
Hazrat Abaidullah alahrar ( q ) ny farmaya," dil ki aagahi ki kefiyat yeh hai ke khudai bargaah mein is terhan se haazir hon ke aap is ke siwa kisi aur ki taraf nigah nahi kar saken. "
Aisi haalat mein 1 shakhs dil ke andar zikar ki jagah ko markooz karta hai kyunkay yeh taaqat ka markaz hai .
Achay aur buray tamam khayalat aur ilhamaat, aik ke baad aik dil ke andar mehsoos hotay aur zahir hotay rehtay hain, chakkar lagatay aur bdalty rehtay hain, roshni aur tarike ke darmain, mustaqil inqilab mein .
Dil ki is hangamay ko qaboo karne aur usay kam karne ke liye zikar ki zaroorat hoti hai .
Muraqbah sab se Alla ( ibadat ) hai aur aik hi waqt mein tenu ( jism, rooh aur zehan ) ko istemaal karta hai .
Yeh muraqba ki quantum physics hai .
Ahadees nabwi ( s ) ka scientific saboot :
" Hamesha ke din" ka aasmani tasawwur
Aik hadees mein, Nabi kareem sale Allah aleh wasalam farmatay hain:
" aap ke rab ke sath aik din aap ki ginti ke hazaar saal ki terhan hai. "
Is hadees ki tasdeeq science mein ion astayn ki theory of relativitykarti hai. Dar haqeeqat, waqt ke phelao ( time dilation ) ka formula batata hai ke jaisay jaisay koi shaiy roshni ki raftaar ke qareeb aati hai waqt sust raftaar hota jata hai .
Dosray lafzon mein, jaisay hi hum daimi kaayenaat (" –apne rab ke sath aik din" ) ke qareeb hotay hain waqt kam ho jata hai .
Lekin hamaray frame of refrences ke bahar aik saakin mbssr ( observer ) ke liye (" abdiyyat" ke bahar ), waqt ziyada lamba hoga ( aap ki ginti ke hazaar saal ) .
Lehaza hadees mein," aap ke Rabb ke sath aik din" ke izhaar ka matlab hai" rooh ke safar ke hawalay se waqt ki ikai" aur ibaarat" aap ki ginti" ka matlab hai" rooh ke sakoot ( at rest ) ka frame of reference. ”
Lehaza, hadees mubarikah ko is scientific tareeqay se parha ja sakta hai ؛
“Ruh ka roshni ki raftaar ke qareeb safar karne ka aik din, rooh ke sakoot ke frame of reference mein hazaar saal ke barabar hai. "
Hameshgi Allah taala ke liye hai, lehaza jaisay hi aik rooh hamaray rab ki aasmani badshahi ki taraf barhti hai waqt, duniya ke julne ke Mazhar ke tor par kam hota jata hai .
Lekin doosri rooh ke liye jo aasmani badshahi ki taraf nahi barh rahi ( yani aik aisi rooh jis ke safar ki raftaar roshni ki raftaar ke qareeb nahi aa rahi ), waqt kam nahi hoga .
Is scientific tazaad ( paradox ) ka nateeja yeh nikla ke rooh, jo” c” ( yani ) aasmani saltanat ki taraf safar kar rahi hai, woh aik mukhtasir" din" ka saamna kere gi jis ki ahmiyat is rooh ke secron saal ke barabar hogi jo abdiyat ki taraf nahi barh rahi .
Is hadees ki wazahat science danon ki twin paradox se bhi millti hai. Jurwan paradox zail mein zer behass hai .
Muraqba ke tasawwur ka riyazyati Mazhar :
Aik aur hadees mein, Paighambar-e-Islam ( s ) farmatay hain .
" muraqba ka aik ghanta 70 saal ki ibadat se behtar hai. "
Jaisa ke Mawlana Sheikh ( q ) hamein bayan farmatay hain ,
Muraqba ka hadaf fanaa fi al shaikh ( murshid mein fanaa hojana ) hai kyunkay yeh Rohani amal duniya ko jala deta hai aur noore rasool ( s ) ko zahir kar deta hai .
Lehaza jab hum Rohani muraqba kar rahay hotay hain, to hum aik kashti ki manind hotay hain jo hamaray murshid ( q ) ke zariye nabi pak ( s ) ki mubarak roshni ki janib bohat taiz safar kar rahi hoti hai .
Rayazi ke lehaaz se, is ka matlab yeh hai ke hamari kashti aik raftaar v par chal rahi hai jo roshni ki raftaar c ke qareeb tar hai .
Waqt ke phelao ke formula ke mutabiq, yeh intahi taiz safar waqt ko kam kar deta hai kyunkay duniya ki gandagi jal ( kar khatam ho ) jati hai .
Is ke nateejay mein, muraqba karne wali rooh ka waqt is rooh ke waqt ki nisbat bohat chhota ho ga jo muraqba mein mashgool nahi hai .
Ya is ke bar-aks, muraqba mein mashgool rooh, –apne harkat ke frame ke har ikai waqt ke liye, saakin frame mein waqt ke units ( units ) ki mo-asar tadaad paye gi .
Lehza duniya ( saakin frame of refernce ) mein waqt ki qeemat kayi gunna hojati hai jab ke akhirat ( rooh ka frame of refernce jo roshni ki raftaar ki janib barh raha hota hai ) mein yeh sirf aik mamooli si miqdaar hoti hai .
Hum phir se woh tamam hikmate dekhty hain jo hamaray pyare nabi ( s ) ke kalaam pak mein posheeda hain .
Paighambar Akrm ( s ) ke kalaam pak mein aik aur moujza chhupa sun-hwa hai. Ion astayn special theory of relativity hamein batati hai ke waqt ki kam raftaar ka mushahida karne ke liye, safar karne wali cheez ki raftaar roshni ki raftaar ke intahi qareeb honi chahiye. Lehaza agar hum waqt ki woh values ( values ) len jo paighambar Islam ( s ) nay hamein apni hadees mein bayan farmai hain aur unhein time dilation ke formula mein daal den to hamein v ke liye kam se kam value mil jaye gi jo c ke bilkul qareeb tar hai .
Aayiyae aik baar phir hadees pak par nazar dalain :
" muraqba ka aik ghanta 70 saal ki ibadat se behtar hai. "
(Hadees)
Hisaabi nuqta nazar se, hadees mubarikah hamein musafir hasti ( 1 ghanta ) ke liye guzarta hwa waqt aur saakin frame of refernce ( 70 saal ) ke liye guzarta hwa waqt muhayya karti hai .
Hadees mein farmaya gaya hai ke aik ghanta muraqba hamein kam az kam 70 saal ki ibadat ka sila ataa kere ga. Un do auqaat ka talluq time dilation ke formula se hota hai :
Lorentz equation par wapas anay ke liye, time dilation muraqba ka aik mathemetical Mazhar hai .
Muraqba jitna mazboot hoga, duniya mein guzray hue waqt ki qeemat itni hi ziyada hogi.
Tasawuf mein, sab se ziyada taaqatwar muraqba jaat woh hain jo aisay mashaiykh ke sath kiye jayen jo Syedna Abubaker al-Siddiq ( r ) ka raaz thaamay hue hon. Kyunkay Syedna Mohammad ( s ) ke kaamil khulfa honay ki baais, inhen Nabi kareem ( s ) ke noor taq fori rasai haasil hoti hai, lehaza un par muraqba karna hamein intahi taiz raftari se, yani waqt ki aik bohat hi kam miqdaar mein, noore rasool ( s ) ki taraf le aata hai .
Chunancha nqshbndi muraqba ki value bohat ziyada barh jati hai ( decoupled exponentially ), kyunkay muraqba ke douran aik be hadd chhota waqt muraqba se bahar ki aik be hadd barri ikai ke barabar hota hai .
Syedna Abaidullah alahrar ( q ) ney molana ki kitaab mein jo kaha hai is ki aik wajah hai :
" hamara tareeqa ( Siddiq ka rasta ) aik aisa rasta hai jis mein har lamha mein tamam halatain taizi se ( kayi gunna ) barh jati hain. Aik second aik hazaar saal ki value ke barabar barh sakta hai. ”
Golden chain ka beeswin Sheikh al-Azam, hazrat Abaidullah alahrar ( q )
TWIN PARADOX:
Theory of relativity ke time dilation ke usool ki wazahat ke liye science daan aksar jurwan paradox ke tasawwur ko istemaal karte hain .
Nur aur Dun Yah naam ke jurwan bachon, jin ki umrein 20 saal hain, ke aik set par ghour karen .
Nur zameen se 20 noori saal ke faaslay par waqay aik dosray sayaray (" sayarah akhirah" ) ke safar par rawana hwa . Is ka khalayi jahaaz zameen ke muqaabla me 0. 95C ki raftaar taq pounchanay ke qabil hai jahan is ka jurwan bhai mojood hai .
Sayaray akhirah pounchanay ke baad, Nur isi raftaar 0. 95C se zameen par loutta hai .
Wapsi par, Nur ko pata chala ke zameen par 42 saal guzar chuke hain, jabkay is ney sirf 13 saal khala mein safar karte hue guzaray. Lehaza is ka bhai Dun Yah ab 62 saal ka hai jab ke Nur sirf 33 saal ka hai .
Yeh jurwan paradox waqt ki value ke barey mein Paighambar akram ( s ) ke aqvaal ki misaal hai. Be shak,
Noor ney 13 saal ki value haasil ki jis ke douran woh abdiyat ki taraf gamzan tha .Goya 13 saal se woh muraqba kar raha hai .
Doosri taraf, is ke jurwan bhai, Dun Yah ney 42 saal ka arsa haasil kya jis ke douran woh saakin tha, yani, woh abdiyat ki taraf nahi barh raha tha. Goya woh aam ibadat mein masroof tha .
Chunancha zameen par is ki wapsi par { jab woh apne muraqba ko khatam karta hai }, to Nur ney apne 13 saal ke muraqba ke liye 42 saal ki ibadat ki value haasil karli .
Kuch dilchasp number :
Allah = alif 1, laam 30, laam 30 ha 5
= alif 1, laam laam ha = 65, 1-6-5
Agar aap islam ki pairwi karte hain to :" 5" sutoon
Woh aap ki imam ki janib rahnumai karen ge, imaan ke “6” usool
= ahsaan wahdaniyat" 1" toheed :
1= 6 imaan, 5 Sutoon. 1-6-5
Laa elah ilallah- 165
—————————————————————————————–
WATCH HERE: https://www.youtube.com/playlist…
ENGLISH LECTURE: https://nurmuhammad.com/body-mind-and-soul/
Source