Urdu – Be nothing. Be nothing. Be nothing. –Who doesn’t annihilate themselves, the Dun…
Be nothing. Be nothing. Be nothing.?
–Who doesn’t annihilate themselves, the Dunya will annihilate them. You are a drop and as soon as you make yourself to vanish, you actually reappear in an Ocean:
خود کیلئے ایک یاد دہانی– عالمِ ایمان ایسا نہیں ، جیسا ہم عقل سےسوچتے ہیں بلکہ یہ عالمِ ایمان ایک مختلف صلاحیت کا تقاضا کرتا ہے۔ اسے دل کی ضرورت ہوتی ہے جس دل کو بارگاہِ الہی سے بے پناہ محبت ہے– اور بارگاہِ الہی کی فضیلت سے، سیدنا محمدﷺ کے عکس سے، جو مخلوق میں سب سے باکمال ہیں، (آپﷺ)وہ عکس ہیں جس کے زریعے اللہ عزوجل چاہتا ہے کہ وہ پہچانا جائے، یہ محبت کا گلاب جب دل میں کِھلتاہے تو وہ عالمِ ایمان کی طرف بڑھنا شروع کردیتے ہیں اور ایمان کوئی ایسی شئے نہیں جسے ہم مادی دنیا کے تناظُر میں سمجھ سکیں ۔ جب وہ ہمیں "مرنے سے پہلے ہی مرنا" سکھاتے ہیں تو ، یہ وہ تصور نہیں ہے جس سے لوگ آسودگی پائیں یا اُنکا دماغ یہ سمجھ سکے کہ مجھے کس طرح بند (آف) ہونا ہے۔ مجھے کیسے خود کو غیر موجود شئے تصور کرتے رہنا ہے ؟ اور مجھے اس مقام پر کیسے کام کرنا ہے؟ اور وہ (اولیااللہ )ہماری زندگی میں آتے ہیں اور ہمیں سکھاتے ہیں کہ جیسے بیج ہمیشہ ایک بیج ہی رہنا چاہتا ہے وہ یقین نہیں رکھتا کہ اگر اسے مٹی میں بو دیا جائے تو اس سے کوئی شاندار چیز نکلے گی۔ لیکن اللہ عزوجل کی طاقت اور عظمت اس بیج کو مٹی میں پھینک دیتی ہے۔مٹی بیج کو چیر دے گی اور ایک نئی تخلیق ظاہر ہوگی اور بیج اب موجود نہیں رہےگا۔ اس سے مراد ہے کہ اللہ عزوجل اپنے سب دروازوں سے اُس وقت کوئی زیادہ بڑا دروازہ کھول دے گا جب تم اپنا وجود ، یہ نفس جو تمہارے پاس ہے اور جو کچھ تمہارے پاس ہے ، تم اُسے پیشِ خدمت کرتے ہو اور کہتے ہو: ' اے میرے رب، یا ربی میں کچھ نہیں ، میں کچھ بھی نہیں ہوں ، میں واقعی یقین رکھتاہوں کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں اور میری ذات ہر شئے کی راہ میں حائل ہے۔ میری سوچ ، میرا مغز ، میرا دماغ ہی میرا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ مجھے آپکےحقائق کا اِدراک کرنے سے روک رہا ہے۔ میری خواہشا ت ، میری چاہت، آپ کی چاہت اور آپکی مجھ سے خواہش کے ساتھ مسلسل مُقابلے میں ہے ، لہذا ، بارگاہ الہی میں دشواری کا سبب بنتا ہے، کیونکہ اگر تم ایسے خادم ہو جو کچھ بھی نہیں سوچتے اور کچھ نہیں چاہتے اور ہر چیز سے خوش رہتے ہو ، تو تم ولی بن جاتے اور تم ولایت تک پہنچ جاتے۔
کسی چیز پر سوچا مت کرو ، جیسا ہونا ہے ویسا ہے۔ ہم محض (کشتی ) پانی میں اُتارتے ہیں اور اللہ عزوجل سمت کا تعین کرتا ہے۔ ماضی کے بارے سوچنے لائق کچھ نہیں ، ماضی پہلے ہی لکھا جا چکا ہے ، ماضی کی رسی کاٹ ڈالو۔ مستقبل کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ، یہ تمہارے ہاتھ میں نہیں کیونکہ ماضی بھی تمہارے ہاتھ میں نہیں تھا؛ مستقبل یقینی طور پر تمہارے ہاتھ میں نہیں ۔ اگر تم یہ دو رسیاں کاٹ پھینکو گے تو تمہاری (روحانی ) ترقی ہو گی، تم آفاق میں تیرو گے ، تمہاری روح پرواز کرنے لگے گی کیونکہ شیطان ایمان والوں کو ماضی کے بارے میں مسلسل سوچتے رہنے پر اُکساتا ہے ،تم اُن شیطانی گرفتوں کے پابند نہیں۔، اس کے بارے میں بحث کرتے ہیں ، غصہ ہوتے ہیں۔ اپنی پوری زندگی ماضی کے معاملات پر اُلجھے رہنے میں کاٹ دیتے ہیں کہ– اُس نے یہ کیا ، اِس نے وہ کیا ، کسی نے کچھ کیا ۔ اور (یاپھر) مستقبل کے ساتھ مشغول رہے ، مستقبل کیسے رہے گا اور وہ ہماری زندگی میں تشریف لاتےہیں اور ہمیں ( مستقبل کا حال ) بتاتے ہیں –بالکل کچھ نہیں! صرف جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں– یہ سب سے سادہ مستقبل (کی پیشن گوئی) ہے جسکے بارے فکر کی جائے۔ آہ !! ٹھیک ہے ، کسی چیز کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم کیوں اپنی کمپیوٹر کی ڈگری کے بارے میں فکرمند ہو ؟ تم کس چیز سے پریشان ہو؟ کچھ نہیں ۔ خود کو ذہنی تناؤ سے بچنا سکھاؤ۔ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ۔ آپ کے لئے جو لکھا گیا ہے ، وہ لکھ دیا گیا ہے۔ کوئی بھی اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔ کوئی بھی مدد نہیں کرسکتا۔ لہذا ، انہوں نے زندگی ہر روز ، ہر (نئے) دن کے ساتھ بسر کی۔ انہوں نے صرف اُسی دن بہترین طور جینے کی کوشش کی۔
یا ربی (اے میرے رب )، یہ نیا دن ہے۔ آج کا دن مجھے کیا تحفہ دینے آیا ہے؟ اگر انھوں نے (ماضی اور مستقبل کی ) دو رسیاں کاٹ لیں تو ِانہیں اس دن کی موجودگی ، اس کی تجلی اور اس دن کی انرجی محسوس ہونی چاہئے۔ اس دن کی طاقت اور عظمت! وہ اللہ عزوجل کی (دید) کے لمحے میں ہی رہتے ہیں! اور اپنی ذات کو رستےسے ہٹانے کا تصور یہ ہے کہ میں واقعتاً مانتا ہوں کہ میں اپنا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اگر میں مٹ جاؤں تو پھر وہ(اولیااللہ ) آکر تعلیم دیتے ہیں۔ تب آپکو احساس ہوجاتا ہے کہ تم ایک قطرہ ہو اور جیسے ہی تم اپنی ذات فنا کردو گے تم اصل میں ایک سمندر میں ظاہر ہوجاؤ گے۔ جب تمہیں یہ احساس ہو کہ میرے قطرے میں کوئی طاقت نہیں۔ جبکہ یہ دنیا تمہیں بتاتی ہے کہ تم بہت مضبوط ہو۔ تم خوبصورت ہو۔ تمہارے پاس دماغ ہے ۔ تمہارےپاس سب کچھ ہے۔ وہ ایک بوُند کی تعریف کرتے ہیں۔ اور جب تک تم اس قطرے پر یقین رکھتے ہو ، اس قطرہ کے قصیدے پڑھتے ہو تو تم نے سمندر کی اور اللہ عزوجل کی طاقت کھو دی ۔اور تمہیں لگتا ہے کہ تمہارے پاس کچھ ہے۔ لہذا ، اولیااللہ ہماری زندگی میں درس دینے تشریف لاتےہیں کہ اس شئے( طاقت کو خود سے منسوب کرنے) کو ختم کردو۔’ میں کچھ بھی نہیں ہوں، میں جو بھی سوچتا ہوں کہ مجھے معلوم ہے( دراصل ) میں کچھ نہیں جانتا ، جو کچھ بھی ہے میں کچھ نہیں ہوں ، میں کچھ بھی نہیں ہوں ، میں فقیر بی اللہ تعالیٰ ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اللہ (عزوجل) نے مجھے جتنا مال دیا اُسکے مال میں میرا کوئی حصہ نہیں ۔ آپ کی شان کے سامنے میری عقل سُن ہے۔ میرے پاس کچھ نہیں ، کچھ بھی نہیں –تب قطرہ سمندر میں گرتا ہے۔ جیسے ہی وہ اپنے ذکر و تفکر کے دوران اس سمندر میں ڈوب گئے ، اُنہوں نے فوراً سب کچھ محسوس کرلیا۔ اگرتم خود کو ا س ( کا ئنات کے )پروگراموں سے نکال لیتے ہو ، خود کو ( ذہنی حدود سے ) باہر لے جاتے ہو اور نا چیز بن جاتے ہو ، تو یہاں جو کچھ ہورہا تم اس سمندر کو محسوس کرو گے۔ جب تک تم اپنی ذات کے خول میں، اپنی خواہش میں، اپنی تمنا میں بند ہو– تمہیں قطعی طور پر کچھ محسوس نہیں ہوگااور تم سوچ رہے ہو کہ میں یہاں اتنی دیر سے کیوں بیٹھا ہوں؟ میری پیٹھ درد کر رہی ہے کیونکہ فرش سخت ہے۔ اگر تم اس (مادی دنیا) سے مٹ جاتے ہو اور تسلیم کرتے ہو کہ میں قطعا کچھ بھی نہیں ہوں۔ تم ایک سمندر میں داخل ہوجاؤ گے ، اس سمندر میں ہر جنُبش، ہر انرجی، ہر طاقت، سب کچھ ظاہر ہورہا ہے۔
یہ ' نہ ہونے' والے خُدام دنیا کے لوگوں کو کچھ نہیں بتاتے لیکن اُن سے بہت محتاط رہیں ۔ کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ اللہ عزوجل کی بصارت سے دیکھتے ہیں ۔ وہ اللہ عزوجل کی سماعت سے سنتے ہیں۔ وہ اللہ عزوجل کی طاقت اور قدرہ کے ذریعے بات کرتے ہیں۔ اُن کے ہاتھ پر اللہ عزوجل کا دستِ قدرت ہے اور ان کے پاؤں اللہ عزوجل کی منشا کی سمت بڑھتے ہیں –یہ حدیث القدسی ہے۔ کہ جب میرا بندہ اپنا فرض ادا کرچکے تو وہ اپنی نفلی عبادت کے زریعے مجھ سے رابطہ کرے ، میں اس کے تمام حواس بن جاؤں گا۔ جب وہ فنا ہوجاتے ہیں ، دراصل اُنکی فنا کے برعکس ہوتا ہے اور ہر طاقت اُن کو فیض پہنچانےلگتی ہے۔
وہ اُس بصارت کی حدسے پرے جھانکتے ہیں کیونکہ وہ دل سے دیکھتے ہیں اور اپنی روح کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ سماعت کی حدسے آگے سنُتے ہیں۔ جب وہ (سائنسدان) تمہیں بتاتے ہیں کہ ستارے کی روشنی کو تمہارے تک پہنچنے میں تین ہزار نوری سال لگتے ہیں۔ ستارے کی حد ، سیما، حدود آفاق تک ہے، یہ بہشتوں تک نہیں ہے اور اور پھر بھی ستارہ (کی روشنی ) تم تک پہنچنے میں ایک ہزار نوری سال لگتے ہیں – اور ایک پلک جھپکنے سے بھی کم وقت میں وہ (اولیااللہ ) بارگاہِ الہی میں موجود ہیں۔ کیسے؟ وہ کس رفتار کے ساتھ اس بارگاہ میں گئے؟ نہ صرف مدینہ میں بلکہ سیدنا محمد ﷺ کے دیوان میں ، اُن کی روح فوراً پہنچ جاتی ہے۔ اللہ عزوجل نے ان (اولیااللہ ) کی روح کو کیا طاقت دی جو سائنس کی سمجھ سے بالاتر ہے ۔ جیسے ہی وہ فنا ہوئے ، اُنہوں نے اس طاقت سے سنا۔ اُنہوں نے اس طاقت سے دیکھا ۔ یہ ان کے کمزور چھوٹے ہاتھ نہیں جسکی فکر لوگوں کو ہونی چاہئے بلکہ ان کے ہاتھوں پر جو دستِ مبارک ہے– یہ تم نے نہیں پھینکا لیکن اللہ عزوجل فرماتا ہے ، یہ ہم تھے۔
فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاَءً حَسَناً إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۞
(اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام!) ان (جارِح) کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا،اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے، اور یہ (اس لئے) کہ وہ اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے اچھے انعامات سے نوازے، بیشک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۞
سورۃالا نفال ، آیت نمبر: 17
مومن کو کسی پر کچھ پھینکنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ عزوجل صرف اتنا حکم فرماتا ہے : اس پتھر کو اٹھاکر پھینکو اور آدھی دنیا صرف اس پتھر سے مٹ سکتی ہے۔ یہ اللہ کی طاقت تھی اور اللہ کی قدرت تھی اور اب کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ وہ اپنی طاقت پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن سیدنا مہدی عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ کی آمد کے لئے وہ (اولیااللہ ) یہ نہیں مانگتے ۔ اور حقائق کا راستہ یہ ہے کہ خود کو فنا کردیا جائے۔ تمہاری ذات راستے میں آڑے آئے گی ، جو بھی خود کو فنا نہیں کرتا، یہ دُنیا اُسکو فنا کردے گی۔فکر مت کیجئے۔ یہ سب (غرور)نیچے آ رہا ہے، لیکن خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو خود کو فنا کرسکتے ہیں۔ یا ربی(اے میرے رب) میں ناچیز ، میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ آپ کو میرے سر کا(غرور توڑنے کے لئے ) مجھے بھاری ہتھوڑا مارنے کی ضرورت نہیں …. کہ میرے ایمان لانے کے لئے، اللہ (عزوجل ) کی جانب سے سزا کی ضرورت نہیں– میں ایمان لاتا ہوں۔ آپ کو مجھے کچلنے کی ضرورت نہیں ۔(سزا کے طور پر ) میری انگلیاں کچلنے اور مجھ پر کسی سے تشدد کرنے کی ضرورت نہیں ، میں اپنی ذات کو خود اذیت پُہنچاؤں گا۔ میں خود کو فنا کردوں گا۔ میں اپنی ذات کو مشکلات سے دوچار کروں گا ۔ آپ مجھے جو کرنے کا حکم دیتے ہیں، میں اُسے پوراکرنے کی جدُوجہد کروں گا، تب اُنکی ذات مٹنے لگتی ہے ۔ ہر چیز تلخ ہوجاتی ہے ، ہر ذائقہ اُن کے لئے کڑوا ہو جاتا ہے ۔ وہ محسوس کرتے ہیں، اُنکی حس ختم ہو رہی ہےاور اِس کے بر عکس ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں: "اے میرے خدا ، میں (اس حالت سے )کس طرح رہا ہوں گا اور کس طرح چھوڑوں گا؟ " اور جس طرح اُنہیں (اولیا کرام ) کو اللہ عزوجل کا فضل اور عظمت ملی ، درحقیقت ،انھوں نے سب جانے دیا اور اللہ (عزوجل ) نے اُن کے لئے سب کچھ کھول دیا۔ وہ انہیں خالی نہیں چھوڑتا ۔ ( کچھ ذہنوں میں شک/ خیال آتے ہیں کہ ) ’ اوہ ، میں تو بالکل جسمِ مردہ کی طرح ہوں، میں اپنے کمرے بیٹھ جاؤں گا اور میری فیملی کیسے گزارا کرے گی؟ میں کھانا کیسے کھاؤں گا، میری فیملی کی پرورش کون کرے گا؟ کیونکہ اللہ (عزوجل )نے مجھے ایک مُردہ لاش بنا دیا ہے‘ (حضرتِ شیخ ہنستے ہوئے) ذہن یہ تصور سمجھ نہیں پا رہا، حضرت ِشیخ کا کیا مطلب ہے' نہ چیز ہونا ' ؟ وہ تعلیم دے رہے ہیں کہ تم خاک ہو جاؤ ، کچھ نہ رہو ، کچھ بھی نہیں۔ وہ جانتے ہیں اللہ عزوجل کی اس مطلق عظمت کے سامنے ہم کچھ بھی نہیں ۔ کوئی طاقت نہیں ، کوئی قوت نہیں ، اللہ عزوجل کے بغیر کوئی مدد نہیں –اور پھر ہم ناچیز بن گئے ، کچھ بھی نہیں ، جتنا تم اِس پر یقین کریں گے ، اتنا ہی تم اس پر عمل کرو گے ، اتُنا ہی تم اسےسمجھنےلگو گے۔ جیسے ہی تم نا چیز بن جاتے ہو ، تمہیں بے پایاں طاقت محسوس ہوتی ہے۔ تمہارے کان سنُنے لگتے ہیں ، تمہاری آنکھیں دیکھنے لگتی ہیں ، تمہارے ہاتھ محسوس کرنے لگتے ہیں اور یہ ایمان اور یقین کی دنیا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے جب وہ تمہیں بتاتے ہیں ، دیجئے اور سپورٹ کریں ، "شیخ ، میرے پاس ابھی نہیں ہے لیکن جب میں کام کروں گا تب دوں گا۔" یہ کیسینو (جوئے بازی ) نہیں ہے کہ جہاں تم چِپ اپنی جیب میں نہیں رکھتے کہ جب تک (مزید ) نہیں آتے ، انتظار کرتے ہیں، تب اللہ عزوجل حصہ لے گا۔ ایمان یہ ہے کہ تم کام کرو ، ہر وقت دو۔ تمہیں یہ کرنا ہوتا ہے، خاص کر جب تمہارےپاس خدمت کرنے کا وقت نہیں ، جب تمہارے پاس پیسہ نہیں جب تمہارےپاس نہیں ہوتے، تم کام کرتے ہو ، تم دیتے ہو ، تم خدمت کرتے ہو۔ کیونکہ یہ ایمان کی علامت ہے۔ اللہ عزوجل ایمان دیکھنا چاہتا ہے؛ اللہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہر چیز پر تمہارا کیا اعتقاد ہے۔ تم وہی کرتے ہو جس پر تم یقین رکھتے ہو اور انہیں فراوانی کا ایک چشمہ ہر شئے میں کھلتا دکھائی دیتا ہے ، ہر راستہ( شئے ) کھل جاتی ہے۔ یہ ایمان کا مقام تھا ۔ ایمان یہ نہیں کہ تمہیں اُس وقت تک انتظار کرنا ہے جب تک تم اِسے دیکھ نہ لو اور پھر ٹکڑوں میں بانٹ کر کہو ، "یہ آپ کا حصہ ہے۔" ایمان یہ تھا کہ ، " نہیں مجھے کچھ دکھائی تو نہیں دے رہا ، یا ربی ( اے میرے رب)میرا سارا عقیدہ آپ پر ہے۔ “اور اللہ عزوجل فرماتا ہے ،" میں سب سے بہتر ین ہوں ، جس پر تم ایمان لاو اور اعتماد کرو ، اگر تمہیں مجھ پر بھروسہ کرو گے اور مجھ پر اعتماد کروگے، مجھ میں پناہ مانگو گے ، تم میری نظرِ کرم اور میری رضا چاہتے ہو اور تم اپنی زندگی اسی یقین کے ساتھ بسر کرتے رہے– تو اللہ(عزوجل ) کی طرف سے صلہ ملے گا۔ “اور وہ اسلام کے مقام سے آگے نکل کر مقامِ الا یمان پہنچ سکتے ہیں!
مقامِ الا یمان ایک روشنی اور نور ہے جسے دل میں داخل ہونا ہے اور وہ اس نور سے اور اس حقیقت سے فعال ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ ان مقدس شب میں جب ہم دنیا کی مشکلات دیکھتے ہیں ، ہم امن پسند لوگ ہیں۔ جب ہم دنیا کو مشکل میں دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بیماری کے ایک مرحلے میں ہے۔ یہ جوان نہیں جو بڑا ہو رہا ہے ، ایسا لگتا ہے جیسے یہ کوئی بوڑھا آدمی جس کی ٹانگیں قبر میں ہے۔ تم اپنی سار ی اُمیدیں کسی بوڑھے آدمی سے وابسطہ نہیں کرتے جو مر رہا ہے۔ اگر یہ نوجوان اور نوخیز ہوتا تو ہم کہتے ، "اوہ! اسے مسافت کے لئے ایک لمبا عرصہ ملا ہے۔ "نہیں ، یہ زمین ایسی لگ رہی جیسے ختم ہو رہی ہے ۔ اگر ایسا ہے تو اپنی ساری امیدیں اس زمین پر مت ڈالیں۔ یہ سمجھیں کہ اے خدایا میں کیوں اپنی زندگی پر توجہ مرکوز کر رہا ہوں جبکہ مجھے اپنی آخرت بنانی چاہئے ۔ مجھے اپنی حقیقتِ کی تعمیر کرنی چاہئے ، مجھے اپنی روح کی تعمیر کرنی چاہئے ، مجھے اس نور اور روح کی طاقت کو کیسے باہر لانا ہے اس پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے کہ کیا اللہ عزوجل کے ساتھ میرا معاملہ اچھا ہے؟ نہ صرف کہ میں اللہ عزوجل کے آگے اچھے (طور سے جُھکا ہوا) ہوں کیونکہ اگر تم اللہ عزوجل کے ساتھ اچھے ہو تو تمہیں سیدنا محمد ﷺ سے بے حد محبت ہونی چاہئے۔ اگر تمہیں سیدنا محمد ﷺ سے مُحبت نہیں ہے تو ، تم ابھی تک وہاں نہیں پہنچے ، کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے "قل" ۔
، اللہ عزوجل کا رسول ﷺ کی حقیقت اور عطر کو خدائی قل –(اے حبیب) کہہ دیجئے اگر وہ میری محبت چاہتے ہیں ، اگر وہ میرا پیار چاہتے ہیں تو ”تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي “ تمہاری ساری زندگی ” فَاتَّبِعُونِي“ہے۔ ہر جوہر ” فَاتَّبِعُونِي“ پر مبنی ہوتا ہے ، ہر حقیقت ” فَاتَّبِعُونِي“پر مبنی ہوتی ہے۔ پھر اللہ عزوجل ”يُحْبِبْكُمُ اللّهُ “ عطا فرماتاہے ، اللہ عزوجل عنایت کریں گا۔
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۞
(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۞
سورۃالا عمران ، آیت نمبر: 31
اگر پیروی مخلص اور درست ہو تو اللہ (عزوجل ) اس بندے پر محبتِ الہیہ کی برسات فرماتا ہے اور غفور الرحیم کی پُھوار خادم کی مشکلات دھو ڈالتی ہے۔ اور اللہ(عزوجل ) کی محبت کے سبب اُسے معاف کر دیا جاتا ہے۔ جب اللہ(عزوجل ) بندے سے محبت فرماتاہے ، اُسے محبتِ الہیہ " حُب " کے سمندر کی لہر جکڑ لیتی ہے– یقینا ً ہر گناہ ، ہر آلودگی اس حقیقت کے اندر دُھل جاتی ہے ۔ ہمیں آنے والے (وقت) کیلئے یہی ضرورت ہے۔ بُرے لوگوں کی نہیں جنکے دل بوسیدہ ہیں اور کردار بوسیدہ ہیں ۔وہ کہتے ہیں ، یہ ظاہری عالم (اسکالر) سیدنا مہدی عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ کے سب سے بڑے مخالف ہوں گے، اپنے ذہن کے سبب، کیونکہ ان کے دل میں ایمان نہیں ہے اور ان کا دماغ حد سے زیادہ متحرک ہے ۔وہ سیدنا مہدی عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ کی آمد کو اور سب کچھ ظاہری آنکھ سے جانچنے کی کوشش کر یں گے اور یہ وہی لوگ ہیں جو سیدنا مہدی عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ کی آمد پر سب سے زیادہ مخالفت کریں گے۔ تو ، مطلب یہ ہے کہ یہ دل کا راستہ ہے ، یہ محبت اور پیار کی راہ ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ عزوجل ان مہینوں میں ہم پر برکتوں کا مینہ برسائے اور ہمیں ان انوار سے بہرامند فرمائے. ان شاء اللہ۔
?حضرت شیخ سید نورجان قَدس اللہ سِرّہٗ
? HOW TO MOVE TO NOTHINGNESS ENTER OCEANS OF RAHMAH?
A reminder for myself is the world of faith is not as we think from our aqal but this world of Iman requires a different ability. Requires the use of the heart in which the heart has a tremendous love for the divinely presence and that reflection that comes out with the perfection of the divinely presence for Sayyidina Muhammad ﷺ, the most perfected of creation that is the reflection of what Allah Azzawajal wanted to be known by. That love when it blossoms within the heart they begin to move towards the world of faith and faith is not something that we understand from the material world. When they teach us to “Die before you die”, it’s not a concept that people are comfortable with or their brain can understand that how am I supposed to shut off? How am I supposed to keep thinking myself as something non-existent? And how am I supposed to function at that point? And they come into our life and teach us that as the seed always wants to be a seed and it doesn’t believe that if should be buried under dirt that something magnificent will sprout from it. but by Allah Azzawajal’s might and majesty it throws the seed into the dirt.
The dirt will rip apart the seed and a new creation will appear and the seed is no longer present. Means from every opening Allah Azzawajal will open something greater when you take this existence that we have, this nafs that we have and all that we have and you put it on the table and say Ya Rabbi I’m nothing, I’m nothing, I really believed I’m nothing and that I’m in the way of everything. My thought, my magz, my brain is my biggest enemy. It’s blocking me from realizing your realities. My wants, my desires are in continuous conflict with your want and your desire from me hence the difficulty with divinely presence cause if you’re a servant that doesn’t think anything and doesn’t want anything and happy with everything you would be Awliya and you would have reached Wilayat.
Don’t put a thought to anything, it is what it is. We merely put the sail and Allah sends the direction. There’s nothing to think about the past, the past has already been written, you cut the string. There’s no need to worry about the future, it’s not in your hands as the past wasn’t in your hands the futures is most definitely not in your hands. If you cut those two ropes you will elevate, levitate, your soul will fly cause you’re not bound by these satanic grasps that shaitan is continuously putting upon the people of believe to keep thinking about the past, argue about it, be angry about it. look over all the issues and preoccupy your whole life about the past of what he did, she did, somebody did and preoccupied with the future, what does the future behold and they come into our lives and teach us absolutely nothing, war is coming, it’s the easiest future to worry about. Ah!!…. Okay, no need to worry about anything. Why you worried about your computer degree, what are you worried about……. nothing. Teach yourself to not have stress, there’s nothing to worry about. What been written for you has been written. Nobody can change it; nobody can help it. so, they lived a life per day, every day. They tried their best to live a life just for that day.
Ya Rabbi it’s a new day, what does this day behold for me and give to me. If they cut the two ropes, they should feel the presence of that day, the tajjali and the energy of that day. The might and majesty of that day. They live within Allah Azzawajal’s moment and the concept of getting myself out of the way is that I truly believe I was my biggest enemy. If I vanish then they come and teach then you realize that you are a drop and as soon as you make yourself to vanish you actually reappear in an ocean. When you realize that my drop has no strength cause this world tells you you’re strong. You’re beautiful, you have a brain, you have everything. They glorify a drop and as long as you believe in that drop, glorify that drop you lost the power of the ocean. And Allah Azzawajal with all your might, you think you have something. So, Awliya come into our life and teach cut that thing……I’m nothing. Whatever I think I know I know nothing, whatever it is I’m nothing, I’m nothing, I’m a faqeer bilahi tala. No matter how much Allah gave of wealth I have nothing in your wealth. I have no brain in your comparison. I have nothing, nothing, nothing then the drop hit into the ocean. As soon as they hit in the ocean in the midst of their zikr of nothingness, they immediately felt everything. If you take yourself out of these programs, take yourself out and be nothing you can feel the ocean of what’s happening in here. As long as you are confined within yourself and your want and your desire, you feel absolutely nothing and you’re wondering why am I sitting here so long my butt is hurting cause the floor is hard. If you vanish from it and say that I’m absolutely nothing. You entered into an ocean, in that ocean every vibration and every energy, every power, everything is emanating. These servants of nothingness they tell people in dunya their nothing but very careful for them cause they see what the sight of Allah Azzawajal. They hear with the hearing of Allah Azzawajal. They speak through the qudra and the power of Allah Azzawajal. Their hands are upon the hands of Allah Azzawajal and their feet move in the direction of Allah Azzawajal want them, it’s the hadith al-Qudsi. That when my servant finish their fard, approach me with their voluntary worshipness, I’ll be all their faculties. As they annihilate and what happens is actually the reverse of their annihilation and every power begins to dress them.
They see beyond what they imagine their eyes could see cause they see through their heart and through their soul. They hear beyond what hearing. When they tell you that the light of a star takes three thousand light years to reach to you and the had, the had and the limit of a star is still in samaa, it’s not in the heavens and takes you a thousand light years to reach to you this light of a star coming and within a less than the blink of a thought they’re in divinely presence. How? With what speed they went into that presence? With what speed their soul is moving immediately in the presence of Sayyidina Muhammad ﷺ in heavens not only in medina. What power Allah Azzawajal gave to their soul beyond the understanding of their sciences. As soon as they annihilated, they heard with that power, they saw with that power, it’s not their frail little hands that people should worry about but the hand that is upon their hand. It was not you who throw but it was we when Allah Azzawajal says.
فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ قَتَلَهُمْ ۚ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ رَمَىٰ ۚ وَلِيُبْلِىَ ٱلْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَآءً حَسَنًا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
Falam taqtuloohum wa laakinnal laaha qatalahum; wa maa ramaita iz ramaita wa laakinnal laaha ramaa; wa liyubliyal mu'mineena minhu balaaa'an hasanaa; innal laaha Samee'un Aleem
It is not ye who slew them; it was Allah. when thou threwest (a handful of dust), it was not thy act, but Allah's: in order that He might test the Believers by a gracious trial from Himself: For Allah is He Who heareth and knoweth (all things). [8:17]
Believer doesn’t need anything to throw at somebody, Allah merely tells him pick up that rock and throw it and half the world can be vanished by just that rock. It was Allah’s might and Allah’s power and now nobody has that. They rely upon their own power and that’s not what their asking for the arrival of Sayyidina Mahdi عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ and the way of haqaiq is that annihilate yourself. Your self is going to get in the way, anybody who doesn’t annihilate themselves the dunya will annihilate you, don’t worry. It’s all coming down but lucky for those who can annihilate themselves. Ya Rabbi I’m nothing, I’m nothing. You don’t need to send a sludge hammer to hit me in the head, sledge or sludge.
Sludge hammer is with sludge. Sledge is that in don’t need to be punished by Allah to believe, I believe. I don’t need you to crush me, I don’t you to crush my fingers and somebody to torture me. I would torture myself. I will annihilate myself; I will put hardship upon myself, I will struggle to do what you ask me to do then they began to vanish from themselves. Everything became bitter, every taste became bitter for them. They find that sense is going and in reverse they said,”Oh my God, How am I gonna(going to) release and like let go of everything” and as what they found the grace and the majesty of Allah Azzawajal is actually they let go and Allah opened everything for them. He don’t leave them empty, Oh I’m just like a dead carcass, I’m gonna(going to) sit in my living room and what family going to do, how am I going to feed myself, how the family going to feed…(shaykh laughs) cause Allah made me to be a dead carcass. the concept in the mind is not registering. What does the shaykh mean by being nothing? They’re teaching be nothing, be nothing, be nothing. The know that in the face of this absolute greatness of Allah Azzawajal we are nothing. There is no power, there is no might, there is no help without Allah Azzawajal and then we became nothing, nothing, the more you believe it, the more you practice it, the more you understood it. As soon as you become nothing, you feel the immensity of the power. Your ears begin to hear, your eyes begin to see, your hands begin to feel and this is the world of faith and Iman. Just like when they tell you give and support, “Shaykh, I don’t have it right now but when I do, I will give.” It’s not a casino, you don’t put the chip down and wait till it comes and then Allah Azzawajal will take his share. Faith is that you no, do all the time. You do it especially when you don’t have it, you do, you give, you serve. You don’t have the time serve; you don’t have the money give cause it’s a sign from faith. Allah wants the faith; Allah wants to see what’s your belief in everything. You do what you do out of the belief and they find a fountain of abundance opens for everything, everything open. This was the station of Iman, Iman was not to wait till you see it and then cut it into pieces and say, “Here’s your share.” Faith was that no, “I don’t see anything, Ya Rabbi and I’m putting all my belief into you.” And Allah Azzawajal says, “I am the best of those to put your faith and trust into, if you put your faith in me and your trust in me, you want protection from me, you want my nazar, you want my satisfaction and you lived your life believing that, your reward will come from Allah Azzawajal.” And they can leave the station of Islam and begin to enter into the maqam al-Iman.
Maqam al-Iman is a light and noor that has to enter into the heart and that they operate from this light and from that reality. We pray that in these holy nights when we watch the difficulty of the world, we are peace loving people. When we watch the difficulty of the world, we find that the world is in a phase of sickness. It’s not a youth growing up, it looks like it’s an old man about to die. You don’t put all your bet on a old man who’s dying. If it was something young and youthful, “Oh! its got a long time to go.” No, no this earth look like he’s going if so don’t put all your hopes in that earth. Understand that Oh my God why am I focusing in my life that I should be building my akhirah, I should be building my reality, I should be building my soul, I should be focusing on how to bring that light and that power of the soul out and am I good with Allah Azzawajal. Not only am I good with Allah Azzawajal for if you’re good with Allah Azzawajal you should have an immense love for Sayyidina Muhammad ﷺ. If you don’t have that love for Sayyidina Muhammad ﷺ, you’re not there yet cause Allah Azzawajal “Qul in kuntum tuhibboonal”,
Qul قل, Allah’s divinely Qul قل to Prophet ﷺ’s essence and reality. Tell them if they want my love, if they want my love, tuhibboonal laaha fattabi' oonee, your whole life is fattabi' oonee. Every essence is based on fattabi' oonee, every reality is based on fattabi' oonee. Then Allah Azzawajal grants yuhbibkumul laah, that Allah Azzawajal will grant.
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحْبِبْكُمُ ٱللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
Qul in kuntum tuhibboonal laaha fattabi' oonee yuhbibkumul laahu wa yaghfir lakum zunoobakum; wallaahu Ghafoorur Raheem
Say: "If ye do love Allah, follow me: Allah will love you and forgive you your sins: For Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful." [3:31]
If the following was sincere and correct Allah grants divinely love upon that servant and Ghafoorur Raheem that every difficulty to be washed and to be forgiven because of Allah’s love upon the servant. When Allah loves the servant, dresses that servant from that divinely love of HUB, of course he’s going to wipe away every sin and every imperfection within that reality. That’s what we’re in need of for these that are coming. Not bad people with rotten hearts and rotten character.
They say these, these Zahiri Alams (scholars) they are going to be the biggest one against Sayyidina Mahdi عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ cause their mind has no faith in their heart and their mind is overly active they are going to try to look at everything from external to judge the arrival of Sayyidina Mahdi عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ and they are the ones whom going to be the most opposed to his arrival. So, means this way is the way of the heart, this is the way of muhabbat and love. We pray that Allah Azzawajal dress us in these months and dress us with these lights, Insha’Allah.
Subhana rabbika rabbil 'izzati amma yasifun wa salamun alal mursalin wal hamdulillahi rabbil 'alamin Bi hurmati Muhammad al Mustafa wa bi siri surat al Fatiha.
Hazrat Shaykh Sayed Nurjan Mirahmadi Naqshbandi (Qs)?
Watch here: https://www.youtube.com/watch?v=yjgLlEkVW7s