
Urdu – 7 Maqams of Surah Fatiha A Believer Must Traverse – Part 1 سورہ فاتحہ کے 7 مقام…
7 Maqams of Surah Fatiha A Believer Must Traverse – Part 1
سورہ فاتحہ کے 7 مقام جو ایک مومن کو عبور کرنے چاہئے
–حصہ اول
ترجمہ: حضرت مولاناشیخ (قدس اللہ سرہٗ) کے حقائق کی تعلیم حضرت شیخ نورجان میراحمدی نقشبندی (قدس اللہ سرہٗ) دیتے ہیں:
اَعُوْذُ بِاللہ عزوجل مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۞
اللہ عزوجل کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے
بِسْمِ اللہ عزوجل الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۞
اللہ عزوجل کے نام سے شروع کرتا ہوں جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے ۔
أَطیعُوا اللّهَ وَأَطیعُوا الرَّسُول وَأُولی الأمرِ مِنْکُمْ۞
اے ایمان والو! اللہ عزوجل کی اطاعت کرو اور رسول (ﷺ) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی۔
]الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی اشرف المرسلین سیدنا و مولانا محمد المصطفیٰ، )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (، مدد یا سیدی ، یا رسولِ الکریم ، یا حبیب العظیم ، اُنظر حالنا، وَ اشفالنا ، ابینا بی مدد کم و نظرکم ، مدد یا سیدی ، یا سلطان اولیاء مولانا عبداللہ الفائز داغستانی (ق)، مدد یا سیدی یا سلطان اولیاء مولانا شیخ محمد ناظم عادل الحقانی (ق)، مدد یا سیدی سلطان القلوبنا مولانا شیخ ہشام کبانی (ق)، مدد الحق یا حجت اللہ المخلص۔ الحمد للہ، ہمیشہ اپنے لئے ایک تاکید ، یا ربی ، انا عبدک العاجز، و ضعیف، و مسکین، وظالم و جہل–میں بندہِ عاجز ، نا تواں ،مسکین، ظالم اور جاہل ہوں اگر آپکا کرم نہ ہو تو ہمارا وجود قائم نہ رہے اور الحمدللہ ، ہم کچھ بھی نہ ہونے کی دعا کرتے ہیں ، کہ اللہ (عزوجل) ہمیں اپنی رحمتِ باری اور رحمت سے ڈھانپ دے اور ہمیں سیدنا محمد ﷺ کی محبت سے بہرہ مند فرمائے۔[
-بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے "ب" میں قرآن مجید کے تمام حقائق ہیں:
الحمد للہ ، اولیا اللہ ہماری زندگی میں تشریف لاتے ہیں اور ہمیں تعلیم دیتے ہیں کہ علم حاصل کریں اور اپنے نفس کی حقیقت کو تلاش کریں۔ "جو اپنے نفس کو جانتا ہے وہ اپنے رب کو جانتا ہے،" نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ جو خود کو پہچان لیتا ہے وہ اپنے رب کو پہچانتا ہے۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَهْ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ
"جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ "
حضرت سیدنا محمد ﷺ
یہ راستہ خود کو جاننے اور اس حقیقت کو جاننے پر مبنی ہے جو اللہ (عزوجل) نے نفس میں چُھپائی (انکوڈ encode )ہے۔ اور تمام قرآن مجید تیس جُز (حصوں) پر مشتمل ہے۔ تمام تیس جُز سورۃ الفاتحہ،کی سات آیات میں ہیں اور بہت سارے حقائق کا فیض شامل ہے ، یعنی کہ قرآن مجید کے تمام حقائق، جو بھی ہم تصور کرسکتے ہیں وہ سورۃ الفاتحہ کی ان سات مبارک آیات کو فیض بخش رہے ہیں۔ اور ساری سورۃ الفاتحہ" بسم الله الرحمن الرحيم" کو فیض دے رہی ہے۔ اور تمام "بسم الله الرحمن الرحيم" 'ب ' کے اسرار کو فیضیاب کر رہی ہے۔
-امام علی ؑ " باب" ہیں، سیدنا محمد ﷺ کا دروازہ ہیں:
یہ "ب " ایک باب ہے ، ایک دروازہ ہے۔ اور نبی کریم ﷺ بیان کررہے ہیں ، ”أَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمٍ“ میں علم کا شہر ہوں اور علی بَابُهَا ۔ امام علی ؑ باب کے نگران ہیں۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “أَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمٍ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا
"میں علم کا شہر ہوں اورعلی (علیہ السلام) اس کا دروازہ / دربان ہیں۔ “
حضرت سیدنا محمد ﷺ
تو اس کا مطلب ہے ذوالفقار (دو دھاری تلوار) کی حقیقت اور امام علی ؑ کی حقیقت اسی "ب" میں ہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ تم داخل ہونا چاہتے ہو، ’ کیونکہ جیسے ہی یہ "ب" کھلتا ہے لیزر کی طرح ہے۔اب ہم سمجھ گئے ہیں ، جب وہ (اولیا٫) یہ بیان کررہے ہیں کہ کیسے تیس جزو میں تمام حقیقت ہے یعنی اللہ (عزوجل) کی اس بے انتہا طاقت کا فیض جو ان تیس جُزو میں جاری ہے ، اب سورۃ الفاتحہ میں سکڑ رہا ہے ، اور ’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ‘ میں اکھٹا ہورہا ہے۔ لہذا اس "ب" میں بے پناہ طاقت ہونی چاہئے۔ اور پھر بیان کرتے ہیں اللہ (عزوجل ) کے فاتح شیر اسداللہ الغالب کو جو ایک ذوالفقار (دو دھاری تلوار) پکڑے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں ، ‘تم "ب" میں داخل ہونا چاہتے ہو ،’ جس کا مطلب ہے کہ تم اس حقیقت میں داخل ہونا چاہتے ہو۔
-پہلا مقام:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سیدنا محمد ﷺ کا تاج ہے
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ۞
اللہ عزوجل کے نام سے شروع کرتا ہوں جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے ۔
سورۃ الفاتحہ(1) آیت 1
یہ حقیقت ، یہ فیض دے رہی ہے اس سے پہلے کہ ہم صحیح معنوں میں سمجھیں، اللہ (عزوجل)فرماتا ہے ، ‘میں نے تمہیں ایک بہترین تحفہ دیا ، یہ سورۃ الفاتحہ ہے۔ اور میں نے تمہیں ایک تحفہ" بسم اللہ الرحمٰن رحیم" دیا جو میں نے پہلے کسی بھی قوم کو نہیں دیا تھا ۔ اور ہم " بسم اللہ الرحمن الرحیم"کے حقائق کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ ہم پہلے اسے پڑھتے ہیں ۔۔۔۔ یہ تمام مخلوقات کا تاج ہے۔ یہ سیدنا محمد ﷺ کا تاج ہے۔ یہ اللہ(عزوجل) کا زبردست تحفہ ہے۔
-پہلی آیت سے آخری آیت تک فاتحہ پڑھنا جنتی حقائق سے ہے:
لہذا جب ہم سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کر رہے ہیں تو ، سورۃ الفاتحہ کی 7 آیات تفصیل ہے اس مقام کی جس میں ہم آگے جارہے ہیں۔ اور کیونکہ ہم اس کی تلاوت کرتے ہیں :
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ۞ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۞ االرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ۞
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم واﻻ ہے۔ سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے واﻻ ہے۔بڑا مہربان نہایت رحم کرنے واﻻ۔
سورۃ الفاتحہ (1) آیت 3-1
یعنی ہم جنتی حقائق سے اِس کی تلاوت کررہے ہیں ،یہ نہیں سمجھ رہے کہ یہ وہ فیوضات ہیں جو انسان (انسانیت) کو ڈھانپتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے جب وہ معارفت کی طرف جانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ پیغمبر ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ ، ‘جو خود کو جانتا ہے وہ اپنے رب کو پہچان لے گا۔‘ یعنی خود کو جاننے کا ایک راستہ اختیار کیا جائے۔ تو آخر سے شروع کریں۔ اور وہ دروازہ اور رحمت جو اللہ (عزوجل)نے عطا کی ہے۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَهْ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ
"جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اُس نے اپنے رب کو پہچا ن لیا۔ "
حضرت سیدنا محمد ﷺ
-" بسم اللہ الرحمٰن رحیم" بطور تحفہ اس امت کو دی گئی:
اللہ (عزوجل) فرماتا ہے ، ”میں تمہیں یہ باب (دروازہ) دے رہا ہوں۔ میں تمہیں عروج کا موقع دے رہا ہوں ۔کس کے ذریعے ‘تمہیں " بسم اللہ الرحمن الرحیم"دے کر۔ کسی بھی قوم کے پاس یہ اس لئے نہیں تھی ، کیونکہ وہ جنتی حقائق میں ہے۔ تو انہوں نے یہ معراج (عروج) حاصل نہیں کی۔ انہوں نے وہ حقیقت حاصل نہیں کی کہ " بسم اللہ الرحمن الرحیم"کو حاصل کریں ۔ لیکن تمہارے لئے ، سیدنا محمد ﷺکی امت کیلئے ، میں وہ باب ، وہ دروازہ ، اس حقیقت کو نیچے لے آیا تاکہ یہ تمھارے دروازے پر ہو۔ یہ ایک زبردست تحفہ ہے ، میرے " وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ " کی وجہ سے میرے پیارے( حبیب سیدنا) محمد ﷺ سے میری محبت کی وجہ سے ۔ میں ان کی امت کیلئے آسان بنا رہا ہوں (کہ ) اس دروازے سے گزر کے آئیں۔ “
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ۞
"اور (اے محبوب) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے"
سورۃ الا نبیا٫ (21) آیت 107
-سورۃالفاتحہ کی آخری آیت سے آغاز کریں اور زندگی میں اپنے راستے پر تفکر کریں:
تو پھر جب تم " بسم اللہ الرحمن الرحیم" میں داخل ہوتے ہو تو ، زندگی میں ہم کس مقام پر کھڑے ہیں ، یہ دراصل ، "صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ " ہے یعنی اس ابتدائی دروازے پر ہماری زندگی ہے۔
صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ۞
سورۃ الفاتحہ(1) آیت 7
جب ہم جاننا چاہتے ہیں کہ میرے درجات کیا ہے ؟ میرا مقام کیا ہے؟ یہ ہماری زندگی کو ایک جواب ہے ، کہ جب ہم اللہ (عزوجل) کی راہ پر آتے ہیں ، تو تم سورۃالفاتحہ کی آخری آیت کی تلاوت کرتے ہو اور غور کرنا شروع کرتے ہو ، 'میرا راستہ کیا ہے؟' وہ کون سا راستہ ہے جو خدا تمہارے لئے چاہتا ہے؟ جو بھی (یہ لیکچر ) دیکھ رہا ہے ، وہ اپنے گھروں میں دیکھ رہے ہیں ، یا دنیا میں جہاں بھی ہیں ، وہ کہتے ہیں ، 'میں اِس راستے پر ہوں۔ میں اُس راستے پر ہوں۔ ' پرواہ نہیں ہے کہ تمہاری رائے اس بارے میں کیا ہے جو تمہارے خیال میں تمہارا راستہ ہے۔ خداتعالیٰ ، اللہ (عزوجل) تمہیں بتا رہا ہے ، "تمہاراراستہ ، وہ راستہ ہونا چاہئے جس پر میں نے اپنا تمام فضل عطا کیا ہے۔ کچھ لوگ رحمہ اور رحمت کہتے ہیں ، میرا تمام فضل۔ زندگی میں تمہارا راستہ وہ راستہ ہونا چاہئے جس پر میں نے اپنی رحمت ، اپنا فضل ، اپنی تجلیات ، اپنی خوشی عطا کی ہے۔"
ساتواں مقام :
حصہ 1 – یہ ان لوگوں کا راستہ نہیں ہے جنہوں نے خدا کو ناراض کیا یا گمراہ ہو گئے
کیا تمہارا راستہ اُس حقیقت پر مبنی ہے؟ کیا تم واقعتاً یہ سوچتے ہو کہ تم زندگی میں جو کچھ کر رہے ہو(یہ) وہ راستہ ہے جہاں اللہ (عزوجل) خوش ہے ، تمہارے عمل اللہ (عزوجل)کو خوش کر رہے ہیں؟ کہ تم اس حقیقت کی راہ کی طرف گامزن ہو؟ کیونکہ تب اللہ (عزوجل)بیان فرماتا ہے ، صرف اس راہ کی وضاحت کیلئے جس کے بارے میں تمہیں لگتا ہے کہ تم چل رہے ہو،' یہ وہ (اُن لوگوں کا ) راستہ نہیں ہے جس نے مجھے ناراض کیا اور یقیناََ ان لوگوں کا راستہ نہیں جو گمراہی میں رہتے ہیں۔
غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
سورۃ الفاتحہ(1) آیت 7
لہذا جو کچھ بھی تمہیں لگتا ہے کہ تمہارا اسلام ہے ، تمہاری عیسائیت ہے ، تمہاری یہودیت ہے ، تم جو بھی سوچتے ہو کہ تم اس کے پیروکار ہو ، اس دروازے کی چوکھٹ پر ، اللہ (عزوجل) نے دروازے پر بتا دیا ، تم " بسم اللہ الرحمٰن رحیم" کہتے ہو، تم اس دروازے پر جاتے ہو ، جو واضح کر دیتا ہے۔ کیونکہ یہ حدِ دنیا (مادی دنیا کی حد) تھی۔
جب ہم تلاوت کررہے ہیں تو ہم جنت سے دنیا تک تلاوت کررہے ہیں (آیت سات سے آیت ایک تک)۔ لیکن ہم دنیا پر رہ رہے ہیں ، جنت تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا (مادی دنیا) پر ، دروازہ ہمارے سامنے واضح طور پر ہے کہ ، ‘ایک ایسا راستہ اختیار کرو جس میں میرا فضل اور میری رحمت (رحمت) ، میری رضا(اطمینان) اور میرا کرم اسی راستے پر ہے۔
-کیا تم اُس راہ پر چل رہے ہو جس سے اللہ (عزوجل) خوش ہو؟
کیا تم ایسا کر رہے ہو جو مجھے خوش کر رہا ہے؟ تم جو بھی سوچتے ہو کہ وہ تمہاراراستہ ہے ، کیا تم مجھے خوش کر رہے ہو؟ یقیناً اپنا راستہ ایسا مت بناؤ جس میں تم مجھے ناراض کرو۔ اور اپنا راستہ ایسا مت بناؤ جو گمراہی کا راستہ تھا تم جانتے ہو کہ یہ میرا راستہ نہیں ہے۔'
تم جانتے ہو کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہاں تک کہ اسلام کے اندر بھی، ہم خصوصی بات نہیں کر رہے ہیں۔ اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم باہر جاکر لوگوں کو قتل اور نقصان پہنچا سکتے ہو تو تم نے پہلے ہی اللہ (عزوجل) کا غضب حاصل کرلیا اور تم یقیناََ گمراہ ہوگئے ۔ تب تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تم اللہ (عزوجل) کے راستے پر نہیں ۔ تم جو کچھ بھی تلاوت کر رہے ہو وہ بھی درست نہیں ہے اور بارگاہِ الہی میں کچھ بھی نہیں بھیجا جارہا ۔
–کیا تم رات کو سکون سے سوتے ہو؟
یا تم پریشانی میں ہو؟
اس کا مطلب ہے کہ یہ ہماری زندگیوں کیلئے لٹمس ٹیسٹ بن جاتا ہے ، کہ ، یا ربی ، کیا میں آپ کے راستے پر چل رہا ہوں؟ کیا آپ مجھ سے خوش ہیں؟ کیا آپکا فضل مجھ پر ہے؟ کیا مجھے رات کو سونے کیلئے ، اور ضمیر خاموش کرانے کے لئے شراب پینا اور نشہ کرنا پڑتا ہے؟ یا میں فرشتے کی طرح سوتا ہوں؟ میں نے سر کو تکیے پر لگایا جیسے میں فوت ہوگیا اور صبح ہوتے ہی تم اس طرح اٹھ کھڑے ہو جیسے تم مر چکے تھے ، جیسے تم کسی اور علاقے میں جاکر لوٹ آئے۔
کچھ لوگ صرف پرامن نیند ہی سے خوش ہو جائیں گے۔ لیکن ساری رات وہ (ذہنی) الجھنوں، سوچنے اور ذہنی بحث میں مبتلا رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے ساتھ مسلسل کشمکش میں ہیں۔اپنے مغز سے ، ان کے دماغ سے اور جو ان کی روح انہیں بتا رہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک بڑے تصادم میں ہیں۔ تمہاری روح بتارہی ہے ، تمہیں تسلیم (اطاعت )کرنا چاہئے ، ہم جلد ہی خداتعالیٰ سے ملنے جارہے ہیں۔کچھ 5 منٹ میں(خالقِ حقیقی) سے مل سکتے ہیں ، کچھ 50 سال میں اس سے مل سکتے ہیں۔ اور اللہ (عزوجل)فرماتا ہے کہ ، 'یہ یقینی بناؤ کہ تمہارا راستہ کوئی ایسی راہ ہے جس پر میرا فضل اور میری مہربانی ہو ، میں تم سے خوش ہوں۔' اور تم زندگی میں جو بھی کرتے ہو ، کیا تم اس عمل پر " بسم اللہ الرحمٰن رحیم" کہہ سکتے ہو؟ ؟ اگر تم نہیں کہہ سکتے، تو ایسا عمل نہ کرو۔ اللہ (عزوجل) کے غضب میں داخل نہ ہوں اور اللہ (عزوجل) کی گمراہی (بے ہدایتی) میں داخل نہ ہوں۔
اللہ جسے ہدایت دیتا ہے وہ ہدایت یافتہ روح ہے:
"جسے اللہ (عزوجل) ہدایت دیتا ہے وہ ایک ہدایت یافتہ روح ہے۔ جسے اللہ (عزوجل) ہدایت نہیں دیتا وہ کبھی ہدایت نہیں پاسکے گا۔"
مَن يَهْدِ اللَّـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا۞
جسے اﷲ ہدایت فرما دے سو وہی ہدایت یافتہ ہے، اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے تو آپ اس کے لئے کوئی ولی مرشد (یعنی راہ دکھانے والا مددگار) نہیں پائیں گے۔
سورۃ الکھف (18) آیت 17
اس کا مطلب ہے کہ ہماری ساری زندگی یہ بحث ہے: اگر تم اس جدوجہد سے بالاتر ہوسکتے ہو جہاں تم مسلسل درست اور غلط کے درمیان انتخاب کرتے رہتے ہو–ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُو–ایک دن تم یقین رکھتےہو ، ایک دن تم یقین نہیں کر رہے ۔ ، ایک دن تم یقین کر رہے ہو ، ایک دن تم یقین نہیں رکھتے۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللَّـهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا۞
بیشک جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر کفر میں اوربڑھ گئے تواللہ ہرگز (یہ ارادہ فرمانے والا) نہیں کہ انہیں بخش دے اور نہ (یہ کہ) انہیں سیدھا راستہ دکھائے۔
سورۃ النسا٫ (4) آیت 137
-اللہ عزوجل کی رضا حاصل کریں اور خدا کو غصہ دلانے والی چیز سے باز رہیں:
پھر وہ (اولیا٫) فرماتے ہیں جان لو جو اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے، وہ رب کو جان لیتا ہے ۔ اس کا مطلب ہے اصل جدوجہد شروع ہوتی ہے ، ‘یا ربی ، بس۔ جب تک میں مر نہیں جاتا میں اس راستے پر گامزن ہوں ، صرف اسی چیز کی تلاش میں جو آپکو راضی کرے اور اس سےباز رہوں جو کچھ آپکو طیش دلاتا ہے اور ایسی راہ (سے باز رہوں )کہ میں گمراہ ہو جاؤں اور (ایسی سوچ سے باز رہوں کہ )مجھے اپنے ضمیر سے لڑنے کی ضرورت نہیں۔
یعنی جب بھی میں سوچتا ہوں کہ کیا اللہ (عزوجل) مجھ سے خوش ہے؟ " اِلَهِى اَنْتَ مَقْصُوْدِيْ وَرِضَاكَ مَطْلُوْبِيْ" میرے خدا ، آپ میرا مقصد ہیں ، اور آپ کی رضا کی تلاش ہے۔ تمام اہل طریقت کو ان کے مشائخ کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ تمہارا واحد ذکر یہ ہے کہ ، ’یا ربی ، میں آپ سے معافی کا طلبگار ہوں اور آپکی رضا کا طالب ہوں۔‘
اِلَهِى اَنْتَ مَقْصُوْدِيْ وَرِضَاكَ مَطْلُوْبِيْ
'میرے خدا ، آپ میرا مقصد ہیں ، اور آپ کی رضا کی تلاش ہے'
اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم نے یہ کام سرانجام دے دیا ہے ، کیونکہ یہ ساتواں درجہ ہے جو ساتویں جنت کی طرف جارہا ہے ، تو یہ دُنیا کی حد ہے ۔
-صراط المُستقيم (سیدھا راستہ) کیلئے رہنمائی طلب کریں:
اگلادرجہ جو روح اپنی حقیقت میں آگے بڑھ رہی ہے ،
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ۞
ہمیں سیدھی (اور سچی) راه دکھا۔
سورۃ الفاتحہ (1) آیت 6
"جب تم نے کسی راستے کا انتخاب کیا ، کیونکہ دروازے پر ہی یہ راستہ تھا ، جب تم نے وہ راستہ چنا تو اب تم ایسے سمندر میں داخل ہورہے ہو جس میں تم اپنے پروردگار کے سامنے سچے ہوجاؤ گے۔ ‘یا ربی ، میں آپ کے سیدھے راستے پر چلنے کا طلبگار ہوں۔ سیدنا محمد ﷺ کا ایک نام سیدنا صراط المُستقيم ﷺہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اولیاءاللہ ہماری زندگی میں آجائیں۔
(جاری ہے)
حضرت شیخ سید نور جان (قدس اللہ سرہ)??
7 Maqams of Surah Fatiha A Believer Must Traverse – Part 1
From the Realities of Mawlana Shaykh (Q) as taught by Shaykh Nurjan Mirahmadi
A’udhu Billahi Minash Shaitanir Rajeem
Bismillahir Rahmanir Raheem
I seek refuge in Allah from Satan, the rejected one
In the Name of Allah, the Most Beneficent, the Most Merciful
Alhamdulillahi rabbil aalameen was salaatu was salaamu alaa ashraf al mursaleen Sayyidina wa Mawlana Muhammad al Mustafa sallallahu alayhi wa sallam. Madad ya Sayyidi ya Rasul al Kareem, ya Habeeb al Azheem, unzur halana wa ishfalana abina bi madadakum wa nazarakum, madad ya Sayyidi ya Sultan al Awliya Mawlana Shaykh Abd Allah Fa’iz ad Daghestani, madad ya Sayyidi Sultan al Awliya Mawlana Shaykh Muhammad Nazim Adil al Haqqani, madad ya Shaykh Sultan al Quloobina Mawlana Shaykh Hisham Kabbani. Madad al-haqq ya hujatallahi al-mukhlis.
Audhu Billahi min ash Shaitanir Rajeem, Bismillahir Rahmanir Raheem, ateeullah wa atee ar-rasul wa ulul amrin minkum.
﴾ياأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُواللَّه وَأَطِيعُوٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ…﴿٥٩
4:59 – “Ya ayyu hal latheena amanoo Atiullaha wa atiur Rasola wa Ulil amre minkum…” (Surat An-Nisa)
“O You who have believed, Obey Allah, Obey the Messenger, and those in authority among you…” (The Women, 4:59)
Alhamdulillah always a reminder always for myself, ya Rabbi, ana abdukal ‘ajeez, wa dayeef, wa miskin, wa zhalim, wa jahl. If not by Your Grace and Your Rahmah, I cease to exist. And that alhamdulillah, we pray to be nothing, that Allah (AJ) dress us from His Divinely Rahmah and Mercy and dress us from the love of Sayyidina Muhammad ﷺ.
Ba of Bismillahir Rahmanir Raheem Has All Realities of Holy Qur’an
Alhamdulillah, awliyaullah come into our life and teach us that to seek knowledge and to seek the reality of ourselves. ‘Who knows themself will know their Lord,’ holy hadith of Prophet ﷺ that who knows himself will know his Lord.
مَنْ عَرَفَ نَفْسَهْ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ
“Man ‘arafa nafsahu faqad ‘arafa Rabbahu”
“Who knows himself, knows his Lord.” Prophet Muhammad (ﷺ)
This way is based on knowing the self and the reality that Allah (AJ) has encoded upon the self. And all of holy Qur’an is in 30 juz (parts), all 30 juz is in 7 verses of the holy surat, Surat al-Fatiha. And many realities dressing, which means all of the realities of holy Qur’an, whatever we can imagine is, is dressing these holy 7 verses of Surat al-Fatiha. And all of Surat al-Fatiha is dressing Bismillahir Rahmanir Raheem. And all of Bismillahir Rahmanir Raheem is dressing the secret of ba.
Imam Ali (as) is the Baab, the Door to Prophet Muhammad ﷺ
That ba is a baab, is a door. And Prophet ﷺ is describing, ‘Ana Madinatul ‘ilm‘- ‘I am the city of knowledges and Ali babahum‘. Imam Ali (as) is a caretaker of the baab.
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “أَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمٍ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا”
Qala Rasolullah (ﷺ) “Ana madinatul ‘ilmin wa ‘Aliyyun baabuha.”
“I am the city of knowledge and ‘Ali (as) is its door/gatekeeper.” Prophet Muhammad ﷺ
So this means the reality of the zulfiqar (two-spiked sword) and the reality of Imam Ali (as) is at that ba. Saying you want to enter, ’cause as soon as that ba unfolds like a laser. Only now we understood, when they’re describing how all that reality in 30 juz means this vast power Allah (AJ) is dressing it into those 30 juz, now condensing, condensing into Fatiha, condensing into ’Bismillahir Rahmanir Raheem’. So must be immense power on that ba. And then describing Asadullahi Ghalib, the victorious lion of Allah (AJ), is holding a zulfiqar and saying, ‘You want to enter into the ba,’ which means you want to enter into that reality.
First Maqam – Bismillahir Rahmanir Raheem is the Crown of Sayyidina Muhammad ﷺ
﴾بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١
1:1 – “Bismillahir Rahmanir Raheem” (Surat Al-Fatiha)
“In the Name of Allah, the Most Beneficent, the Most Merciful” (The Opener, 1:1)
That reality, it’s dressing before we can truly understand, Allah (AJ) says, ‘I gave to you one of the greatest gifts, it is Surat al-Fatiha. And I gave to you a gift that I gave to no nation before was Bismillahir Rahmanir Raheem.’ And what we’re trying to understand the realities of ’Bismillahir Rahmanir Raheem’ because we say it first, it may not have the majestic reality of what it’s carrying. It is the crown of all creation. It is the crown of Sayyidina Muhammad ﷺ. That is a tremendous gift from Allah (AJ).
Reciting Fatiha From First to Last Verse is From Its Paradise Realities
So when we’re reciting Surat al-Fatiha, the 7 verses of Surat al-Fatiha is the description of the maqam in which we are moving in. And because we recite it, Bismillahir Rahmanir Raheem. Alhamdulillahi Rabbil ‘Alamin, Ar Rahmanir Raheem,’
﴾بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢
1:1-2 – “Bismillaahir Rahmaanir Raheem. Alhamdu lillaahi Rabbil ‘aalameen” (Surat Al-Fatiha)
“In the Name of Allah, the Most Beneficent, the Most Merciful. Praise be to Allah, the Lord of the worlds” (The Opener)
It means we’re reciting it from the paradise reality, not understanding that these are dresses that are dressed upon insan (mankind). This means when they’re trying to reach towards the ma’rifah (gnosticism) because the holy hadith of Prophet, ‘Who knows himself will know his Lord.’ Means take a path in which to know yourself. So start at the end; and the gate and the rahmah which Allah (AJ) gave.
مَنْ عَرَفَ نَفْسَهْ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ
“Man ‘arafa nafsahu faqad ‘arafa Rabbahu”
“Who knows himself, knows his Lord.” Prophet Muhammad (ﷺ)
Bismillahir Rahmanir Raheem Was Given As a Gift to This Nation
Allah (AJ) says, ‘I’m giving you this baab (gate). I’m giving you this opportunity to rise,’ by what? ‘by giving you Bismillahir Rahmanir Raheem. No nation had it because it’s in paradise realities. So they didn’t achieve that mi’raj (ascension). They didn’t achieve that reality to get the Bismillahir Rahmanir Raheem. But for you, the nation of Sayyidina Muhammad ﷺ, I brought that baab, that gate, that reality, down so that it’s right at your door. It’s a tremendous gift because of My “Wa ma arsalnaka rahmatal lil’alameen,” because My Love for Sayyidina Muhammad ﷺ. I’m making it easy for his nation. Come through this gate.’
﴾وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴿١٠٧
21:107 – “Wa maa arsalnaka illa Rahmatal lil’alameen.” (Surat Al-Anbiya)
“And We have not sent you, [O Muhammad (pbuh)], except as a mercy to the worlds/creation.” (The Prophets, 21:107)
Start From the Last Verse of Fatiha 1:7 and Contemplate Your Path in Life
So then when you enter Bismillahir Rahmanir Raheem, what station are we on in life, it’s actually, Siratal lazina an’amta ‘alayhim, ghayril maghdubi ‘alayhim wa laddalin. It means at that beginning gate is our life.
﴾صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧
1:7 – “Siraatal lazeena an’amta ‘alaihim, ghayril maghdoobi ‘alayhim wa lad-daaalleen” (Surat Al-Fatiha)
“The path of those upon whom You have bestowed Your grace/favor, not of those who have evoked [Your] anger or of those who are astray.” (The Opener, 1:7)
When we want to know what’s my darajat, what is my station. This is an answer to our life, that when we’re coming to the way of Allah (AJ), you recite the last verse of Fatiha and begin to contemplate, ‘What is my path?’ What’s the path that God wants for you? Anyone watching, they’re watching in their homes, wherever they are in the world, they say, ‘I’m on this path. I’m on that path.’ I don’t care what your opinion is of what you think your path is. God Almighty, Allah (AJ) is telling you, ‘Your path is, should be the path on whom I have bestowed all My Favours’. Some people say rahmah and mercy, all My Grace. Your path in life should be the path in which I have bestowed My Mercy, My Grace, My Tajallis (manifestations), My Happiness.’
7th Maqam (Station) Part 1 – This is Not the Path of Those Who Angered God or Gone Astray (1:7)
Is your path based on that reality? Do you truly think that what you’re doing in life is a path in which Allah (AJ) is happy, your actions are making Allah (AJ) happy? That you are taking a path towards that reality? ‘Cause then Allah (AJ) describes, just to clarify this path that you think you’re on, ‘It’s not the path of who’ve angered Me and definitely not the path of those who keep going astray.’ (Quran 1:7) [Img]
﴾ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧
1:7 – “Ghayril maghdoobi ‘alayhim wa lad-daaalleen” (Surat Al-Fatiha)
“Not of those who have evoked [Your] anger or of those who are astray.” (The Opener, 1:7)
So whatever you think your Islam is, your Christianity is, your Judaism is, whatever you think you are following, Allah (AJ) giving it, at the head of that gate, you say ‘Bismillahir Rahmanir Raheem,’ you go to that gate, that clarifies. Because that’s had dunya (limit of material world). When we are reciting, we’re reciting from paradise to dunya (verse 1-7). But we are living on dunya, trying to reach towards paradise. On dunya (material world), the gate is clearly in front of us that, ‘Take a way in which My Favour and My Rahmah (mercy), My Rida (satisfaction) and My Grace is upon that way.
Are You On a Path That Makes Allah (AJ) Happy?
Are you doing what’s making Me happy? Whatever you think is your path, are you making Me happy? Definitely don’t make your path in which you’re going to make Me angry; and don’t make your path in which it was astray. You know that that’s not My Way.’ You know what they’re saying; they say even within Islam, we’re not talking exclusive. If you think that you can go out and kill and harm people, you’ve already earned Allah (AJ)’s Anger and you’ve definitely gone astray. Then you should know you are not on the way of Allah (AJ). You’re whatever you are reciting is not even valid and nothing is being even sent into Divinely Presence.
Do You Sleep Peacefully At Night Or Are You in Conflict?
This means it becomes a litmus test for our lives, that, ‘Ya Rabbi, is what I’m doing Your Way? Are You happy with me? Is Your Grace upon me? Do I have to drink and take drugs just to sleep at night, to quiet my consciousness? Or I sleep like an angel? I put my head on the pillow as if I’m dead and in the morning you rise like you were dead, like you went to some other zone and came back.
Some people really will cherish a peaceful sleep. But all night long they’re unwinding and debating and thinking because they’re in continuous conflict with themself. They know from their mouths, from their brain and what their soul is telling them is in a big dispute. Your soul telling, ‘You should be submitting, we are going to be meeting the Almighty soon.’ Some may meet him in 5 minutes, some may meet him in 50 years. And Allah (AJ) says that, ‘Make sure that your path is something that My Grace and My Mercy, that I’m happy with you.’ And whatever you do in life, can you say ‘Bismillahir Rahmanir Raheem’ on that action? If you cannot, then don’t do it. Don’t enter into Allah (AJ)’s Anger and don’t enter into Allah (AJ)’s Misguidance.
Whom Allah Guides is a Guided Soul
‘Whom Allah (AJ) guides is a guided soul; whom Allah (AJ) does not guide will never find guidance.’
﴾مَن يَهْدِ اللَّـهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ ۖ وَمَن يُضْلِلْ فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُّرْشِدًا…﴿١٧
18:17 – ” …man yahdillahu fahuwal Muhtadi, wa man yudlil falan tajida lahu waliyyan murshida. (Surah al Kahf)
“… He whom Allah, guides is rightly guided; but he whom Allah leaves to stray, for him you will never find Saintly Guide to the Right Way.” (The Cave, 18:17)
It means that our whole life is that debate: if you can rise above that struggle where you’re constantly choosing between right and wrong, “thumma amanu thumma kafaru” – ‘one day you’re believing, one day you’re not believing’, one day you’re believing, one day you’re not believing.
﴾إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللَّـهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا ﴿١٣٧
4:137 – “Innal ladheena amano thumma kafaro thumma amano thumma kafaroo thumma izdado kufran lam yakuni Allahu liyaghfira lahum wa la liyahdiyahum sabeela.” (Surat An-Nisa)
“Indeed, those who have believed then disbelieved, then believed, then disbelieved, and then increased in disbelief – Allah won’t forgive them, nor will He guide them on a path/way.” (The Women, 4:137)
Seek Allah’s (AJ) Satisfaction and Abstain From What Angers God
Then they say know who knows himself to know his Lord. It means begins the real struggle that, ‘Ya Rabbi, that’s it. Until I die I’m going on that way, seeking only that which pleases You and abstaining from all that angers You and makes it to be as if I’ve gone astray.’ That I don’t need to battle my consciousness.
Means every time I’m meditating to think that, ‘Is Allah (AJ) happy with me?’ “Ilahi Anta maqsudi wa ridaka matlub” (My God, You are my aim, and Your Satisfaction is what I seek). All Ahle Tariqa are told by their shaykhs your only zikr is that, ‘Ya Rabbi, I’m begging Your Forgiveness and seeking Your Satisfaction.’
اِلَهِى اَنْتَ مَقْصُوْدِيْ وَرِضَاكَ مَطْلُوْبِيْ
“Ilahi anta maqsudi wa radhaaka matloob”
“My God, You are my aim, and Your Satisfaction is what I seek.”
If you think you accomplished that, ’cause this is the 7th level going towards the 7 paradises, this is the had of dunya.
Ask For Guidance to Siratal Mustaqeem (Straight Path)
The next level that the soul is moving in its reality, “Ihdinas-sirat al-mustaqim” (Guide us to the straight path). (Quran 1:6)
﴾اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦
1:6 – “Ihdinas-Siraatal-Mustaqeem” (Surat Al-Fatiha)
“Guide us to the straight path” (The Opener, 1:6)
When you chose a path, ’cause this was the path at the gate, when you chose that path that you’re now entering into an ocean in which you’re going to be truthful to your Lord. ‘Ya Rabbi, I’m asking to take Your Straight Path.’ One of the names of Sayyidina Muhammad ﷺ is Sayyidina Siratal Mustaqim. It means awliyaullah (saints) come into our life.
1/2