![33۔ حضرت خاص محمد الشیروانی [قدس اللہ سرہ]
عرس مبارک | 3 رمضان
شیخ عبدالکریم ...](https://nurmuhammad.com/wp-content/uploads/Urdu-33۔-حضرت-خاص-محمد-الشیروانی-قدس-اللہ-سرہ.jpeg)
Urdu – 33۔ حضرت خاص محمد الشیروانی [قدس اللہ سرہ] عرس مبارک | 3 رمضان شیخ عبدالکریم …
33۔ حضرت خاص محمد الشیروانی [قدس اللہ سرہ]
عرس مبارک | 3 رمضان
شیخ عبدالکریم جیلی (ق) کے اشعار کا لفظی ترجمہ:
"میں روتا ہوں اور وہ میرے مسکرانے کا سبب بنتا ہے،
میں ہوش میں آؤں تو وہ مجھے مدہوشی کا جام پلا دیتا ہے،
جب ڈوبنے سے بچ جاؤں تو وہ مجھے غرق کر دیتا ہے،
کبھی وہ میرا دوست ، کبھی میرا سہارا بنتا ہے،
کبھی وہ مجھ سے اس حد تک لڑتا ہے کہ میں بھڑک اٹھوں،
کبھی اس کے ساتھ شوخی کرتا ہوں ،کبھی اس کے ہمراہ چلتا ہوں ،
کبھی اُس سے چھُپ جاتا ہوں ،کبھی اُس سے بات کرتا ہوں،
اگر تم کہو وہ راضی ہے تو اُسے ناراض پاؤ گے؛
اگر تم اُسے مجبور و لاچار کہو تو جانو گے کہ وہ تو بااختیار (فیصلہ کرنے والا) ہے۔ "
وہ اپنے زمانے کے ذہین ترین اسکالر تھے جو آرٹس آف سائنس سے آراستہ تھے۔ تقویٰ اور صبر کے لباس میں ملبوس تھے، یقین کے وصف سے روشن اور ایمان کی پختگی پر قائم تھے ۔ فصاحت اور وضاحت میں کوئی ثانی نہ رکھتے تھے۔ وہ اس راہ فِقر کے پیشوا اور اس جماعت میں اول تھے۔ وہ عارفین کے ہیرو اور سالکین کیلئے راہ دکھانے والے روشن چراغ جیسے تھے ۔ اُن کی تقریریں فصاحت میں مثالی اور عمدہ تھیں۔ آپ کے دلائل اور مثالیں استعارے (میٹافور) تھے جو لوگوں کیلئے مشکل علوم آسان بنا دیتے تھے۔ سب آپ کی فصاحت کے دیوانے تھے۔ اگر وہ داغستان کے کسی شہر سے گزرتے تو لوگ آپ کو دیکھنے کیلئے سڑکوں پر نکل آتے۔ لکھنے والے (مصنف) آپ کی انجمن میں ادبی زبان سیکھنے کی خاطر آتے ؛ ماہر قانون (فقہاء) آپ کے پاس قانون سیکھنے آتے ؛ فلاسفر آپ کے پاس منطق سیکھنے آتے ؛ بولنے والے ( خطیب ) آپ کی فصاحت سیکھنے کیلئے آتے تھے؛ اور صوفیاء آپ کے حق کے اظہار کیلئے ، آپکی انجمن میں شریک ہوتے تھے۔
آپ یکم محرم کو پیر کے روز داغستان کے جنوب میں واقع شیروان کے ایک ضلع کلال میں پیدا ہوئے۔ آپ لمبے تھے اور بہت صاف رنگت رکھتے تھے۔ آپ کی داڑھی سرمئی رنگ کی تھی ،آپ کی آنکھیں کالی تھیں۔ آپ کی آواز اونچی تھی۔آپ پرہیزگار فقہاء میں سے ایک تھے۔ انہوں نے شافعی اسکول کی پیروی کی اور تعلیم دی۔ آپ نے امام شافعیؒ کی "کتاب الاُم" (کتابوں کی ماں) حفظ کی۔ وہ بیس سال کی عمر میں عدالتی فیصلے (فتویٰ) دے سکتے تھے۔ شہر میں سب آپ قدس اللہ سرہ کا احترام کیا کرتے ۔ آپ نے تصوف کی ابتدائی تعلیم اپنے خاندان سے حاصل کی۔
آپ (ق) کے اقوال زریں:
-ہمارا راستہ قران اور سنت کے ذریعہ طے کیا جاتا ہے
-میں نقشبندی سلسلے میں چار اقسام کے اولیاءسے ملا ہوں اور ہر قسم میں تیس مثالی ہیں؛ لیکن آخر میں میں نے شیخ اسماعیل الشیروانی (ق) کی پیروی کرنے کا انتخاب کیا۔
-اللہ (عزوجل) نے اس زمین پر جو کچھ بھی بھیجا ہے صرف اس لئے کہ اُسکے بندے سبق سیکھیں۔
-آپ سے پوچھا گیا: عارف کون ہے؟
آپ نے فرمایا، "عارف وہ ہے جو آپ کے بولے بغیر آپکے راز جانتا ہے۔"
-ہم نے تصوف تقاریر اور بناوٹی الفاظ سے حاصل نہیں کیا ' ہمارے شیخ نے یہ کہا اور ہمارے شیخ نے وہ کہا'۔ہم نے بھوکا رہنے سے اور ساری دنیا پیچھے چھوڑ نے سے اور سب سے خود کو منقطع کرکے تصوف پایا ہے ۔
-آپ سے پوچھا گیا ، "سالک (مرید) اور مطلوب (مراد) میں کیا فرق ہے؟ آپ نے جواب دیا ، "مرید وہ ہے جس نے اپنے افعال اور اپنی تربیت کے ذریعے علم حاصل کیا۔ مراد وہ ہے جو وحی اور الہام کے ذریعے علم حاصل کرتا ہے۔ مرید چلتے پھرتے ہیں ، لیکن مراد اڑان بھرتے ہیں ، اور چلنے پھرنے والوں اور اڑنے والوں میں کتنا بڑا فرق ہے؟ “
-اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان اخلاص کا مشاہدہ کسی کے پاس نہیں ، نہ ہی فرشتے اس کو لکھتے ہیں ، اور نہ ہی شیطان اس کو خراب کر سکتے ہیں اور نہ ہی (نفسانی) خواہش اسے ختم کر سکتی ہے ۔
-حتیٰ کہ صدیق (صدیق) ایک رات کے دوران اپنی رائے چالیس سے زیادہ مرتبہ تبدیل کرتا ہے ، حالانکہ وہ صدیق ہے جبکہ گواہ (المشاہد) چالیس سالوں تک اپنے خیال پر قائم رہتا ہے۔
جو شخص بارگاہ الہی میں "مشاہدہ کی حالت" میں ہے ، حقیقت دیکھتا ہے۔ وہ مشاہدے کے تین مراحل طے کرے گا:
علم الیقین ،عین الیقین،حق الیقین — وہ جو علم حاصل کرتا ہے وہ براہ راست بارگاہ الہی سے ملے گا جو کبھی تبدیل نہیں ہوتا ۔ لہذا اہل مشاہدہ اپنے فیصلوں پر قائم ہیں ، جو حقیقت سے آتے ہیں نہ کہ ذہن کی رائے سے۔
-آپ نے فرمایا:کسی شخص کو عقلمند نہیں کہا جاسکتا جب تک اس میں کوئی ایسی چیز ظاہر نہ ہو جو اللہ (عزوجل ) ناپسند فرماتا ہے۔
نقشبندی صوفی سلسلہ سلوک کی چار خاصیتوں پر مبنی ہے:
– چپ رہیئے، جب تک پوچھا نہ جائے۔
-مت کھائیے جب تک بھوک سے کمزوری محسوس نہ ہونے لگے۔
– مت سویئے جب تک تھکاوٹ نہ ہو جائے۔
-اور جب آپ اس (رب )کے حضور حاضر ہوں تو خاموش مت رہیئے (یعنی اللہ عزوجل سے لگاتار طلب کرتے رہیں)۔
-دل کی پاکیزگی کا انحصار ذکر کی پاکیزگی پر ہے اور ذکر کی پاکیزگی کا انحصار کوئی بھی پوشیدہ شرک نہ کرنے پر ہے۔ (اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہرانا)
-نبی کریم (ﷺ) کا کلام بارگاہ الٰہی سے ہوتا ہے اور صوفیاء کا کلام گواہ (مشاہدہ) سے ہے۔
-اللہ (عزوجل ) کی طرف صوفیاء کا راستہ اپنے خلاف جدوجہد کرنے کے زریعے ہے۔
– منفرد حالت اور مخلص وحدت تک تب پہنچا جاتا ہے، جب بندہ اختتام سے شروع تک واپس جاتا ہے (مشاہدہ کرتا ہے ) اور وہ اس طرح ہو جاتا ہے، جیسے موجود ہونے سے قبل موجود ہو ۔
-وحدانیت (توحید) کا علم ظاہری اسکالرز کی نظر سے بہت عرصے سے چھپایا گیا ہے ۔ وہ صرف ظاہری شکل کے بارے بات کرسکتے ہیں۔
– جب دل کوئی خوبصورت آواز سنتا ہے تو اسے خوشی اور سکون کیوں ملتا ہے؟ اس لیئے کہ اللہ نے روحوں سے بات کی تھی جب وہ رب کی بارگاہ میں زروں ( ایٹم کی صورت میں موجود) تھے اور سب سے پوچھا گیا ، 'کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں )أَلَسْتَ بِرَبِّكُمْ (؟ اُس کے کلام کی مٹھاس ان کے دل میں بس گئی۔ اس لیئے دنیا میں ، جب بھی دل ذکر یا موسیقی سنتا ہے تو اسے خوشی اور سکون ملتا ہے ، کیونکہ دل اُسی مٹھاس کی جھلک چکھتا ہے۔
آپ کے معجزات :
بیس سال تک آپ نے ہفتے میں صرف ایک بار کھانا کھایا ۔ آپ کا روزانہ کا ورد 350 رکعت نماز پر مشتمل تھا۔
شیخ احمد القفقازی ؒ فرماتے ہیں ، "ایک بار میں جنگل کے پار دوسرے شہر کاروبار کی غرض سے سفر کررہا تھا۔ میرے راستے میں برف باری پڑ رہی تھی ، اور ایک تیز ہوا چل رہی تھی۔ پھر برف باری رک گئی ، اور موسلادھار بارش سے ساری سڑکیں ندیاں بن گئیں۔ میرے پاس اس جنگل سے گزرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ رات کی تاریکی چھا رہی تھی میں جنگل میں داخل ہوا اور وسط میں کھو گیا۔ آسمان مجھ پر بارش برسا رہا تھا ، رات بڑھتی جارہی تھی ، سیلاب بڑھتا جارہا تھا ، اور مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کہاں جانا ہے۔ میں جنگل سے بھاگتا ہوا ایک ندی کنارے آیا۔ سیلاب نے اس ندی کی لہروں میں طغیانی بھر دی اور اسے سمندر جیسا بنا دیا ۔ اس پر پل تباہ ہو چکا تھا ،لیکن مجھے پار کرنا تھا۔ لہریں ٹھاٹھیں مار رہی تھیں پھر پانی میری ٹانگوں تک پہنچا ، اور پھر میرے گھوڑے کی ٹانگوں تک پہنچا ۔ مجھے اپنے اور اپنے گھوڑے کے ڈوبنے کا خدشہ ہوا۔ میں نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور اپنے رب سے مدد مانگی ، "اے اللہ ، اس مشکل میں میری مدد فرما۔" فوراََ ہی میں نے اپنے پیچھے ایک آواز سنی ، "اے احمد ، تم مجھے کیوں بلا رہے ہو اور مجھے اپنے گھر سے لے آئے؟" میں نے دیکھا اور اپنے پیچھے شیخ خاص محمد (قدس سرہ ) کو دیکھا ، لیکن وہ(حجم میں )بہت بڑے تھے۔ آپ (ق) نے فرمایا ، "میرا ہاتھ پکڑیئے اور میرے ساتھ دریا عبور کیجیئے۔" مجھے خوف محسوس ہوا۔ آپ نے فرمایا ، "جب آپ ہمارے ساتھ ہو تو آپ کو خوف محسوس نہیں ہونا چاہئے۔" پھر ہم نے دریا عبور کیا۔ وہ دریا پر چلتے رہے اور میں اُن کے ساتھ پانی پر چل رہا تھا۔ ہم دریا کے پار آگئے۔ آپ (ق) نے فرمایا: "اب آپ محفوظ ہیں" اور وہ غائب ہوگئے۔ جب میں اپنی منزل تک پہنچا اور مسجد گیا تو میں نے وہاں شیخ خاص محمد (قدس سرہ ) کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ میں نے آپ سے پوچھا ، "آپ کیسے آئے؟" آپ نے فرمایا: "اے احمد! ہمارے لئے کوئی حد نہیں ۔ ہم کسی بھی وقت کہیں بھی ہو سکتے ہیں اور ہر طرف ہوسکتے ہیں۔"
آپ کا جہاد
مورّخین شیخ اسماعیل الشیروانی اور ان کے خلفاء کا داغستان میں اثر و رسوخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
" طریقت نقشبندیہ کا قفقازی تاریخ میں ایک بہت اہم کردار رہا ہے ، جن کا مضبوط نظم و ضبط ، اپنے نظریات سے سچی لگن ، اور سخت تنظیم کی وجہ سے قفقاز ی کوہ پیماؤں نے روس کی فتح پر شدید مزاحمت دکھائی – ایک مزاحمت جو 1824 سے 1855 تک جاری رہی – جس میں نہ صرف تحریک کے تمام قائدین بلکہ مقامی حکام (نائب) شامل ہوئے اور جنگجوؤں کی اکثریت نقشبندیوں کی تھی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تقریباً پچاس سالہ طویل قفقاز کی جنگوں نے روسی زار سلطنت کے حوصلے پست کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا اور روسی بادشاہت کا خاتمہ کیا۔ "اخوت کا ایک اور گہرا اور دیرپا اثر یہ ثابت ہوا کہ منکر کوہ پیماؤں کو سخت آرتھوڈوکس مسلمانوں میں تبدیل کردیا ، اور اسلام کو اوپری چیچنیا کے متنازعہ علاقوں میں اور مغربی قفقاز کے سرکیائی قبائل میں متعارف کرایا۔ اس کے بعد بڑے پیمانے پر قفقازی مسلمانوں نے داغستان سے ترکی کی طرف ہجرت کی لیکن اس سے چیچنیا میں سلسلہ نقشبندیہ ختم نہیں ہوا کیونکہ اس کی جڑیں بہت وسیع اور بہت گہری پھیل چکی تھیں۔
حضرت خاص محمد (قدس اللہ سرہ ) نے 3 رمضان المبارک ، 1260 ھ اتوار کے روز مکہ مکرمہ کی زیارت سے داغستان واپسی پر وصال فرمایا ۔ دمشق میں مدفون ہوئے ۔ اپنے شیخ سیدنا اسماعیل الشیروانی (ق) کی مرضی کے مطابق آپ نے طریقت کا اختیار اپنے جانشین ، سیدنا اسماعیل الشیروانی (ق) کے حوالے کیا۔
Biography English Text: https://nurmuhammad.com/khas-muhammad-shirwani-qaddasa…/