
Urdu – 3 شعبان | یوم ولادت امام حسینؑ امام حسینؑ ؑ ہمارے ہیرو، ہمارے بادشاہ ہیں — آ…
3 شعبان | یوم ولادت امام حسینؑ
امام حسینؑ ؑ ہمارے ہیرو، ہمارے بادشاہ ہیں
— آپؑ سیدنا محمد (ﷺ) کے" خُلق العظیم" کے وارث ہیں۔
Imam Hussain [AS] is Our Hero & Symbol of Faith
— inheritor of Sayedena Muhammad (saws)’s Khulqul Azheem
محرم میں جب ہم اہل بیت (علیہ السلام) کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہم ہمیشہ سانحہ کربلا یاد کرتے ہیں ۔ اور آج کی اس دنیا میں ، ہر جگہ کربلا ہے ، ہر جگہ بے انتہا قتل و غارت ہے ، بے گناہوں کا خون ، لوگوں کا قتل عام رائج ہے اور نہ اُن کی پرواہ کرنا ، نہ اِس بات کی پرواہ کرنا کہ وہ کس کی نمائندگی کرتے ہیں یا کس کیلئے کھڑے ہیں۔ اب انسانیت نہیں رہی اور ہر جگہ بنی نوع انسان میں تباہی مچی ہوئی ہے۔
Fight Jealousy & Anger
Ahlul Bayt Are the Symbol of Faith
اہل بیت ایمان کی علامت ہیں:
جب ہم امام حسینؑ ؑکی زندگی کو یاد کرتے ہیں، تو سیدنا محمد (ﷺ) سے محبت کرنے والوں اور ان لوگوں کیلئے جو(کامل) ایمان حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، جو کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے ایمان میں اضافہ کریں، تسلیم میں اضافہ کریں ، اور مقام الاحسان تک پہنچیں ؛ تو ان کے لیئے (امام حسینؑ ؑ) میں ایمان ، طاقت اور استقامت کی ایسی اہم علامت ہیں کہ وہ ایک بہت ہی اعلیٰ معیار طے کرتے ہیں ، یہ ایمان کا اونچا ترین درجہ ہے ، جدوجہد کا عزم ہے اور ہماری زندگیوں میں یہ ہمارے لئے ایک زبردست علامت ہے۔ یہ ہماری راہِ معرفت میں سال محض کی ایک رات اور ایک لمحہ نہیں بلکہ ، یہ ایک مستقل یاد دہانی ہے۔ تمام اصحاب النبی (ﷺ) لیکن اہل بیت کا، اُنکا اس حقیقت میں ایک خاص مقام ہے۔ اُن کی ایک خاص سمجھ ہے کہ جس طور امام حسینؑ نے اللہ عزوجل کے حکم کو قبول کیا اور اس کی تعمیل میں جس حد تک 73 افراد، اہل خانہ اور ساتھیوں نے خود کو قربان کیا۔اور اُس قافلے میں اپنی خواتین اور بچوں کو جس طرح شامل کیا اور یہ جانتے ہوئے کہ وہ سب مشکل میں پڑجائیں گے۔ لیکن ہمیشہ انسانیت کیلئے امید کا احساس ہی خیال کیا کہ اگر وہ ہمیں اپنے گھرانے کے ساتھ دیکھیں گے اور وہ دیکھیں گے کہ ہم مسلح نہیں ہیں یا کسی پر حملہ کرنے نہیں آئے ، بلکہ ہم سیدنا محمد (ﷺ) کی محبت کو پھیلانے آ رہے ہیں۔
یعنی ہر پہلو میں ہمارے لئے ایک علامت ہے کہ امام حسینؑ ؑسیدنا محمد (ﷺ) کی سنت کو برقرار رکھنے آئے تھے۔ و ہ بدعت اور (سنت کے برعکس )بدل رہے تھے اور کام کررہے تھے اور انہوں نے مانگی، لوگوں نے (مدد ) مانگی کہ رسول اللہ (ﷺ) کے نور کو لایئے ، سیدنا محمد (ﷺ) کی سنت لایئے ، سیدنا محمد (ﷺ) کی راہ لایئے ، کہ آپ کی وراثت ہے ، اسے ہماری جگہ پر لایئے اور اپنے لوگوں کے پاس لے آیئے "۔ اور وہ صرف خون خرابہ چاہتے تھے ۔ وہ اُنہیں ، انکے بچوں ، چھوٹے لڑکوں ، خواتین کو قتل کرنا چاہتے تھے ، وہ سب کو قتل کرنا چاہتے تھے ، اور انہیں کوئی پرواہ نہیں تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اب اس زمین پر ، دجال کے لشکر جو پوری دنیا میں موجود ہیں اور اسلام ہونے کے دعویدار ہیں ، اور وہ جو بھی دعویٰ کررہے ہیں ، یہ مسیح موعود ((Anti Christکی لڑائی ہے۔ یہ دجال اور دجالی لشکروں کی لڑائیاں ہیں جو اب زمین پر ہو رہی ہے۔
Imam Hussain (as)‘s Great Character
Sayyid ush Shuhada – The Master of those who See/Witness
امام حسینؑ کا عظیم کردار: سید الشہداء – اہل بصیرت اور شھدا٫ کے آقا ہیں:
امام حسینؑ ہماری زندگیوں میں ایک یاد دہانی( علامت کے طور پر) ہیں۔ ان لوگوں کیلئے جو آرہے ہیں اور شاید سن چکے ہیں یا نہیں سنا کہ یہ بڑے اولیاء اللہ ہیں ۔ یہ سیدنا محمد (ﷺ) کی اولاد ہیں۔ کہ جب تم ہر چیز کو اپنی جگہ پر رکھتے ہو تو ہم اس قربانی کی عظمت کو سمجھنے لگتے ہیں جو سارے اصحابہ کرام نے دی تھی ، تمام اہل بیت نے دی۔ لیکن امام حسینؑ کے بارے میں خاص کہ وہ ایک بڑے ولی ، بڑے اولیاء اللہ ، سید الشہداء (اہل بصیرت کے پیشوا) — اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی " شہود " حاصل نہیں کر سکتا ، دل کے کھلنے پر ، جب تک کہ امام علی ؑ ان کے سرٹیفیکیٹ پر دستخط نہ کردیں ۔ آپ قربانی کے ذریعہ دنیا میں " شہود " ہو سکتے ہیں یا ان تمام خراب خصائل کو چھوڑ کر " شہود " ہوسکتے ہیں کہ (سب ) ترک کر دیں اور اللہ (عزوجل ) آپ کو اہل بصیرہ میں شامل کرتا ہے—تم وہ دیکھ پاتے ہو جو لوگ نہیں دیکھتے ، تم و ہ سن پاتے ہو جو لوگ نہیں سنتے ، تم وہ محسوس کرسکتے ہو اور چکھ سکتے ہو جو لوگ محسوس نہیں کرتے اور نہیں چکھ پاتے۔ یہ اللہ (عزوجل)کے تمام تحائف ہیں۔
Ayat us Sabr – Sign of Patience
آیت الصبر – صبر کی علامت:
لہذا ، جب اس جیسے ایک بڑے ، بہت بڑے اولیاءاللہ کو " امر جبار" ملتا ہے ، اللہ (عزوجل) کی "صفت الجبار" سے امر (حکم ) آتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو اُٹھانا ممکن نہیں ہے۔ اور وہ (امام حسین ؑ) آیت الصبر (صبر کی نشانی) ہیں۔ یہ ہمارے سمجھنے کیلئے ہے کہ "جب اللہ (عزوجل ) نے مجھے اپنے ' جبروت' سے ایک امر (حکم ) دیا ، تو جو اللہ (عزوجل)چاہتا ہے، اس کو نہ کہنے کا میرے پاس کوئی راستہ نہیں تھا— کوئی ساتھی ، کوئی بیوی ، کوئی بچہ نہیں سمجھ سکتا ۔ "صفت الجبار" جب اللہ (عزوجل) فرماتا ہیں کہ یہ" اس طرح ہو گا، " تو سیدنا حسینؑ کا مقام ہے —" سمعنا و اطعنا" میں سننے جا رہا ہوں جو اللہ ( عزوجل) نے میرے لئے حکم دیا ہے اور میں "صفت الصبر" کی نشانی بننے جا رہا ہوں۔ وہ ہمارے لئے ہماری زندگی میں علامت ہیں کہ صبر کیجئے جو بھی اللہ (عزوجل)نے آپکے لیئےمقدر کیا ہے اور حتی کہ وہ جنگ کے خیال کو بھی تصور سے دور رکھتے ہیں۔
جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ (امام حسینؑ) کی نقل کررہے ہیں ، جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ اُن (علیہ السلام) کی پیروی کررہے ہیں ، کیا ان میں یہ صفات ہیں؟ اُنھوں نےاپنی موت کو یقینی طور پر دیکھا ۔ اُنھوں نےاپنی فنا کو یقینی طور پر دیکھ لیا ۔اور وہ ؑ اس آگ میں قدم رکھنے پر راضی ہو گئے اور اُنھوں نےاپنی عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ لے لیا ، ایسی مثال نہ سنی گئی ، نہ دیکھی گئی۔ساتھیوں نے فرمایا ، "گھر والوں کو پیچھے چھوڑ دیجئے "۔ "نہیں ، میں اپنے گھرانے کے ساتھ جا رہا ہوں ، یہ اللہ (عزوجل) نے لکھا ہے کہ مجھے یہ کام کرنا ہے۔"
Imam Hussain (as) – inheritor of Sayedena Muhammad (saws)’s Khulqul Azheem
امام حسینؑ – سیدنا محمد (ﷺ) کے خُلق العظیم کے وارث ہیں:
وہ بہت چیختے ہیں، روتے ہیں اور بہت ساری جذباتی تقریبات کرتے ہیں لیکن اولیااللہ چاہتے ہیں ، میرے شیخ مجھے یاد دلانا چاہتے ہیں کہ کردار کی تفصیل میں اُترو۔ دیکھو کہ تم پر حیرت انگیز ظلم و ستم ڈھایاجارہا ہے، لہذا جب بھی کوئی لڑنا چاہتا ہے ، کوئی بھی برا کردار دکھانا چاہتا ہے تو اُن کی حیات مبارکہ کو یاد رکھے۔ اُنھوں نےفرمایا ، "میں نے دیکھا کہ اللہ (عزوجل)نے مجھے کیا بھیجا ہے ۔ اور میں نے پیچھے سے ان پر حملہ کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ اللہ نے مجھے وہ میدان دکھایا جہاں میں جن لوگوں کیلئے آیا تھا۔ انہوں نے مجھے بلایا اور انہوں نے مجھےانکار کر دیا اور انہوں نے اپنا دروازہ مجھ پر بند کردیا اور انہوں نے میرا ساتھ نہیں دیا۔ میں نے یہ سب دیکھا اور میں نے ان پر لعنت نہیں کی۔ " لہذا مطلب یہ ہے کہ کوئی لعنت نہیں تھی ، کوئی لعنت نہیں۔ "میں نے ان دشمنوں کو دیکھا جو مجھ پر حملہ کرنا چاہتے تھے اور میں نے کوئی منصوبہ نہیں بنایا، صحابہ کرام سے نہیں فرمایا کہ اُن پر ایک فوج چڑھا دو اور اس سے پہلے کہ وہ مجھے تباہ کردیں ، اُنہیں تباہ کردو" ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ خُلق العظیم دکھا رہے ہیں ۔ امام حسینؑ نے سیدنا محمد (ﷺ) کے کردار کو نبھایا۔
کیسے جانیں کہ سیدنا محمد (ﷺ) کتنے عظیم ہیں، سیدنا محمد (ﷺ) نے یہ سب دیکھا اور اپنے ساتھیوں پر کبھی لعنت نہیں کی۔ اُنھوں نےکبھی کسی پر لعنت نہیں بھیجی کہ ، "اے، تمہارے جد میرا گھرانہ تباہ کرنے والے ہیں۔ تم میرے نواسے نواسیوں کو شہید کرنے جا رہے ہو ، "۔ سیدنا محمد (ﷺ) نے کبھی کچھ نہیں فرمایا ۔ تباہی کو جانتے ہوئے ، یہ جانتے ہوئے کوئی تمہیں تکلیف پہنچائے گا ۔ کوئی بھی ایسا( عظیم ) کردار نہیں رکھتا ۔اگر تمہیں لگتا ہے کہ کسی نے تمہارے پانچ ڈالر چوری کیے ہیں تو تم ان پر لعنت بھیجتے ہو۔
یہ سیدنا محمد (ﷺ) اور ان کے پیارے نواسے ، نواسیوں کا ہی عظیم کردار ہے۔ میں نے اپنی موت دیکھی اور میں اس (موت کی وادی )میں چلا گیا ، اللہ (عزوجل)جو بھی چاہتا ہے میں اس کے تابع ہوں۔ میں زندگی میں صابر ہوں اور صبر کی علامت بننے جا رہا ہوں اور میں بہترین کردار کی علامت بننے جا رہا ہوں۔ کہ میں نے حملہ نہیں کیا ، میں نے کسی کو چوری چھپے نہیں مارا۔ کہ جو کچھ بھی اللہ (عزوجل)چاہتا ہے۔ اگر اللہ (عزوجل)چاہتا ہے کہ مجھے شھید کیا جائے ، میں شھید ہو جاؤں گا۔ اگر اللہ (عزوجل)چاہتا ہے کہ میرے بچے اس کشتی میں ہوں اور میری بیوی اس کشتی میں ہو اور میری آنٹی اور میرے رشتے دار ، کشتی میں ہوں، تسلیم اور رضا اچھے کردار کا اظہار ہیں۔
Ahlul Bayt Are Our Heroes
اہل بیت ہمارے ہیرو ہیں:
ہمارے لئے ایک یاد دہانی یہ ہے کہ وہ (اہل بیت) ایمان کی علامت ہیں۔ ہر بار اور ہم سب کیلئے ہماری زندگی میں اپنی مثال موجود ہے کہ جب بھی ہم جدوجہد کر رہے ہیں ، آپ کو اُن کی مبارک زندگی کا (سبق) سامنے رکھنا ہوگا۔ جب بھی ہم جدوجہد کر رہے ہیں ؛ ہم کسی چیز سے نا خوش ہیں؛ کچھ ہمارے مطابق نہیں چل رہا ؛ جو کچھ بھی ہماری زندگی میں امتحان چل رہا ہو، اہم (بات )یہ ہے کہ وہ ہمارے ہیرو ہیں تو ان لوگوں کیلئے جو تسلیم کرنا پسند نہیں کرتے ، کیونکہ شیطان (اصل ) ہیرو کی علامت ہٹا کر ، ان کی جگہ ، جہنم کے گڑھوں میں سے ایک ریپ اسٹار (rap star)کو دیناچاہتا ہے۔ لیکن وہ (اولیا اللہ ) کیا چاہتے ہیں اور رسول اللہ (ﷺ)ہمارے لئے کیا چاہتے ہیں "أَطِيعُواللَّه وَأَطِيعُوٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ" کی آیت مبارکہ سے کہ ان جنتی لوگوں کو اپنا ہیرو جانیئے ۔ ان کی زندگی کو یاد رکھیں ، اُن کی جدوجہد کی علامت کو یاد رکھیں۔ اور یہ ہمیشہ(ہمارا) قبلہ رہیں۔ ایک متوازن راستہ ، ایک متوازن راہ۔ جیسے ہی کوئی مشکل پیش آئے ، جیسے ہی ہمیں شکایت درپیش ہوں ، جیسے ہی معاملات ہماری ( مرضی کے )مطابق نہ چلیں ، تم انہیں یاد رکھو اور تمہیں احساس ہوگا کہ تم کتنے معمولی ہو اور ان کے مقابلے میں تمہارا امتحان کس قدر مضحکہ خیز ہے۔ وہ کہتے ہیں ، "کیا تم سنجیدہ ہو؟ تم اس مضحکہ خیز شکایت کے ساتھ ہمارے پاس آرہے ہو؟ تم عیش و عشرت کی گود میں ، بڑے گھر ، بڑی کاریں ، ائر کنڈیشنگ ، بہت زیادہ کھانا— جبکہ (اُس وقت) لوگ جا رہے تھے اور کچھ پینے کی تلاش میں تھے اور پینے کیلئے کچھ نہ تھا ۔ کھانے کیلئے کچھ نہ تھا 130- 140 درجہ حرارت میں حجرت کر رہے تھے۔ حج کررہے تھے ۔ وہ تمام کام جو وہ کر رہے تھے، ایک عام دن گزارنے کی جدوجہد تھی۔ اپنے گھر والوں کیلئے کھانا اور پانی تلاش کرنا۔ سورج کی تپش سے پناہ لینا۔ اور ہم ساری آسائشوں اور ہم ساری خوشیوں کے ساتھ ، مولانا ہمیشہ ایئر کنڈیشنگ کی یاد دلاتے ہیں ، کیا تم ایئر کنڈیشنگ کے ساتھ حج کرنے کا تصور کرسکتے ہو؟ یہ مضحکہ خیز ہے۔ تمہیں شرم محسوس ہوتی ہے۔ وہ چل رہے تھے اور گرمی میں جدوجہد کر رہے تھے۔ جب وہ روزہ رکھتے تھے تو وہ 140درجہ حرارت میں روزہ رکھتے تھے اور روزے کی حالت میں جنگ لڑ رہے تھے کیونکہ تم خدا کے رسول کو نہیں روک سکتے! جب لوگ کہتے ہیں کہ ، "وہ رسول کو روکیں گے" تو یہ ڈاکیے کی خدمات روکنے کے مترادف ہے جو ایک وفاقی جرم ہے۔یعنی آپ اسے نہیں روک سکتے جو اللہ (عزوجل) بھیجنا چاہتا ہے اور وہ روزہ دار تھے۔
ان کی جدوجہد کتنی مشکل تھی اور ہماری زندگی کتنی مضحکہ خیز ہے۔ لیکن ہمیں بہت ساری دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہمیں لڑائی جھگڑے اور ناراض (غصہ )ہونے کیلئے چیزیں مل جاتی ہیں۔ لیکن اُن کی مثال سامنے رکھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کا مقام کتنا اونچا ہے ، اور قربانی اتنی بڑی ہے کہ وہ تمہیں یاد دلاتے ہیں: "اپنے چھوٹے موٹے معاملات کو نیچے رکھو ، یہ تمہیں اللہ (عزوجل)کی رضا سے روک رہے ہیں۔ یہ وہ مسائل نہیں ہیں جن کے بارے میں تمہیں لگتا ہے کہ تم سامنا کر رہے ہو۔ یہ اُن کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جس سے ہم گزرے اور ہم سیدنا محمد (ﷺ)کے اہل بیت ہیں۔" تم کسی ایسے شخص سے توقع رکھو گے جو مخلوق میں سب سے پیارا ہے کہ اُن کی آل کے ساتھ اس روئے زمین پر رائلٹی کی طرح، شاہانہ برتاؤ کیا جائے گا۔ اور وہ ایک مثال کے طور پر سامنے آتے ہیں کہ نہیں ، ہمارے ساتھ جنت میں شاہانہ دستور ہے لیکن یہ زمین اپنی فطرت کی وجہ سے شیطانوں سے بھری ہوئی ہے جو صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو اچھی ہو، جو پاک ہو ، ہر چیز جو حق سے بنی ہو— اُسے تباہ کر دیں۔ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر روز اُس یاد دہانی کو سامنے رکھیں ، جو ہم جدوجہد کر رہے ہیں۔ اگر ہم برے کردار سے نہیں لڑ سکتے تو یہی وہ کردار ہے جس کی وجہ سے امام حسینؑ کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ ہمارے ہاں ہر روز یہ ہورہا ہے۔ اس لیئے وہ کہتے ہیں کہ ہر روز عاشورہ ہے اور ہر جگہ کربلا ہے۔
Jealousy Blocked them from Seeing the Light of Ahlul Bayt
حسد نے انہیں اہل بیت کا نور دیکھنے سے روک دیا:
کہ جنت کا ایسا حیرت انگیز پنچھی ، سیدنا محمد (ﷺ) کے نواسے ، جنھیں آ پ (ﷺ) ہمیشہ چومتے رہتے، ہمیشہ آپ (ﷺ) کی محبت میں پرورش پانے والے ۔سیدنا محمد (ﷺ) امام حسینؑ کے گلے پر بوسہ فرماتے اور وہ امام حسنؑ کے لب مبارک (ہونٹوں) کو بوسہ دیتے ، اس بات کا اشارہ کرتے: "مجھے معلوم ہے کہ آپ ( امام حسینؑ ) کو تلوار کا نشانہ بنایا جائے گا اور آپ ( امام حسنؑ) کو زہر آلود کیا جائے گا۔یہ جنت کے پرندے ہیں اور وہ ہماری زندگیوں میں تشریف لاتے ہیں اورسبق دیتے ہیں کہ وہ ہمارا نور کیوں نہیں دیکھ پائے ؟ وہ سیدنا محمد (ﷺ) سے ہمارے تعلقات کو کیوں نہ دیکھ پائے ؟ وہ اس دنیا میں ہمارے وجود کی اہمیت کیوں نہ دیکھ سکے؟ اور وہی لوگ آذان دےرہے تھے اور دعائیں مانگ رہے تھے۔ منکرین کو بھول جایئے، اِس کا منکرین سے کوئی تعلق نہیں ؛ منکر تو مانتے نہیں اور وہ یقین کرتے ہیں جس پر وہ یقین کرنا چاہتے ہیں، وہ ٹھیک ہے۔ لیکن نام نہاد 'ایمان‘ کے لوگ ، وہ امام حسینؑ کے نور کو کیونکر نہ دیکھ پائے؟
پھر امام حسینؑ ہماری زندگیوں میں تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں ، "ہاں ، برے کردار کی وجہ سے۔" اس برے کردار نے سیدنا محمد (ﷺ) کے اہل خانہ کو شہید کرنے کی حد تک اُکسا دیا۔ تو جب لوگ یہ نہیں سوچتے کہ ان کا برا کردار ایک مسئلہ ہے ، اور کہتے ہیں: مجھے اپنے برے کردار کے خلاف کیوں لڑنا ہے؟ مجھے اپنے غصے اور حسد سے لڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ امام حسین ؑ فر ماتے ہیں "ان سبھی نے میری کربلا کو جنم دیا۔ "انہوں نے یہ روشنی کیوں نہ دیکھی کہ وہ سیدنا محمد (ﷺ)کے نور کو تھامے ہوئے ہیں؟ کیونکہ وہ حسد میں مبتلا تھے۔
Root of everything is Fire of Anger
ہر چیز (برائی )کی جڑ غصے کی آگ ہے:
وہ چاہتے ہیں کہ ہم یہ سمجھیں کہ ہر چیز (برائی )کی جڑ آگ ہے۔ لہذا جس کسی کے پاس بھی آگ ہے ، جب وہ آگ دل میں سلگتی ہے ، تو یہ تمہاری بھٹی کو ’پائلٹ لائٹ‘ (آگ کی تیلی ) جلانے کی مانند ہے۔ اگر ہم اس ’پائلٹ لائٹ‘ کو باہر نہیں نکالتے اور اسے ختم نہیں کرتے تو ہر برا کردار اس ’پائلٹ لائٹ‘ کیلئے گیس کی طرح ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صلوٰۃ نجات ہے اور صلوٰۃ نجات کی اہمیت ہے کہ نماز تہجد پڑھنے کے بعد اور ساری دعایئں جو فجر کے وقت پڑھی جاتی ہے ۔صلوٰۃ نجات "نجات کی نماز" کہ اس سجدے میں ہم دعا کرتے ہیں کہ" یا ربی اس غصے کو دور کر دیجئے ،اس آگ کو دور کر دیجئے ، اس جڑ کو دور کر دیجئے ۔ شیطانی آگ ، وہ آتش نہیں جس میں جلنے (تھامنے ) کا حکم اللہ (عزوجل)چاہتا ہے ۔ یہ غصے کی شیطانی آگ ہے جو بلاوجہ باہر آتی ہے۔
صلوٰۃ نجات کی دعا
]يَا رَبِّي كَمَا تأكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ هَكَذَا الْحَسَدُ المُتَأصِّلُ فيِّ يَأكُلُ جَمِيْعِ أَعْمَالِيْ. يَا رَبِّي خَلِّصْنِيْ مِنْهُ وَمِنَ الْغَضَبِ النَفْسَانِي، وَمِنْ نَفْسٍ الْطِفْلٍ المَذْمُومَةِ، وَمِنَ الْأَخْلَاقِ الْذَمِيْمَة. وَيَا رَبِّي بَدِّلْ كُلُّ أخْلَاقِي إِلَى أَخْلَاقٍ حَمِيْدَةِ وَأفْعَالٍ حَسَنَةْ[
"اے میرے رب! جس طرح آگ لکڑی کھا جاتی ہے ، اسی طرح حسد نے مجھے جکڑا ہوا ہے ، وہ میرے سارے اعمال بھسم کر دیتا ہے۔ اے میرے رب مجھے اس (حسد) سے پاک فرما ۔ اور مجھے میرےنفس کےغضب سے بھی نجات دے ۔ اے میرے پروردگار ، مجھے ملامت والے نفسِ طفل اور قابل مذمت آداب سے بھی چھٹکارا دیجیئے ۔ اور ، اے میرے رب ، میرے سارے آداب کو قابل تعریف آداب اور اچھے اعمال میں بدل دیجیئے۔"
جیسے ہی حسد آتا ہے غصے کی وہ ’پائلٹ لائٹ‘ تیل کی طرح ہے۔ وہ اُن (امام حسین ؑ) کے مقام کے حاسد ہو گئے ، اُن کے سیدنا محمد (ﷺ)کے ساتھ تعلق سے حسد کرتے ، جس کے وہ نمائندہ تھے، اس سے حسد کرتے ۔ فورا ہی وہ آگ ، اُس تیل کی لپیٹ میں آگئی اور وہ حسد کی آگ میں جل اُٹھے اور اس حسد نے انہیں یہ دیکھنے سے روک دیا کہ وہ کیا کرنے والے ہیں۔ اُس (حسد) نے اُنھیں یہ سمجھنے سے روک دیا کہ وہ کیا کرنے والے ہیں اور وہ شیاطین کے ساتھ گئے اور سیدنا محمد (ﷺ) کے اہل بیت کو شہید کر دیا۔ ان میں سے بہت سے نوجوان سیدنا محمد (ﷺ) کی عین شبیہہ تھے ۔ جس کو وہ پکار رہے تھے اور آذان دے رہے تھے اور اللہ (عزوجل)کی تعریف کر رہے تھے ، اُنہی کے سامنے، اُن کو شہید کررہے تھے۔ شیطان لوگوں سے اس حد تک کھیل سکتا ہے اور تباہ کرسکتا ہے۔ تو اب ذرا تصور کیجئے کہ ان کو دیکھے بغیر ، ان کے ساتھ کے بغیر ، اس تقدس کے بغیر ، ہمارے پاس کیا بچتا ہے؟ جب دنیا آگ سے بھری ہوئی ہے اور دنیا برے کردار سے بھری ہوئی ہے۔ اور ہر ایک کی خواہش ہے کہ اُن کی آگ بڑھتی رہے اور پھر وہ (آگ) سب پر ظلم کرے ، مار پیٹ کرے اور قتل کرنا شروع کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دنیا کا خاتمہ(آخری دور) ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ یہ اہم زندگیاں اور یہ اہم واقعات مذہبی حدود سے بالاتر ہیں۔ یہ صرف ایک ہی مذہب کے لئے (پیغام ) نہیں ۔ تمام مذاہب کو یہ داستان یاد رہی۔ یہ پوری انسانیت کیلئے ایک داستان ہے اور یہ ایک لازوال داستان ہے کہ اگر تم اپنے غم و غصے پر قابو نہیں پا رہے تو ، سیدنا محمد (ﷺ)کے خلاف تمہارے یزید اور تمہارے شیطان، آئیں گے اور سیدنا محمد (ﷺ)کے اہل بیت کے خلاف کھڑے ہو ہونگے اور اس دنیا کے 'اولوالامر ' (اولیا)کے خلاف آئیں گے ۔ اور جیسا کہ تم پوری دنیا میں دیکھ رہے ہو کہ وہ یہی سب کچھ کر رہے ہیں۔ وہ تمام پرہیزگار لوگوں سے لڑتے ہیں ، وہ تمام اصل اہل بیت سے لڑتے ہیں۔ شیطان مکمل حملہ آور ہے اور حتی کہ اب تمام (مقدس ) مقامات میں جا رہا ہے اور مقامات کو جلا رہا ہے اور مقامات کو تباہ کر رہا ہے۔ ہم جس زندگی اور جس دور میں جی رہے ہیں وہ اتنے خطرناک دن ہیں۔
Imam Hussain (as) is Crying for Us – The Yazid within us
امام حسینؑ ہمارے لئے روتے ہیں —ہمارے اندر بھی ایک یزید ہے :
اولیا اللہ ہماری زندگی میں تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ پھر (اپنے ) اس کردار کو یاد رکھیں۔ جب بھی تمہیں غصہ آتا ہے اور تم غصہ ظاہر کرتے ہو ، تم یزید ہو ، یزید سے بھی بدتر ہو ، تم شیطان ہو۔ امام حسینؑ نیک لوگوں کو یاد دلاتے ہیں۔ "یہ ٹھیک ہے کہ آپ میرے (غم) میں رؤئیں لیکن مجھے تو جنت مل چکی۔ میں جنت کے مالکان میں سے ہوں ، قرآن مجید کے مالکوں میں سے ہوں ، میں " سید الشہداء " ہوں ، لیکن میں تمہارے لیئے رو رہا ہوں۔ میں تمہارے لیئے فریاد کررہا ہوں کہ تم ' اپنے یزید' کے ظلم و ستم کا شکار ہو ۔ تم اپنے اندر موجود شیطان کے جبر میں قید ہو اور تمہیں اس شیطان سے لڑنا چاہئے۔ کہ کیا تم نے میری لڑائی دیکھی؟ اور تم نے دیکھا کہ میں اللہ ( عزوجل) کی خاطر، سیدنا محمد (ﷺ) کی محبت کی خاطر، سیدنا محمد (ﷺ) کی سنت کی محبت کیلئے ، کیسی قربانی دینے کو تیار تھا؟ میں نے قربانی دی اور سب کچھ سامنے میز پر دھر دیا ، تو پھر تم اپنے برے کردار کو اپنے اندر کیوں رہنے دیتے ہو ؟"
اسی لئے تم ان سانحات پر روتے ہو لیکن مجھے لگتا ہے کہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امام حسینؑ ہمارے لئے روتے ہیں اور ہم جس چیز سے گزر رہے ہیں کہ اگر تم اپنا غصہ ختم کرنے پر راضی نہیں ، اگر تم برے کردار کو ختم کرنے پر راضی نہیں ، اگر تم حسد ، جلن ، کاہلی ، کسی بھی قسم کے برے کردار کے خلاف کھڑے ہونے پر راضی نہیں تو یہ (برا کردار ) تمہیں اُس کے خلاف کر دے گا جس سے تم سب سے زیادہ محبت کرتے ہو۔ کیونکہ تم پیغمبر اکرم(ﷺ)کے خلاف کھڑے ہوجاؤ گے، تم نبی کریم (ﷺ) کے حکم کی خلاف ورزی کرو گے ۔ تم ہر اس چیز کے خلاف ہو جاؤ گےجس کے بارے میں تمہیں لگتا ہے کہ تم محبت کرتے ہو اور ایک پلک جھپکنے کی دیر میں تم کچھ ایسا کرگزرتے ہو جس کا پچھتاوا تمہیں ہمیشہ رہتا ہے۔ وہ رسول اللہ (ﷺ) کا سامنا کس منہ سے کریں گے ؟ کیا جواب دیں گے ؟ کیا کوئی 'سوری 'ہے جو تم سیدنا محمد (ﷺ) کے دربارمیں کہہ سکتے ہو؟
یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگیوں میں تزکیہ کا راستہ اور تزکیہ کا طریقہ اس قدر اہم ہ،کہ ہم لگاتار اپنا محاسبہ کریں۔ آج یہ تمہارا باس ہے جس سے تم لڑ رہے ہو ، لوگوں سے لڑرہے ہو، جن لوگوں کے ساتھ تم کام کرتے ہیں ان سے لڑ رہے ہو ، کل یہ (رویہ ) سب کے ساتھ ہو گا اور ہر ایک اس ظلم کی آگ میں جل جائے گا۔
Shaitan within you comes against Sunnah of Sayyidina Muhammad (saws)سیدنا محمد (ﷺ)کی سنت کے خلاف تمہارے اندر موجود شیطان بغاوت کرتا ہے:
سیدنا محمد (ﷺ) کے خلاف تمہارے اندر کا شیطان بغاوت کرتا ہے ۔ سیدنا محمد (ﷺ) کی سنت کے خلاف میرے اندر موجود شیطان حملہ آور ہے ۔ میرے اندر موجود شیطان ہر چیز کے خلاف کھڑاہے اور سیدنا محمد (ﷺ) کے ہر احترام کے خلاف ہے۔ جب بھی کوئی کہتا ہے ، " آخر میں درود شریف پڑھتے ہوئے آپ کیوں کھڑے ہوتے ہیں؟" کھڑے ہونا ایک عام سی احترام ( کی علامت) ہے اور شیطان اِس کو روکنا چاہتا ہے۔ پھر امام حسینؑ کی حیات ِ مبارکہ پر غور کیجئ۔ انہوں نے کس طرح قربانی دی؟ وہ کیسے لڑے؟ ان کے اور رسول اللہ (ﷺ)کی محبت کے درمیان کوئی حائل ہو سکتا، یہ ممکن نہ تھا ۔
"میری سنت کو زندہ کرنے والا مجھ سے پیار کرتا ہے ، اور جو واقعی مجھ سے محبت کرتا ہے وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔" حضرت محمد (ﷺ)
ہمارے لئے ، (ہم کہتے ہیں) شاید میں داڑھی نہ رکھوں کیونکہ یہ مشہور نہیں ہے ؛ ہوسکتا ہے کہ میں اپنی ٹوپی نہ پہنوں ، یہ مقبول نہیں ہے ، لوگ مجھے ٹرین میں تنگ کر سکتے ہیں؛ شاید میں اپنی انگوٹھی نہ پہن سکوں ؛ اور شاید میں اپنا عصا نہ رکھ سکوں ؛ شاید میں اپنی دستار نہ پہن سکوں ؛ شاید میں سیدنا محمد (ﷺ) کی سنت چھوڑ دوں۔ اور تھوڑا تھوڑا کر کے شیطان (سنت کو ترک ) بلاک کر دیتا ہے اور حملہ آور ہوتا ہے ، بلاک کرتا ہے حملہ کرتا ہے ۔ اور ان مقدس راتوں میں وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں: اس کی ضرورت نہیں کہ تم میرے لیے(امام حسینؑ کیلئے ) خود کواس طرح مارو ،لیکن اگر تم خود کو پیٹ رہے ہو تو اپنے اندر موجود شیطان کو مارو جو ہمیں زندگی میں سیدنا محمد (ﷺ) کی محبت سے روکتا ہے؛ جو ہماری زندگیوں میں نبی کریم (ﷺ) کی حقیقت کو بلاک کرتا ہے ۔
اور یہ ہمارے لئے جدوجہد کرنے اور برے کردار کے خلاف لڑنے کی ایک یاد دہانی ہے ۔ لہذا اگر وہ تمہیں تھوڑا سا غصہ دلا دیں اور تم اپنا غصہ دکھاؤ، تو دیکھو ! تمہارا شیطان تم پر حاوی ہے۔ ہم برے کردار کی قربانی نہیں دے سکتے، اپنے جسم اور اپنی ذات کو قربان کرنا تو بہت دور کی بات ہے، تم اپنے آپ سے جھوٹ بول رہے ہو ۔ وہ ہمیں دکھا رہے ہیں کہ وہ لڑے ہیں اور انہوں نے اپنی ذات سے اور اپنے خراب کردار سے جنگ لڑی ہے، یہاں تک مقابلہ کیا کہ انہوں نے اپنے پورے جسم کو قربان کر دیا۔ ہم ، اگر ہم تمہیں تھوڑا سا زیادہ نچوڑ لیں تو تم غصہ ہوجاتے ہو اور چلے جاتے ہو۔ یعنی انسان کے اندر رحمٰن کی محبت اور سیدنا محمد (ﷺ)کی محبت سے کہیں زیادہ مضبوط شیطان ہے۔ اور نبی کریم (ﷺ)نے بیان فرمایا کہ ایمان اُس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم مجھے اپنی ذات سے زیادہ پیار نہ کرو۔ یعنی سیدنا محمد (ﷺ)کی محبت کی خاطر وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں۔
یہ اجتماعات ، یہ انجمنیں یہ سب نبی کریم (ﷺ) سے ہماری محبت اور ہماری الفت ظاہر کرنے کیلئے ہیں۔ اور ہم اپنےبچوں کو رسول اللہ (ﷺ)کے کردار کی عظمت یاد دلانے کیلئے لاتے ہیں۔ تمام اصحاب النبی وصال پا گئے (اس محبت کی خا طر شہید ہوئے )۔ ماہِ ذی الحجہ میں سیدنا عثمان ؑ اور ماہِ محرم کے آغازمیں سیدنا عمرؑ یعنی سب نبی کریم (ﷺ) کی محبت کی خاطر شہید ہوئے—اپنے مذہب کی پاسداری کرتے ہوئے ، کسی کو تکلیف پہنچانے کی وجہ سے نہیں مارے گئے۔ ان کی زندگیوں کو دیکھیں کہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچ رہی بلکہ انہوں نے قبول کیا۔سر تسلیم خم کیا اور انہوں نے تسلیم کرلیا اور انھوں نے اپنے اچھے کردار سے یہ (محبت ) دکھائی کہ آج تک تم ان کی زندگی بیان کرتے ہو کہ انہوں نے کسی کا قتل نہیں کیا۔
انہوں نے (امام حسینؑ نے ) محض فرمایا: "مجھے گزرنے دیجئے ، مجھے گھر جانے دیجئے ، میں کوئی فتنہ نہیں چاہتا" ۔ انہوں نے کہا "نہیں ، ہم آپکو یہاں صحرا کے وسط میں قتل کرنا چاہتے ہیں۔" استغفراللہ ! امام حسینؑ نے ہمیں بہترین کردار دکھایا اور یاد دلایا، کسی پر لعنت بھیجنے کی ضرورت نہیں ، کسی پر جادو کرنے کی ضرورت نہیں ، اپنی ذات سے لڑنے کے علاوہ کسی کے خلاف کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اپنی بری خواہشات سے لڑو ، (کہو) 'میں اپنی بری خواہشات کا مقابلہ کر رہا ہوں ، میں اپنے برے کردارکے خلاف کھڑا ہوں ، میرے اندر موجود شیطان کو مضبوط نہ ہونے دیجئے کہ وہ مجھے سیدنا محمد (ﷺ) کی محبت سے روک سکے '۔
Allah forgave Many Nations in `Ashura
اللہ نے عاشورہ میں بہت ساری اقوام کو معاف فرمایا
ہم ان مقدس راتوں میں دعا کرتے ہیں کہ اللہ (عزوجل)، اس عاشورہ اور ہر عشرہِ نورہ میں انوار اور توبہ کا دروازہ کھولے ۔ محرم میں ہر امت کو توبہ بخشی گئی۔ سیدنا آدمؑ کو عاشورہ کے روز کو معاف فرمایا گیا ، جب وہ دنیا میں آئے ؛ سیدنا نوحؑ کا جہاز یوم عاشورہ کو کنارے پر لگا اور معاف فرما دیا گیا؛ سیدنا ابراہیم ؑ عاشورہ میں نمرود کے ظلم و ستم سے بچا لئے گئے ؛ اور سیدنا موسٰی ؑ کیلئے سمندر ( دو حصوں ) میں تقسیم ہو گیا ۔ یعنی وہ فرعون ( کے ظلم وستم )سے نکل گئے اور اللہ (عزوجل)نے امت ِموسیٰ ؑ کو یومِ عاشورہ میں نجات دی اور نبی الکریم ( ﷺ) حبیب العظیم (ﷺ) کیلئے ، محرم ہماری ہجرت ہے، کلینڈر کا آغاز ہے ، شہرِ نور کا افتتاح ہے جس میں نبی کریم (ﷺ) کو مدینہ منورہ عطا کیا گیا ۔شہرِ انوار کا مطلب ہے کہ اُنہیں جنت کے انوارات دیئے گئے ہیں ۔ جنت کے انوارات کے مالک سیدنا محمد (ﷺ)ہیں۔
عاشورہ کی اہمیت کے بارے میں مزید معلومات کیلئے
Only Those with Good Character are With Prophet (saws)
نبی کریم (ﷺ)کے ساتھی صرف وہ ہیں جو نیک کردار والے ہیں:
تمام اصحاب النبی ( صحابہ کرام) ہماری زندگی میں تشریف لاتے ہیں اور ہمیں یاد دلاتے ہیں ، " اب ہمیں انوارات کا شہر عطا کر دیا گیا ہے ، ہماری زندگی کا مقصد ہے کہ خود کو اور اپنے خراب کردار کو قربان کردیں تاکہ ہم ان کے ساتھ اس ٹیبل (دسترخوان) پر بیٹھ سکیں۔ کیونکہ یہ اچھے اخلاق کا دستر خوان ہے،صرف عمل پر مبنی نہیں ۔یہ اچھا کردار ہے ، اچھا اخلاق ہے اور نبی کریم (ﷺ)تمہیں ایک نشست دیتے ہیں کہ میرے ساتھ ٹیبل پر بیٹھو۔ تم ان کے ساتھ عمل میں مقابلہ نہیں کرنے جا رہے ۔ تمہیں ان کو ملنے والے اجر جیسا کوئی ثواب نہیں ملنے والا لیکن صرف اچھے کردار کے ذریعے ہمیں نبی کریم (ﷺ) کے دستر خوان پر مدعو کیا جائے گا کہ نیک اور مبارک ارواح کی ایسی پاک صحبت میں بیٹھیں۔
"مجھے تمہارے آداب کو کامل کرنے کیلئے بھیجا گیا ۔" نبی کریم (ﷺ)
ہماری دعا ہے کہ اس محرم میں اللہ (عزوجل) ہمیں مغفرت کے سمندر ، نور کے سمندر عطا فرمائے اور ہمیں عاشورہ کی حقیقت عطا فرمائے، اللہ (عزوجل) ہمارے تمام بچوں اور نوجوانوں پر فیض کی بارش فرمائے اور برکت عطا فرمائے۔ اور ہمیشہ شیطان کی خواہش کا مقابلہ کرنے اور رحمان کا انتخاب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان شاء اللہ، ہمیں عاشورہ کے انوارات سے عطا فرمائے کہ ہم کچھ بھی نہیں ، ہم ضعیف خادم ہیں ، ہم صرف محبت کے دروازے سے آرہے ہیں ، سیدنا محمد (ﷺ) کی محبت ، اہل بیت النبی (ﷺ) سے محبت اور اصحاب النبی (ﷺ) کی محبت سے ، اور اولیااللہ کی محبت (کے دروازے سے آرہے ہیں)۔ اگر اللہ (عزوجل)ہم سے خوش ہے اور ہم سے محبت کرتا ہے تو ہمیں محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے نبی کریم سیدنا محمد (ﷺ) ہمارے سے خوش ہوں اور ان کا نور ہمیں ڈھانپ لے ، اُن کا قرب اور ان کی قربت( نصیب ہو) تاکہ ہمیں ان کی قریب ہو سکیں اور ہمیں اس آگ سے بچالیجئے۔
Qul ya naroo koonee bardan wa salaamun `ala ibrahim wa ahlil nabi kareem habeeb al-azheem Sayyidina Muhammad al-Mustafa, sallallahu alayhi wa sallam. Bi hurmati Muhammadul Mustafa wa bi sirri surat al Fatiha.
👑شیخ سید نورجان میراحمدی نقشبندی
( قدس اللہ سرہ)
Original Article [English]
https://nurmuhammad.com/imam-hussein-as-our-hero-fight…/
Watch:
https://www.youtube.com/watch…
https://www.youtube.com/watch?v=nkeLRjOhwrU&feature=youtu.be