
Urdu – شیخ نور جان میر احمدی قدس اللہ سرہ کے فتوحات سے اقتباس ظلمت اور تاریکی کے ان دن…
شیخ نور جان میر احمدی قدس اللہ سرہ کے فتوحات سے اقتباس
ظلمت اور تاریکی کے ان دنوں میں انسان کے لئے بہت مشکل ہے. یہ مشکل شیاطین کے بوجھ کی وجہ سے ہے جو وہ انسانوں پر لادتے ہیں. اور اس بوجھ کی وجہ سے انسان کو اپنا دین مکمل کرنا بھی مشکل ہے. کچھ لوگ کہتے ہیں، شیخ ہم روایتی علما کے پاس جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ صوفیا اور اہل تصوف میں سے ہیں اور وہ نہایت میٹھے لہجے میں بات کرتے ہیں لیکن وہ بہت سے اصول بتاتے ہیں. یہ کرو یہ نہیں کرو وہ کرو وہ نہیں ایسا کرو ویسا نہیں کرو اور بتاتے چلے جاتے ہیں اور یہ سب بہت بھاری ہو جاتا ہے. ان کی تعلیمات کا طریقہ اپ کے نقشبندی طریقے سے مختلف ہے. مولانا شیخ نے ہمیں زندگی کی مثالوں سے سکھایا ہے کہ مثال کے طور پر اگر اپ پہاڑوں پر چڑھنے کی تربیت کے اسکول میں دیکھیں تو ان کے پاس ایک دیوار ہوتی ہے اور بڑ ے درجے کہ سکول میں دیوار بہت اونچی اور اوپر سے پیچھے کی طرف پلٹتی ہوئی ہوتی ہے. اسے دیکھ کر اپ کہیں گے کہ کیسے کوئی اس دیوار کے اوپر چڑھ سکتا ہے اور پھر اونچائی میں پیچھے کی طرف لٹک سکتا ہے. یہ تب ہی ممکن ہے جب اپ کی انگلیوں میں سپائیڈرمین جیسی طاقت ہو. وہ اس مثال سے سمجھاتے ہیں کہ اولیا الله بہت مختلف ہیں ان ٩٠ویں فیصد لوگوں سے جو اس بات کا دعوہ کرتے ہیں کہ وہ صوفیا میں سے ہیں اور اہل تصوف اور تزکیہ نفس کی تربیت رکھتے ہیں. لیکن انہوں نے کوئی تفکر نہیں کیا لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سارے علوم اور ان کا علم اولیا الله کے بارے میں کتابیں پڑھ کر حاصل کیا ہوا ہے اور یہ کہ انہیں ایسے میٹھے لہجے میں بات کرنی ہے اور ایسے کرنا ہے. لیکن یہ علم کتابوں سے حاصل نہیں ہوتا اس کو حاصل کرنے کے لیے ایک مرشد کامل کی پیروی کرنا پڑتی ہے جو اپ کو دن رات روحانی طور پر توڑتا ہے وہ اپ سے مسکرا کر بات نہیں کرتا بلکہ مسلسل آزمائیش سے مسلسل ذلت سے اور مسلسل روحانی کچلنے کے عمل سے گزارتا ہے یہاں تک کہ اپ ایک پاؤڈر جیسے ہو جاتے ہیں. اتقواللہ و علیم الله کا علم کتابیں پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی تقویٰ کا یہ مقام کتابیں پڑھنے سے ملتا ہے. بلکہ مرشد کامل تقوی کے اس مقام تک لے کر جاتے ہیں کہ جہاں اپ کہیں کہ مجھے الله کا خوف ہے اور میں متقی ہوں بلکہ وہ اپ کو روحانی طور پر کچلتے ہیں اور ذلت سے آزماتے ہیں تا کہ اپ کا استقام اور مضبوطی دیکھ سکیں. یہ نہیں کہ وہ اپ کو عربی میں عبور حاصل کرنا سکھاتے ہیں یا قرآن کو یاد کرنا یا حدیث کو یاد کرنا سکھاتے ہیں. وہ اور مختلف اسکول ہیں اور مختلف حقائق ہیں اور جب الله اپ کی طرف ایک مرشد کامل بھیجتا ہے تو وہ ان میں سے بھی ہو سکتا ہے جو یہ سب سکھاتے ہیں یا ان سے ہٹ کر ایسا مرشد جو خود آزمایا گیا ہو اور وہ ایسی آزمائیش میں سے گزارا جاتا ہے کہ اس کی قوت سماعت کامل ہوتی ہے. اس کی حس بصارت کامل ہوتی ہے اور ان کی تمام احساسات کامل ہوتے ہیں. الله عزوجل خود ان کو سکھاتا ہے اور ملائکہ، اولیا، نبیین، صدقیں شہدا اور صالحین سے ان کو تعلیمات دی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ ان ارواح کا مقام حاصل کرتے ہیں جو ملکوت سے ہدایت دیتے ہیں اور ان کی حقیقت دنیاوی نہیں رہتی بلکہ نورانی حقیقت بن جاتی ہے. تو مولانا شیخ جس مثال سے سمجھا رہے ہیں کہ وہ اولیا کی ہدایت میں فرق یہ ہے کہ وہ اس پہاڑی مشق کی دیوار کے اوپر بیٹھے ہیں. اور وہ بتا رہے ہیں کہ اس رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور جب اپ ان کی رسی کو مضبوطی سے پکڑتے ہو تو وہ صرف یہ کہتے ہی کہ اپ محبّت کا راستہ اپنائیں اور اگر اپ محبت کا دامن چھوڑ دیں گے تو رسی اپ کے ہاتھ میں سے چھوٹ جائے گی. شیطان مسلسل اپ کو بہکا رہا ہے کہ اس رسی کو چھوڑ دو اس رسی کو چھوڑ دو، جیسا کہ اس طرح نہ کرنے سے اپ اسے نقصان پہنچا رہے ہیں. یہ شیخ کامل نہیں ہے اس کا راستہ حق نہیں ہے اور شیطان بس یہی چاہتا ہے کہ اپ یہ رسی چھوڑ دو. اس لئے اولیا صرف اعلی اخلاقی قدروں کو اپنانے کی تعلیم دیتے ہیں.
جب اپ ان کی محفل میں محبت سے اور بہترین اخلاق سے بیٹھتے ہیں تو اولیا الله کی نظر میں روحانی فراست ہوتی ہے. ان کی روحانی نظر کمرے کو ارواح سے بھرا ہویا دیکھتے ہیں. وہ اپنی روحانی نظر سے اپ کے ساتھ اپ کی روحانی شخصیت کا وجود دیکھتے ہیں اور ان کی محفل میں ملائکہ موجود ہوتے ہیں جو شیخ کے دل سے ایک نورانی رسی لے کر اپ کے دل کی طرف لاتے ہیں اور جیسے ہی اپ ان کی حاضری میں بیٹھتے ہیں وہ ایک ہک کی مدد سے اپ کا دل اس روحانی اور نورانی رسی سے باندھ لیتے ہیں اور اولیا الله بیان کرتے ہیں کہ یہ وہ رسی ہے جس کو الله نے قرآن میں حبل الله کہا ہے اور کہ ہے کہ ان کے ساتھ تفرقہ مت کرو. .اولیا الله اپ کے گرد ایک رسی ڈالتے ہیں چاہیے اپ ان کی مجلس میں حاضر ہوں یا ان کو انٹرنیٹ پر دیکھ رہے ہوں جیسے ہی اپ کی ان پر نظر پڑتی ہے یا اپ کا دھیان ان کی طرف ہوتا ہے وہ اپ کے دل کو ایک رسی سے باندھ لیں گے جو اپ کے دل اور روح کے گرد ہے. ان کی ہدایت کا طریقہ یہ ہے کہ اپ اعلی اخلاق کا مظاھرہ کریں اور ان کے ساتھ محبت کا راستہ رکھیں اور اپنے دینی فرائض کو احسن طریقے سے نبھانے کی کوشش کریں تا کہ اپ الله کو راضی رکھ سکیں. اور وہ اس بات کے ذمے دار نہیں ہیں کہ اپ کو ان لوگوں کی طرح اصول و ضوابط بتاتے رہیں جو خود کبھی اس پہاڑی مشق کی دیوار پر نہیں چڑھے کیوں کہ وہ خود ابھی اوپر چڑھنے کی جدوجہد میں ہیں اور وہ صرف دور سے طلبا کو بتا رہے ہے کہ وہاں بھی جگہ ہے جہاں تم ہاتھ رکھ سکتے ہو وہاں بھی جگہ ہے جہاں تم پاؤں رکھ سکتے ہو وہاں بھی جگہ ہے جہاں تم ہاتھ رکھ سکتے ہو اوروہ اپنے بیانات میں بہت سے اصول اور قوانین بتاتے ہیں کہ اپ کو یہ کرنا چاہئے یہ نہیں کرنا چاہئے . در اصل وہ دور بیٹھے اپ کو اس دیوار کے بارے میں بتا رہے ہیں جو کہ آجکل کے دور میں نہایت خطرناک ہے. اولیا الله جانتے ہیں کہ آج کے اس دور میں شیطان نے پہلے سے ہی انسان کے اوپر ٢٠٠ پونڈ کا بوجھ ڈال رکھا ہے. اور انسان اس بھاری بوجھ کے ساتھ اس دیوار کو دیکھ رہا ہے. یہ بوجھ برے کردار کی وجہ سے بری خواہشات کی وجہ سے ٹیلی ویژن اور ٹیلیفون کے ذریے بری خوراک کے ذریعے اور ہر طریقے سے انسان کے اوپر اثر انداز ہو رہا ہے. . جب انسان اس٢٠٠ پونڈ کے بوجھ کے ساتھ اس دیوار کو دیکھتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے اس پر اتنا ہی اور بوجھ ڈال دیا گیا ہو. ایسے میں اس دیوار پر چڑھنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر اتا ہے. وہ اس راستے سے دور بھاگتا ہے اور بمشکل اپنے دینی فرائض کو ادا کرتا ہے اور روحانی محفلوں میں انے سے کتراتا ہے. حکمت والی ہدایت میں فرق ہے وہ اپ کو اصول اور قوانین کے بارے میں اتنا نہیں بتاتے بلکہ کہتے ہیں کہ محبت کے راستے کے بارے میں سوچو اور محبت کے راستے کو اپنانے کی تلقین کرتے ہیں اور الله کے فرائض کی ادائیگی کو ادا کرنے کی تعلیم دیتے ہیں اور جیسا کہ الله نے قرآن میں فرمایا کہ اس بات کے بارے میں مت پوچھو جو تمھیں نقصان پہنچاۓ. تو اپ اتنے سوال مت کرو اور اتنے اصول اور وظائف کے بارے میں مت پوچھو جن پر تم عمل پیرا نہیں ہو سکتے. ان وظائف کے بارے میں مت پوچھو جن کا پاس اپ نہیں رکھ سکتے. ایسی باتوں کے بارے میں مت سوال کرو کہ تمھیں اس کے بارے میں جوابدہ ہونا پڑے .بہتر ہے اپ کم علم رہو اور رسی کو محبت کے ساتھ مضبوطی سے تھامے رکھو اور وہ اپ کو دکھائیں گے کہ وہ اپ کو اوپر کھینچیں گے وہ اپ کو اوپر کھینچیں گے. اس رسی کو مت کاٹو اور وہ صرف اپ سے یہ چاہتے ہیں کہ اپ محبت کا راستہ رکھو اور رسی کو نہ کاٹو. یہ کوئی مشکل نہیں ہے ان کے لئے اپ کو اوپر کھینچنا کوئی مشکل نہیں ہے. الله کی عزت کے سامنے رسول الله ﷺ کی عزت کے سامنے عزت المومنین کے سامنے یہ ایک قطرے سے زیادہ مشکل نہیں ہے . عزت الله کو سمجھنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے. اولیا کی محفل میں ایک لمحے میں وہ اپ کو روحانی بلندی عطا فرما سکتے ہیں. جیسے ہی ان کی محفل کا آغاز ہوتا ہے ایک لمحے میں وہ حضور اقدس کے سامنے موجود ہوتے ہیں جیسے ہی وہ امام علی علیہ السلام کا نام لیتے ہیں تو روحانیت اسداللہ الغالب کو موجود پاتے ہیں جیسے ہی ان کی محفل کا آغاز ہوتا ہے اور ان کی روح سب کو اپنے ساتھ جوڑ کر بلندی کی طرف پرواز کر جاتی ہے. ہر مشکل ہر برائی ہر برے اخلاق کو صاف کر دیا جاتا ہے. کیا اپ یہ سمجھتے ہیں کہ کوی برائی الله کی جانب جا سکتی ہے. ہر برائی کو خاکستر کر دیا جاتا ہے.یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے . وہ پیچھے بیٹھ کر یہ نہیں کہتے کہ دیکھو یہ دیوار اتنی مشکل ہے دوسرے لوگ اس دیوار کو دیکھتے ہیں اور اس کو مشکل سمجھ کر چھوڑ جاتے کیوں کہ اس نے ابھی تک اس دیوار کو خود بھی سر نہیں کیا ہوتا.
اپ مونٹ ایورسٹ کا تصور کریں جو سب سے بڑا ہے . اولیا الله کی ایک قسم پہاڑوں جیسی روحانیت رکھتی ہے. وہ بیان کرتے ہیں کہ مونٹ ایورسٹ جیسے بلند و بالا پہاڑ داصل میں زمین کو ہلنے سے اور حرکت کرنے سے روکے ہوے ہیں. الله نے پہاڑوں کو میخوں کی طرح زمین میں گاڑھ رکھا ہے ان میخوں کی طرح جن سے اپ ٹینٹ لگاتے ہیں تو کون زیادہ طاقتور ہے یہ پہاڑ یا اولیا الله. الله نے خود فرمایا اگر میں یہ قران پہاڑوں پر اتارتا تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتے لیکن سیدنا محمّد ﷺ استقامت کے ساتھ قائم رہے. اپ اندازہ کریں ان اولیا کے مقام کا جو حقیقت محمّد ﷺ سے میراث پاتے ہیں، وہ قرآن کے نور سے میراث پاتے ہیں. اور حدیث کے نور سے میراث پاتے ہیں. وہ ان حقائق کے ساتھ چلتے ہیں اس لئے وہ لوگوں کو روحانی بلندی کی طرف کھینچ سکتے ہیں اور پھر اپ تھوڑا بہت اچھا کراتے ہو تو وہ اپ کو اور اوپر کھینچتے ہیں یہاں تک کہ وہ آخری بلندی تک لے جاتے ہیں . وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ محبت کا راستہ رکھتے ہیں اور وہ لوگوں کو تھام کر بہت خوش ہوتے ہیں اور وہ بس یہی کہتے ہیں کہ اچھے عمل کرو اور وہ نرمی کے ساتھ اپ کو تھوڑا اور اوپرکھینچیں گے اوراپ کو روحانی بلندی کی طرف کھینچں گے اور آخر تک لے جائیں گے. بس شیطان یہی چاہتا ہے کہ اپ اس رسی کو کاٹ دیں اور اولیا سے دور بھاگیں اور اپ کو ہر قسم کے وسوسہ میں مبتلا کرتا ہے تا کہ اپ رسی چھوڑ دیں. تو جب الله از و جل اولیا کو حقائق سے نوازتا ہے تو وہ راشدین میں سے ہو جاتے ہیں اور رشد و ہدایت کا وصف الله ان کے لئے لکھ دیتا ہے اور ان کو ارشاد کی حقیقت سے نوازتا ہے. ہم پچھلے بیانات میں ہدایت کے ٦ درجات کے بارے میں بتا چکے ہیں. الله ان اولیا کو ان تمام درجات سے نوازتا ہے اور ان میں چھٹا درجہ ارشاد و ہدایت کا ہے اور جس کے نتیجے میں الله کی طرف سے اجازت ملتی ہے اور رسول الله ﷺ کی طرف سے اجازت ملتی ہے ان کے لیے جو اس دنیا میں الواَمر ہیں اور اس ولی کو اس کے شیخ مہدین اور راشدین کا درجہ عطا فرماتے ہیں. ہم سب سیدنا مہدی کے انتظار میں ہیں کیوں کہ وہ سب سے بڑے ہادی یا مہدی ہیں. اور مہدی دراصل محمدن ھادی ہیں اور تمام اولیا الله سیدنا مہدی کی روحانی تجلی ہیں، جب ان کا نور ان اولیا اللہ تک پنچتا ہے تو وہ مہدین بن جاتے ہیں. نبی ﷺ نے ان کو کاملین بنایا ہے اور مھدین اور راشدین کی صفت سے نوازا ہے. اور اس کے نتیجے میں وہ کاملین کے درجے پر فائز ہوتے ہیں. اور ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے درجات کے مطابق ایک دوسرے سے بڑھ کامل ہیں . الله ان کو کامل صفت سے نوازتا ہے اور ان کو ایک کامل ہدایت والا بناتا ہے. ان کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ لوگوں کو ہر طرح کا اصول و ضوابط بتاتے رہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ لوگ ان کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے. وہ اگر سارا دن بھی دین کے اصول و ضوابط بتاتے رہیں تو لوگ اپنا ایک پاؤں بھی زمین سے نہیں اٹھا سکتے. وہ صرف اتنا چاہتے ہیں لوگ وہ سب کریں جو الله ہم سے چاہتا ہے اور اعلی اخلاق کے ساتھ محبت سے اس رسی کو تھامے رکھیں اور نبی ﷺ کے ساتھ محبت کا تعلق استوار رکھیں. تو اپ اس رسی کو محبت سے تھامے رکھیں اور وہ اپ کو روحانی بلندی کی طرف کھینچتے چلے جائیں گے لیکن اگر اپ اپنی عقل استعمال کریں گے یہ کیوں نہیں ہو رہا وہ کیوں نہیں ہو رہا یا یہ شیخ مجھے فیض نہیں دے رہا تو پھر سوچیں کہ یہ ساری برکت یہ ساری فضیلت اپ تک کیسے پہنچ رہی ہے. کیا اپ کی ہوشیاری کی وجہ سے . کیا اپ سمجھتے ہیں کہ ہر ایک ڈالر ہر ایک سانس جو اپ کو عطا کی جاتی ہے ہر ایک چیز جو اپ کی طرف اتی ہے اپ کی ہوشیاری کی وجہ سے ہے. نہیں بلکہ یہ سیدنا قاسم ﷺ (محمّد) کی طرف سے عطا کی جاتی ہے. نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں الله کی طرف سے رزق تقسیم کرنے والا ہوں. سو وہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ اسی ایک رابطہ کی وجہ سے ا رہا ہے اور وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم ان کے ساتھ محبت کا راستہ رکھیں گے تو ہمیں روحانی بلندی کی طرف کھینچا جاۓ گا اور ہمیں روحانی بلندی کی طرف کھینچا جائے گا. اولیا الله کو اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپ کو بہت زیادہ اصول و ضوابط بتائیں کہ لوگ ان سے دور بھاگیں کہ وہ شیخ یا وہ صوفی بہت اصول بتاتے ہیں اور لوگ اس وجہ سے بھاگ جاتے ہیں اور کوئی ان کو روک نہیں سکتا. سو سال پہلے جو بھی دین کے اصول لوگوں کو بتاے جاتے تھے لوگ ان کو اپناتے تھے کیوں کہ ان کا عقیدہ بہت مضبوط ہوتا تھا. اب کوئی بھی کسی بھی چیز پر یقین نہیں رکھتا اور اگر اپ لوگوں کو بہت زیادہ اصول و ضوابط بتائیں گے تو وہ اتنا سب کچھ ہضم نہیں کر پائیں گے، کچھ اپنا لیں گے اور کچھ چھوڑ دیں گے.لیکن لوگ آسانی سے محبت کو اپنا سکتے ہیں اور اپنی محبت میں سچ اور خلوص کو اپنا سکتے ہیں اور اگر اپ کو محبت کا راستہ اپنآنا ہے تو اولیا الله کے ساتھ محبت کریں ان کی محبت سے خدمت کریں اور محبت سے ان کی مدد کریں اور وہ اپ کو محبت سے روحانی بلندی کی طرف کھینچیں گے..