Urdu – شیخ سیّد نورجان میراحمدی نقشبندی (ق) کے 7 فروری 2020 کے خطاب سے ایک اقتباس۔ اَع…
شیخ سیّد نورجان میراحمدی نقشبندی (ق) کے 7 فروری 2020 کے خطاب سے ایک اقتباس۔
اَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۞
اللہ عزوجل کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۞
اللہ عزوجل کے نام سے شروع کرتا ہوں جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے ۔
أَطیعُوا اللّهَ وَأَطیعُوا الرَّسُول وَأُولی الأمرِ مِنْکُمْ۞
اے ایمان والو! اللہ عزوجل کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ عزوجل علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی۔
اور انشاء اللہ ہمیشہ اپنے لیئے یاد دہانی کہ– اَناعبدُﻙ الْعَاجِزَ ضَعِيفُ مِسْكِينُ وَظَالِمٌ وَجَاہل –میں بندہِ عاجز ، ناتواں ،مسکین، ظالم اور جاہل ہوں اور اللہ عزوجل کے فضل سے میں ابھی بھی صاحبِ وجود ہوں۔ ہم نے کچھ نہ ہونے کا راستہ اختیار کیا اور اس دنیا کی ہر چیز ہمیں کچھ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جتنا زیادہ ہم کچھ نہیں ہونگے اور اللہ عزوجل کے فنا کے سمندروں میں داخل ہونگے ہیں اتنا ہی اللہ عزوجل اپنی خدائی عظمت کو کھول دے گا۔ یہ اس دنیا میں ہر چیز کے برعکس ہے اور ان اولیا اللہ کی تمام حقیقتیں قرآن پاک، احادیث پاک سے آتی ہیں اور وہ اپنے علوم لاتے ہیں اور اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو بہتر بنا سکیں کہ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ سے کہا کہ ان کے صحابہ تاریک رات میں ستاروں کی طرح ہیں اور ان میں سے جس کی بھی آپ پیروی کریں آپ کو ہدایت مل جائے گی۔
“میرے صحابہ (تاریک رات میں) ستاروں کی طرح ہیں آپ ان میں سے جس کی بھی پیروی کریں گے ، آپ کو ہدایت مل جائے گی”۔ (فرمانِ نبی ﷺ)
اولیاء اللہ ہماری زندگی میں آتے ہیں اور ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اگر نبی ﷺ یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ میرے ساتھی ستاروں، نجم کی طرح ہیں ، تو پھر یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہونی چاہئے اور ان میں سے کسی کی بھی آپ پیروی کریں گے تو ہدایت ملے گی وہ ہدایت اندھیری رات کے ستارے اور ستاروں سے آرہی ہے۔ اور یہ کہ یہ راستہ ابدی روشنی تک پہنچنے پر مبنی ہے جو اب وہ (دنیا دار لوگ) سمجھ چکے ہیں کہ ستارے ہیں، سیارے نہیں۔
سیارہ مادی دنیا ہے۔ ایک ایسی دنیا جو کہ ظاہر ہر مبنی ہے اور جسکا وجود ایتھری (گیسی) اور گیس پر مبنی ہے۔ اس مقام تک کیسے پہنچا جاۓ اور اس حقیقت کا ستارہ کیسے بنا جاۓ کیونکہ نبی ﷺ ہمارے لئے جو چاہتے تھے وہ یہ تھا کہ ہم ایک ستارہ بنیں۔ اس مقام تک پہنچیں (جہاں میں اپنے اصحابہ کو ملبوس کرتا ہوں کہ وہ سب ستارے ہیں اور میں ستارے بنانے والا ہوں)۔ وہ ﷺ جودعویٰ کررہے ہیں کہ میرے سب صحابی ستارے ہیں تو پھر نبی ﷺ کے مقام اور منزل کا تصور کریں ، اگر آپ کے ساتھ رہنے والے ستارے بن جائیں گے تو آپ اپنی حقیقت سے ستارے بنانے والے ہیں اور آپ لوگوں کے اندر دائمی حقیقت کو سامنے لانے والے ہیں یہ نبوت کی حقیقت ہے۔ نہ کہ ایک مواد (matter) بننا (ہماری حقیقت ہے اور نہ ہی یہ ) ایک جسم جو کہ ہمارا نہیں ہے جس میں ہم اس زمین پر رہتے ہیں، کھاتے ہیں اور پیتے ہیں اور مرتے ہی مٹی اور راکھ ہوجاتے ہیں۔ مادی دنیا کی ہر چیز مادی دنیا میں واپس آجاتی ہے جو ابدی ہے وہ جسمانی دائرے سے بالاتر ہوکر ملَکُوتی بن جاتی ہے اور ملکوت کے سمندروں تک جا پہنچتی ہے اور پھر اللہ (عزوجل) نے نبی ﷺ کو فرمایا قلب المومن بیت اللہ کہ یہ ستاروں کی حقیقت اُن کے دل پر مبنی ہے اور ان کے دل خدا، اللہ سبحانہ وتعالی کے گھر ہیں ۔ تو ، وہ آتے ہیں اور وہ ہمارے لئے تعلق بناتے ہیں کہ اگر ہم ایک ستارہ بننا چاہتے ہیں اور ستارے کی حقیقت تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ہر چیز دل پر مبنی ہے اگر آپکا ایک حصہ اچھا ہےآپ پورے طورپر اچھے ہیں ، اگر گوشت کا ایک ٹکڑا خراب ہے تو آپ سارے کے سارے خراب ہیں اور نبی ﷺ بیان کرتے ہیں۔
“بے شک، جسم میں ایک ٹکڑا ہے ، وہ اگر صحیح ہے تو ، پورا جسم مستحکم ہے ، اور اگر یہ خراب ہے تو ، پورا جسم فاسد ہے۔ بے شک وہ دل ہے۔”
اور یہ (حصہ) قلب ہے۔ مغز نہیں، سر نہیں، جسم کا کوئی حصہ نہیں، (قلب بیت اللہ ہے،) لیکن اللہ عزوجل دل کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِىٓ ءَادَمَ
“وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِىٓ ءَادَمَ وَحَمَلْنَٰهُمْ فِى ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ وَرَزَقْنَٰهُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَٰتِ وَفَضَّلْنَٰهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا۔ “( سورت الاسراء ۷۰)
“اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو زمین اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی” (سورة اسراء ٧٠)
کہ میں نے اس تخلیق کو عزت بخشی کیوں کہ میں نے ان کے لئیے ان کے وجود میں ہی اپنا گھر بنا دیا ہے۔ میں نے یہ زرافے کو نہیں دیا ، میں نے گوریلا کو نہیں دیا ، میں نے جن کو نہیں دیا لیکن مومن کے قلب کو جو مکمل حقیقت تک پہنچ سکتا ہے ، کچھ مومن جن ہیں جو اس تفہیم تک پہنچ سکتے ہیں یہ بڑا عظیم تحفہ جو اللہ (عزوجل) نے انسان کو دیا ہے، میں نے آپ کو ایک دل دیا جو میری حقیقت تک پہنچ سکتا ہے میں نے آپ کو ایک دل عطا کیا ، جو اپنی حقیقتوں اور میری آسمانی سلطنت تک پہنچ سکتا ہے اور محمدﷺ آتے ہیں اور پھر ہمیں سکھا تے ہیں کہ ایک ستارہ بنو۔ جو ابدی ہے وہ بنو۔ وہ ستارہ جو روشنی دیتا ہے اور اپنا وجود کھو دیتا ہے پھر ستارے کی یہ حقیقت “دل کے لیولز(levels of the heart )” ہے۔ یہ لطائف القلب اللہ عزوجل کے گھر کی حقیقت کے بارے میں ہیں کہ اگر ہم اللہ عزوجل کے گھر میں داخل ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ عزوجل کے گھر کا مطالعہ کرنا ہوگا وہی ہے جس کا آپ مطالعہ کرتے ہیں اور جس کی حقیقت میں آپ داخل ہوتے ہیں تاکہ وہ مومنین کے دل پر ظاہر ہو سکے تاکہ ان کا دل اللہ عزوجل کا گھر بن سکے۔ لہذا ، کچھ لوگ یہ نہیں سمجھ سکتے ہیں کہ لطائف کا مقصد کیا ہے اور کیا رسول اللہ محمدﷺ یہ سب لائے؟ یقینا ہر علم سیدنا محمدﷺ کا ہے۔ نبی اکرمﷺ کتاب؛ (یعنی) القرآن لائے اور اسی ایک قرآن پاک سے لاکھوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ لہذا ، آپ یہ نہیں بتا سکتے کہ ہر کتاب۔۔۔ کم ذہن لوگوں کو کوئی پروا نہیں ، وہ کہتے ہیں ، “اوہ ، کیا نبی محمدﷺ نے یہ کہا ، نبی ﷺ نے کیا کہا تھا؟”۔ اوہ ، ہاں ، وہ ایک حیرت انگیز حقیقت لاۓ جسے ہم قرآن پاک کہتے ہیں۔ اسی سے ہر حقیقت کی بنیاد ، ہر صحابی ، ہر اہل بیت ، ہر ولی ، تمام صالحین نے اللہ عزوجل کے اس سمندر سے لیا اور تمام خوبصورت حقائق کو ابھارا۔ وہ جسکی وضاحت اللہ عزوجل “کوثر” کہہ کر کرتا ہے۔ وہ لوگ نہیں جانتے اس وقت یہ منظرعام پر آرہا ہے۔ یہ تحفہ جو میں نے سیدنا محمد ﷺ کو دیا ہے۔ یہ بے تحاشہ بہار کا چشمہ ہوگا۔ نہ صرف دُنیا بلکہ ساری زندگی ، اس کی ساری مشقتیں ، اس کی تمام حقیقتیں ، اس کی ساری طاقتیں ایک لفظ سے ابدی طور پر بہتی رہیں گی جس سے وہ شاندار سمندروں کو نکال سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب وہ ان نعت شریف کی تلاوت کرتے ہیں خاص طور پر فارسی والی میں وہ امام جعفر الصادق (ع) کے بارے میں بات کرنا شروع کردیتے ہیں اور کوئی ایسا انسان جسے علم نہیں آپ کو سمجھ نہیں سکتا (سوال کر بیٹھتا ہے) کہ آپ انہیں (حضرت جعفر (ع) کو) قرآن کی روشنی کیوں کہتے ہیں؟ (درحقیقت) آپ قرآن کا راز ہیں! (وہ لوگ ایسے سوال اس وجہ سے کرتے ہیں) کیوں کہ انہیں سمجھ نہیں آتی ہے کہ قرآن کیا ہے۔ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ ،
وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ
اور ہم نے ان (پیغمبر) کو شعر گوئی نہیں سکھائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے۔ یہ تو محض نصیحت اور صاف صاف قرآن (پُرازحکمت) ہے ( سورة یسین ٦٩:٣٦)
اللہ عزوجل “ھو” کی وضاحت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کی روح ذکر ہے، تمام السموات والأرض کا ذکر ہے کیونکہ جب آپ نبی پاک ﷺ کا ذکر کرتے ہیں تو آپ اللہ عزوجل کی حمد بیان کرتے ہیں کیونکہ آپ ﷺ کو یاد کرنے کے لیئے آپکو کہنا پڑتا ہے اللھم صل على سیدنا محمد ﷺ و علی ال سیدنا محمد ﷺ ۔
“ورفعنا لک ذکرک” زمین پر موجود اُن لوگوں کے لئے نہیں ہے جو بحث کرتے ہیں کہ اوہ ہمیں میلاد کرنا چاہئے ، ہمیں میلاد نہیں کرنا چاہئے ، ہمیں چاہئے … نہیں ، نہیں ، یہ سیدنا جبرائیل علَيْهِ ٱلسَّلَامُ کی منزل سے اوپر ملکوت کے لوگوں کے لئے ہے۔ (وہ) حیران ہیں اس پر جو اللہ (عزوجل) نے اس نور کو دیا ، اس نور کا اختیار ، اس نور کی طاقت اور پھر اللہ (عزوجل) (کہتے ہیں) ورفعنا ؛ میں نے آپ ﷺ کی یاد ، آپ ﷺ کا ذکر ، آپ ﷺ کی حقیقت کو اس دنیا میں کسی بھی چیز کی سمجھ سے بالاتر کردیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں (کہ آپ ﷺ) ذکر مبین ، اور میرا واضح قرآن ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل منزل القرآن ہے۔ یہ قرآن ابد کی جو (تجلی) جاری کرتا ہے ، وہ سیدنا محمد ﷺ کی روح سے جاری ہوتی ہے۔ تو یہ بہت بڑی چیز ہے۔ لہذا ، ایک ستارہ بننا، ایک راستہ اختیار کرنا جس میں (آپ یوں درخواست گزار ہوں کہ) یا ربی میں اللہ (عزوجل) کے گھر ، اس قلب کو سمجھنا چاہتا ہوں۔ تو ، پھر وہ (اولیاء اللہ) آکر لطائف القلب پر کتاب پڑھاتے ہیں اور لطائف القلب کی تعلیمات اللہ عزوجل کے گھر کے بارے میں ہے۔ اللہ (عزوجل) کے گھر کو کیسے سمجھا جائے۔ اللہ عزوجل کے گھر کے اندر کیا حقیقت ہے اور اس حقیقت کو کیسے حاصل کیا جائے؟ ستارہ کیسے بنیں؟ اس کا مطلب ہے پھر ہمارا کوئی مواد ہے اور ہم مادے سے تخلیق کئے گئےہیں ۔ ہمارے پاس مادے کی 3 حالتیں ہیں: ٹھوس، مائع، اور گیس۔ طریقہ آکر ایک حقیقت صرف بیان نہیں کرتا بلکہ وہ آپ کو حقیقت تک پہنچانا چاہتا ہے۔ یہ اسکول کا فلسفہ نہیں ہے ، پروفیسر کسی ایسی چیز کے بارے میں بات کرتا ہے جسے وہ نہیں جانتا اور ہر ایک کو نیند آ جاتی ہے۔ لیکن وہ (اولیاءاللہ) چاہتے ہیں کہ اس حقیقت کو حاصل کیا جائے۔ لہذا ، اگر آپ مادی شکل چھوڑ کر روشنی کی دنیا میں ستارہ بننے جارہے ہیں تو وہ مادے کی 3 حالتوں کو سمجھتے ہیں۔ آپ کی مادی حالت ، آپ کی آبی حالت اور گیس کی حالت۔ مادی حالت ایک ایسی حالت ہے جس میں آپ صرف اپنی بات سنتے ہیں اور آپ کند ذہن (ضدّی) فطرت کے حامل ہوتے ہیں اور مولانا شیخ ناظم (ق) کا کہنا ہے کہ آپ کند ذہن (squareheaded) والے لوگ ہیں ،کند ذہن والا شخص ، کسی کی بات نہیں سنتا ، کسی چیز کے لئیے بھی مناسب نہیں ہوتا۔ کیونکہ آپ کا ذہن بند ہے۔
ان تمام جملوں پر نگاہ ڈالیں جو انگریزی زبان میں آپ کے پاس ہیں۔ (مغرور اور انا پرست لوگ کہتے ہیں کہ) انا ربی الاعلی میں سب سے برتر ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف وہ ( اناپرست ) خود کے بارے میں سوچتا ہے یا وہ سوچتی ہے ، ہر کوئی خود کو سب سے بڑا سمجھتا ہے لیکن اپنے آپ کو جاننے کی حقیقت ، کیا میں کند ذہن ہوں؟ کیا میں مائع ہوں؟ اور کیا میں واقعی سوچتا ہوں کہ میں گیسی حالت میں ہوں؟ آپ کے جسم میں گیس ہو سکتی ہےلیکن یہ وہ حقیقت نہیں ہے (جس کی ہم بات کر رہے ہیں)۔ یہ ایتھری (ethereal) حقیقت ہے۔ جس میں آپ کو ایک لمحے میں آپکے جسم سے نکالا جا سکتا ہے۔ مادی حالت یہ ہے کہ آپ ذہن (سے کام لینے) والے ہیں اور آپ اپنے دماغ میں بہت زیادہ سوچتے ہیں اور آپ اپنے دماغ کے ذریعے سب کچھ سوچتے ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ اپنے سر کے ذریعہ ہر ایک مسئلہ حل کردیں گے اور پھر اللہ (عزوجل) جب وہ رہنمائی کرنا چاہتا ہے وہ آپ کو شمس کے پاس بھیجتا ہے۔ لہذا ، سیدنا جلال الدین ایک بیرونی اسکالر تھے اور بہت درشت ، بہت سخت ، بہت کٹر تھے اور اللہ (عزوجل) نے شمس التبریز کو بھیجا۔ یہ سب فارسی سے ہے ، مقامات پر تمام تصانیف فارسی میں تھیں۔ شمس سورج ہے ، تبریز سب سے زیادہ گرمی ہے ، جو اس آگ کا سب سے اونچا مقام ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس نے اسے شمس بھیجا کہ ہر ولی اور ہر اولیاء اور شیخ ان کی مختلف ذمہ داریاں ہیں لیکن اس حقیقت (سلسلۂ نقشبندیہ) کے شیخ ایک سورج کی مانند ہیں۔ وہ بے حد روشنی پیدا کرتے ہیں۔
اس زندگی میں ، اس دنیا میں آپ کے مزاج میں مزاح ہونا چاہیے۔ یہ سخت اور درشت ہونے کے بارے میں نہیں ہے ، یہ بہت محبت کرنے والا ہونے کے بارے میں ہے۔ اس حقیقت کے ان مشائخ نے لوگوں اور ان کے کردار اور ان کی فطرت کے ہاتھوں زبردست مشکلات برداشت کیں اور ان کی فطرت ہمیشہ بہت ہی پیار کرنے والی اور مہربان رہی۔ وہ سخت اور درشت لوگ نہیں ہیں۔ سورج ایسی چیز ہے جس کی روشنی بے تحاشہ ہے ظاہری سورج کے بارے میں سوچیں اور تصور کریں کہ اولیا اس سورج سے کس قدر زیادہ طاقتور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ میں نے سورج کو عزت بخشی ، (بلکہ وہ کہتا ہے کہ) میں نے آپ کو عزت بخشی نہ کہ سورج کو۔ اور وہ سورج صرف آپ کے مقام کی علامت تھا کیونکہ سیدنا یوسف نے کہا کہ اللہ عزوجل نے سورج ، چاند اور گیارہ سیاروں کو میرے قابو میں رکھا ہے ، میرے پیروں تلے رکھا۔ یہ منزل ان سیاروں کی انچارج تھی اور یہ اللہ (عزوجل) کے لئیے کوئی بڑی چیز نہیں ہے ، لوگ سمجھتے ہیں کہ فرشتے اس کو انجام دے رہے ہیں۔ فرشتہ کے اوپر انبیاء ہیں لہذا یہ مقام ہیں جن کے وہ وارث بن سکتے ہیں کیونکہ اولیا بنی اسرائیل کے انبیا کرام کے وارث ہیں لہذا ابھی ایک ولی اس وقت سورج ، چاند اور گیارہ سیاروں کے مقام کا انچارج ہے اگرچہ ناسا (NASA) نے ایک سیارہ الگ قرار دیا ، پلوٹو لیکن پلوٹو ابھی بھی ان کے اختیار میں ہے ، دنیا والے اپنا خیال بدلتے رہتے ہیں کیونکہ انہیں کچھ پتہ نہیں ہے۔ چنانچہ شمس التبریز کی یہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ (عزوجل) ہمیں ان مشائخ کی طرف راغب کرے کہ ان کی روح سے نکلنے والی حرارت اور توانائی ایک مادی چیز کو پگھلا دے گی اور پانی بنا دے گی۔ اللہ (عزوجل) کی عزت اور قوت ، عزت الرسول ، عزت اللہ ، عزت المومینین کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ شیخ کے ساتھ ملیں گے ، طروق کے ساتھ ہوں گے تو اناپرست ذہنیت کبھی بھی شیخ کے ساتھ کام نہیں کرے گی۔ یا تو وہ آپ کو توڑ ڈالیں گے یا آپ بھاگ جائیں گے لیکن ان کے ساتھ آپ کی اناپرست ذہنیت نہیں چلے گی ، آپ کو انھیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ کیا کریں ، آپ اپنی سوچ ، اپنے عقائد اور اپنی تفہیم کوان پر مسلط نہیں کر سکتے۔
اپنی فطرت کی وجہ سے اگرچہ آپ ٹھیک ہی کہتے ہیں تو وہ کہیں گے کہ آپ غلط ہیں ، کیوں؟ اپکے کونوں کو دور کرنے کے لئیے کسی مادی اور چکور شکل والی کسی چیز کو بدلنا بہت آسان ہے اور آپ صرف کناروں کو کھرچتے رہیں ، کناروں کو اتارتے رہیں۔ زندگی کی ہر چیز کیونکہ اللہ (عزوجل) منزل چاہتا ہے ، شیخ ، اساتذہ محض جو تعلیم دیتے ہیں اور یہ روشنی ان کی روح سے نکلتی ہے اور آپ کو گرمی کا احساس ہوتا ہے ، آپ کو ذکر کی طاقت محسوس ہوتی ہے اور آپ جو کچھ (خدا کی راہ میں) دیتے ہیں اور آپ جو کچھ بھی کرتے ہیں اور اس میں آپ جس طرح حصہ لیتے ہیں ، اس کی آزمائش سے آپ خود کو پگھلتے ہوا محسوس کرتے ہیں۔ یہ سب آپکو توڑنے کے لئیے ہے۔ لہذا ، آپ کو یہ لگتا ہے کہ مجھے کچلا جارہا ہے ، مجھے کچلا جارہا ہے ، مجھے کچلا جارہا ہے ، یا ربی میں نے دے دیا ، میں نے کیا ، میں کرتا ہوں اور میری شناخت، کہ میں اب یہ نہیں سمجھ سکتا کہ میں کیا چاہتا ہوں ، میں نے کیا منصوبہ بنایا ، میرے اہل خانہ نے میرے لئے کیا منصوبہ بنایا۔ اس کا کوئی مطلب نہیں کیونکہ ان کے دماغ کے چکور (کے کونے) بہت مضبوط ہیں۔ ان کے دماغ میں ہر چیز کی منصوبہ بندی ہوتی ہے ، وہ (اولیا اللہ) آپ کے سر میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور آپ کی بتیوں کو بند کرنا چاہتے ہیں وہ سرمیں جاتے ہیں… اور بتیاں بند ہو جاتی ہیں اور پھر شیخ ناظم (ق) (ایسے لوگوں کے بارے میں) فرماتے تھے کہ یہ کوئی ذہن رکھنے والا شخص نہیں ہے۔ جو ایک لحاظ سے ایک تعریف بھی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ آپ اس حالت میں پہنچ رہے ہیں جس میں آپ کا دماغ واقعی بند ہو رہا ہے۔ اب کوئی شخص شاید اس کی ترجمانی اس طرح کر رہا ہے کہ میں شیخ کے کہنے والی کسی چیز کو نہیں سنوں گا۔ دماغ کا نہ ہونا دراصل یہ ہے کہ جو وہ کہیں آپ سمعنا وأطعنا (آپ نے سنا اور اطاعت کی) ہیں اور یہ ایک لمحے کے اندر ہوجاتا ہے ، وہ دو بار ، تین بار ، پانچ بار انتظار نہیں کرتے ، یہ چھ بار نہیں کہا جاتا ہے وہ سمعنا وأطعنا نہیں ہے جہاں وہ جو کچھ کہتے ہیں میں اس کے برعکس کرتا ہوں .
نہیں ،نہیں بتیاں بند ہونا یہ ہے کہ جو کچھ بھی اس امر کا ہے اور جو بھی حکم آرہا ہے ، اس بندے کے دل میں آرہا ہے، (وہ بندہ) سمعنا وأطعنا (کہے یعنی) وہ سنتے ہیں اور وہ اطاعت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اسے دماغ میں بھی نہیں جانے دیتے وہ دل میں داخل ہوتا ہے ، اور ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اگر کوئی حکم یا کوئی احکام آئے اور میرے سر میں آجائے تو وہ غائب ہوجائے گا۔ سب کچھ جو آپ کو شیخ نے بتایا ہے اگر آپ اسے اپنے سر میں پھینک دیتے ہیں ، ( تو آپ) اس کے مخالف ہو جاتے ہیں ، اس کے بارے میں سوچتے ہیں ، اس پر ذہن چلاتے ہیں۔ (اور) اظہار کرتے ہیں کہ میں اس پر اپنا ذہن چلاوں گا، اس کا کیا مطلب ہے؟ میں آپ کی ہر بات پر بحث کروں گا اور ہر کہے جانے والی چیز پر خلاف ورزی کروں گا کیونکہ آپ لائف کوڈ کی طرح ہیں ، آپ اللہ (عزوجل) کے نقاط لے رہے ہیں۔ نبی ﷺ کے نقاط حاصل کر رہے ہیں اور آپ اپنے آپ کو ان کے نقاط سے دور پا رہے ہیں۔ اگر آپ ان کی پڑھائی ہوئی ہر چیز کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس پر ذہن چلاتے ہیں اور اس کے بارے میں سوچنا چاہتے ہیں تو آپ ابھی بھی اناپرست ہیں۔ تو ، جن لوگوں نے اپنی فطرت حاصل کی ، ان کی حقیقت پگھل جائے گی۔ لہذا ، مجالس کی روشنی اور رہنمائی سے انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز ان کے مخالف ہے اور وہ اپنا دماغ بند کرنے لگتے ہیں۔ جو کچھ بھی وہ چاہتے ہیں وہ اس کے برعکس ہوتا ہے ، جو کچھ بھی وہ کرنا چاہتے ہیں اس کے بر عکس ہو جاتا ہے۔ ہر وہ چیز جس کے حصول کی کوشش کرتے ہیں اس کے برعکس ہو جاتا ہے جب تک کہ وہ شخص یہ محسوس نہ کرے کہ آہ یہ میرے لئے نہیں۔ میں کسی بھی چیز کے بارے میں نہیں سوچوں گا اور اب یہ چکور (چار کونوں والا) پگھل جائے گا۔ لہذا ، جب گرمی اس چکور پر ڈالی جاتی ہے اور یہ پانی کے سمندروں میں داخل ہوجاتا ہے۔ اب ایک بندے کے سمجھنے کیلئے مائع حالت کیا ہے؟ ہم اناپرستی کو سمجھ گئے ہیں۔ کیا میں بہت زیادہ اپنے دماغ سے کام لے رہا ہوں ، کیا میں ہر چیز کے بارے میں سوچ رہا ہوں ، تجزیہ کر رہا ہوں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ کے سربراہ کون ہیں اس بات کا تجزیہ کرنے کے لئے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں آپ اپنے دماغ سے بہت زیادہ کام لیتے ہیں، پہلے ہی آپ بہت زیادہ غور کر رہے ہیں ، “آپ کس چیز کی بات کر رہے ہیں” ، ایسا نہیں ہے ، یہ دل میں داخل ہوا ہے۔ کیونکہ جو کچھ وہ (شیخ) کہہ رہے ہیں وہ بالکل میری حالت ہے۔ جو کچھ وہ درس دے رہے ہیں وہ بالکل میری حالت ہے ، اسے میرے دماغ میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو بہت زیادہ دماغ میں ہے وہ غلط ، غلط راستہ ہے اور اللہ (عزوجل) اب یہ سب دنیا کے لئے بنا رہا ہے۔ تمام دنیا اس وقت خوف زدہ ہے۔(مثلاً کرونا وائرس )
مائع کی حالت ہماری آزمائش ہے ، دنیا اِس وقت مائع کی حالت میں ہے۔ ٹھوس ہر چیز پگھلنے والی ہے۔ ہر مشکل آکر سب توڑنے والی ہے۔ ہر ڈھیٹ دماغ کُچلا جائے گا اور اگر اللہ (عزوجل) اُنکو کچلنا چاہتا ہے تاکہ ،وہ کوئی مقام پا سکیں تو ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ (عزوجل) ہمیں مائع کی حالت میں ہی رکھے۔
مائع کی حالت ایک ایسی حالت ہے جس میں بندہ اپنے اعتراضات پر قابو پا لیتا ہے اور خاموش رہتا ہے۔ جو بھی حالت اور مقام میں اللہ اُنہیں ڈالتا ہے، وہ پانی کی طرح ڈھل جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی ٹیڑی چیز میں ایک مربع شکل کے ٹکڑے کو فٹ کرتے ہیں تو وہ فِٹ نہیں ہوتا ،آپ نہیں جانتے کہ اِس کے ساتھ کیا کیا جائے ، لیکن اگرآپ اِس میں پانی ڈالیں تو یہ ہر شگاف اور ہر جگہ چلا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ اِن کو اِنکی صلاحیت کے مطابق جس بھی حالت میں ڈالتا ہے وہ سر خم کر دیتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت کچھ نہیں کرنا ہے۔ لہذا ، وہ تسلیم کے سمندر میں داخل ہوتے ہیں اور اِن کا کردار مائع ، بہت نرم ، نہایت ہی نرم ہوتا ہے ۔ سخت اور ٹھوس چیز کو آپ پھینکتے ہیں، تو اس سے ہر ایک کو تکلیف ہوتی ہے۔ مائع اگر پھینکتے ہیں ،تو تکلیف نہیں ہوتی سوائے اِس کے کہ اب آپ گیلے ہو گئے ہیں ۔ اگر یہ پانی ہے تو وہ بخارات بن اُڑ جاتا ہے اور کوئی حرج نہیں ہوتا، اس سے کسی کو نقصان نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ وہ آگ بجھا سکتا ہے۔ اگر وہ حالتِ مائع میں ہیں تو پھر یہ حالت زیادہ اینرجی اور مزید اینرجی کے ساتھ لمحوں میں نہایت لطیف حالت میں بدل جاتا ہے کیونکہ پانی کو گیس میں لانا ایک فوری عمل ہے لیکن ٹھوس چیز کو گیس میں تبدیل کرنا ایک مشکل عمل ہے۔
لہذا ، اگر آپ مائع کی حالت میں چلے جاتے ہیں جب بھی آپ اینرجیز تک ، ذکر کے دوران تجلی یا گھر بیٹھے تجلی تک پہنچتے ہیں تو آپ مائع ہیں ، آپ کی فطرت لطیف ہے۔ جب کبھی بھی تجلی آئے گی تو آپ کو حرارت محسوس ہو گی ، آپ فوری طور پر مادی جسم کو چھوڑ دیں گے۔ جس لطیف حالت میں وہ اب سفر کر رہے ہیں اُس میں جسم میں رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ جس بھی لمحے تجلی آتی ہے وہ اپنے جسم سے باہر ہوتے ہیں اور وہ ملکوت اور اپنی روح کی حقیقت کا تجربہ کرتے ہیں۔ یہی سمجھ لوگ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں طریقہ(روحانی سلسلے) موجود ہیں۔ اصل سلسلے ، کچھ کو میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں لیکن وہ لوگ جو لوگوں کو ستارہ (کامل) بنانا چاہتے ہیں تو وہ چاہتے ہیں کہ لوگ آئیں، مدد،خدمت،تعاون کریں یہ سب آپ کےسخت(مربع) دماغ کو کچلنے کے لیے ہے اور آپ کا یہ ڈیھٹ(مربع) سر آپ کو کہیں بھی نہیں لے جانے والا اور آپ کا یہ ذہن کوئی دروازہ نہیں کھولنے والا ،لیکن جو سب کچھ کھولے گا وہ ’ کچھ بھی نہ ہونے‘ کی حالت میں داخل ہونا ہے۔
یہ انہیں مائع اور سیال بناتے ہیں جس میں وہ کہیں بھی جاسکتے ہیں ، وہ کہیں بھی سوتے ہیں اور وہ اُس تجلی سے سر خم کرتے ہیں اور اس کے بعد مسلسل لطیف فطرت کی حالت میں وہ اُس مقام سے لیتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ (عزوجل) ان حقائق کو کھولے ، سخت فطرت کو دور کرے ، کہ ہم مائع فطرت میں داخل ہوں اور لطیف حقیقت کی کیفیت کو حاصل کریں۔ اب ستارہ ، یہ سورج کی طرح ہے۔ اگر آپ مادی حالت اور ٹھوس حالت چھوڑ دیتے ہیں ،تو آپ ایک ایسی مائع حالت میں داخل ہو جاتے ہیں جو آپکو ، جلا ، جلا کر گیس کی حالت میں لے جاتی ہے اور، اب آپ ایک ستارے کی حیثیت سے اُبھر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب کی تصویروں میں اِن کے سر پر سورج ہوتا ہے ، وہ کسی صوفی یا پیغمبر کی علامت ہوتا ہے ، کیوں؟ کیونکہ وہ زمین پر ستارے تھے۔ وہ الہی روشنیوں کی روشنیاں ہیں ۔ ان کی روحیں روشن ہیں حالانکہ کوئی دیکھ نہیں سکتا سوائے اُن لوگوں کے جن کی روحانی آنکھیں دیکھتی ہیں۔
یہ ایسی روشنی نہیں ہے جس میں ہر شخص یہ محسوس کرے کہ آپ کو اُنکی روشنی کا تجربہ کرنے کے لئے ایک خاص فریکوینسی اور فطرت کا ہونا ضروری ہے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ وہ شخص کون ہے، وہ کوئی نہیں ہے لیکن اگر آپکی حقیقت اُن کے ساتھ جڑی ہے، تو آپ اس حقیقت میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اپنی ٹارچ لے اور آج رات اپنے ٹیلی ویژن چینل کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔ ہر کوئی گھر جا کر ، اپنے ٹارچ کے ساتھ کوشش کرے کہ چینل تبدیل ہو، یہ کام کیوں نہیں کرتا، یہ تو ریموٹ کی طرح کی ہی روشنی ہے۔ نہیں ، ریموٹ اس ٹی وی سے ہم آہنگ (جڑا)ہے ، ٹی وی کے اندر پروسیسر، ریموٹ کے سگنل کو تسلیم کرتا ہے ، اس کا مطلب ہے کہ وہ ایک ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ آپ کا ریموٹ ٹی وی اسٹیشن کو بدلتا ہے ٹارچ نہیں ، ٹارچ لائٹ کو ٹی وی کے لیے استعمال کریں اور آپ لوگ سوچیں گے کہ آپ پاگل ہیں۔ تو ، پھر اس حقیقت کے بارے میں جس کی وہ بات کر رہے ہیں وہ سونی(SONY) کی ٹکنالوجی سے کہیں بڑھ کر ہے۔
لہذا ، شیخ ایک ریموٹ ہیں اور ہر کوئی اس محفل میں آتا ہے اگر وہ ان سے ہم آہنگ(جڑتا) ہے ، ان کا دل کھولتا ہے اور دل سے اللہ (عزوجل) سے دعا کرتے ہیں کہ میں کچھ بھی نہیں بننے آ رہا اور میں اس حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ آپ حاضر رہیں اور شیخ آپ کو بھی ریموٹ میں بدلنا شروع کردیں گے اور وہ اب جسے وہ ٹیکنالوجی میں غلام اور ماسٹر کہتے ہیں، بن گئے ہیں۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ اِس کمرے میں ٹیک کے لوگ اس چیز کو سمجھتے ہیں اور پوری دنیا میں ٹیک کے طلباء ہیں ایسا ہی ہے؟ کہ آپ کے پاس ماسٹر ڈیوائس (Master Device)اور سلیو ڈیوائس(Slave Device) ہوتی ہے ۔ ٹیک میں ماسٹر ڈیوائس ہوتی ہے ، آپ کے پاس ماسٹر سرور ہوتا ہے ، آپ کے پاس ماسٹر آلات اور سلیو ہیں۔ سلیو ڈمی یونٹ ہے کیوں ہے؟ ، اس کو تمام فریکوینسیز حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو ماسٹر یونٹ کر رہا ہے۔ آپ ایک ماسٹر سرور کے ساتھ پانچ سو سرور چلا سکتے ہیں۔
کیونکہ اِس ماسٹر سرور نے دوسرے تمام سرورز کو یہ سکھایا کہ سوچو نہیں، میں آپ کو معلومات بھیجوں گا تم ذخیرہ کرو۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اگر ہر سرور کہے ’نہیں‘ ’ کیا‘؟ ’ابھی نہیں‘. پھر مواصلات کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ ٹکنالوجی میں ، اللہ ہمیں کیا دکھانا چاہتا ہے ، جب آپ آئیں تو اپنے بٹن دبانا بند کردیں تو ، اپنا ذہن بند کردیں اور جو آپ کے خیال میں آپ کے بٹن(حقیقت) ہیں (رد کر دیں)۔ جب اپنے آپ کو خود سے خالی کردیں گے تو شیخ آپکو ہم آہنگ کرنا شروع کر دیں گے۔ لہذا ، آپ ’ان‘ کی طرح سوچیں ، آپ ’ان‘ کی طرح بات کریں ، آپ ’ان‘ کی طرح کام کریں اور ’ان‘ وہ نہیں بلکے اُن شیخ ہیں اور اُن کے پیچھے اُن کے شیخ ، اور اُن کے پیچھے اَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡعُوا الرَّسُوۡلَ ہیں۔ کیونکہ وہ کچھ بھی نہیں ہیں ، وہ کچھ بنے ہوئے نہیں ہیں لیکن وہ اِس الہی فریکوینسی سے ہم آہنگ ہیں ، اپنے آپ سے جان چُھڑوایں جہاں آپ اپنے بٹنوں(حقیقت) کو سمجھ نہیں سکتے ہیں۔
اور جب آپ چینل 7 پریس کرتے ہیں تو ، چینل 7 نہیں کھلا اور آپ نے اپنا ریموٹ بند کر دیا، (پھر آپ نے یقین کر لیا کہ) میں کچھ بھی نہیں ہوں ، میں کچھ نہیں ہوں یا ربی میں آپ کے سامنے فقیر ہوں ، مجھے کچھ نہیں معلوم ، میں کچھ بھی نہیں ہوں ، میں کچھ نہیں ہوں کہ وہ ان (اولیا) کی مجالس میں بیٹھیں۔ مائع حالت یہ ہے کہ وہ آپ کو (ایک خاص) فریکوئنسی بھیجنا شروع کریں اور یہ فریکوئنسی آپ کو ان کے چینلز کے ساتھ جوڑنا شروع کردے گی۔ پھر ماسٹر ریموٹ دوسرے ریموٹ کو کنٹرول کرسکتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو آج ہمیں قلب کے لطائف پر لے جاتی ہے۔ ہم قلب کے لطائف پر نگاہ ڈالتے ہیں ، آپ کے پاس پیلے رنگ کی روشنی ، سرخ روشنی ، سفید روشنی ، سبز روشنی ، سیاہ روشنی (اور یہ) سبھی نیلی روشنی کے سمندر میں ہیں۔ اگر کسی کو پرانے پروجیکشن ٹی وی یاد ہیں تو یہ وہی ڈیزائن تھا ، ٹھیک ہے۔ یہ لائٹس ایک اسکرین پر پڑیں گی اور آپ کو ایک پوری فلم نظر آئے گی اور یہ شبیہہ (پیلے رنگ کی لطائف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) میرے بائیں طرف میرے دل سے ملنے کے لئے بنائی گئی ہے (شیخ نے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا)۔ لہذا ، یہ پیلے رنگ کی روشنی میرے دل پر ہے یعنی میرے بائیں طرف ہے پھر یہ سرخ روشنی ہے (دل کے دائیں طرف اشارہ کرتے ہیں) ، سفید روشنی (دل کے نیچے بائیں طرف اشارہ کرتے ہیں) ، سبز روشنی (نیچے دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے دل کے)، بلیک لائٹ (دل کے مرکز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)۔
یہ سورج بھی ہیں ، روشنی کی پہلی سطح جس پر آپ مراقبہ کرتے ہیں اور یہ سب مراقبہ اور مراقبہ کے لوگوں کے لئے ہیں۔ تو ، انھوں نے سب سے پہلے یہ سکھایا کہ اپنا مراقبہ کرو ، مراقبہ کرو۔ یہ کہو کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں ، میں اپنے دل سے رابطہ قائم کرنا چاہتا ہوں ، میں اپنے دل سے رابطہ قائم کرنا چاہتا ہوں۔ اپنے سامنے شیخ کو موجود پائیں کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں ، مجھے اپنی روشنی سے آراستہ فرمائیے مجھے اپنی موجودگی سے آراستہ فرمائیے۔ ایک بار جب انہوں نے تفکر کو سمجھا تو ، وہ مراقبہ کو سمجھ گئے۔ پھر ایجنڈا اور اسکول اسلئے تھا کہ قلب کو کھولنا تھا تو پھر دل، کہ اللہ (عزوجل) چاہتا ہے کہ وہ اللہ عزوجل کے گھر کو سمجھے اور جو سمجھتے ہیں ، ان کا دل ایک گھر بن جائے گا اللہ عزوجل کا گھر۔ قلب المومن بیت اللہ ، ایک بار جب ان کا گھر بیت اللہ بن جاتا ہے وہ کعبہ اور قبلہ کی طرح ہوتے ہیں۔
وہ جہاں بھی جاتے ہیں سب کچھ ان کے وجود میں موجود ہوتا ہے۔ تو ، اس مراقبہ کی پہلی سطح ، قلب کا اسٹیشن ، سمجھنے کا آسان ترین طریقہ (یہ ہے کہ) ، اوہ مجھے کیا استعمال کرنا چاہئے؟ مجھے اس شیخ کے ساتھ کس طرح چلنا ہے؟ اور یہ سمجھ بوجھ یہ ہے کہ مادہ کی تین حالتیوں کی تفہیم آپ کی آزمائش کرتی ہے۔ کچھ بھی نہ بنیں۔ اور (یہ کہیں کہ) اب میں چاہتا ہوں کہ یا ربی میرے لئے قلب کا اسٹیشن کھول دیجئے ، کہ میں اس حقیقت سے ملبوس ہونا چاہتا ہوں۔ مجھے تفکر کو سمجھنا ہے اور میں کوئی لطائف کھولنے کے قابل نہیں ہوں۔ میں لوگوں کو دوسرے گروپوں سے مجھے ای میل کرتے ہوئے دیکھتا ہوں ، “اوہ ، شیخ نے میں نے یہ لطائف کھولا ، پھر میں نے یہ لطائف کھولا اور اب میں یہ لطائف کھولنے جا رہا ہوں”۔ اوہ ، پھر بہت بہت مبارکباد! آپ سب سے زیادہ اونچائی تک پہنچ جائیں۔! لیکن ہماری کتاب اور ہماری راہ میں ، نقشبندیہ عالیہ میں میں خود ہی سب سے بڑا مسئلہ ہوں۔ میں کسی بھی چیز کے قابل نہیں ہوں ، میں اس قابل نہیں ہوں کہ کچھ بھی کھولوں۔ کیونکہ اس راستے کے دروازے پر میں نے اپنی ذات کا ناچیز ہونا قابل کرلیا۔
خاص طور پر نقشبندیہ میں کسی کو بھی اپنے آپ سے کچھ کھولنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ لیکن ان کی خواہش یہ ہے کہ، قلب کے اس اسٹیشن میں مَیں کچھ بھی نہیں ہوں ، یا ربی میں کچھ بھی نہیں ہوں اور میرے میں اور میرے تفکر میں اور ان عظیم شیخوں کے ساتھ میرا عقیدہ ہے کہ سلطان الاولیا مولانا شیخ محمد ناظم حقانی (ق) ، سلطان الاولیا مولان شیخ عبداللہ داغستانی (ق) کہ وہ میرے سامنے ہیں اور میں کچھ نہیں ہوں ، میں خود سے ایک جابر ہوں ، میں کچھ بھی نہیں ، میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ جب میں مراقبہ کر رہا ہوں اور میں کہتا ہوں کہ میں قلب کے اس اسٹیشن کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں تو ، میں چاہتا ہوں کہ میں قلب کے اس اسٹیشن کو سمجھوں، میں چاہتا ہوں کہ میرا دل “لطیفۂ قلب” کی اس حقیقت کو کھولے ، کہ سیدی مجھے اس پیلے رنگ کی روشنی سے استوار کیجئے۔ اور اس پیلے رنگ کی روشنی کا مشاہدہ کریں اور اپنے دل کے ذریعے اُن سے یہ درخواست کریں کہ براہ کرم اس پیلے رنگ کی روشنی کو میرے دل میں بھیجیں کیونکہ وہ ریموٹ کے مالک ہیں ، میں غلام ہوں جسے ہم کہتے ہیں غلام۔ وہ سید ہیں ماسٹر ہیں اور میں غلام ہوں۔ میں آپ سے کچھ نہیں بننے کے راستے میں غلام بننے کے لئے سوال رہا ہوں۔
میں ان بٹنز کی اپنی خواہش کو دور کرنے جارہا ہوں ، سیدی مجھے اس پیلے رنگ کی روشنی سے ملبوس فرمائیے اور پھر اس پیلے رنگ کی روشنی کو مرشد کے دل سے اپنے دل کی طرف آتے ہوئے تصور کریں اور اپنے ارد گرد کی ہر چیز کو اسی پیلے رنگ کی روشنی (میں موجود) تصور کریں۔ اور یہ کہ میں یہ چاہتا ہوں اس پیلے رنگ کی روشنی کی حقیقت میں ملبوس کیا جاؤں، (یہ پیلی روشنی) سورج کی روشنی کی حقیقت ہے اور یہی حقیقت ہے تب آپ (یہ) کتاب پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد کتاب قلب کے اس اسٹیشن کو پڑھانا شروع کرتی ہے کہ (یہ لطیفۂ قلب) علم کی حقیقت ہے اور اسی وجہ سے یہ اللہ (عزوجل) کے گھر کا پہلا دروازہ ہے۔ لہذا ، اس کمرے میں جو اللہ عزوجل کھولنا چاہتا ہے ، علم کا سمندر ہونا چاہئے۔ کہ (سوال کریں کہ یا سیّدی) مجھے اس پیلے رنگ کی روشنی سے ملبوس فرمائیے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ مضامین میں جاتے ہیں تو آپ سمجھنا شروع ہوجاتے ہے کہ اس اسٹیشن پر ایک نبی موجود ہے ، اس اسٹیشن پر ایک فرشتہ ہے ، اس اسٹیشن پر ایک صحابی ہے ، اس اسٹیشن پر ایک ذکر ہے جو اس قلب کے اسٹیشن سے متعلق ہے۔
کہ میں چاہتا ہوں کہ میرا دل اس لطیفۂ قلب کو کھولے۔ میں ہر وقت ہر چیز کو پیلے رنگ کی روشنی کی طرح دیکھتا ہوں ، میں اسی سمجھ کے ساتھ اپنا ذکر کرتا ہوں۔ اور پھر آپ یہ کتاب پڑھتے ہیں ، جانکاری پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں پڑھ رہا ہوں کہ سیدنا جبرائیل (ع) اسی اسٹیشن میں ہیں۔ یا سیّدی مجھے سیدنا جبرائیل (ع) کی روشنی سے آراستہ فرمائیے۔ اور پھر اپنے تفکر میں یہ سوال کیجئے کہ سیدنا جبرائیل (ع) کی یہ پیلی روشنی میرے دل میں داخل ہونا شروع ہو۔ کہ یا سیدنا جبرائیل (ع) کہ آپ نبیﷺ کے عاشق ہیں، نبیﷺ کے صدقے سے میرے دل کو اپنی روشنی سے نوازئیے۔ نبیﷺ کا واسطہ دے کر سوال کریں، اپنا نہیں۔ کیونکہ میں کچھ نہیں ہوں۔ سیدنا محمد ﷺ کی خاطر مجھے اپنے نور سے نوازئیے۔ اور ہر ذکر اور ہر مراقبہ میں سیدنا جبرائیل (ع) سے آپ سوال کر رہے ہیں کہ مجھے اپنے نور سے آراستہ کریں سیّدی۔ مجھے اپنی خوبصورتی سے ملبوس کریں۔ وہ جو آکر آپ کو علوم دینا شروع کریں وہ سیدنا جبرائیل عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ کی روشنی ہے اور اگر آپ علوم کے خادم بننے جارہے ہیں تو انہیں کیوں آنا اور جانا پڑتا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ وہ پیلی روشنی کو آپ کے دل میں جمع کرنا شروع کردیں گے ، ٹھیک ہے.
اگر آپ اس حقیقت کے فرد ہیں اور آپ مستقل طور پر ان علوم سے ملبوس ہونے کے لئے دعا گو ہیں تو انہیں کیوں آنا اور جانا پڑتا ہے۔ مطلب سیدنا جبرائیل نے آپ کے دل میں ایک روشنی جمع کرنی شروع کردی جو “نبی کے لئے وحی” بن جاتا تھا ، علم تھا۔… انبیاء کے لئے وہ وحی تھی اور غیر انبیاء کے لئے الہام اور سیدنا محمد ﷺ اور تمام انبیاء کےلئے وہ وحی تھی ، وہ اسی نور سے اپنی وحی حاصل کرتے ہیں۔ وہ سیدنا جبرائیل (ع) کی اس پیلے رنگ کی روشنی جو اب ان کے دل میں فراہم کی جارہی ہے، کےذریعے سے الہام اور علوم حاصل کرتے ہیں ۔ پھر اس اسٹیشن کے پیغمبر کون ہیں؟ سیدنا آدم عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ۔ پھر اپنےآ۸ دل کوسیدنا آدم عَلَيْهِ ٱلسَّلَام کے ساتھ جوڑتے ہوئے سوال کریں کہ سیدنا آدم عَلَيْهِ ٱلسَّلَام مجھے ملبوس کریں اللہ تعالٰی نے آپ کو سارے علوم اور تمام لمحات کہ جب ایک آدم (انسان) کی روح اس زمین پر آرہی ہوتی ہے، عطا کئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ راستہ تفکر پر مبنی ہے۔
آپ نے قلب کی تفہیم پڑھی پھر آپ یہ تفکر کرتے ہیں کہ میں سیدنا آدم (ع) کی حقیقت کو سمجھنا چاہتا ہوں۔ مطلب یہ کہ یہ تمام ملَکُوتی روحیں ہمارے ساتھ بات چیت کرنا چاہتی ہیں۔ سیدنا جبرائیل (ع) مومنین کے ذریعہ جانا جانا چاہتے ہیں۔ وہ پکارا جانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنا نور عطا کرنا چاہتے ہیں۔ سینا آدم عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ چاہتے ہیں کہ ان کو جانا جائے، سیدنا عثمان الغنیب جامعہ القرآن المجید-قرآن مجید کے حقائق کو جمع کرنے والے، چاہتے ہیں کہ ان کو جانا جائے۔ تب ہم سمجھتے ہیں کہ اوہ اس جگہ کے تمام کردار اور اعلیٰ أرواح کو میں جاننا چاہتا ہوں کیونکہ یہ اللہ عزوجل کا گھر ہے۔ اس جگہ میں کونسا فرشتا موجود ہے؟ اس جگہ پر کونسی تجلی اور روشنی ہے؟ اور میں چاہتا ہوں کہ وہ لطیفہ میرے دل میں کھل جائے۔
————————-
URDU TRANSLITERATION:
Ae imaan walo! Allah azzwajal ki itaat karo aur rasool ( sale allah azzwajal aleh wa-alehe wasallam ) ki itaat karo aur –apne mein se ( ehley haq ) sahbanِ amar ki .
Aur insha allah hamesha –apne liye yaad dehani k mai aik bandah aajiz, naatvaan, maskeen, zalim aur jaahil hon aur allah azzwajal ke fazl se mein abhi bhi sahib wujood hon. Hum ny kuch nah honay ka rasta ikhtiyar kya aur is duniya ki har cheez hamein kuch bananay ki koshish kar rahi hai. Jitna ziyada hum kuch nahi hunge aur allah azzwajal ke fanaa ke samndron mein daakhil hunge hain itna hi allah azzwajal apni khudai azmat ko khol day ga. Yeh is duniya mein har cheez ke bar aks hai aur un aolia allah ki tamam haqeqteen quran pak, ahadees pak se aati hain aur woh –apne aloom laatay hain aur is haqeeqat ki akkaasi karte hain ke hum –apne aap ko behtar bana saken ke nabi (s) ny –apne sahaba se kaha ke un ke sahaba tareek raat mein sitaron ki terhan hain aur un mein se jis ki bhi aap pairwi karen aap ko hadayat mil jaye gi .
” mere sahaba ( tareek raat mein ) sitaron ki terhan hain aap un mein se jis ki bhi pairwi karen ge, aap ko hadayat mil jaye gi “. ( farmaan nabi (s) )
aulia allah hamari zindagi mein atay hain aur hamein yaad dilatey hain ke agar nabi (s) yeh taleem day rahay hain ke mere saathi sitaron, najam ki terhan hain, to phir yeh aik bohat barri haqeeqat honi chahiye aur un mein se kisi ki bhi aap pairwi karen ge to hadayat miley gi woh hadayat andhre raat ke setaaray aur sitaron se aa rahi hai. Aur yeh ke yeh rasta abdi roshni taq pounchanay par mabni hai jo ab woh ( duniya daar log ) samajh chuke hain ke setaaray hain, sayaray nahi .
Sayarah maadi duniya hai. Aik aisi duniya jo ke zahir har mabni hai aur jiska wujood ethereal ( gas ) aur gas par mabni hai. Is maqam taq kaisay pouncha جاۓ aur is haqeeqat ka sitara kaisay bana jaye kyunkay nabi(s) hamaray liye jo chahtay they woh yeh tha ke hum aik sitara banin. Is maqam taq pohnchain ( jahan mein –apne sahaba ko malbos karta hon ke woh sab setaaray hain aur mein setaaray bananay wala hon ). Who(s) jo dawa kar rahay hain ke mere sab sahabi setaaray hain to phir nabi? Ke maqam aur manzil ka tasawwur karen, agar aap ke sath rehne walay setaaray ban jayen ge to aap apni haqeeqat se setaaray bananay walay hain aur aap logon ke andar daimi haqeeqat ko samnay laane walay hain yeh nabuwat ki haqeeqat hai. Nah ke aik mawaad ( matter ) ban-na ( hamari haqeeqat hai aur nah hi yeh ) aik jism jo ke hamara nahi hai jis mein hum is zameen par rehtay hain, khatay hain aur peetay hain aur martay hi matti aur raakh ho jatay hain. Maadi duniya ki har cheez maadi duniya mein wapas ajati hai jo abdi hai woh jismani dairay se balatar hokar malkoti ban jati hai aur malakoot ke samndron taq ja pahunchti hai aur phir allah ( azzwajal ) neh nabi(s) ko farmaya qalb momin beeet allah ke yeh sitaron ki haqeeqat unn ke dil par mabni hai aur un ke dil kkhuda, allah subhana wa tala ke ghar hain. To, woh atay hain aur woh hamaray liye talluq banatay hain ke agar hum aik sitara ban-na chahtay hain aur setaaray ki haqeeqat taq pohanchna chahtay hain to har cheez dil par mabni hai agar aapka aik hissa acha hai aap poooray tour par achay hain, agar gosht ka aik tukda kharab hai to aap saaray ke saaray kharab hain aur nabi(s) bayan karte hain .
“bey shak, jism mein aik tukda hai, woh agar sahih hai to, poora jism mustahkam hai, aur agar yeh kharab hai to, poora jism fasid hai. Be shak woh dil hai. ”
Aur yeh ( hissa ) qalb hai. Maghaz nahi, sir nahi, jism ka koi hissa nahi, ( qalb beeet allah hai, ) lekin allah azzwajal dil ki taraf ishara kar ke kehta hai ﴿ولقدْ كرمْنا بنى ءادم
“avr hum ne bani aadam ko izzat bakhsh aur un ko zameen aur darya mein sawari di aur pakeeza rozi ataa ki aur apni bohat si makhloqaat par fazeelat di” ( surah isra: 70 )
ke mein ne is takhleeq ko izzat bakhsh kyun ke mein ne un ke lyie un ke wujood mein hi apna ghar bana diya hai. Mein ne yeh zarrafay ko nahi diya, mein ne goreela ko nahi diya, mein ne jin ko nahi diya lekin momin ke qalb ko jo mukammal haqeeqat taq poanch sakta hai, kuch momin jin hain jo is tafheem taq poanch satke hain yeh bara azeem tohfa jo allah ( azzwajal ) ne ensaan ko diya hai, mein ne aap ko aik dil diya jo meri haqeeqat taq poanch sakta hai mein ne aap ko aik dil ataa kya, jo apni haqeeqaton aur meri aasmani saltanat taq poanch sakta hai aur محمدﷺ atay hain aur phir hamein sikha te hain ke aik sitara bano. Jo abdi hai woh bano. Woh sitara jo roshni deta hai aur apna wujood kho deta hai phir setaaray ki yeh haqeeqat “dill ke levels ( levels of the heart ) ” hai. Yeh lataif al qalb allah azzwajal ke ghar ki haqeeqat ke baray mein hain ke agar hum allah azzwajal ke ghar mein daakhil hona chahtay hain to hamein allah azzwajal ke ghar ka mutalea karna hoga wohi hai jis ka aap mutalea karte hain aur jis ki haqeeqat mein aap daakhil hotay hain taakay woh momnin ke dil par zahir ho sakay taakay un ka dil allah azzwajal ka ghar ban sakay. Lehaza, kuch log yeh nahi samajh satke hain ke لطائف ka maqsad kya hai aur kya rasool allah محمدﷺ yeh sab laaye? Yaqeenan har ilm syedna muhammad (s) ka hai. Nabi (s) ( yani ) al quran laaye aur isi aik quran pak se lakhoon kitaaben likhi gayi hain. Lehaza, aap yeh nahi bta satke ke har kitaab. .. Kam zehen logon ko koi parwa nahi, woh kehte hain,” oh, kya nabi (s) ne yeh kaha, nabi(s) ne kya kaha tha? “. Oh, haan, woh aik herat angaiz haqeeqat lae jisay hum quran pak kehte hain. Isi se har haqeeqat ki bunyaad, har sahabi, har ahal beeet, har walii, tamam saliheen ne allah azzwajal ke is samandar se liya aur tamam khobsorat haqayiq ko ubhara. Woh jiski wazahat allah azzwajal “kausar” keh kar karta hai. Woh log nahi jantay is waqt yeh manzar-e-aam par arhha hai. Yeh tohfa jo mein ne syedna mohammad (s) ko diya hai. Yeh be tahasha bahhar ka chashma hoga. Nah sirf duniya balkay saari zindagi, is ki saari mushaqqatain, is ki tamam haqeqteen, is ki saari taqtin aik lafz se abdi tor par behti rahen gi jis se woh shandaar samndron ko nikaal satke hain yahi wajah hai ke jab woh un nat shareef ki talawat karte hain khaas tor par farsi wali mein woh imam jaffer alsadiq ( a ) ke baray mein baat karna shuru kardete hain aur koi aisa ensaan jisay ilm nahi aap ko samajh nahi sakta ( sawal kar baithta hai ) ke aap inhen ( hazrat jaffer a.s ko ) quran ki roshni kyun kehte hain (s) ( dar haqeeqat ) aap quran ka raaz hain! ( woh log aisay sawal is wajah se karte hain ) kyun ke inhen samajh nahi aati hai ke quran kya hai .
وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُّبِينٌ
Aur hum ny un ( paighambar ) ko shair goi nahi sikhayi aur nah woh un ko shayaan hai. Yeh to mehez nasiyaat aur saaf saaf quran (hikmat ) hai (surah yaseen 6936؍ )
allah azzwajal “ھو” ki wazahat karte hain ke aap? Ki rooh zikar hai, tamam zameen aur asmaan ka zikar hai kyunkay jab aap nabi pak(s) ka zikar karte hain to aap allah azzwajal ki hamd bayan karte hain kyunkay aap? Ko yaad karne ke liye aapko kehna parta hai allahumma salle ala syedna mohammad (s) wa ala ali alsyedna mohammad (s) .
“warafana laka dhikrak” zameen par mojood unn logon ke liye nahi hai jo behas karte hain ke oh hamein milaad karna chahiye, hamein milaad nahi karna chahiye, hamein chahiye. .. Nahi, nahi, yeh syedna jibraiel علیْه ٱلسلام ki manzil se oopar malakoot ke logon ke liye hai. ( woh ) heran hain is par jo allah ( azzwajal ) ny is noor ko diya, is noor ka ikhtiyar, is noor ki taaqat aur phir allah ( azzwajal ) ( kehte hain ) warafana mein ny aap(s) ki yaad, aap(s) ka zikar, aap(s) ki haqeeqat ko is duniya mein kisi bhi cheez ki samajh se balatar kardiya hai aur is mein koi shak nahi ( ke aap s ) zikar mubin , aur mera wazeh quran hain aur nabi sale allah aleh wa-alehe wasallam ka dil manzil alqraan hai. Yeh quran abadd ki jo ( tajallii ) jari karta hai, woh syedna mohammad (s) ki rooh se jari hoti hai. To yeh bohat barri cheez hai. Lehaza, aik sitara ban-na, aik rasta ikhtiyar karna jis mein ( aap yun darkhwast guzaar hon ke ) ya rabbi mein allah ( azzwajal ) ke ghar, is qalb ko samjhna chahta hon. To, phir woh ( aulia allah ) aakar lataif al qalb par kitaab parhatay hain aur lataif al qalb ki talemaat allah azzwajal ke ghar ke baray mein hai. Allah ( azzwajal ) ke ghar ko kaisay samgha jaye. Allah azzwajal ke ghar ke andar kya haqeeqat hai aur is haqeeqat ko kaisay haasil kya jaye? Sitara kaisay banin? Is ka matlab hai phir hamara koi mawaad hai aur hum maday se takhleeq kiye gaye hain. Hamaray paas maday ki 3 halatain hain : thos, maya, aur gas. Tareeqa aakar aik haqeeqat sirf bayan nahi karta balkay woh aap ko haqeeqat tak pahunchana chahta hai. Yeh school ka falsafah nahi hai, professor kisi aisi cheez ke baray mein baat karta hai jisay woh nahi jaanta aur har aik ko neend aa jati hai. Lekin woh ( aulia allah ) chahtay hain ke is haqeeqat ko haasil kya jaye. Lehaza, agar aap maadi shakal chore kar roshni ki duniya mein sitara ban’nay jarahay hain to woh maday ki 3 halaton ko samajte hain. Aap ki maadi haalat, aap ki aabi haalat aur gas ki haalat. Maadi haalat aik aisi haalat hai jis mein aap sirf apni baat suntay hain aur aap kund zehan ( ziddi ) fitrat ke haamil hotay hain aur molana sheikh naazim ( q ) ka kehna hai ke aap kund zehan ( squareheaded ) walay log hain, kund zehan wala shakhs, kisi ki baat nahi suntaa, kisi cheez ke lyie bhi munasib nahi hota. Kyunkay aap ka zehan band hai.
Un tamam jumlon par nigah dalain jo angrezi zabaan mein aap ke paas hain. ( maghrour aur anaa parast log kehte hain ke ) anaa rabbi alala mein sab se bartar hon. Aisa nahi hai ke sirf woh ( anaprst ) khud ke baaray mein sochta hai ya woh sochti hai, har koi khud ko sab se bara samjhta hai lekin –apne aap ko jan-nay ki haqeeqat, kya mein kund zehan hon? Kya mein maya hon? Aur kya mein waqai sochta hon ke mein geese haalat mein hon? Aap ke jism mein gas ho sakti hai lekin yeh woh haqeeqat nahi hai ( jis ki hum baat kar rahay hain ). Yeh ethereal haqeeqat hai. Jis mein aap ko aik lamhay mein apke jism se nikala ja sakta hai. Maadi haalat yeh hai ke aap zehan ( se kaam lainay ) walay hain aur aap –apne dimagh mein bohat ziyada sochate hain aur aap –apne dimagh ke zariye sab kuch sochate hain aur aap ko lagta hai ke aap –apne sir ke zareya har aik masla hal kar dein ge aur phir allah ( azzwajal ) jab woh rahnumai karna chahta hai woh aap ko shams ke paas bhejta hai. Lehaza, syedna jalal aldeen aik bairooni scholar they aur bohat darasht, bohat sakht, bohat kattar they aur allah ( azzwajal ) naay shams tabraiz ko bheja. Yeh sab farsi se hai, maqamat par tamam tasaneef farsi mein theen. Shams sooraj hai, tabraiz sab se ziyada garmi hai, jo is aag ka sab se ouncha maqam hai. Is ka matlab hai ke is naay usay shams bheja ke har walii aur har aulia aur sheikh un ki mukhtalif zimma dariyan hain lekin is haqeeqat ( silsila naqshbandiyah ) ke sheikh aik sooraj ki manind hain. Woh be hadd roshni peda karte hain .
Is zindagi mein, is duniya mein aap ke mizaaj mein mazah hona chahiye. Yeh sakht aur darasht honay ke barey mein nahi hai, yeh bohat mohabbat karne wala honay ke barey mein hai. Is haqeeqat ke un mashaiykh ny logon aur un ke kirdaar aur un ki fitrat ke hathon zabardast mushkilaat bardasht kee aur un ki fitrat hamesha bohat hi pyar karne wali aur meharban rahi. Woh sakht aur darasht log nahi hain. Sooraj aisi cheez hai jis ki roshni be tahasha hai zahiri sooraj ke barey mein sochen aur tasawwur karen ke aolia is sooraj se kis qader ziyada taaqatwar hain. Allah taala ny yeh nahi kaha ke mein ny sooraj ko izzat bakhsh, ( balkay woh kehta hai ke ) mein ny aap ko izzat bakhsh nah ke sooraj ko. Aur woh sooraj sirf aap ke maqam ki alamat tha kyunkay syedna yousuf ny kaha ke allah azzwajal ny sooraj , chaand aur gayarah sayyaron ko mere qaboo mein rakha hai, mere peeron taley rakha. Yeh manzil un sayyaron ki incharge thi aur yeh allah ( azzwajal ) ke lyie koi barri cheez nahi hai, log samajte hain ke farishtay is ko injaam day rahay hain. Farishta ke oopar anbia hain lehaza yeh maqam hain jin ke woh waris ban satke hain kyunkay aolia bani israel ke anabia karaam ke waris hain lehaza abhi aik walii is waqt sooraj , chaand aur gayarah sayyaron ke maqam ka incharge hai agarchay nasa ( nasa ) ny aik sayarah allag qarar diya, pluto lekin pluto abhi bhi un ke ikhtiyar mein hai, duniya walay apna khayaal bdalty rehtay hain kyunkay inhen kuch pata nahi hai. Chunancha shams tabraiz ki yeh haqeeqat yeh hai ke allah ( azzwajal ) hamein un mashaiykh ki taraf raghib kere ke un ki rooh se niklny wali hararat aur tawanai aik maadi cheez ko pighla day gi aur pani bana day gi. Allah ( azzwajal ) ki izzat aur qowat, izzat alrsol, izzat allah , izzat almomineen ka matlab yeh hai ke jab woh sheikh ke sath milein ge, tarooq ke sath hon ge to anaparast zehniat kabhi bhi sheikh ke sath kaam nahi kere gi. Ya to woh aap ko toar dalain ge ya aap bhaag jayen ge lekin un ke sath aap ki anaparast zehniat nahi chalay gi, aap ko unhein yeh bitanay ki zaroorat nahi hai ke aap kya karen, aap apni soch, –apne aqaed aur apni tafheem kwan par musallat nahi kar satke .
Apni fitrat ki wajah se agarchay aap theek hi kehte hain to woh kahin ge ke aap ghalat hain, kyun? Ap k kono ko daur karne ke lyie kisi maadi aur chakore shakal wali kisi cheez ko badalna bohat asan hai aur aap sirf kinaroon ko khurachtay rahen, kinaroon ko utaartay rahen. Zindagi ki har cheez kyunkay allah ( azzwajal ) manzil chahta hai, sheikh , asatzh mehez jo taleem dete hain aur yeh roshni un ki rooh se nikalti hai aur aap ko garmi ka ehsas hota hai, aap ko zikar ki taaqat mehsoos hoti hai aur aap jo kuch ( kkhuda ki raah mein ) dete hain aur aap jo kuch bhi karte hain aur is mein aap jis terhan hissa letay hain, is ki azmaish se aap khud ko pighaltay sun-hwa mehsoos karte hain. Yeh sab aapko tornay ke lyie hai. Lehaza, aap ko yeh lagta hai ke mujhe kachla ja raha hai, mujhe kachla ja raha hai, mujhe kachla ja raha hai, ya rabbi mein ny day diya, mein ny kya, mein karta hon aur meri shanakht, ke mein ab yeh nahi samajh sakta ke mein kya chahta hon, mein ny kya mansoobah banaya, mere ahal khanah ny mere liye kya mansoobah banaya. Is ka koi matlab nahi kyunkay un ke dimagh ke chakore ( ke konay ) bohat mazboot hain. Un ke dimagh mein har cheez ki mansoobah bandi hoti hai, woh ( aolia allah ) aap ke sir mein daakhil hona chahtay hain aur aap ki btyon ko band karna chahtay hain woh srmin jatay hain … aur batian band ho jati hain aur phir sheikh naazim ( q ) ( aisay logon ke barey mein ) farmatay they ke yeh koi zehen rakhnay wala shakhs nahi hai. Jo aik lehaaz se aik tareef bhi hai uski wajah yeh hai ke aap is haalat mein poanch rahay hain jis mein aap ka dimagh waqai band ho raha hai. Ab koi shakhs shayad is ki tarjamani is terhan kar raha hai ke mein sheikh ke kehnay wali kisi cheez ko nahi sunon ga. Dimagh ka nah hona darasal yeh hai ke jo woh kahin aap سمعنا وأطعنا ( aap ny suna aur itaat ki ) hain aur yeh aik lamhay ke andar hojata hai, woh do baar, teen baar, paanch baar intzaar nahi karte, yeh chay baar nahi kaha jata hai woh سمعنا وأطعنا nahi hai jahan woh jo kuch kehte hain mein is ke bar aks karta hon .
Nahi, nahi batian band hona yeh hai ke jo kuch bhi is amar ka hai aur jo bhi hukum aaraha hai, is bande ke dil mein aaraha hai, ( woh bandah ) سمعنا وأطعنا ( kahey yani ) woh suntay hain aur woh itaat karte hain. Yahan taq ke woh usay dimagh mein bhi nahi jaanay dete woh dil mein daakhil hota hai, aur ho jata hai. Kyunkay agar koi hukum ya koi ehkaam aeye aur mere sir mein aajay to woh gayab hojaye ga. Sab kuch jo aap ko sheikh ne bataya hai agar aap usay –apne sir mein pheink dete hain, ( to aap ) is ke mukhalif ho jatay hain, is ke baare mein sochte hain, is par zehan chillatay hain. ( aur ) izhaar karte hain ke mein is par apna zehan chalaon ga, is ka kya matlab hai? Mein aap ki har baat par behas karoon ga aur har kahey jaanay wali cheez par khilaaf warzi karoon ga kyunkay aap life code ki terhan hain, aap allah ( azzwajal ) ke naqat le rahay hain. Nabi? Ke naqat haasil kar rahay hain aur aap –apne aap ko un ke naqat se daur pa rahay hain. Agar aap un ki parhai hui har cheez ko haasil karna chahtay hain aur is par zehan chillatay hain aur is ke baare mein sochna chahtay hain to aap abhi bhi anaparast hain. To, jin logon ne apni fitrat haasil ki, un ki haqeeqat pighal jaye gi. Lehaza, majalis ki roshni aur rahnumai se inhen maloom hota hai ke har cheez un ke mukhalif hai aur woh apna dimagh band karne lagtay hain. Jo kuch bhi woh chahtay hain woh is ke bar aks hota hai, jo kuch bhi woh karna chahtay hain is ke bar aks ho jata hai. Har woh cheez jis ke husool ki koshish karte hain is ke bar aks ho jata hai jab taq ke woh shakhs yeh mehsoos nah kere ke aah yeh mere liye nahi. Mein kisi bhi cheez ke baare mein nahi sochon ga aur ab yeh chakore ( chaar kono wala ) pighal jaye ga. Lehaza, jab garmi is chakore par daali jati hai aur yeh pani ke samndron mein daakhil hojata hai. Ab aik bande ke samajhney ke liye maya haalat kya hai? Hum ana parasti ko samajh gaye hain. Kya mein bohat ziyada –apne dimagh se kaam le raha hon, kya mein har cheez ke baare mein soch raha hon, tajzia kar raha hon ke woh kya keh rahay hain? Aap ke sarbarah kon hain is baat ka tajzia karne ke liye ke woh kya keh rahay hain aap –apne dimagh se bohat ziyada kaam letay hain, pehlay hi aap bohat ziyada ghhor kar rahay hain,” aap kis cheez ki baat kar rahay hain “, aisa nahi hai, yeh dil mein daakhil hwa hai. Kyunkay jo kuch woh ( sheikh ) keh rahay hain woh bilkul meri haalat hai. Jo kuch woh dars day rahay hain woh bilkul meri haalat hai, usay mere dimagh mein jaanay ki zaroorat nahi hai. Jo bohat ziyada dimagh mein hai woh ghalat, ghalat rasta hai aur allah ( azzwajal ) ab yeh sab duniya ke liye bana raha hai. Tamam duniya is waqt khauf zada hai. ( maslan karona virus )
maya ki haalat hamari azmaish hai, duniya iss waqt maya ki haalat mein hai. Thos har cheez pighalnay wali hai. Har mushkil aakar sab tornay wali hai. Har dheet dimagh kachla jaye ga aur agar allah ( azzwajal ) un ko kuchalna chahta hai taakay, woh koi maqam pa saken to hum dua karte hain ke allah ( azzwajal ) hamein maya ki haalat mein hi rakhay .
Maya ki haalat aik aisi haalat hai jis mein bandah –apne aitrazaat par qaboo pa laita hai aur khamosh rehta hai. Jo bhi haalat aur maqam mein allah unhen dalta hai, woh pani ki terhan dhal jatay hain. Agar aap kisi terhi cheez mein aik murabba shakal ke tukre ko foot karte hain to woh fِt nahi hota, aap nahi jantay ke iss ke sath kya kya jaye, lekin agar aap iss mein pani dalain to yeh har shagaaf aur har jagah chala jata hai. Is ka matlab hai ke allah inn ko unki salahiyat ke mutabiq jis bhi haalat mein dalta hai woh sir khham kar dete hain. Woh samajte hain ke is waqt kuch nahi karna hai. Lehaza, woh tasleem ke samandar mein daakhil hotay hain aur inn ka kirdaar maya, bohat naram, nihayat hi naram hota hai. Sakht aur thos cheez ko aap phenkhte hain, to is se har aik ko takleef hoti hai. Maya agar phenkhte hain, to takleef nahi hoti siwaye iss ke ke ab aap giilay ho gaye hain. Agar yeh pani hai to woh bukharat ban urr jata hai aur koi harj nahi hota, is se kisi ko nuqsaan nahi hota hai. Balkay woh aag bujha sakta hai. Agar woh halat-e maya mein hain to phir yeh haalat ziyada aynrji aur mazeed aynrji ke sath lamhon mein nihayat lateef haalat mein badal jata hai kyunkay pani ko gas mein lana aik fori amal hai lekin thos cheez ko gas mein tabdeel karna aik mushkil amal hai .
Lehaza, agar aap maya ki haalat mein chalay jatay hain jab bhi aap anergies taq, zikar ke douran tajallii ya ghar baithy tajallii taq pahunchte hain to aap maya hain, aap ki fitrat lateef hai. Jab kabhi bhi tajallii aeye gi to aap ko hararat mehsoos ho gi, aap fori tor par maadi jism ko chore den ge. Jis lateef haalat mein woh ab safar kar rahay hain uss mein jism mein rehne ki koi zaroorat nahi hai. Jis bhi lamhay tajallii aati hai woh –apne jism se bahar hotay hain aur woh malakoot aur apni rooh ki haqeeqat ka tajurbah karte hain. Yahi samajh log haasil karne ki koshish kar rahay hain yahi wajah hai ke yahan tareeqa ( rohani silsilay ) mojood hain. Asal silsilay, kuch ko mein nahi jaanta ke woh kya kar rahay hain lekin woh log jo logon ko sitara ( kaamil ) banana chahtay hain to woh chahtay hain ke log ayen, madad, khidmat, taawun karen yeh sab aap ke sakht ( murabba ) dimagh ko kuchalnay ke liye hai aur aap ka yeh chokore ( murabba ) sir aap ko kahin bhi nahi le jane wala aur aap ka yeh zehan koi darwaaza nahi kholnay wala, lekin jo sab kuch khole ga woh’ kuch bhi nah honay’ ki haalat mein daakhil hona hai .
Yeh inhen maya aur seyal banatay hain jis mein woh kahin bhi jasakte hain, woh kahin bhi sotay hain aur woh uss tajallii se sir khham karte hain aur is ke baad musalsal lateef fitrat ki haalat mein woh uss maqam se letay rehtay hain. Is ka matlab hai ke hum dua karte hain ke allah ( azzwajal ) un haqayiq ko khole, sakht fitrat ko daur kere, ke hum maya fitrat mein daakhil hon aur lateef haqeeqat ki kefiyat ko haasil karen. Ab sitara, yeh sooraj ki terhan hai. Agar aap maadi haalat aur thos haalat chore dete hain, to aap aik aisi maya haalat mein daakhil ho jatay hain jo apko, jala, jala kar gas ki haalat mein le jati hai aur, ab aap aik setaaray ki hesiyat se aُbhr rahay hain. Yahi wajah hai ke tamam mazahab ki tasweeron mein inn ke sir par sooraj hota hai, woh kisi sufi ya paighambar ki alamat hota hai, kyun? Kyunkay woh zameen par setaaray they. Woh ellahi roshiniyon ki roshniyan hain. Un ki roohein roshan hain halaank koi dekh nahi sakta siwaye unn logon ke jin ki rohani ankhen dekhatii hain .
Yeh aisi roshni nahi hai jis mein har shakhs yeh mehsoos kere ke aap ko unkee roshni ka tajurbah karne ke liye aik khaas frikoynsi aur fitrat ka hona zurori hai. Bohat saaray log kehte hain ke mein nahi jaanta ke woh shakhs kon hai, woh koi nahi hai lekin agar apkee haqeeqat unn ke sath jari hai, to aap is haqeeqat mein shaamil ho jatay hain. Apni torch le aur aaj raat –apne tally vision channel ko tabdeel karne ki koshish karen. Har koi ghar ja kar, –apne torch ke sath koshish kere ke channel tabdeel ho, yeh kaam kyun nahi karta, yeh to remote ki terhan ki hi roshni hai. Nahi, remote is tv se hum aahang ( jura ) hai, tv ke andar processor, remote ke signal ko tasleem karta hai, is ka matlab hai ke woh aik sath hum aahang hain. Aap ka remote tv station ko badalta hai torch nahi, torch light ko tv ke liye istemaal karen aur aap log sochen ge ke aap pagal hain. To, phir is haqeeqat ke baaray mein jis ki woh baat kar rahay hain woh sooni ( sony ) ki technolog se kahin barh kar hai .
Lehaza, sheikh aik remote hain aur har koi is mehfl mein aata hai agar woh un se hum aahang ( jurna ) hai, un ka dil kholta hai aur dil se allah ( azzwajal ) se dua karte hain ke mein kuch bhi nahi ban’nay aa raha aur mein is haqeeqat taq pohanchna chahta hon. Aap haazir rahen aur sheikh aap ko bhi remote mein badalna shuru kar dein ge aur woh ab jisay woh tecnology mein ghulam aur master kehte hain, ban gaye hain. Yeh dilchasp baat hai ke iss kamray mein take ke log is cheez ko samajte hain aur poori duniya mein take ke talba hain aisa hi hai? Ke aap ke paas master device ( master device ) aur sleeve device ( slave device ) hoti hai. Take mein master device hoti hai, aap ke paas master suroor hota hai, aap ke paas master alaat aur sleeve hain. Sleeve dmi unit hai kyun hai ?, is ko tamam frikoynsiz haasil karne ki zaroorat nahi hai jo master unit kar raha hai. Aap aik master suroor ke sath paanch so suroor chala satke hain .
Kyunkay iss master suroor ne dosray tamam servers ko yeh sikhaya ke socho nahi, mein aap ko maloomat beju ga tum zakheera karo. Kya aap tasawwur kar saktay hain ke agar har suroor kahe’ nahi’ ‘ kya’ ?’ abhi nahi ‘. Phir muwasilat ka koi rasta nahi hoga. Tknaloji mein, allah hamein kya dikhnana chahta hai, jab aap ayen to –apne button dabana band kar dein to, apna zehan band kar dein aur jo aap ke khayaal mein aap ke button ( haqeeqat ) hain ( radd kar den ). Jab –apne aap ko khud se khaali kar dein ge to sheikh apko hum aahang karna shuru kar den ge. Lehaza, aap’ un’ ki terhan sochen, aap’ un’ ki terhan baat karen, aap’ un’ ki terhan kaam karen aur’ un’ woh nahi blke unn sheikh hain aur unn ke peechay unn ke sheikh , aur unn ke peechay ateeu allah wa ateeu alrsol hain. Kyunkay woh kuch bhi nahi hain, woh kuch banay hue nahi hain lekin woh iss ellahi frikoynsi se hum aahang hain, –apne aap se jaan churwain jahan aap –apne btnon ( haqeeqat ) ko samajh nahi satke hain .
aur jab aap channel 7 press karte hain to, channel 7 nahi khula aur aap ney apna remote band kar diya, ( phir aap ney yaqeen kar liya ke ) mein kuch bhi nahi hon, mein kuch nahi hon ya rabbi mein aap ke samnay faqeer hon, mujhe kuch nahi maloom, mein kuch bhi nahi hon, mein kuch nahi hon ke woh un ( Aolia ) ki majalis mein bathain. maya haalat yeh hai ke woh aap ko ( aik khaas ) frikoynsi bhejna shuru karen aur yeh frikoynsi aap ko un ke channels ke sath jorna shuru kardey gi. phir master remote dosray remote ko control karsaktha hai. yahi woh cheez hai jo aaj hamein qalb ke lataif par le jati hai. hum qalb ke lataif par nigah daaltay hain, aap ke paas peelay rang ki roshni, surkh roshni, safaid roshni, sabz roshni, siyah roshni ( aur yeh ) sabhi nili roshni ke samandar mein hain. agar kisi ko puranay projikshn TV yaad hain to yeh wohi design tha, theek hai. yeh lights aik screen par parrin gi aur aap ko aik poori film nazar aeye gi aur yeh Shabih ( peelay rang ki lataif ki taraf ishara karte hue ) mere baen taraf mere dil se milnay ke liye banai gayi hai ( Sheikh ney –apne dil ki taraf ishara kya ). lehaza, yeh peelay rang ki roshni mere dil par hai yani mere baen taraf hai phir yeh surkh roshni hai ( dil ke dayen taraf ishara karte hain ), safaid roshni ( dil ke neechay baen taraf ishara karte hain ), sabz roshni ( neechay dayen taraf ishara karte hue dil ke ), black light ( dil ke markaz ki taraf ishara karte hue ) .
yeh Sooraj bhi hain, roshni ki pehli satah jis par aap muraqba karte hain aur yeh sab muraqba aur muraqba ke logon ke liye hain. to, unhon ney sab se pehlay yeh sikhaya ke apna muraqba karo, muraqba karo. yeh kaho ke mein kuch bhi nahi hon, mein –apne dil se rabita qaim karna chahta hon, mein –apne dil se rabita qaim karna chahta hon. –apne samnay Sheikh ko mojood payen ke mein kuch bhi nahi hon, mujhe apni roshni se aaraasta frmayie mujhe apni mojoodgi se aaraasta frmayie. aik baar jab unhon ney tafakur ko samgha to, woh muraqba ko samajh gaye. phir agenda aur school isliye tha ke qalb ko kholna tha to phir dil, ke Allah ( azzwajal ) chahta hai ke woh Allah azzwajal ke ghar ko samjhay aur jo samjhtae hain, un ka dil aik ghar ban jaye ga Allah azzwajal ka ghar. qalb almomin bait Allah , aik baar jab un ka ghar bait Allah ban jata hai woh kaaba aur qibla ki terhan hotay hain.
woh jahan bhi jatay hain sab kuch un ke wujood mein mojood hota hai. to, is muraqba ki pehli satah, qalb ka station, samajhney ka asan tareen tareeqa ( yeh hai ke ), oh mujhe kya istemaal karna chahiye? mujhe is Sheikh ke sath kis terhan chalna hai? aur yeh samajh boojh yeh hai ke madah ki teen halton ki Tafheem aap ki azmaish karti hai. kuch bhi nah banin. aur ( yeh kahin ke ) ab mein chahta hon ke ya rabbi mere liye qalb ka station khol dijiye, ke mein is haqeeqat se malbos hona chahta hon. mujhe tafakur ko samjhna hai aur mein koi lataif kholnay ke qabil nahi hon. mein logon ko dosray groupon se mujhe e-mail karte hue daikhta hon,” oh, Sheikh ne mein ne yeh lataif khola, phir mein ne yeh lataif khola aur ab mein yeh lataif kholnay ja raha hon “. oh, phir bohat bohat mubarakbaad! aap sab se ziyada oonchai tak pahonch jayen.! lekin hamari kitaab aur hamari raah mein, Naqshbandiah Alia mein mein khud hi sab se bara masla hon. mein kisi bhi cheez ke qabil nahi hon, mein is qabil nahi hon ke kuch bhi kholon. kyunkay is rastay ke darwazay par mein ne apni zaat ka nacheez hona qabil karliya .
khaas tor par naqshbandiah mein kisi ko bhi –apne aap se kuch kholnay ka koi rasta nahi hai. lekin un ki khwahish yeh hai ke, qalb ke is station mein mein kuch bhi nahi hon, ya rabbi mein kuch bhi nahi hon aur mere mein aur mere tafakur mein aur un azeem mashaaikh ke sath mera aqeedah hai ke Sultan Awliah molana Sheikh Mohammad naazim Haqqani ( q ), Sultan alAwliyah Mawlana Sheikh abdullah Daghistani ( q ) ke woh mere samnay hain aur mein kuch nahi hon, mein khud se aik jabir hon, mein kuch bhi nahi, mein kuch bhi nahi hon. jab mein muraqba kar raha hon aur mein kehta hon ke mein qalb ke is station ka mutalea karna chahta hon to, mein chahta hon ke mein qalb ke is station ko samajhon, mein chahta hon ke mera dil “lataif alQalb” ki is haqeeqat ko khole, ke sidi mujhe is peelay rang ki roshni se ustuwar kijiyej. aur is peelay rang ki roshni ka mushahida karen aur –apne dil ke zariye unn se yeh darkhwast karen ke barah karam is peelay rang ki roshni ko mere dil mein bhejen kyunkay woh remote ke maalik hain, mein ghulam hon jisay hum kehte hain ghulam. woh syed hain master hain aur mein ghulam hon. mein aap se kuch nahi ban’nay ke rastay mein ghulam ban’nay ke liye sawal raha hon.
mein un buttons ki apni khwahish ko daur karne ja raha hon, sidi mujhe is peelay rang ki roshni se malbos frmayie aur phir is peelay rang ki roshni ko murshid ke dil se –apne dil ki taraf atay hue tasawwur karen aur –apne ird gird ki har cheez ko isi peelay rang ki roshni ( mein mojood ) tasawwur karen. aur yeh ke mein yeh chahta hon is peelay rang ki roshni ki haqeeqat mein malbos kya jaoon, ( yeh peeli roshni ) Sooraj ki roshni ki haqeeqat hai aur yahi haqeeqat hai tab aap ( yeh ) kitaab parhte hain. is ke baad kitaab qalb ke is station ko padhana shuru karti hai ke ( yeh lateefa qalb ) ilm ki haqeeqat hai aur isi wajah se yeh Allah ( azzwajal ) ke ghar ka pehla darwaaza hai. lehaza, is kamray mein jo Allah azzwajal kholna chahta hai, ilm ka samandar hona chahiye. ke ( sawal karen ke ya sidi ) mujhe is peelay rang ki roshni se malbos frmayie. yahi wajah hai ke jab aap mazameen mein jatay hain to aap samjhna shuru ho jatay hai ke is station par aik nabi mojood hai, is station par aik farishta hai, is station par aik sahabi hai, is station par aik zikar hai jo is qalb ke station se mutaliq hai .
ke mein chahta hon ke mera dil is lateefa qalb ko khole. mein har waqt har cheez ko peelay rang ki roshni ki terhan daikhta hon, mein isi samajh ke sath apna zikar karta hon. aur phir aap yeh kitaab parhte hain, jaankaari parhte hain aur kehte hain ke mein parh raha hon ke syedna Jibraiel ( ain ) isi station mein hain. ya sidi mujhe syedna Jibraiel ( ain ) ki roshni se aarasta frmayie. aur phir –apne tafakar mein yeh sawal kijiyej ke syedna Jibraiel ( ain ) ki yeh peeli roshni mere dil mein daakhil hona shuru ho. ke ya syedna Jibraiel ( ain ) ke aap nabi (S) ke aashiq hain, nabi (S) ke sadqy se mere dil ko apni roshni say nawaziye. Nabi (S) ka vaastaa day kar sawal karen, apna nahi. kyunkay mein kuch nahi hon. syedna Mohammad (S) ki khatir mujhe –apne noor se naaziyeh. aur har zikar aur har muraqba mein syedna Jibraiel ( ain ) se aap sawal kar rahay hain ke mujhe –apne noor se aarasta karen sidi. mujhe apni khoubsurti se malbos karen. woh jo aakar aap ko aloom dena shuru karen woh syedna Jibraiel علیْه ٱلسلام ki roshni hai aur agar aap aloom ke khadim ban’nay jarahay hain to inhen kyun aana aur jana parta hai? is ka matlab hai ke woh peeli roshni ko aap ke dil mein jama karna shuru kar dein ge, theek hai .
agar aap is haqeeqat ke fard hain aur aap mustaqil tor par un aloom se malbos honay ke liye dua go hain to inhen kyun aana aur jana parta hai. matlab syedna Jibraiel ne aap ke dil mein aik roshni jama karni shuru kar di jo” nabi ke liye wahi” ban jata tha, ilm tha. … anbia ke liye woh wahi thi aur ghair anbia ke liye ilham aur syedna Mohammad (S) aur tamam anbia ke liye woh wahi thi, woh isi noor se apni wahi haasil karte hain. woh syedna Jibraiel ( ain ) ki is peelay rang ki roshni jo ab un ke dil mein faraham ki jarahi hai, ke zariye se ilham aur aloom haasil karte hain. phir is station ke paighambar kon hain? syedna aadam علیْه ٱلسلام. phir –apne dil ko sayyidna aadam علیْه ٱلسلام ke sath jorhte hue sawal karen ke syedna aadam علیْه ٱلسلام mujhe malbos karen Allah taala ne aap ko saaray aloom aur tamam lamhaat ke jab aik aadam ( ensaan ) ki rooh is zameen par aa rahi hoti hai, ataa kiye hain. is ka matlab yeh rasta tfkr par mabni hai .
aap ne qalb ki Tafheem parhi phir aap yeh tfkr karte hain ke mein syedna aadam ( ain ) ki haqeeqat ko samjhna chahta hon. matlab yeh ke yeh tamam malkoti roohein hamaray sath baat cheet karna chahti hain. syedna Jibraiel ( ain ) momnin ke zareya jana jana chahtay hain. woh puraka jana chahtay hain. woh chahtay hain ke apna noor ataa karna chahtay hain. seena aadam علیْه ٱلسلام chahtay hain ke un ko jana jaye, syedna usmaan alGhani jamea al quran jamay al-quran Majeed ke haqayiq ko jama karne walay, chahtay hain ke un ko jana jaye. tab hum samajte hain ke oh is jagah ke tamam kirdaar aur aala arwah ko mein janna chahta hon kyunkay yeh Allah azzwajal ka ghar hai. is jagah mein konsa farishta mojood hai? is jagah par konsi tajallii aur roshni hai? aur mein chahta hon ke woh lateefa mere dil mein khil jaye.
ENGLISH TRASCRIPT: https://www.facebook.com/1621830444573407/posts/2863231330433306/?d=n
WATCH HERE: https://www.facebook.com/shaykhnurjanmirahmadi/videos/2772340906182466/?vh=e&d=n
Source