Urdu – شیخ سید نورجان میراحمدی نقشبندی (ق) کی سنہری تعلیمات سے اقتباس۔ بِسْمِ اللَّـه…
شیخ سید نورجان میراحمدی نقشبندی (ق) کی سنہری تعلیمات سے اقتباس۔
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
اَلَّھُمَّ صَلِّ عَلَی سَیَّدِنَا محَمَّدٍ ﷺ وَعَلَی آلِ سَیَّدِنَا محَمَّدٍ ﷺ
زندگی کا تحفہ، غور کریں اور شُکر ادا کریں:
انشاءاللہ ہمیشہ اپنے لئے ایک یاد دہانی کہ جو ہم نے گذشتہ رات اپنے مراقبہ، تفکر کے طریقہ کار کی یاد دہانی پر (بات کی تھی) یعنی مراقبہ کرنے اور غور و فکر کرنے کے لئے کہ ہم یہ نہیں کرتے کہ ہم خاموشی میں مراقبہ کریں۔ اور خاموشی میں مراقبہ اُن بہت سی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے جو آپ (خود) کھولتے ہیں، اور معاملات اور پریشانیوں کو ضرورت سے زیادہ جانچنا اور اضطراب اور افسردگی۔ بہت ساری چیزیں خاموشی میں مراقبہ کرنے کی کوشش کرنے سے آ جائیں گی ، تصوف کا راستہ یہ تھا کہ آپ مرقبہ کو آواز کی موجودگی میں کریں۔ یعنی آپ اپنے کانوں کو آواز سننے کے لئے کھولیں ، وائبریشن کو محسوس کرنے کےلئے اور جو کچھ تلاوت کیا جا رہا ہے اس کی محبت کو محسوس کرنے کےلئے۔ ہم نے گذشتہ رات کہا تھا کہ یہ اہم بات نہیں ہے کہ یہ کون سی زبان ہے کیوں کہ ہر ایک فطرت سے محبت کرتا ہے اور کوئی نہیں سمجھتا کہ پرندے کیا کہہ رہے ہیں ، سمندر کیا کہہ رہا ہے، قدرت میں کوئی کیا کہہ رہا ہے۔ لہذا ، یہ میرے ذہن کی سمجھ کی بات نہیں ہے بلکہ یہ میرے لئے حقیقت میں اپنی روح سے سننا ہے۔ کیا آپ واقعی اپنی روح سے سن رہے ہیں یا یہ صرف سطحی سر پر جاتا ہے اور پھر اسے بلاک کردیا جاتا ہے؟ لہذا ، تب تفکر اور مراقبہ کی پہلی سطح یہ ہے کہ وہ سب کچھ بند کردیتے ہیں اور جب وہ مراقبہ کرنے جاتے ہیں تو آواز چلاتے ہیں اور یہ آواز کانوں میں آنے والی کسی بھی سرگوشی کو روک دیتی ہے۔ لہذا ، اس کی اہمیت یہی ہے۔ لوگ آتے ہیں (اور یوں کہتے ہیں کہ) ، “تو یہ کس قسم کا مراقبہ ہے یہ لڑکے بہت بلند آواز میں (گا بجا رہے) ہیں”۔ یہ واقعی ایسا ہے کہ ہم اس قسم کے لوگ نہیں کہ جن کو آپ جانتے ہیں کہ خاموشی میں مراقبہ کرتے ہیں۔ کیونکہ اس سے آپ غیر ضروری معائنہ کرنے لگتے ہیں جس سے آپ پاگل لوگوں کی طرح بن سکتے ہیں۔ زندگی کے ہر مسئلے پر ضرورت سے زیادہ غوروفکر کریں تو اس سے پہلے کہ آپ کو إحساس ہو آپ واقعی وہاں پہنچ جائیں گے۔ لہذا ، تفکر دل میں سکون اور امن کا احساس لاتا ہے۔ لہذا آپ نے ایک ایسے منظر میں اپنا ماحول ترتیب دیا کہ میں روشنی کے سمندر میں ہوں ، یا ربی۔ میرے سامنے روشنی ، میرے دائیں طرف روشنی ، میرے بائیں طرف روشنی ، میرے پیچھے روشنی ، میرے اوپر روشنی ، میرے نیچے روشنی موجود ہے، کیوں کہ حقیقت میں ان چھ سمتوں میں آپ برائی/نیگیٹیویٹی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ہر سمت ایک منفی قوت ہے جو آپ کو نیچے لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ایک فٹ بال کے کھیل (کی طرح) ہے جس میں آپ کے پاس بال ہے اور شیطان آپ کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔
اگر آپ کو یہ معلوم نہیں کہ شاید وہ پہلے ہی آپ سے مقابلہ میں ہو لیکن اس طرح کی محفل میں آنے کے لئے آپ کو متحرک کیا گیا ہے کہ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ ہمیں جنت اور روشنی کی دنیا میں جانے کےلئے مفت پاس نہیں مل رہا اور (ایسا بھی نہیں ہے کہ) میں صرف اتنا کہوں کہ میں امن چاہتا ہوں۔ اور امن آجائے، بلکہ اس کا الٹ ہے۔ جب آپ امن چاہتے ہیں تو آپ کو اس کے لئے لڑنا ہوگا۔ آپ کو اس کے لئے صرف اپنے آپ سے لڑنا ہوگا کسی اور سے نہیں کیونکہ اس سے امن نہیں ملتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑی جدوجہد ، عظیم جدوجہد میری اپنی ذات کے خلاف جدوجہد ہے۔ تو ، پھر اولیاء اللہ ہماری زندگی میں آکر تعلیم دینا شروع کرتے ہیں۔ اولیا اللہ وہ ہیں جن کو روشن خیال کیا گیا ہے اور خدا نے ان کو نور اور حقیقت عطا فرمائی اور انہیں بنی نوع انسان کے درمیان واپس بھیج دیا تاکہ انھیں پیار و محبت کے راستوں ، امن و اعتدال کے راستوں پر واپس لاسکیں۔ لہذا جیسے ہی وہ لڑتے ہیں ، تو وہ خود سے لڑتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا کہ ہر سمت میری طرف منفی قوت آرہی ہے۔ تو ، پھر میرا مراقبہ اور میرا تفکر اس حقیقت اور امن کے احساس کو کھولنے کے لئے ہے۔ تو ، پھر میں ان خوبصورت آوازوں کو چلانے جا رہا ہوں۔ کوئی بھی آواز ہو جو آپ کو بھَلی لگے اور آپ کے دل کو کھولے، آپ کے دل کے اندر حرارت پیدا کرنے لگے۔ قرآن ، درود شریف ، نعت شریف ، صلوات، جو بھی لوگ سننا چاہتے ہیں کہ آپ کو لگتا ہے کہ وہ دل میں نرمی لاتی ہے۔ وہ (اولیاء اللہ) اس لئے (کوئی بات) دہراتے ہیں کیوں کہ آپ کسی چیز کو ہزار بار دہرا سکتے ہیں اور آپ کو نہیں معلوم کہ 999 ویں بار کسی کو اس کی سمجھ آجائے۔ (اور وہ شخص) کہے کہ ، ”آہ! اب میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ” برسوں لوگ آپ کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں اور وہ اسے سنتے ہیں اور سنتے ہیں اور خدا کہتا ہے کہ ان کے کان ہیں لیکن وہ واقعتا نہیں سنتے ہیں۔ وہ آپ کی باتوں کا 99 فیصد (حصہ) روک دیتے ہیں اور اللہ عزوجل جانتا ہے کہ وہ آپ کے خطابات سے کیا لے رہے ہیں۔ لہذا ، مسلسل دہرانے کا تصور بھی اپنے ہی فائدے کے لئے ہے ، تاکہ اپنے آپ کو ریکیلیبریٹ (recalibrate) کیا جا سکے کیونکہ ہمارا مراقبہ، ہمارا تفکر ایک انتہائی سخت دباؤ میں میں ہوتا ہے۔ ہم پرامن پرسکون ماحول میں مراقبہ نہیں کرتے ۔ ہمیں سب سے تیز اور زیادہ ہجوم اور انتہائی اذیت ناک حالت میں مراقبہ کرنے کی تربیت دی گئی ہے کیونکہ اگر آپ اس میں رابطہ بنا سکتے ہیں تو آپ اپنی ساری مصروف زندگی میں سکون حاصل کر سکتے ہیں لیکن اگر آپ ایسا کہتے ہیں کہ نہیں نہیں ہر چیز پُر سکون ہو، ہر چیز خاموش ہو ، ہر چیز کامل ہو تو آپ کو ایسا مقام دنیا میں کہیں بھی نہیں ملے گا لہذا آپ کبھی بھی مراقبہ نہیں کریں گے۔
لہذا ، مراقبہ ایک مصروف ترین ماحول میں تھا ، پُر ہجوم ماحول اور ہر قسم کی دشواری میں۔ میں نے اپنی کانوں میں اچھے سے پوڈز (pods) ڈال دئے ، میں اپنی صلوات چلا لیتا ہوں اور میں اپنے دل کو مربوط کرنے کی تربیت دینا شروع کرتا ہوں اور میرے دل میں ایک روشنی ہے۔ اور مجھے ایک مقررہ وقت دیا گیا ہے۔ اور خدا نے سب کو روشنی عطا کی ہے ، ہمیں زندگی دی ہے۔ کیا آپ کبھی خود سے پوچھتے ہیں کہ خدا نے مجھے اس زمین پر زندگی کیوں دی ہے؟ اگر آپ کو یقین ہے کہ وہاں ایک ایسی طاقت ہے جو اعلٰی ہے اور وہ ابتداء کرنے والا ، بنانے والا اور معمار ہے۔ ہر سائنس دان اور ہر دانشور فرد کو یہ إحساس ہوتا ہے کہ یہاں ایک ہاتھ ہے ، کوئی ہے جس نے سب کچھ ڈیزائن کیا ہے۔ اگر ہم اس اعلیٰ طاقت پر یقین رکھتے ہیں تو پھر ایک حقیقت ہے جو ہم میں رکھی گئی ہے۔ تو نے مجھے کیوں پیدا کیا؟ کیا تو نے تفریح کے لئے مجھے تخلیق کیا ہے؟ میں آتا ہوں ، میں اوتار کی طرح کردار ادا کرتا ہوں اور پھر میں اس زمین کو چھوڑ دیتا ہوں۔ میرے وجود میں کوئی مقصد ضرور رہا ہوگا۔ اگر نہیں تو پھر ہمارا وجود بہت ہی چھوٹا اور خوفناک ہے۔ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم یہاں موجود ہیں۔ ہمارے یہاں موجود ہونے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے اور اولیا اللہ فرماتے ہیں ، نہیں ، ایسا بالکل نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت میں آپ کے بیج ، آپ کی نجات آپ کے بچے ، آپ ، آپ کے بھائی اور بہنیں ہوں گی۔ جب آپ کے والد نے آپ کی والدہ سے شادی کی تو 500،000 حاجی اس کے رحم میں داخل ہوگئے۔ لوگ حیران ہیں کہ وہ حاجیوں کے بارے میں کیوں بات کر رہا ہے؟ 500،000 حاجی آپ کی والدہ کے رحم میں داخل ہوئے تھے اور لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ کعبہ کیا ہے اور حج کیا ہے ، یہ وہیں پر ہے۔ حرمین کا مطلب “کوئی حرام نہیں” ہے۔ لہذا ، جب وہ حرمین کو دیکھتے ہیں تو ، کعبہ ایک انڈا ہے ، وحدانیت ہے ، ایک بیج ہے ، کوئی حرام اس کے گرد نہیں ہے اور عورت کے رحم کے لئے بھی یہی ہے۔ اس کی کوکھ حرمین ہے۔ کوئی حرام اس کے پیٹ پر نہیں ہونا چاہئے ، وہ اپنا پیٹ ظاہر نہیں کر سکتی، وہ پیٹ کا رقص نہیں کرتی اور اپنا پیٹ نہیں دکھاتی کیونکہ خدا نے اس کے پیٹ پر ایک راز دیا ہے۔ وہ پیدائش اور تخلیق کی طاقت رکھتی ہے۔
جیسے ہی یہ 500،000 حاجی اس کی کوکھ میں چھوڑے جاتے ہیں، وہ کالے پتھر کو بوسہ دینے کے لئے لڑنے لگتے ہیں اور اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: کیا آپ حج کو دیکھتے ہیں۔ کیا واقعی آپ کے پاس دیکھنے کے لئے آنکھیں ہیں ، کیا آپ نہیں دیکھتے ؟ اور پھر آپ اسکول جاتے ہیں ، حیاتیات/بیالوجی (biology) لیتے ہیں اور آپ خوردبین/مائیکروسکوپ سے دیکھتے ہیں تو آپ ان تمام چھوٹے حاجیوں کو روشنی میں دیکھتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں ، “اے میرے خدا! یہ حج ہے ، میں نے ان کو دیکھا ہے کہ وہ سب سفید رنگ کے ہیں ، کوئی شناخت کرنے والی چیز نہیں ہے اور وہ سب کعبہ کے لئے بھاگ رہے ہیں” اور وہ سب کعبہ تک جانے کے لئے لڑ رہے ہیں اور اُن میں سے ایک سیاہ پتھر چومے گا۔ وہ ایک، جب وہاں پہنچتا ہے تو اللہ عزوجل کہتا ہے کہ اس کو کُنجی مل گئی ، ٹکٹ ملا اور جیسے ہی اس نے پتھر کو چوما، وہ انڈے میں داخل ہوگیا۔ لہذا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لاٹری جیتنے والے ہیں۔ آپ یہاں حادثاتی طور پر نہیں ہیں کہ آپ اپنی زندگی کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہیں وہ کریں، اپنی زندگی کو تباہ کریں، اپنی زندگی کو بنا کسی مقصد کے اور بنا کسی اختتام کے پھینک دیں۔ خدا آپ کا حساب کتاب کرنے والا ہے۔ وہ کہتے ہیں چار سو ، میں نہیں جانتا کہ کیا نمبر درست ہیں ، نو سو ننانوے ہزار 9999 (499999) ، انڈے سے نہیں مل پائے ، انہوں نے ہار مان لی مگر آپ کو ٹکٹ مل گیا۔ اب ، آپ نے ٹکٹ کے ساتھ کیا کیا؟ آپ انڈے میں چلے گئے۔ آپ رحم میں رہتے ہوئے مشکلات سے گزرتے رہے اور پھر اللہ (عزوجل) اسی وجہ سے، الرحمٰن وہی ہے جو العرشِ الستوا ہے کہ الرحمٰن ہے جہاں اللہ (عزوجل) اس صفتُ الرحمٰن پر تشریف فرما ہے، اللہ عزوجل کی قوت صفت الرحمن پر ہے کیونکہ عورت کا رحم پیدائش کا راز ہے۔ جب انڈا داخل ہوتا ہے اور نطفہ داخل ہوتا ہے اور تخلیق بننے جا رہی ہوتی ہے جیسے ہی اس تخلیق کی پیدائش ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ اسے ایک “ن” عطا کرتا ہے ، اسے نور اور روشنی عطا کرتا ہے اور اب یہ رحم + نون = رحمٰن کے تحت ہے۔
رحم+ن= الرحمن
اس کو رحمن کی صفت کے تحت اپنا وجود عطا کیا گیا ہے کہ میں نے آپ کو بطور رحمت بھیجا۔ آپ رحمت کی حیثیت سے اس تخلیق میں داخل ہوں۔ آپ “ن” اور نور اور روشنی کے ساتھ اس وجود میں نمودار ہوئے۔ آپ اس نور سے کیا کریں گے جو میں نے آپ کو دیا تھا؟ تب ہماری زندگی اس حقیقت کا عکس بن جاتی ہے۔ جب آپ اپنے بچوں کو دیکھتے ہیں تو، کیونکہ نبی کریم(ص) نے بیان فرمایا ہے کہ آپ کا کنبہ ، آپ کا دین کا 50 فیصد آپ کا کنبہ ہے اور آپ کے آس پاس موجود تمام پیارے لوگ۔ اور آپ اپنے کنبہ کی طرف دیکھتے ہیں تو آپ کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ آپ نے اپنے بچے کو زندگی بخشی ، اچھی زندگی، جو بھی اسباب آپ کو میسر ہیں اُن سے آپ نے انہیں کھِلایا پلایا، لباس پہنایا ، انہیں گھر دیا اور آپ کو سب سے بڑی تکلیف تب ہوتی ہے اگر وہ اپنی دیکھ بھال نہ کریں۔ آپ نے ان کو جو زندگی دی تھی اگر وہ خود کو تباہ کردیں، وہ شراب پی کر خود کو موت کے گھاٹ اتار دیں ، وہ اپنی منشیات سے خود کو موت کے گھاٹ اتار دیں، وہ ایک صوفے پر بیٹھے بیٹھے خود کو ضائع کررہے ہیں اور ویڈیو گیمز کے علاوہ کچھ نہیں کررہے تو ، یہ سب والدین کے لئے بہت بڑا عذاب ہے تاوقتیکہ، والدین خود عقل سے پیدل ہوں۔ ایک عام والدین کے لئے اپنے بچوں کو اپنے سامنے ہلاک ہوتے دیکھنا ، اس وجود کو ضائع کرتے ہوئے جو خدا نے انہیں دیا ہے اور جو انھوں نے انہیں دیا ہے۔ میں نے آپ کو کھانا کھلایا ، میں نے آپ کو کپڑے پہنائے ، میں نے آپ کو دیا ، میں نے قربانی دی… بہت سے والدین اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرنے کے لئے دو دو نوکریاں کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی مرضی سے کچھ کرسکیں۔ اور اسی وجہ سے اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ آدھا دین آپ کا کنبہ ہے کیوں کہ اللہ عزوجل آپ سے پوچھتا ہے اور مجھ سے پوچھتا ہے۔ ہم اپنے پیاروں سے بھی پوچھتے ہیں۔ وہ آپ کو (سب کچھ) دے رہے ہیں اور آپ اس کے ساتھ کچھ نہیں کرنے جارہے اور آپ اس کو ختم کرنا اور اسے برباد کرنا چاہتے ہیں اور اسے ضائع کردینا چاہتے ہیں اور اس کو بغیر کچھ حاصل کئے ختم کردینا چاہتے ہیں۔ اور آپ کی زندگی اس زمین پر آپ کے تمام وجود کے لئے ایک صدمہ بن جاتی ہے۔ پھر اللہ عزوجل فرماتا ہے اگر آپ کو اس سے غم ہو تو آپ کے لئے میری اداسی کا تصور کریں، اللہ عزوجل کی کوئی صفات نہیں ہیں لیکن یہ ہمارے سمجھنے کےلئے بیان کیا گیا ہے۔ خداتعالیٰ کو اپنی مخلوق سے پیار ہے۔ وہ اپنی مخلوق کو تکلیف نہیں دے رہا ، یقینا اسے اپنی تخلیق سے پیار ہے اور وہ اس کے لئے صرف بہترین چاہتا ہے۔ میں نے تمہیں لاٹری دی ، میں نے تمہیں ایک وجود دیا ، اب تم اس دنیا میں آئے ہو ، تم اس کے ساتھ کیا کرنے جارہے ہو؟ اس نے ہمیں “ن” بخشا اور ہم رحم کے ذریعے آئے ، ہم نے ایک سانس لیا اب ہم رحمٰن کے ماتحت ہیں اور وہ “ن” نور ہے ، روشنی ہے۔ یہ روشنی دل کے اندر ایک چھوٹی موم بتی کی مانند ہے اور اللہ (عزوجل) نے یہ کہا کہ یہ صرف ایک عارضی موم بتی ہے ، اس زندگی کا آپ کا مقصد میری عبادت کرنا تھا اور انہوں (اولیاء اللہ) نے عبادت کی وسعت بیان کی ہے کہ عبادت صرف صلاة اور دعا ہی نہیں ہے۔ سخت محنت بھی عبادت ہے ، مراقبہ بھی عبادت ہے ، عبادت آپ کے گھر والوں ، ان کی ضروریات ، ان کی خواہشات (کو پورا کرنا) ، اپنے کنبے اور اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنا بھی ہے ، ہر طرح کی اچھائی عبادت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں تک کہ اپنے گھر کی صفائی کرنا بھی عبادت ہے یہ اللہ عزوجل کا شکر ادا کرنا ہے کہ تو نے مجھے یہ گھر دیا ، تو نے مجھے ایک کار دی ، آپ کار پسند کریں یا نہ کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں اس کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ اسی لئے شکریہ ادا کرنے کے یہ سبھی کامیاب پروگرام (چلائے گئے ہیں) کیونکہ یہ ہماری زندگیوں میں خدائی رحمت اور فضل لاتے ہیں۔
تو ، میری زندگی عبادت کرنا تھی۔ میری زندگی خدمت کرنا تھی ، اپنی خدمت کرنا نہیں تھا اور اپنی تفریح کرنا نہیں تھا اور نہ خود کو ختم کرنا تھا اور نہ خود کو تباہ کرنا تھا بلکہ اس روشنی کی پرورش کرنا تھا جو مجھے دی گئی تھی کہ کیسے خدمت کرنی ہے۔ میرے آقا ، میں نیک کام کرنا ، اچھے کام کرنا چاہتا ہوں ، میں دوسرے لوگوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ بالکل اسی طرح جیسے میں اپنے بچوں کو اپنے آپ کو تباہ کرتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتا خدا آپ کو اپنے آپ کو تباہ کرتے دیکھنا نہیں چاہتا ۔ لہذا ، یہ روشنی جو اس نے ہمیں دی ہے ، سب کچھ جو ہم کرتے ہیں وہ اس لئے ہو کہ میں اس روشنی کی پرورش کس طرح کروں۔ میرے آقا یہ روشنی جو تو نے مجھے ایک بہت ہی قیمتی موم بتی کی طرح دی تھی تاکہ وہ آپ کو ایک چھوٹی سی آزمائش دے سکے کہ یہ موم بتی لے کر چلیں پھریں اور دعا کریں کہ کہیں یہ موم بتی بُجھ نہ جائے کیونکہ اگر یہ بُجھ گئی تو (سمجھ جائیں کہ) آپ ختم ہیں۔ اور اسی موم بتی کے ساتھ گھومیں پھریں اور دیکھیں کہ کیا آپ اس موم بتی کی روشنی کو ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ آپ اس کا خیال کس طرح رکھتے ہیں تاکہ ہوا اس سے ٹکرائے نہ۔ آپ اسے تیزی سے اور پھُرتی سے حرکت میں نہیں لاتے۔ آپ جو بھی کام کرتے ہیں اس میں احتیاط ظاہر کرتے ہیں جسے وہ “زندگی میں چوکسی” کہتے ہیں۔ “وقوف القلب” ، ہمارا راستہ قلب کی نگرانی ، وقوف القلب پر مبنی ہے۔ کہ میرے آقا تو نے میرے دل میں روشنی ڈالی ، کیا میں اس روشنی کے لئے محتاط ہوں؟ کیا میں ہر لمحہ یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ اعمال ، یہ کام جو میں کر رہا ہوں کیا یہ میری روشنی کی پرورش کر رہا ہے یا کیا میں واقعی اس کو بُجھانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہوں؟ اب زمین پر 99 فیصد لوگ ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنی روشنی بُجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ہم کچھ اچھا نہیں کررہے ہیں تو ، ممکنہ طور پر کچھ برا کر رہے ہیں اور یہ روشنی لرز رہی ہے، ٹمٹما رہی ہے جب تک ہم اپنی آخری سانس نہیں لیتے ہیں اور اگر ہم اسے نہیں تعمیر کرتے تو یہ ختم ہوجاتی ہے ، اندھیر کال میں ختم ہو جاتی ہے۔ اللہ (عزوجل) کیوں چاہے گا کہ وہ فنا ہو جائے۔ تو ، پھر مراقبہ اور تفکر کرنا دراصل ایک حقیقت تک پہنچنا تھا۔ یہ روشنی جو تو نے مجھے دی ہے۔ میں اس کی پرورش کرنا چاہتا ہوں میں اس کی حفاظت اور دفاع کرنا چاہتا ہوں۔ ان رہنماؤں کی تعلیم کے ساتھ میری پوری زندگی یہ رہے گی کہ میں کیسے کرسکتا ہوں اور میں کون سے اقدامات کرسکتا ہوں جس کی وجہ سے یہ روشنی مضبوط ہو۔ مجھے اب موم بتی نہیں چاہئے۔ اس کا مطلب ہے ان کا ذکر ، ان کے اعمال ، ان کے کام ، وہ چیزیں جو وہ کرتے ہیں وہ اپنے دل کو موم بتی نہیں رہنے دیتے، (بلکہ) یہ ٹارچ کی طرح ہوجاتا ہے۔
ایک بار جب یہ ٹارچ بن جاتی ہے تو وہ ایک سپاٹ لائٹ کی طرح بن جاتی ہے کیونکہ ایک بار جب ان کا دل سپاٹ لائٹ کی طرح ہوجاتا ہے تو خدا انہیں زمین پر بھیج دیتا ہے۔ جہاں بھی جائیں آپ کی روشنی اتنی مضبوط چمکتی ہے کہ دوسرے لوگوں کے دل چمک اٹھتے اور روشن ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے اچھے لوگوں کی صحبت رکھنی چاہئے۔ آپ مجھے اپنے دوست دکھائیں اور میں بتاؤں گا کہ آپ کون ہیں۔ یہ ایک رفاقت داری ہے یہ ایسا نہیں ہے کہ میں خود گُزر جاؤں گا۔ یہ انگوٹھی کی رفاقت داری ہے جو انگریزی فلم “لارڈ آف دی رِنگ” (ہر ایک ہنس کر) کے لئے اچھی تھی۔ محبت کی (بھی) رفاقت ہوتی ہے جب ہم اس رفاقت کو برقرار رکھتے ہیں ، ہم اس روشنی کو بڑھا رہے ہوتے ہیں ، اس روشنی کو پروان چڑھا رہے ہوتے ہیں پھر اگر رفاقت اچھی ہے اور اساتذہ اچھے ہیں تو وہ آپ کو اچھے اعمال سے سکھاتے ہیں۔ خیر بانٹو، اچھے اعمال کرو۔ کوئی ایسا کام کریں جس سے آپ کو براہ راست فائدہ نہ ہو۔ وہ کام کریں جس سے آپ کے وقت اور آپ کی کوشش اور اپنی تمام تر صلاحیت کی قربانی دی جا رہی ہو۔ ہر چیز اپنی ذات کو خیر دینے کے بارے میں نہیں ہے۔ آپ کو چاکلیٹ پسند ہے لہذا آپ کسی پروگرام میں آئیں اور چاکلیٹ لائیں تاکہ آپ چاکلیٹ کھا سکیں۔ (مثلاً) ایک شخص جانتا ہے کہ وہ شوگر نہیں کھا سکتا لیکن وہ میپل سیرپ لاتا ہے اس لئے کہ وہ میپل سیرپ کے ساتھ پینکیکس پسند کرتا ہے۔ لہذا ، کچھ لائیں اور وہ کام کریں جو ضروری طور پر آپ کے اپنے لئے نہ ہوں لیکن دوسرے لوگوں کے فائدے کے لئے ہوں۔ آپ اپنا ذکر کرتے ہیں ، ہم اپنے مشق کرتے ہیں پھر یہ سب سانس لینے اور مراقبہ کی مشق، (یہاں اسلئے کہ) میرے آقا روشنی بھیج۔ مجھے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، میں مراقبہ کرنے کی کوشش اس لئے نہیں کر رہا کہ میں (چیزوں کو) کھول سکوں اور دکھاوا کروں کہ میں چیزوں کو دیکھ سکتا ہوں۔ پھر میرا سارا مراقبہ ذہنی مشاہدہ اور ذہنی پاگل پن کی طرح ہوجاتا ہے جہاں میں دماغ میں موجود صرف فریب کی دنیا میں جا رہا ہوں۔ نہیں ، میں صرف تیری روشنی تک پہنچنا چاہتا ہوں ، کچھ بھی نہیں ، میں کچھ بھی نہیں بس مجھے اپنی روشنی عطا فرما۔ یا ربی ، میرے دل میں روشنی بھیج دے مجھے اپنے دل میں روشنی آنے کا احساس عطا فرما اور آپ اس روشنی میں سانس لیتے ہیں۔ اور یہ جاننے سے پہلے، آپ اس موم بتی کی حرکت کو اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں۔ آپ کو لگتا ہے کہ (جیسے ہی) ہر سانس اندر آرہی ہے ، موم بتی (کی روشنی) شدید ہوتی جا رہی ہے۔ جب طالب علم روشن ہوجاتا ہے تو اس وقت شیخ کی وہ تعلیمات روشن ہوجاتی ہیں ، وہ جب بھی سانس لیتے ہیں تو انہیں ایک توانائی محسوس ہوتی ہے۔ ہر بار جب وہ مشق کرتے ہیں وہ روشن ہوتے جاتے ہیں۔ ان کی گردن کا مکمل پچھلا حصہ اور ان کے ہاتھ گرم ہوجائیں گے کیونکہ وہ اب موم بتی نہیں رہے ، وہ بھٹی کی طرح ہیں۔ کہ اللہ عزوجل نے ان کے دل کو بھڑکا دیا اور ان کے اندر دائمی شعلہ حرکت پذیر ہے ، ایک ابدی شعلہ۔ ایک شعلہ جو اللہ (عزوجل) نے انہیں بحر الحیات سے عطا کیا کہ تم میری ابدیت تک پہنچ گئے ہیں اور ابدیت کے اس سمندر سے آپ کو آراستہ کیا جارہا اور برکت دی جارہی ہے۔
یہ وہ حقائق ہیں جن کی آپ تلاش کرتے ہیں جب آپ مراقبہ کرتے ہو ، تفکر کرتے ہو اور سانس لیتے ہو اور روشنی حاصل کرتے ہو تو وہ آپ کو نور کے سمندروں سے اراستہ کرتے ہیں۔ دائیں آنکھ میں نور ہوتا ہے اور ان کی بائیں آنکھ میں حیات ہے کہ ان کی دائیں آنکھ سے صفت النور سے روشنی پُھوٹتی ہے اور وہ روشنی ڈالتی ہے کیونکہ اللہ (عزوجل) نے ان کی حقیقت کو روشنی کے ساتھ آراستہ کیا ہے۔ لہذا ، اگر کسی کو بھی روشنی کی کمی ہے تو محض ان کی محافل لوگوں کی روشنی کو بھر سکتی ہیں۔ ان کی بائیں آنکھ سے بحر الحیات ہے جہاں اللہ عزوجل فرماتا ہے سب کچھ ختم ہوجاتا ہے سوائے مقدس چہرہ کے۔
وَلَا تَدْعُ مَعَ ٱللَّهِ إِلَٰهًا ءَاخَرَ ۘ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ كُلُّ شَىْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُۥ ۚ لَهُ ٱلْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
اور اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہ پکار۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ہر چیز (جو موجود ہے) اس کے اپنے چہرے کے سوا ختم ہوجائے گی۔ احکم اسی کا ہے اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹایا جائے گا۔ [سورت القصص: 88]
کون؟ اللہ عزوجل کا چہرہ؟ اللہ عزوجل کا چہرہ ان دیکھا ہے لیکن ایسی حقیقت بھی ہوتی ہے جو سمجھ نہیں آسکتی جو تخلیق پر منعکس ہوتی ہے۔ میں نے آدم کو اپنی مثال کے مطابق پیدا کیا ہے کہ میں اپنی 7 الہی صفات سے تمہارے چہرے کو آراستہ کرتا ہوں پھر جب وہ آپ کئ طرف دیکھتے ہیں تو میری صفات سے ملبوس ہوتے ہیں۔ تو ، ان کی دائیں آنکھ سے ایک نور نکلتا ہے اور ان کی حقیقت پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ ان کے بائیں آنکھ سے بحر الحیات اور حیات کے سمندر نکلتے ہیں اور وہ اپنی ابدی حقیقت کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں۔ وہ اس موجودگی اور اس محفل کی توانائی کو محسوس کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی شمع کو عارضی وجود سے لے کر ابدی حقیقت کی طرف لے جاسکیں جہاں اب ان کی شمع ٹارچ کی طرح روشن ہوجاتی ہے اور اب یہ ہوا کی وجہ سے ہلنے والی نہیں ہے۔ وہ اپنی مشقوں اور اپنے عقیدے پر زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوجاتے ہیں اور جب وہ مضبوط اور مضبوط اور مستحکم ہوتے جاتے ہیں تو یہ وہ مقام ہے جس کو ہم ایمان کہتے ہیں۔ ایمان کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے بارے میں مَیں کہتا ہوں کہ مجھے ایمان ہے۔ مسجد جاکر پوچھو کتنے لوگوں کا ایمان ہے؟ 99.9 فیصد کہتے ہیں کہ یقینا ہمیں ایمان ہے۔ کس نے کہا کہ آپ کو ایمان ہے؟ ایمان ایسی چیز نہیں ہے جو آپ کہتے ہیں کہ آپ کے پاس ہے۔ اللہ عزوجل نے پاک قرآن میں فرمایا کہ اس عربی کو فرما دیجئے کہ نہیں اس نے محض اس بات کو قبول کیا جس کی آپ تعلیم دے رہے ہیں لیکن ایمان ایک مختلف سطح کا (نام) ہے۔ میں آپ کو آزمانے جا رہا ہوں اور ہر چیز کے ساتھ آپ کی زندگی ، آپ کی دولت ، کنبہ کے ساتھ آپ کی جانچ کروں گا۔ میں آپ کو ان لوگوں کی طرح آزمانے جا رہا ہوں جو آپ سے پہلے آئے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ شعلے کو ایک بہت بڑی آزمائش میں ڈالنا ہے اور جتنا وہ ان کا امتحان لیتے ہیں ، اتنا ہی ان میں مستقل مزاجی آتی ہے۔ مراقبہ انتشار کے سمندروں میں ، تنازعات کے سمندروں میں ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اللہ عزوجل کہتا ہے کہ میں آپ کی جانچ کروں گا۔ اگر جانچ کے ذریعہ آپ کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ آپ کس طرح رابطہ قائم کریں تو آپ پہلی آندھی کے ساتھ ہی گم ہوجاتے ہیں۔ “اوہ! یہ لوگ سب پاگل ہوچکے ہیں ، میں جارہا ہوں۔ ” (ایسا کرنے سے) کس کا فائدہ ، آپ نے اپنی آگ کو ختم کر دیا ، آپ نے ان کی آگ نہیں ختم کی۔ تو ، مطلب یہ زندگی اس شعلے کے بارے میں ہے۔ جب ہم اسے سمجھنے لگیں کہ اس کی پرورش کیسے کی جائے تو ، ہم مشق کرتے ہیں ، مشق کرتے ہیں ، مشق کرتے ہیں کہ آپ کو روشنی آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ مقام الایمان ایک روشنی ہے ، ایمان کو یقین کی ضرورت ہے ، ایمان دل میں موجود ایک چیز ہے جو ذہن میں نہیں ہے۔ محبت کو ایمان کی طرح دل میں داخل ہونا پڑتا ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ (عزوجل) ہمیں آراستہ کرے ، ہمیں گہری تفہیم سے نوازے کہ یہ عمل دل کی حقیقتوں کو کھولنے کے لئے ہیں اور ان کا ایک نظام ہے ، وہ (ایسے ہی) کچھ بھی نہیں کر رہے۔ ان کا ایک ایسا نظام ہے جس میں اللہ (عزوجل) نے انہیں اس زمین پر بھیجا کہ لوگوں کے دلوں کو (روشن کریں) اور ان کے دل میں روشنی کو کھولیں۔ یہ زمین دن بدن تاریک ہوتی جارہی ہے۔ اگر آپ کسی وائرس سے خوفزدہ ہیں تو تصور کریں کہ اور کیا آرہا ہے۔ آپ کو اپنے دلوں میں روشنی ڈالنی ہوگی کہ آپ اپنے دل کی طرف نگاہ ڈالیں تو اب آپ مزید اندھیرے میں نہ ہوں۔ کیونکہ اندھیرا خوفناک ہے لیکن اگر آپ کا دل روشن ہے اور آپ دل کے اندر دیکھ رہے ہیں تو آپ کو سرنگ میں روشنی نظر آتی ہے ، سرنگ کے چاروں طرف اور ہر طرف سرنگ میں۔ کیونکہ آپ کے پاس (روشن) دل ہے یعنی آپ اہل البصیرہ ہیں اُس دل کی ساتھ جو دیکھتا ہے ، انشاء اللہ۔
بِحُرمَةِ مُحَمَّد اَلمُصطفٰی وَ بِسِرّ سُورَۃ الفَاتِحَہ۔
مُحَمَّد اَلمُصطفٰی ﷺ کے تَقَدُّس اور سورۃ الفاتحہ کے راز کے ساتھ (اِس اقتباس کا اختتام کِیا جاتا ہے)۔
URDU TRANSLITERATION:
zindagi ka tohfa, ghhor karen aur shukar ada karen :
Insha Allah hamesha –apne liye aik yaad dehani ke jo hum ne guzashta raat –apne muraqba, tfkr ke tareeqa car ki yaad dehani par ( baat ki thi ) yani muraqba karne aur ghhor o fikar karne ke liye ke hum yeh nahi karte ke hum khamoshi mein muraqba karen. aur khamoshi mein muraqba unn bohat si mushkilaat ka baais ban sakta hai jo aap ( khud ) kholtey hain, aur mamlaat aur pareshaniyon ko zaroorat se ziyada janchna aur iztiraab aur afsurdagi. bohat saari cheeze khamoshi mein muraqba karne ki koshish karne se aa jayen gi, tasawuf ka rasta yeh tha ke aap muraqbah ko aawaz ki mojoodgi mein karen. yani aap –apne kaanon ko aawaz suneney ke liye kholeen, vibration ko mehsoos karne ke liye aur jo kuch talawat kya ja raha hai is ki mohabbat ko mehsoos karne ke liye. hum ne guzashta raat kaha tha ke yeh ahem baat nahi hai ke yeh kon si zabaan hai kyun ke har aik fitrat se mohabbat karta hai aur koi nahi samjhta ke parinday kya keh rahay hain, samandar kya keh raha hai, qudrat mein koi kya keh raha hai. lehaza, yeh mere zehan ki samajh ki baat nahi hai balkay yeh mere liye haqeeqat mein apni rooh se sunna hai. kya aap waqai apni rooh se sun rahay hain ya yeh sirf sathi sir par jata hai aur phir usay bock kardiya jata hai? lehaza, tab tfkr aur muraqba ki pehli satah yeh hai ke woh sab kuch band kardete hain aur jab woh muraqba karne jatay hain to aawaz chillatay hain aur yeh aawaz kaanon mein anay wali kisi bhi sargoshi ko rokkk deti hai. lehaza, is ki ahmiyat yahi hai. log atay hain ( aur yun kehte hain ke ),” to yeh kis qisam ka muraqba hai yeh larke bohat buland aawaz mein ( ga baja rahay ) hain “. yeh waqai aisa hai ke hum is qisam ke log nahi ke jin ko aap jantay hain ke khamoshi mein muraqba karte hain. kyunkay is se aap ghair zaroori muaina karne lagtay hain jis se aap pagal logon ki terhan ban satke hain. zindagi ke har maslay par zaroorat se ziyada ghor-o-fikar karen to is se pehlay ke aap ko ahsaas ho aap waqai wahan poanch jayen ge. lehaza, tfkr dil mein sukoon aur aman ka ehsas lata hai. lehaza aap ne aik aisay manzar mein apna mahol tarteeb diya ke mein roshni ke samandar mein hon, ya rabbi. mere samnay roshni, mere dayen taraf roshni, mere baen taraf roshni, mere peechay roshni, mere oopar roshni, mere neechay roshni mojood hai, kyun ke haqeeqat mein un chay simtao mein aap buraiee / negativity ka nishana bantay hain. har simt aik manfi qowat hai jo aap ko neechay laane ki koshish kar rahi hai. yeh aik foot baal ke khail ( ki terhan ) hai jis mein aap ke paas baal hai aur shetan aap ke peechay bhaag raha hai .
agar aap ko yeh maloom nahi ke shayad woh pehlay hi aap se muqaabla mein ho lekin is terhan ki mehfal mein anay ke liye aap ko mutharrak kya gaya hai ke yeh aik yaad dehani hai ke hamein jannat aur roshni ki duniya mein janey ke liye muft paas nahi mil raha aur ( aisa bhi nahi hai ke ) mein sirf itna kahoon ke mein aman chahta hon. aur aman aajay, balkay is ka ulat hai. jab aap aman chahtay hain to aap ko is ke liye larna hoga. aap ko is ke liye sirf –apne aap se larna hoga kisi aur se nahi kyunkay is se aman nahi milta. is ka matlab yeh hai ke barri jad-o-jehad, azeem jad-o-jehad meri apni zaat ke khilaaf jad-o-jehad hai. to, phir aulia Allah hamari zindagi mein aakar taleem dena shuru karte hain. Aolia Allah woh hain jin ko roshan khayaal kya gaya hai aur kkhuda ny un ko noor aur haqeeqat ataa farmai aur inhen bani noo ensaan ke darmain wapas bhaij diya taakay unhein pyar o mohabbat ke raastoon, aman o aitdaal ke raastoon par wapas laskin. lehaza jaisay hi woh lartay hain, to woh khud se lartay hain ke mein ny mehsoos kya ke har simt meri taraf manfi qowat aa rahi hai. to, phir mera muraqba aur mera tfkr is haqeeqat aur aman ke ehsas ko kholnay ke liye hai. to, phir mein un khobsorat awazon ko chalanay ja raha hon. koi bhi aawaz ho jo aap ko bhali lagey aur aap ke dil ko khole, aap ke dil ke andar hararat peda karne lagey. quran, duroood shareef, nat shareef, slwat, jo bhi log sunna chahtay hain ke aap ko lagta hai ke woh dil mein narmi latayen hai. woh ( aulia Allah ) is liye ( koi baat ) dohratay hain kyun ke aap kisi cheez ko hazaar baar dohra satke hain aur aap ko nahi maloom ke 999 win baar kisi ko is ki samajh aajay. ( aur woh shakhs ) kahe ke, ”Ah! ab mein samajh gaya hon ke aap kis ke baare mein baat kar rahay hain.” barson log aap ke sath baith satke hain aur woh usay suntay hain aur suntay hain aur kkhuda kehta hai ke un ke kaan hain lekin woh vaqata nahi suntay hain. woh aap ki baton ka 99 feesad ( hissa ) rokkk dete hain aur Allah azzwajal jaanta hai ke woh aap ke khtabat se kya le rahay hain. lehaza, musalsal dohranay ka tasawwur bhi –apne hi faiday ke liye hai, taakay –apne aap ko recalibrate kya ja sakay kyunkay hamara muraqba, hamara tfkr aik intahi sakht dabao mein mein hota hai. hum pramn pursukoon mahol mein muraqba nahi karte. hamein sab se taiz aur ziyada hajhoom aur intahi aziat naak haalat mein muraqba karne ki tarbiyat di gayi hai kyunkay agar aap is mein rabita bana satke hain to aap apni saari masroof zindagi mein sukoon haasil kar satke hain lekin agar aap aisa kehte hain ke nahi nahi har cheez pur sukoon ho, har cheez khamosh ho, har cheez kaamil ho to aap ko aisa maqam duniya mein kahin bhi nahi miley ga lehaza aap kabhi bhi muraqba nahi karen ge .
lehaza, muraqba aik masroof tareen mahol mein tha, pur hajhoom mahol aur har qisam ki dushwari mein. mein ny apni kaanon mein achay se pods daal diye, mein apni slwat chala laita hon aur mein –apne dil ko marboot karne ki tarbiyat dena shuru karta hon aur mere dil mein aik roshni hai. aur mujhe aik muqarara waqt diya gaya hai. aur kkhuda ny sab ko roshni ataa ki hai, hamein zindagi di hai. kya aap kabhi khud se puchhte hain ke kkhuda ny mujhe is zameen par zindagi kyun di hai? agar aap ko yaqeen hai ke wahan aik aisi taaqat hai jo aala hai aur woh ibtida karne wala, bananay wala aur maimaar hai. har science daan aur har Danishwer fard ko yeh ahsaas hota hai ke yahan aik haath hai, koi hai jis ny sab kuch design kya hai. agar hum is aala taaqat par yaqeen rakhtay hain to phir aik haqeeqat hai jo hum mein rakhi gayi hai. to ny mujhe kyun peda kya? kya to ny tafreeh ke liye mujhe takhleeq kya hai? mein aata hon, mein otaar ki terhan kirdaar ada karta hon aur phir mein is zameen ko chore deta hon. mere wujood mein koi maqsad zaroor raha hoga. agar nahi to phir hamara wujood bohat hi chhota aur khofnaak hai. is ki koi wajah nahi hai ke hum yahan mojood hain. hamaray yahan mojood honay ki koi khaas wajah nahi hai aur Aolia Allah farmatay hain, nahi, aisa bilkul nahi hai. balkay haqeeqat mein aap ke beej, aap ki nijaat aap ke bachay, aap, aap ke bhai aur behnain hon gi. jab aap ke waalid ny aap ki walida se shadi ki to 500, 000 haji is ke reham mein daakhil hogaye. log heran hain ke woh hajion ke baare mein kyun baat kar raha hai? 500, 000 haji aap ki walida ke reham mein daakhil hue they aur log janna chahtay hain ke kaaba kya hai aur hajj kya hai, yeh wahein par hai. hrmin ka matlab “koi haraam nahi” hai. lehaza, jab woh hrmin ko dekhte hain to, kaaba aik anda hai, wahdaniyat hai, aik beej hai, koi haraam is ke gird nahi hai aur aurat ke reham ke liye bhi yahi hai. is ki kookh hrmin hai. koi haraam is ke pait par nahi hona chahiye, woh apna pait zahir nahi kar sakti, woh pait ka raqs nahi karti aur apna pait nahi dukhati kyunkay kkhuda ny is ke pait par aik raaz diya hai. woh paidaiesh aur takhleeq ki taaqat rakhti hai .
jaisay hi yeh 500, 000 haaji is ki kookh mein chhorey jatay hain, woh kalay pathar ko bosa dainay ke liye larnay lagtay hain aur Allah azzwajal ka irshad hai : kya aap hajj ko dekhte hain. kya waqai aap ke paas dekhnay ke liye ankhen hain, kya aap nahi dekhte? aur phir aap school jatay hain, hayaatiyaat ( biology ) letay hain aur aap khordbeen / mayikroskop se dekhte hain to aap un tamam chhote hajion ko roshni mein dekhte hain. aap kehte hain,” ae mere kkhuda! yeh hajj hai, mein ney un ko dekha hai ke woh sab safaid rang ke hain, koi shanakht karne wali cheez nahi hai aur woh sab kaaba ke liye bhaag rahay hin” aur woh sab kaaba taq janay ke liye lar rahay hain aur unn mein se aik siyah pathar chume ga. woh aik, jab wahan pohanchana hai to Allah azzwajal kehta hai ke is ko kunji mil gayi, ticket mila aur jaisay hi is ney pathar ko chooma, woh anday mein daakhil hogaya. lehaza, is ka matlab yeh hai ke hum lotry jeetnay walay hain. aap yahan hadsati tor par nahi hain ke aap apni zindagi ke sath jo kuch karna chahain woh karen, apni zindagi ko tabah karen, apni zindagi ko bana kisi maqsad ke aur bana kisi ekhtataam ke pheink den. kkhuda aap ka hisaab kitaab karne wala hai. woh kehte hain chaar so, mein nahi jaanta ke kya number durust hain, no so ninanway hazaar 9999 ( 499999 ), anday se nahi mil paye, unhon ney haar maan li magar aap ko ticket mil gaya. ab, aap ney ticket ke sath kya kya? aap anday mein chalay gaye. aap reham mein rehtay hue mushkilaat se guzarte rahay aur phir Allah ( azzwajal ) isi wajah se, al-rehman wohi hai jo arshiStawa hai ke al-rehman hai jahan Allah ( azzwajal ) is sift al-rehman par tashreef farma hai, Allah azzwajal ki qowat sift Al Rehman par hai kyunkay aurat ka reham paidaiesh ka raaz hai. jab anda daakhil hota hai aur nutfa daakhil hota hai aur takhleeq ban’nay ja rahi hoti hai jaisay hi is takhleeq ki paidaiesh hoti hai, Allah taala usay aik “noon” ataa karta hai, usay noor aur roshni ataa karta hai aur ab yeh reham + noon = rehman ke tehat hai .
reham + noon = Al Rehman
is ko Rehman ki sift ke tehat apna wujood ataa kya gaya hai ke mein ney aap ko bator rehmat bheja. aap rehmat ki hesiyat se is takhleeq mein daakhil hon. aap “ن” aur noor aur roshni ke sath is wujood mein namodaar hue. aap is noor se kya karen ge jo mein ney aap ko diya tha? tab hamari zindagi is haqeeqat ka aks ban jati hai. jab aap –apne bachon ko dekhte hain to, kyunkay nabi kareem ( s ) ney bayan farmaya hai ke aap ka kunba, aap ka deen ka 50% aap ka kunba hai aur aap ke aas paas mojood tamam piyaray log. aur aap –apne kunba ki taraf dekhte hain to aap ko yeh ehsas honay lagta hai ke aap ney –apne bachay ko zindagi bakhsh, achi zindagi, jo bhi asbaab aap ko muyassar hain unn se aap ney inhen khilaya pilaya, libaas pehnaya, inhen ghar diya aur aap ko sab se barri takleef tab hoti hai agar woh apni dekh bhaal nah karen. aap ney un ko jo zindagi di thi agar woh khud ko tabah kar dein, woh sharaab pi kar khud ko mout ke ghaat utaar den, woh apni manshiat se khud ko mout ke ghaat utaar den, woh aik sofay par baithy baithy khud ko zaya kar rahay hain aur video games ke ilawa kuch nahi kar rahay to, yeh sab walidain ke liye bohat bara azaab hai tavqtik_h, walidain khud aqal se paidal hon. aik aam walidain ke liye –apne bachon ko –apne samnay halaak hotay dekhna, is wujood ko zaya karte hue jo kkhuda ney inhen diya hai aur jo unhon ney inhen diya hai. mein ney aap ko khana khilaya, mein ney aap ko kapray pahnaye, mein ney aap ko diya, mein ney qurbani di … bohat se walidain –apne bachon ko school mein daakhil karne ke liye do do nokryan karte hain taakay woh apni marzi se kuch kar saken. aur isi wajah se Allah taala farmata hai ke aadha deen aap ka kunba hai kyun ke Allah azzwajal aap se poochta hai aur mujh se poochta hai. hum –apne pyaron se bhi puchhte hain. woh aap ko ( sab kuch ) day rahay hain aur aap is ke sath kuch nahi karne jarahay aur aap is ko khatam karna aur usay barbaad karna chahtay hain aur usay zaya kar dena chahtay hain aur is ko baghair kuch haasil kiye khatam kar dena chahtay hain. aur aap ki zindagi is zameen par aap ke tamam wujood ke liye aik sadma ban jati hai. phir Allah azzwajal farmata hai agar aap ko is se gham ho to aap ke liye meri udasi ka tasawwur karen, Allah azzwajal ki koi sifaat nahi hain lekin yeh hamaray samajhney ke liye bayan kya gaya hai. khuda ko apni makhlooq se pyar hai. woh apni makhlooq ko takleef nahi day raha, yaqeenan usay apni takhleeq se pyar hai aur woh is ke liye sirf behtareen chahta hai. mein ney tumhe lotry di, mein ney tumhe aik wujood diya, ab tum is duniya mein aeye ho, tum is ke sath kya karne jarahay ho? is ney hamein “ن” bakhsha aur hum reham ke zariye aeye, hum ney aik saans liya ab hum rehman ke matehat hain aur woh “ن” noor hai, roshni hai. yeh roshni dil ke andar aik choti mom batii ki manind hai aur Allah ( azzwajal ) ney yeh kaha ke yeh sirf aik earzi mom batii hai, is zindagi ka aap ka maqsad meri ibadat karna tha aur unhon ( aulia Allah ) ney ibadat ki wusat bayan ki hai ke ibadat sirf salat aur dua hi nahi hai. sakht mehnat bhi ibadat hai, muraqba bhi ibadat hai, ibadat aap ke ghar walon, un ki zaroriat, un ki khwahisaat ( ko poora karna ), –apne knbe aur –apne bachon ke sath waqt guzaarna bhi hai, har terhan ki achhai ibadat hai. un ka kehna hai ke yahan taq ke –apne ghar ki safai karna bhi ibadat hai yeh Allah azzwajal ka shukar ada karna hai ke to ney mujhe yeh ghar diya, to ney mujhe aik car di, aap car pasand karen ya nah karen is se koi farq nahi parta. hamein is ka shukriya ada karna hai. isi liye shukriya ada karne ke yeh sabhi kamyaab programme ( chalaye gaye hain ) kyunkay yeh hamari zindagion mein khudai rehmat aur fazl laatay hain .
to, meri zindagi ibadat karna thi. meri zindagi khidmat karna thi, apni khidmat karna nahi tha aur apni tafreeh karna nahi tha aur nah khud ko khatam karna tha aur nah khud ko tabah karna tha balkay is roshni ki parwarish karna tha jo mujhe di gayi thi ke kaisay khidmat karni hai. mere aaqa, mein naik kaam karna, achay kaam karna chahta hon, mein dosray logon ki madad karna chahta hon. bilkul isi terhan jaisay mein –apne bachon ko –apne aap ko tabah karta hwa daikhna nahi chahta kkhuda aap ko –apne aap ko tabah karte daikhna nahi chahta. lehaza, yeh roshni jo is neh hamein di hai, sab kuch jo hum karte hain woh is liye ho ke mein is roshni ki parwarish kis terhan karoon. mere aaqa yeh roshni jo to neh mujhe aik bohat hi qeemti mom batii ki terhan di thi taakay woh aap ko aik chothee si azmaish day sakay ke yeh mom batii le kar chalen phrin aur dua karen ke kahin yeh mom batii bujh nah jaye kyunkay agar yeh bujh gayi to ( samajh jayen ke ) aap khatam hain. aur isi mom batii ke sath ghumain phrin aur dekhen ke kya aap is mom batii ki roshni ko sath rakh satke hain. aap is ka khayaal kis terhan rakhtay hain taakay hwa is se tkraye nah. aap usay taizi se aur phurti se harkat mein nahi laatay. aap jo bhi kaam karte hain is mein ahthyat zahir karte hain jisay woh “zindagi mein chokssi” kehte hain. “wuqoof al-qalb”, hamara rasta qalb ki nigrani, waqoof al qalb par mabni hai. ke mere aaqa to neh mere dil mein roshni daali, kya mein is roshni ke liye mohtaat hon? kya mein har lamha yeh soch raha hon ke yeh aamaal, yeh kaam jo mein kar raha hon kya yeh meri roshni ki parwarish kar raha hai ya kya mein waqai is ko bujhanay ki bharpoor koshish kar raha hon? ab zameen par 99 feesad log aisa lagta hai jaisay woh apni roshni bujhanay ki koshish kar rahay hain. agar hum kuch acha nahi kar rahay hain to, mumkina tor par kuch bura kar rahay hain aur yeh roshni laraz rahi hai, timtima rahi hai jab taq hum apni aakhri saans nahi letay hain aur agar hum usay nahi taamer karte to yeh khatam hojati hai, andher cal mein khatam ho jati hai. Allah ( azzwajal ) kyun chahay ga ke woh fanaa ho jaye. to, phir muraqba aur tfkr karna darasal aik haqeeqat taq pohanchna tha. yeh roshni jo to neh mujhe di hai. mein is ki parwarish karna chahta hon mein is ki hifazat aur difaa karna chahta hon. un rehnumao ki taleem ke sath meri poori zindagi yeh rahay gi ke mein kaisay karsaktha hon aur mein kon se iqdamaat karsaktha hon jis ki wajah se yeh roshni mazboot ho. mujhe ab mom batii nahi chahiye. is ka matlab hai un ka zikar, un ke aamaal, un ke kaam, woh cheeze jo woh karte hain woh –apne dil ko mom batii nahi rehne dete, ( balkay ) yeh torch ki terhan hojata hai .
aik baar jab yeh torch ban jati hai to woh aik sapat light ki terhan ban jati hai kyunkay aik baar jab un ka dil sapat light ki terhan hojata hai to kkhuda inhen zameen par bhaij deta hai. jahan bhi jayen aap ki roshni itni mazboot chamakti hai ke dosray logon ke dil chamak uthte aur roshan ho jatay hain. isi liye achay logon ki sohbat rakhni chahiye. aap mujhe –apne dost deikhein aur mein batau ga ke aap kon hain. yeh aik rafaqat daari hai yeh aisa nahi hai ke mein khud guzar jaoon ga. yeh angothi ki rafaqat daari hai jo angrezi film “Lord of the ring” ( har aik hans kar ) ke liye achi thi. mohabbat ki ( bhi ) rafaqat hoti hai jab hum is rafaqat ko barqarar rakhtay hain, hum is roshni ko barha rahay hotay hain, is roshni ko parwan charha rahay hotay hain phir agar rafaqat achi hai aur asatzh achay hain to woh aap ko achay aamaal se sikhate hain. kher banto, achay aamaal karo. koi aisa kaam karen jis se aap ko barah e raast faida nah ho. woh kaam karen jis se aap ke waqt aur aap ki koshish aur apni tamam tar salahiyat ki qurbani di ja rahi ho. har cheez apni zaat ko kher dainay ke baray mein nahi hai. aap ko chocolate pasand hai lehaza aap kisi programme mein ayen aur chocolate layein taakay aap chocolate kha saken. ( maslan ) 1 shakhs jaanta hai ke woh sugar nahi kha sakta lekin woh maple syrup lata hai is liye ke woh maple syrup ke sath pan cakes pasand karta hai. lehaza, kuch layein aur woh kaam karen jo zurori tor par aap ke –apne liye nah hon lekin dosray logon ke faiday ke liye hon. aap apna zikar karte hain, hum –apne mashq karte hain phir yeh sab saans lainay aur muraqba ki mashq, ( yahan isliye ke ) mere aaqa roshni bhaij. mujhe dekhnay ki zaroorat nahi hai, mein muraqba karne ki koshish is liye nahi kar raha ke mein ( cheezon ko ) khol sakun aur dikhawa karoon ke mein cheezon ko dekh sakta hon. phir mera sara muraqba zehni mushahida aur zehni pagal pan ki terhan hojata hai jahan mein dimagh mein mojood sirf fraib ki duniya mein ja raha hon. nahi, mein sirf teri roshni taq pohanchna chahta hon, kuch bhi nahi, mein kuch bhi nahi bas mujhe apni roshni ataa farma. ya rabbi, mere dil mein roshni bhaij day mujhe –apne dil mein roshni anay ka ehsas ataa farma aur aap is roshni mein saans letay hain. aur yeh jan-nay se pehlay, aap is mom batii ki harkat ko –apne dil mein mehsoos karte hain. aap ko lagta hai ke ( jaisay hi ) har saans andar aa rahi hai, mom batii ( ki roshni ) shadeed hoti ja rahi hai. jab taalib ilm roshan hojata hai to is waqt Sheikh ki woh talemaat roshan hojati hain, woh jab bhi saans letay hain to inhen aik tawanai mehsoos hoti hai. har baar jab woh mashq karte hain woh roshan hotay jatay hain. un ki gardan ka mukammal pichla hissa aur un ke haath garam ho jaien ge kyunkay woh ab mom batii nahi rahay, woh Bhatti ki terhan hain. ke Allah azzwajal neh un ke dil ko bahrakna diya aur un ke andar daimi shola harkat Pazeer hai, aik abdi shola. aik shola jo Allah ( azzwajal ) neh inhen behar al hayaat se ataa kya ke tum meri abdiyat taq pahonch gaye hain aur abdiyat ke is samandar se aap ko aarasta kya ja raha aur barket di jarahi hai .
yeh woh haqayiq hain jin ki aap talaash karte hain jab aap muraqba karte ho, tafakkar karte ho aur saans letay ho aur roshni haasil karte ho to woh aap ko noor ke samndron se araasta karte hain. dayen aankhh mein noor hota hai aur un ki baen aankhh mein hayaat hai ke un ki dayen aankhh se sift alnoor se roshni Phoot’ti hai aur woh roshni daalti hai kyunkay Allah ( azzwajal ) ne un ki haqeeqat ko roshni ke sath aaraasta kya hai. lehaza, agar kisi ko bhi roshni ki kami hai to mehez un ki Mahafil logon ki roshni ko bhar sakti hain. un ki baen aankhh se behar al hayaat hai jahan Allah azzwajal farmata hai sab kuch khatam hojata hai siwaye muqaddas chehra ke .
aur Allah ke siwa kisi aur mabood ko nah pukaar. is ke siwa koi mabood nahi. har cheez ( jo mojood hai ) is ke –apne chehray ke siwa khatam hojaye gi. Ahkem isi ka hai aur isi ki taraf tum sab ko lotaya jaye ga. [ sourat Alqisas : 88 ]
kon? Allah azzwajal ka chehra? Allah azzwajal ka chehra un dekha hai lekin aisi haqeeqat bhi hoti hai jo samajh nahi askati jo takhleeq par munakis hoti hai. mein ne aadam ko apni misaal ke mutabiq peda kya hai ke mein apni 7 ellahi sifaat se tumahray chehray ko aaraasta karta hon phir jab woh aap kayi taraf dekhte hain to meri sifaat se malbos hotay hain. to, un ki dayen aankhh se aik noor nikalta hai aur un ki haqeeqat par roshni daali jati hai. un ke baen aankhh se behar al hayaat aur hayaat ke samandar nikaltay hain aur woh apni abdi haqeeqat ki taraf gamzan ho jatay hain. woh is mojoodgi aur is mahafil ki tawanai ko mehsoos karte hain taakay woh apni shama ko earzi wujood se le kar abdi haqeeqat ki taraf le ja sakain jahan ab un ki shama torch ki terhan roshan hojati hai aur ab yeh hwa ki wajah se hilnay wali nahi hai. woh apni mashqon aur –apne aqeday par ziyada se ziyada mustahkam ho jatay hain aur jab woh mazboot aur mazboot aur mustahkam hotay jatay hain to
yeh woh maqam hai jis ko hum imaan kehte hain. imaan koi aisi cheez nahi hai jis ke barey mein mein kehta hon ke mujhe imaan hai. masjid jaakar poochho kitney logon ka imaan hai? 99. 9 feesad kehte hain ke yaqeenan hamein imaan hai. kis ne kaha ke aap ko imaan hai? imaan aisi cheez nahi hai jo aap kehte hain ke aap ke paas hai. Allah azzwajal ne pak quran mein farmaya ke is arabi ko farma dijiye ke nahi is ne mehez is baat ko qubool kya jis ki aap taleem day rahay hain lekin imaan aik mukhtalif satah ka ( naam ) hai. mein aap ko azmaane ja raha hon aur har cheez ke sath aap ki zindagi, aap ki doulat, kunba ke sath aap ki jaanch karoon ga. mein aap ko un logon ki terhan azmaane ja raha hon jo aap se pehlay aeye they is ka matlab yeh hai ke sholay ko aik bohat barri azmaish mein daalna hai aur jitna woh un ka imthehaan letay hain, itna hi un mein mustaqil mizaji aati hai. muraqba inteshaar ke samndron mein, tanazeaat ke samndron mein hai. kyun? is liye ke Allah azzwajal kehta hai ke mein aap ki jaanch karoon ga. agar jaanch ke zareya aap ko yeh samajh nahi aati ke aap kis terhan rabita qaim karen to aap pehli aandhi ke sath hi gum ho jatay hain. “Oh! yeh log sab pagal ho chukay hain, mein ja raha hon.” ( aisa karne se ) kis ka faida, aap ne apni aag ko khatam kar diya, aap ne un ki aag nahi khatam ki. to, matlab yeh zindagi is sholay ke barey mein hai. jab hum usay samajhney lagen ke is ki parwarish kaisay ki jaye to, hum mashq karte hain, mashq karte hain, mashq karte hain ke aap ko roshni aati hui mehsoos hoti hai. maqam alayman aik roshni hai, imaan ko yaqeen ki zaroorat hai, imaan dil mein mojood aik cheez hai jo zehan mein nahi hai. mohabbat ko imaan ki terhan dil mein daakhil hona parta hai. hum dua karte hain ke Allah ( azzwajal ) hamein aaraasta kere, hamein gehri Tafheem se nawazay ke yeh amal dil ki haqeeqaton ko kholnay ke liye hain aur un ka aik nizaam hai, woh ( aisay hi ) kuch bhi nahi kar rahay. un ka aik aisa nizaam hai jis mein Allah ( azzwajal ) ne inhen is zameen par bheja ke logon ke dilon ko ( roshan karen ) aur un ke dil mein roshni ko kholeen. yeh zameen din badan tareek hoti jarahi hai. agar aap kisi virus se khaufzadah hain to tasawwur karen ke aur kya araha hai. aap ko –apne dilon mein roshni dalni hogi ke aap –apne dil ki taraf nigah dalain to ab aap mazeed andheray mein nah hon. kyunkay andhera khofnaak hai lekin agar aap ka dil roshan hai aur aap dil ke andar dekh rahay hain to aap ko surang mein roshni nazar aati hai, surang ke charon taraf aur har taraf surang mein. kyunkay aap ke paas ( roshan ) dil hai yani aap ahal baseerah hain uss dil ki sath jo daikhta hai, Insha Allah .
FOR ENGLISH: https://www.facebook.com/sufimeditationcenterUSA/posts/2912797768809995:0?__tn__=K-R
WATCH HERE:
https://www.facebook.com/shaykhnurjanmirahmadi/videos/129737408447678/
Source