Urdu – شیخ سید نورجان میراحمدی نقشبندی (ق) کی سنہری تعلیمات سے اقتباس۔ بِسْمِ اللَّـه…
شیخ سید نورجان میراحمدی نقشبندی (ق) کی سنہری تعلیمات سے اقتباس۔
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
اَلَّھُمَّ صَلِّ عَلَی سَیَّدِنَا محَمَّدٍ ﷺ وَعَلَی آلِ سَیَّدِنَا محَمَّدٍ ﷺ
? ڈریگن کی سانس ۔ مراقبہ ?
سوال: کیا شیخ براہ کرم اُس سانس کی بصیرت پر روشنی ڈال سکتے ہیں جو “ھُو” کی طاقت کو روح تک پہنچاتی ہے، اور شیخ کی نظرِ مبارک کی طاقت جو مرید پر دباؤ (construction) ڈالتی ہے؟ اس کو زیادہ مضبوطی سے تھامے رکھنے کیلئے کونسی پوزیشن میں رہا جائے؟
شیخ سید نورجان میراحمدی نقشبندی (ق):
اعوذو باللہ من الشیطن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن رحیم ، نَفَسُ الرَحمہ اور سانس کی اہمیت یہ ہے کہ سارا طریقہ سانس پر مبنی ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ کوئی بھی شیخ سانس کے بارے میں بات نہیں کرتا۔ “ہوش دَر دم” ،آپ کی سانس کا شعور اور نقشبندی کی کتاب کا ہر حصہ ، ہر عظیم الشان شیخ کا پہلا تبصرہ یہی ہے کہ یہ راستہ آپ کی نَفَس (سانس) پر مبنی ہے۔ یہ کہ آپ کی ُقدرة کی تفهيم ،آپ کی طاقت ، اللہ عزوجل کی طرف سے آپ کا تحفہ آپ کی سانس ہے۔ کسی بھی چیز سے پہلے جو ہم چاہتے ہیں اور کسی چیز کے لیۓ دُعا کرنے سے پہلے اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ کیا آپ نے اپنی سانسوں کے لئے میرا شکریہ ادا کیا۔ تو ، پھر یہ نَفَس جو اندر آرہا ہےزبردست طاقت اور قوت ہوسکتا ہے۔ یہ سانس جو بحرُ القدرة سے آتا ہے ایک طاقت ہے۔ انھیں یہ سکھایا گیا تھا کہ وہ اپنی سانس کی حقیقت کو کس طرح کھولیں۔ اور انہوں نے ایٹمزسے ”ھو” باہر نکال لیا کہ ہر ایٹم اور اس کامرکز (نیوکلیس ) ھُو کا راز رکھتا ہے اور یہ قدرت اور توانائی ہے جس کو اب وہ اُن جہازوں میں استعمال کر رہے ہیں جو بہت دور جاتے ہیں۔ وہ انہیں گیس نہیں دے سکتے لہٰذا اسی لیۓ وہ انہیں (ایک طرح کے) ایٹمی جہاز بنا دیتے ہیں ۔
ان کے اپنے ری ایکٹر ہیں کیونکہ آپ سمندر کے وسط میں بھلا کیسے آئس بریکر (ice breaker) لگا سکتے ہیں اور جہاز کو دوبارہ ایندھن دے سکتے ہیں؟ لہذا ، اللہ عزوجل بھی وہی (بصیرت) دے رہا ہے ،کہتے ہیں کہ آپ کس طرح بار بار جہاز میں ایندھن بھر سکتے ہیں، اورآپ پانچ منٹ ایندھن کو دوبارہ بھرنے کےلئے اس کی جانچ نہیں کرسکتے۔ تو اس کے معنی یہ ہیں کہ پھر اللہ عزوجل ان کے اندر (یہ سوچ) بھڑکائے گا کہ اپنے آس پاس کی ہر چیز سے طاقت کو کس طرح کھنچا جا سکتا ہے۔ تو ، سانس سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ ہم نےاس سے پہلے کہاکہ یہ ایک WIFI کی طرح ہے جو ساری مخلوق میں جاری ہو رہا ہے۔ ہر فوٹوون (photon) اس حقیقت کو اُٹھائے ہوئے ہے۔ تو ، خدائی وائی فائی جو اس ساری تخلیق پر نشر ہو رہاہے۔ ہر پھول کو اس کی ضرورت ہے ، ہر کھٹمل کو اس کی ضرورت ہے ، ہر متحرک اور بے جان چیز اس کی ایٹمی حقیقت کی وجہ سے اس کی محتاج ہے۔ اس میں ھُو کاراز ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام تر طریقوں نے اپنے وظائف میں ھو کا ذکر شامل کر رکھا ہے۔ لہذا ، جب وہ سانس لے رہے ہوتے ہیں اور وہ (اُس طاقت کو) کھول رہے ہوتے ہیں اور سانس لینے کی خود کو تربیت دے رہے ہوتےہیں، وہ تصور کرتے ہیں کہ آنے والی روشنی کی سانس جو اندر آتی ہے اور اللہ عزوجل سے درخواست کرتی ہے کہ وہ تمام نیگیٹوٹی کو دور کردے اور جب وہ مشق کر رہے ہوتے ہیں اور اپنا تفکُر کر رہے ہوتے ہیں تو وہ جتنا زیادہ (خود کو) مٹاتے جاتے ہیں اور ناچیز بنتے جاتے ہیں، کہ، یا ربی میں کچھ بھی نہیں ہوں ، مجھے احساس ہے کہ میں حقیقتًا اپنی ذات پر ظلم کرنے والے کے سوا کچھ نہیں ہوں “لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین” کہ پاک ہے اللہ عزوجل، بیشک میں خود پر ظلم کرنے والا ہوں۔
چونکہ اللہ عزوجل دیکھ رہا ہے کہ آپ واقعی یقین کرتے ہیں کہ آپ کچھ بھی نہیں، تو آپ کی سانسیں اور سانس لینا زیادہ طاقتور ہوجائے گا۔ لہذا ، یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ اوہ ، میں ھو کو کھولنا چاہتا ہوں! چنانچہ آپ صرف سانس لیتےاور مشق کرتے رہتے ہیں ، سانس لیتے اور مشق کرتے رہتے ہیں جب تک کہ اللہ عزوجل آپ کے خلوص کا تعین نہ کرلے۔ اور ایک ایسا نظام موجود ہے جس میں وہ اپنی نبض کو تھام لیتے ہیں تاکہ ان کا ہاتھ اور ان کی انگلی ایک انرجی کو پکارنے لگے۔ اور کئی سالوں سے لوگوں نے ہمارا مذاق اڑایا کہ “اوہ ، دیکھو وہ ُبدھا کے نشان کی طرح کر رہا ہے۔” نہیں ، بلکہ انہوں نے یہ ہم سے چرایا ہے، انہوں نے نبی (ص) سے چرایا۔ اگر کوئی بھی روحانی ترقی کو جاننا چاہتا ہے تو وہ جائے اور گوگل (google ) کرے۔ ایک بچے کے ہاتھ، آپ نے دیکھا کہ ہر بچے کا ہاتھ اس طرح بند ہے (شیخ اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے دائرہ بناتے ہیں )وہ سارا دن (اپنے ہاتھوں کو) ایسا ہی رکھتے ہیں۔ چھوٹے بچے پیدائش سے لے کر ایک سال تک بڑھتے ہیں جیسے ووو (whooo) یعنی تیزی سے۔ ایک انسان جب تیزی سے پروان چڑھے گا تو وہ ان کی پیدائش سے لے کر ان کی پہلی اور دوسری سالگرہ تک ہے۔ کیسے چھوٹی چھوٹی چیزیں اس طرح بڑھ گئیں (یکدم بڑھ گئیں) وہ دراصل اپنی توانائی کو بلا رہے ہوتے ہیں۔ اللہ عزوجل ان کو ترغیب دیتا ہے کہ اپنی انرجی کو ُپکارو۔ سارا دن وہ تفکُر اور مراقبہ کر رہے ہوتے ہیں جس کے بارے میں آپ کو لگتا ہے کہ وہ سو رہے ہیں اور انہوں نے اپنا ہاتھ تھاما ہوتا ہے اور انرجی آرہی ہوتی ہے ، انرجی آرہی ہوتی ہے اور وہ بڑھ رہے ہوتے ہیں ، اس رفتار سے بڑھ رہے ہوتے ہیں جس سے اللہ عزوجل چاہتا ہے تاکہ وہ اس زمین پر زندہ رہ سکیں۔ لہذا ، ہر کوئی یہ کام کر رہا ہے سوائے ان لوگوں کے جو نہیں جانتے کہ وہ کیوں مراقبہ کررہے ہیں پھر وہ (اولیا اللہ) اس کو پڑھانا شروع کردیتے ہیں کہ اس میں انرجی ہے۔ جیسے ہی آپ کا انگوٹھا، کہ جو آپ کی شناخت ہے اور ہر ایک کا اپنا ایک الگ فنگر پرنٹ ہوتا ہے روحانی دنیا میں آپ کا انگوٹھا روشنی کے سمندر میں آپ کی روح کی روشنی کی نشاندہی کرتا ہے جو سب ایک ہی ہے۔ کیونکہ روشنی کے سمندر میں ہم سب ایک ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ آپ کون ہیں ، ہم ایک سمندر میں ہیں لیکن یہ پرنٹ آپ کی شناخت کو بالکل جانتا ہے۔ جیسے ہی یہ پرنٹ ظاہر ہوتا ہے یہ آپ کو اس حقیقت سے کھینچ لے گا اور آپ کے وجود کے لئیے ضروری انرجی بھیجنا شروع کردے گا۔ جیسے ہی آپ اس انگلی کو ُچھوتے ہیں ، شہادت کی انگلی کوانگوٹھے سے، آپ بحر القُدرة کو پُکاررہے ہوتے ہیں۔ انرجی جسکی مجھےضرورت ہے، اس سے زیادہ انرجی میرے پاس آنے لگتی ہے۔آپ ایک انرجی کو آنے کا اشارہ دے رہے ہوتے ہیں اور پھر اس سے سیٹلائٹ کی طرح زوووو (Zhooo) اس نے آپ کی جانب رُخ کیا اور آپ کو روزانہ کی بنیاد پرضرورت سے کہیں زیادہ آپ کی ُقدرة بھیجنا شروع کردی۔ چنانچہ ، جب وہ تفکُر کرنے کیلئے بیٹھتے ہیں تو وہ سمجھ گئے کہ وہ کر سکتے ہیں، لہٰذا انہیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے (شیخ اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کو ملا کردائرہ بناتے ہیں) ، وہ صرف اپنا ہاتھ تھام لیتے ہیں اور وہ ایک سگنل اور انرجی کو پُکارنے لگتے ہیں اور ایک انرجی آنے لگتی ہے، اور پھر اللہ عزوجل انہیں اپنے دل کے سگنل (signal) سے زیادہ واقف کرنے کے لئے تیار کرتا ہے کہ وہ اپنے دل کی حرکت کو محسوس کرنے لگیں۔ جب آپ کھلے ہاتھوں سے مُراقبہ کرتے ہیں تو ، مراقبہ ہر جگہ بہنے کے ُمترادف ہوتا ہے ، وہ ہوا میں پتنگ کی طرح گمشدہ ادھر ادھر اڑ رہے ہوتے ہیں۔
جیسے ہی وہ اپنے انگوٹھے پر ہاتھ رکھتے ہیں وہ دل کی طرف دوبارہ توجہ مرکوز کرلیتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ قلب المومن بیت اللہ، وہ اللہ عزوجل کے گھر پر توجہ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ لہذا ، اس کا مطلب ہے کہ وہ صرف مخلص ہونا سیکھتے ہیں ، اللہ عزوجل اِنکی سانسیں کھولنا شروع کردے گا۔ لہذا ، جب وہ سانس لیتے ہیں ، تو انہیں اب آگ کی طرح محسوس ہونے والی انرجی آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ وہ ڈریگن (Dragon) کی طرح آگ کی طرح سانس لیتے ہیں۔ لہذا ، روحانی دنیا میں ڈریگن مومن لوگوں کے لئے بہت اچھی چیز ہیں۔ وہ ڈریگن کی طرح سانس لیتے ہیں۔ وہ ایک زبردست انرجی لاتے ہیں سانس لیتے ہوۓاور وہ بے تحاشہ انرجی نکالتے ہیں سانس چھوڑتےہوۓاور حقیقت میں اللہ عزوجل ان کے لئے ھُو کو کھول رہا ہوتا ہے۔
جب وہ اس ھُوکو کھول لیتے ہیں ان کی سانسیں آگ کی طرح ہوجاتی ہیں ، اُن کےھُوسےبہت طاقت ورانرجی آتی ہے۔ شیخ کی نظر (اُن پر ہوتی ہے جب) وہ بیٹھتے ہیں اور تفکُر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تفکُر کرتے ہیں۔ یعنی ہم جب نمازمیں یہ پڑھتے ہیں “السلامُ علیکَ ایھا النبیُ و عباد اللہِ صا لحین“، ہم نے ابھی تک نماز ختم نہیں کی ہوتی اور اللہ عزوجل ہمیں ان کو سلام پیش کرنے کا کہتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو موجودہ دور میں سلام پیش کریں اور عباد اللہِ صالحین (کو) کہ وہ حاضر ہوں یا نہ ہوں لیکن آپ انہیں نمازمیں سلام دیں، پھر آپ سلام دیتے ہیں اور اپنی نماز ختم کردیتے ہیں۔ کون سا راز ہے جسکے آپ سامنے ہیں ، آپ کس کے سامنے ہیں؟ اور کیوں اللہ عزوجل چاہتا ہے کہ آپ سلام دیں؟ کیوں کہ یہ بہترین آداب ہیں ۔ تاکہ ایک دن آپ نمازمیں (اس حقیقت کو) دیکھ لیں۔ آپ کو اچھے آداب کی تربیت دی گئی، آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو موجودہ دور میں سلام پیش کرتے ہیں۔ اور کون عباد اللہِ صا لحین ہیں؟ لہذا ، تفکُر آتا ہے اور سکھاتا ہے کہ یا ربی اس حقیقت سے کہ ہم ہمیشہ موجود رہیں عباد اللہِ صا لحین کی بارگاہ میں، نبیین ، صدیقین ، شھداہ و صالحین (کی بارگاہ میں)۔ اور اللہ عزوجل کہتا ہے کہ یہ بہترین صحبت ہے کیونکہ میں ان کے ساتھ ہوں۔
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا
اور جو لوگ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ (قیامت کے روز) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔ (سورت النِسا 69)
اگر آپ واقعتاً اپنے دل کو جوڑتے ہیں اور آپ ہمیشہ صا لحین کے ساتھ اور ہمیشہ صالحین کے ساتھ رہتے ہیں تو وہ آپ کو آہستہ آہستہ صدقین اور نبیین کی انجمن میں لے جانا شروع کردیتے ہیں۔ یقیناً پھر اللہ عزوجل بھی ان کے ساتھ ہے۔ اور پھر آپ کو روحانییت اور وہ خدائی موجودگی محسوس ہونے لگتی ہے جو اللہ عزوجل بندے کو محسوس کروانا چاہتا ہے۔ لہذا ، یہ ایک رسی کی طرح ہے جو آتی ہے ، آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں محض اللہ عزوجل کے ساتھ رابطہ کرنے والا ہوں، یہ تکبرہے اور آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں صرف سیدنا محمدﷺ سے رابطہ کرنے جا رہا ہوں کیوں کہ پھر ہم بس تربیتی پہیے میں (رہ جاتے) ہیں۔ تو ، پھر اللہ عزوجل فرماتا ہے اطیعو اللہ اطیعو الرسول واولی الامر منکم، یعنی علمائے کرام اور اولی الامر کی صحبت اختیار کیے رکھو۔ وہ اولی الامر جن کا عمل اور ان کا علم حقیقی ہے ، نہ کہ ان کے پاس کتابی علم ہے۔ جن کا دل مثبت ہے اور ان کے دل حقیقت کے مرتکب ہیں۔ کوئی ایسا شخص نہیں جو اپنے سر سے ، کسی اور کے دل کی بات کرے ، بڑا خطرہ ہے۔ بڑا خطرہ جب آپ بات کرتے ہیں اور آپ کسی کو سنتے ہیں جو اپنے سر سے کسی کے دل اور کسی کے کارناموں کے بارے میں بات کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن اُنکی صحبت کو قائم رکھنا چاہئے جنکے اپنے دلوں کو اللہ عزوجل نے حقائق سے مرتب کیا ہے۔ لہذا ، جب ہم ان کی صحبت میں رہتے ہیں، تفکُر اورغوروفکر کرتے ہیں اُنکی صحبت اختیار کرکے، تو یہ صحبت فیض لانے لگتی ہے۔ لہذا ، وہ اپنی سانسوں کی مشق کرتے ہیں ، پھر سانسوں کے ذریعے شیخ کا یہ فیض لے رہے ہوتے ہیں کہ یا سیّدی! مجھے معلوم ہے کہ آپ میرے سامنے ہیں اور مجھے آپ کودیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے صرف یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ میں ہمیشہ آپ کی موجودگی میں رہتا ہوں اور آپ کی نظر ہمیشہ مجھ پر رہتی ہے۔ آپ جتنا زیادہ یقین کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شیخ کی نظر ہمیشہ آپ کی طرف دیکھتی رہتی ہے وہ نظر طاقتور ہوجاتی ہے۔
اور وہ دباؤ (construction) کہ جس کے بارے میں پوچھا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کہ جب شیخ کی نظر آتی ہے تو وہ جلالی ہوتی ہے ، جمالی نہیں۔ لہذا ، جب نظر آتی ہے تو آپ کو ایسا لگتا ہے کہ آپ کو دل کا دورہ پڑ رہا ہے ، اب ان کی جلالی موجودگی اس جگہ میں داخل ہو رہی ہوتی ہے اور آپ کو ایسا لگتا ہے جیسے آپ کا سینہ پھٹ جائے گا اور آپ بس اس سے سانس لیتے رہیں (اور یہ تصور کریں کہ) میں کچھ بھی نہیں اور بس سانس لینا جاری رکھیں، اور ایسے کہیں کہ، “میرے لئے یہ بہتر ہے کہ میں مرجاؤں یا ربی ،یہ ٹھیک ہے۔ میں مر جاتا ہوں۔” ایسے نہ کہیں کہ، “اوہ خدا ، یہ خوفناک ہے کہ میرا دل دھڑک رہا تھا ، میں رک گیا۔” نہیں، (ایسے نہ کریں) کیوں کہ یہ راستہ تو موت قبل الموت ہے ، آپ موت کے لئے کس چیز سے خوفزدہ ہیں؟ اور اللہ عزوجل آپ کو مردہ کیوں چاہتا ہے؟ شاید آپ زندہ ہی بہتر ہوں ، اگر آپ زمین پر ایک مردہ لاش سے زیادہ کچھ کرسکتے ہیں تو، (ورنہ تو) آپ زمین پر محض ایک اور لاش سے زیادہ کچھ نہیں۔ لہذا ، اللہ عزوجل کہتا ہے کہ مجھے ابھی آپ کی ضرورت نہیں ہے ، آپ جو کچھ کر رہے ہیں وہیں رہیں اور کریں۔ لہذا ، پھر وہ موت کے خوف پر قابو پا لیتے ہیں اور جب نظر آتی ہے تو وہ ایک بہت ہی مضبوط دباؤ (constriction) اور پھر کھُلاؤ (expansion) محسوس کرتے ہیں ، جب اس میں آسانی ہوجاتی ہے تو وہاں ایک کھُلاؤ محسوس ہوتا ہے۔ اور دباؤ اور کھُلاؤ دراصل ایک نشونما ہے۔ ہر دباؤ کے ساتھ اُن کو ایک درجہ اوپر لے جایا جاتا ہے اور پھر وہاں آسانی ، ایک سختی اور پھر آسانی ہے۔
اسے قائم رکھنے کےلئے نظر کی عزت رکھی جائے کہ میرے مرشد ہر وقت مجھے دیکھتے رہتے ہیں۔ میں جو بھی کر رہا ہوں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ان کی نظر سے بچ گۓہیں تو آپ خود کو کھو چکے ہیں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں ان کی نظرداخل نہیں ہوسکتی اور غالباً جب آپ کوئی غلط کام کر رہے ہوتے ہیں تو فرشتے ان کو ای میل بھیج رہے ہوتے ہیں کہ وہ (مرید) کچھ غلط کررہے ہیں اپنی نظر رکھیں اور وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ جتنا بندہ چاہتا ہے، اور یہ جاسوسِ قلب ہیں۔ اگر آپ ان کے ساتھ ہوتے ہیں تو آپ سمجھ جائیں کہ وہ بہت سی چیزیں جانتے ہیں مگر وہ کچھ بھی نہیں کہتے۔ اور اپنے طلباء کی وہ بہت سی چیزیں جانتے ہیں اور وہ اللہ عزوجل کی طرف سے ، نبی ﷺ اور اولیاء اللہ کی طرف سے (اپنے طالب علم کی) تربیت کر رہے ہوتے ہیں، اور انہیں کچھ کہنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
لہذا ، آپ کو لگتا ہے کہ “اوہ وہ کچھ نہیں کہتے، انہیں کچھ پتہ نہیں۔” نہیں ، وہ بہت کچھ جانتے ہیں لیکن انہیں بلکل خاموش رہنے کی تربیت دی گئ ہوتے ہے۔ یہ ان کی جگہ نہیں ہے کہ وہ انکشاف کریں جو اللہ چھپانا چاہتا ہے۔ لہذا ، یہ اس کے متعلق نہیں ہے کہ آپ کچھ جانتے ہیں تو جائیں اور کچھ کہہ ڈالیں ،یہ کرو وہ کرو! نہیں ، نہیں ، ہم لوگوں کو سزا دینے کے لئے یہاں نہیں ہیں ، یہ اللہ عزوجل کا ہاتھ ہے ، یہ اللہ عزوجل کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن آپ کی تربیت کے لئے، کہ آپ کو دیکھا جا رہا ہے ، آپ یہ سمجھ جائیں۔ وہ جتنا سمجھتے ہیں کہ انھیں دیکھا جارہا ہے ، جب بھی وہ (مرید) غصہ کرتے ہیں ، ایک ای میل ‘ڈنگ” بھیجا جاتا ہے ، وہ (مرشد) دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ (مثلاً) اب میرے پاس مرکز کے لئے ایک اچھا رنگ کیمرہ ہے ، اگر آپ کیمرے سے گزرتے ہیں تو یہ مجھے اطلاع بھیج دیتا ہے۔ آپ کے خیال میں رِنگ کے پاس یہ قابلیت ہے اور اللہ عزوجل کے پاس نہیں ہے؟ جیسے ہی آپ کا درجہ حرارت بڑھتا ہے ، آپ کے خراب کردار میں کچھ بڑھ جاتا ہے وہ اطلاع بھیجتے ہیں کہ اس کا درجہ حرارت ابھی بڑھ گیا ہے ، اس کا اخلاق بدل رہا ہے اور کچھ ہو رہا ہے۔ پھر وہ لوگ جو حقیقت کی تربیت لے رہے ہیں ، وہ لوگ جو حقیقت نہیں چاہتے، آپ کو معلوم ہے کہ وہ صرف کھانے اور صحبت سے لطف اندوز ہونے آتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ لوگوں کا ایک مختلف گروہ ہے (اگر آپ دنیا میں تربیت نہیں حاصل کرتے تو) آپ قبر میں اپنی تربیت حاصل کرلیں گے۔ یہ قدرے شدید ہے ، میرے خیال میں قبر میں 70000 گنا زیادہ شدید ہے کیونکہ پھر ہر ایک خلوت کے لئے جا رہا ہوتا ہے اور ہر ایک قبر میں تربیت لے گاوہ لوگ جو اب تربیت چاہتے ہیں وہ کہتے ہیں نہیں ، نہیں ، یا ربی ، میں سخت قدم نہیں چاہتا ، مجھے یہ ابھی کرنےدیں پھر وہ سمجھ گئے کہ (یا مرشدی! مجھ پر) نظررکھیں! میرے شیخ مجھے دیکھ رہے ہیں ، وہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں جو میں کر رہا ہوں اور پھر انہیں سمجھنے کے لیۓ ٹکنالوجی دی گئیں ، وہ سمجھتے ہیں اور ان کی روح کو بھی سمجھ آتی ہے۔ ان کی روح اللہ عزوجل کے خدائی رازوں میں سے ہے۔ یہ خیال نہ کریں کہ روح قابل نہیں ہے ، ان کی روح بہت سی جگہوں اور ہر جگہ ہوسکتی ہے جتنا اللہ عزوجل چاہتا ہے کہ ان کی روح بن جائے اور روح کو جسمانی طور پر بھی انھیں مطلع کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس پہلے ہی میکرو کوڈز موجود ہیں۔ جس میں اسے مختلف کام کرنا ہوتے ہیں۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ دن بھر لاکھوں احکامات پر جسم کو مطلع کیا جاۓ، (اگر ایسا کیا جائے تو) آپ اُس شخص کو ایک مکمل طور پر پاگل کی طرح دیکھیں گے ، میرے خیال میں یہ وہ شخص تھا جس نے فلم میں خدا کا کردار ادا کیا تھا اور وہ ای میلز کررہا تھا اور اس نےسب کی ای میلز کا جواب دیںاشروع کر دیا (ایک آواز آتی ہے، بروس آل مائی ٹی)… ہاں بروس نے جب آنے والے ہر ای میل پر نہیں ، نہیں ، نہیں یا ہاں کہنا شروع کیا۔ نہیں ، روح اللہ عزوجل کی عطا کردہ صلاحیت رکھتی ہے۔ اللہ عزوجل کے آسمانی سمندر نے روح کو آسمانی رازوں اور آسمانی قدرة سے ملبوس کیا ہے، ظاہری دنیا سے کچھ بھی (سروکار) نہیں۔ ان کے جسم کو بھی جاننے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ بلند روحیں ، یہ روحیں جو ربانیون ہیں ، اللہ عزوجل نے روح کو فُلُک المَشہون عطا کیا ، وہ اُن حقائق سے لدے ہوئے ہیں جو روح اللہ عزوجل کی عزت اور طاقت سے کرنے کے قابل ہے۔
وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ
اور ان کے لئے ایک نشانی یہ ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں (سیلاب کے بیچ سے) اٹھا لیا۔ [سور یٰسین: 41]
لہذا ، ہاں ، اس میں کوئی شک نہیں کہ روح درجہ حرارت کی نگرانی اور جانچ کر رہی ہے۔ پھر طالب علم سمجھنا شروع کر دیتا ہےجیسے شیخ عبد القادر کی کہانی کی طرح کہ “جاؤ اور اس مرغی کو وہاں جا کہ ماردو جہاں تم سمجھتے ہو کہ اللہ عزوجل نہیں دیکھے گا۔” ہر کوئی مرغی کو مارنے نکلا ، ایک طالب علم وہاں کھڑا ہوا اور انہوں نے کہا ، “تم وہ کام کیوں نہیں کر رہے ہو جو میں نے تم سے کرنے کو کہا ہے؟” وہ کہتا ہے ، “کہیں ایسی جگہ ہے جہاں میں واقعتا جا رہا ہوں کہ اللہ عزوجل مجھے نہیں دیکھ رہا؟ ” وہ فرماتے ہیں کہ ، “ٹھیک ہے ، اب آپ تیار ہیں۔” باقی سبھی ایسی جگہ تلاش کر رہے ہیں جہاں اللہ عزوجل انہیں نہیں دیکھےگا۔ ہاں ، ایسا ہی ہے۔ جب آپ واقعی یقین رکھتے ہیں کہ وہ دیکھ رہے ہیں ، نبی ﷺ یقینا دیکھ رہے ہیں ، اولیا اللہ دیکھ رہے ہیں ، فرشتے دیکھ رہے ہیں ، جن دیکھ رہے ہیں ، سب دیکھ رہے ہیں۔ بس آپ اسے نہیں جانتے۔ لہذا ، پھر آپ کی زندگی ایسے ہی ہے جیسے ٹرومین شو (Truman show) ہے جہاں وہ ایک بلبلے میں ہے اور باقی سب ٹیلی ویژن پر ہیں۔ لہذا آپ کی زندگی بھی ایسی ہی ہے۔ یہاں تک کہ جنت میں آپ کے آباؤاجداد بھی دیکھ رہے ہیں کیونکہ یہ زندگی اور اس زندگی کی حقیقتوں میں سے ایک یہ ہے کہ آپ ٹرومین شو کی طرح ہیں۔ آپ کے سارے آباد اجداد اسی طرح بیٹھے ہوئے ہیں ، “واہ وہ کیا کر رہا ہے ، اے میرے خدا! اس کو دیکھو.” تو ، وہ دیکھ رہے ہیں۔ جب میں واقعتا سمجھ گیا تب میرا خُلُق اور میرا کردار اس پر مبنی ہوگا کہ میں اس طرح نہیں کرسکتا ، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ دیکھ رہے ہیں۔ میں ایسا نہیں کرسکتا اور آپ خود کو درست کرنے لگیں گے ، خود کو درست کریں۔ جتنا آپ اپنے آپ کو درست کرتے ہیں ، اتنا ہی آپ اللہ عزوجل کے اخلاص کے سمندروں میں داخل ہوجاتے ہیں اور اخلاص پر اللہ عزوجل کا تحفہ ہوتا ہے پھر وہ اپنے فضل و کرم سے روح پر عطا کرتا ہے۔ انشاء اللہ.
سوال: کیا آپ براہ کرم مولانا شیخ نورجان میر احمدی نقشبندی (ق) سے اُن اوپننگز (openings) کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں جن کا ایک شخص کو تجربہ ہوتا ہے؟ مثلاً چہرے کا گرم ہونا، کچھ تجلیاں محسوس ہونا بند بھی ہو سکتی ہیں یا ہمیں ہر سیشن میں یہ سب محسوس کرنا چاہئے؟
شیخ نورجان میراحمدی نقشبندی (ق): نہیں ، پھر گاجر اور چھڑی کےلئے کوشش (کا تصور سامنے آتا) ہے۔ گاجر اور چھڑی کا تصور یہ ہے کہ آپ نے وہ خزانہ جو کسی کو چاہئے ان کے سامنے چھڑی پر رکھا تاکہ آپ اُن میں آگے بڑھنے کی حرکت پیدا کریں۔ اگر اللہ عزوجل آپ کی اعمال کی بنیاد پر ہر چیز عطا کرتا تو ہم کچھ بھی نہ کرتے۔ ہم واقعتا صرف وہاں بیٹھ کر مراقبہ کرتے رہتے اور سارا دن دھوکہ اور فریبِ نظر ہونے لگتا ہے۔ اللہ عزوجل نے جو کچھ عطا کیا ہے وہ “کشف” اور “حال” ہے۔ لہذا ، یہ دونوں حقائق یہ ہیں کہ آپ اپنا تفکُرکر رہے ہیں ، آپ مُراقبہ کر رہے ہیں ، آپ نمازمیں ہوسکتے ہیں ، آپ ذکر میں ہوسکتے ہیں اور (پھر یکدم) ‘‘ ووہ ف” اللہ عزوجل کسی فلم کے ٹریلر کی طرح دکھائے (آپ کو کچھ دکھائے)۔ ‘Wphephew’ (اور آپ حیرت زدہ ہوجائیں کہ) واہ! اور پھر یہ چلا جائے۔ اور پھر آپ اسے دوبارہ پکڑنے کے لیے مشقیں ( practices) کرتے ہیں ، اسے دوبارہ پکڑنے (کی کوشش کرتے رہتے ہیں )… غلط۔! ایسا نہیں ہے کہ آپ ان چیزوں کا پیچھا کریں بلکہ اپنے مخلصانہ اقدامات کو جاری رکھیں جس نے اللہ عزوجل کو آپ سےخوش کیا تھا کہ وہ آپ کوعطا کرے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ اب پیچھا کرنے کی کوشش کرتے رہیں ، مجھے ایک اور ٹریلر دیکھنے کی کوشش کرنے دے ، یا ربی مجھے ایک اور (ٹریلر) دیکھنے دے۔۔۔ نہیں نہیں ، اللہ عزوجل مطالبے پرنہیں! جہاں آپ درخواست کرتے ہیں اور اللہ عزوجل کہتا ہے ٹھیک ہے میں آپ کی بات سن رہا ہوں ، میرے بندے . استغفراللّٰہ ۔ ہم تو اللہ عزوجل کے بندے ہیں۔ لہذا اس بات کا پتہ لگائیں کہ آپ مستقل طور پر کیا کررہے تھے جس سے اللہ بہت خوش ہوا۔ کچھ کہتے ہیں “ اوہ ، بہت ساری چیزیں میرے لئے رک گئیں ہیں” کیوں کہ آپ خُود رک گئے ، آپ نے اپنی تمام مشقوں کو روک دیا ، آپ نے اپنا مراقبہ روکا ، آپ نے وہ سب کام بند کردیئے جو آپ کررہے تھے۔ آپ نے سوچا تھا کہ آپ اتنی اونچی جگہ پر پہنچ گئے ہیں اور اب یہ ٹھیک ہے کہ اب اور کچھ نہیں آسکتا۔ تو ، پھر طریقہ آتا ہے اور درس دیتا ہے کہ فنا ہوجائیں۔ اور کہتا ہے کہ (آپ یوں کہیں کہ) یا ربی میں ان سب کو نہیں ڈھونڈ رہا اور میں اپنی مخلص مشقوں پر واپس آ گیا ہوں اور پھر دیکھو اور غور کرو کہ اللہ عزوجل آپ کو حیران کردے گا اور اپنا کشف بھیج دے گا اور وہ نہیں چاہتا کہ آپ اس (چیز) کے پیچھے بھاگیں۔ اور اس کی طلب نہ کریں! کیونکہ یہ رشتہ کچھ نامناسب بن جاتا ہے لہذا ہم نے پہلے ہی کہا جیسے آپ گھر آتے ہیں ، آپ اپنے پیارے اور اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہیں اور یہ محبت کی علامت ہے لیکن اگر وہ قطار میں کھڑے ہوجائیں اور کہیں کہ مجھے 5 پانچ روپے دو، اور آپ کو سبھی کو معاوضہ دینا پڑے سلام کےلیۓ۔ تو یہ مختلف رشتہ ہے لہذا ، اللہ عزوجل نہیں چاہتا کہ بندہ ان چیزوں کا مطالبہ کرے۔ وہ فرماتا ہے کہ جو کام تم نے اخلاص کے ساتھ کرنا تھا وہ کرو۔ میں اپنے تحفے سے جس طرح سے دینا چاہتا ہوں وہ دوں گا اور “حال” کے لئے بھی ایسا ہی ہے۔ وہ اپنا ذکر کرتے ہیں ، وہ اپنی مشقیں کرتے ہیں اور اللہ عزوجل انہیں ایک ایسے “حال” میں بھیج سکتا ہے جس میں وہ توانائیاں محسوس کرتے ہیں ، انہیں جذبات محسوس ہوتے ہیں ، انہیں ہر طرح کے تجربات محسوس ہوتے ہیں اور وہ اس کا پیچھا نہیں کرتے۔ چنانچہ ، امام علی (ع) نے فرمایا ، میری فنا میں بھی فنا ہے۔ مطلب یہ کہ میں اس مقام پر پہنچ گیا جس میں میں نے خود کو مسلسل فنا کردیا ، میں اس قابل نہیں ہوں یاربی ،میں اس کا پیچھا نہیں کررہا ہوں۔ اس طرح پیچھا نہ کریں ، “اوہ وہ میرے پاس تشریف لائے ، انہوں نے مجھےایک تلوار دی ، انہوں نے مجھے ایک جبہ دیا ، انہوں نے مجھے ایک تاج دیا-“ کیونکہ پھر آپ کا نفس اس میں داخل ہو رہا ہےاور آپ اب بیٹھے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ وہ تصورات دوبارہ سے آپ کو نظر آنے لگیں، کہ میں وہاں بیٹھا ہوں ، وہ مجھے دے رہے ہیں ، وہ مجھے دے رہے ہیں۔ (نہیں نہیں) یہ سب فریب ہے کیونکہ آپ کو اپنا آپ فنا کرنا چاہئے تھا۔ اگر آپ کا دل کھُل رہا ہو اور وہ چیزیں لے کر آرہے ہیں تو الحمد للہ کہیں کہ میں وہ بندہ نہیں ہوں ، میں اس قابل نہیں ہوں ، میں کچھ بھی نہیں ، میں کوئی نہیں ، میں کوئی نہیں ،میں کوئی نہیں اور یہی وہ سننا چاہتے ہیں۔ ورنہ وہم کی حالت داخل ہو جاتی ہے اور وہ کہنے لگتے ہیں کہ “اوہ میرے خدا! مجھے یہ مل گیا ، مجھے یہ مل گیا!” اور سب سے پہلے وہ یہ کرنا چاہتے ہیں کہ جب وہ شیخ کے پاس آئیں (تو اپنے بارے میں یوں بیان کرنے لگتے ہیں) “کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے ایک خواب دیکھا تھا ، میں اسی طرح ایک کرسی پر بیٹھا ، وہ آئے اور انہوں نے مجھے ایک جبہ دیا ، انہوں نے مجھے عرش دیا ، انہوں نے مجھے تلوار دی ، انہوں نے مجھے ایک تاج دیا۔” تو پھر ٹھیک ہے تم میری نوکری لے لو میں چھوڑ دوں گا (شیخ ہنستے ہیں)۔ یہ ہمارا راستہ نہیں ہے! یہ ایسا ہے کہ آپ آئیں اور کہیں کہ میں کچھ نہیں ہوں ، میں کچھ بھی نہیں ہوں ، یہاں تک کہ آپ نے اپنی آنکھوں سے 7 آسمان دیکھے (پھر بھی آپ کہیں کہ) میں کچھ بھی نہیں ، مجھے کچھ نظر نہیں آتا ، میں کچھ نہیں جانتا ، مجھے کوئی وجہ نہیں معلوم۔ یہ ہمارے کپ کو خالی رکھتا ہے اور (جب) میرا کپ خالی ہو تو اللہ پاک اسے کائنات سے ، ان دیکھے جہان سے اور تخلیق سے بے حد خوشیوں اور لذتوں سے بھر دیتا ہے۔ لہذا ، کپ کو مکمل خالی رکھنے کا تصور (یہ ہے کہ) میں کچھ بھی نہیں ، میں کچھ بھی نہیں ہوں اور حتٰی کہ فنا کے اپنے سمندر میں بھی فنا ہوجاؤں۔ انشاء اللہ.
سُبحانَ رَبِکَ رَبِّ العِزةِ عَمَّ يَصِفُون وَ سَلاَمُ عَلَي المُرسَلِين وَالحَمدُ الله رَبِّ العَالِمِين بِحُرمَةِ مُحَمَّد اَلمُصطفٰی وَ بِسِرّ سُورَۃ الفَاتِحَہ ?
———————————————————–
URDU TRANSLITERATION:
Sawal : kya Sheikh barah e karam uss saans ki baseerat par roshni daal satke hain jo “Hu” ki taaqat ko rooh taq pohanchati hai, aur Sheikh ki nzrِ mubarak ki taaqat jo mureed par dabao ( construction ) daalti hai? Is ko ziyada mazbooti se thaamay rakhnay ke liye konsi position mein raha jaye ?
Sheikh syed norjan Mirahmadi nqshbndi ( q ) :
Aoozu billahi minashetan rajeem. Bism Allah al-rehman Raheem , nafs alrhmh aur saans ki ahmiyat yeh hai ke sara tareeqa saans par mabni hai aur yeh ajeeb baat hai ke koi bhi Sheikh saans ke baray mein baat nahi karta. “hosh dar dum”, aap ki saans ka shaoor aur nqshbndi ki kitaab ka har hissa, har azeem al shan Sheikh ka pehla tabsarah yahi hai ke yeh rasta aap ki nafs ( saans ) par mabni hai. Yeh ke aap ki qudrat ki tafheem, aap ki taaqat, Allah azzwajal ki taraf se aap ka tohfa aap ki saans hai. Kisi bhi cheez se pehlay jo hum chahtay hain aur kisi cheez ke liye dua karne se pehlay Allah azzwajal farmata hai ke kya aap ny apni saanson ke liye mera shukriya ada kya. To, phir yeh nafs jo andar araha hai zabardast taaqat aur qouvat ho sakta hai. Yeh saans jo baharu alqudrah se aata hai aik taaqat hai. Unhein yeh sikhaya gaya tha ke woh apni saans ki haqeeqat ko kis terhan khollen. Aur unhon ny atams say ”hu” bahar nikaal liya ke har atom aur is ka markaz ( Nucleus ) ho ka raaz rakhta hai aur yeh qudrat aur tawanai hai jis ko ab woh unn jahazoo mein istemaal kar rahay hain jo bohat daur jatay hain. Woh inhen gas nahi day satke lehaza isi liye woh inhen ( aik terhan ke ) atomi jahaaz bana dete hain .
Un ke –apne ree ayktr hain kyunkay aap samandar ke wast mein bhala kaisay ice breaker laga satke hain aur jahaaz ko dobarah eendhan day satke hain? Lehaza, Allah azzwajal bhi wohi ( baseerat ) day raha hai, kehte hain ke aap kis terhan baar baar jahaaz mein eendhan bhar satke hain, avraap paanch minute eendhan ko dobarah bharnay ke liye is ki jaanch nahi kar saktay. To is ke maienay yeh hain ke phir Allah azzwajal un ke andar ( yeh soch ) bharkaye ga ke –apne aas paas ki har cheez se taaqat ko kis terhan khincha ja sakta hai. To, saans sab se ziyada taaqatwar hai. Hum ny is se pehlay kaha kay yeh aik wifi ki terhan hai jo saari makhlooq mein jari ho raha hai. Har photon is haqeeqat ko uthaiye hue hai. To, khudai y fai jo is saari takhleeq par Nashar ho raha hai. Har phool ko is ki zaroorat hai, har khatmal ko is ki zaroorat hai, har mutharrak aur be jaan cheez is ki atomi haqeeqat ki wajah se is ki mohtaaj hai. Is mein hu kka raaz hai aur yahi wajah hai ke tamam tar tareeqon ny –apne vzayf mein ho ka zikar shaamil kar rakha hai. Lehaza, jab woh saans le rahay hotay hain aur woh ( uss taaqat ko ) khol rahay hotay hain aur saans lainay ki khud ko tarbiyat day rahay hotay hain, woh tasawwur karte hain ke anay wali roshni ki saans jo andar aati hai aur Allah azzwajal se darkhwast karti hai ke woh tamam negativity ko daur kardey aur jab woh mashq kar rahay hotay hain aur apna tafakar kar rahay hotay hain to woh jitna ziyada ( khud ko ) mitatay jatay hain aur nacheez bantay jatay hain, ke, ya rabbi mein kuch bhi nahi hon, mujhe ehsas hai ke mein hqiqta apni zaat par zulm karne walay ke siwa kuch nahi hon “La elah ila anta sbhanka inni kuntu minazalimeen” ke pak hai Allah azzwajal, bay shak mein khud par zulm karne wala hon .
Chunkay Allah azzwajal dekh raha hai ke aap waqai yaqeen karte hain ke aap kuch bhi nahi, to aap ki sansen aur saans lena ziyada taaqatwar hojaye ga. Lehaza, yeh aisi cheez nahi hai ke oh, mein ho ko kholna chahta hon! Chunancha aap sirf saans letay aur mashq karte rehtay hain, saans letay aur mashq karte rehtay hain jab taq ke Allah azzwajal aap ke khuloos ka taayun nah karle. Aur aik aisa nizaam mojood hai jis mein woh apni nabz ko thaam letay hain taakay un ka haath aur un ki ungli aik anrji ko pukarnay lagey. Aur kayi saloon se logon ne hamara mazaaq uraya ke” oh, dekho woh bdha ke nishaan ki terhan kar raha hai.” nahi, balkay unhon ne yeh hum se churraya hai, unhon ne nabi ( s ) se churraya. Agar koi bhi Rohani taraqqi ko janna chahta hai to woh jaye aur Google kere. Aik bachay ke haath, aap ne dekha ke har bachay ka haath is terhan band hai ( Sheikh –apne angothay aur shahadat ki ungli se daira banatay hain ) woh sara din ( –apne hathon ko ) aisa hi rakhtay hain. Chhootey bachay paidaiesh se le kar aik saal taq barhatay hain jaisay whooo yani taizi se. Aik ensaan jab taizi se parwan charrhey ga to woh un ki paidaiesh se le kar un ki pehli aur doosri saalgirah taq hai. Kaisay choti choti chizen is terhan barh gayeen ( yakdam barh gayeen ) woh darasal apni tawanai ko bulaa rahay hotay hain. Allah azzwajal un ko targheeb deta hai ke apni anrji ko poukaro. Sara din woh tafakar aur muraqba kar rahay hotay hain jis ke baare mein aap ko lagta hai ke woh so rahay hain aur unhon ne apna haath thaama hota hai aur anrji aa rahi hoti hai, anrji aa rahi hoti hai aur woh barh rahay hotay hain, is raftaar se barh rahay hotay hain jis se Allah azzwajal chahta hai taakay woh is zameen par zindah reh saken. Lehaza, har koi yeh kaam kar raha hai siwaye un logon ke jo nahi jantay ke woh kyun muraqba kar rahay hain phir woh ( Aolia Allah ) is ko padhana shuru kardete hain ke is mein anrji hai. Jaisay hi aap ka anghutha, ke jo aap ki shanakht hai aur har aik ka apna aik allag finger print hota hai Rohani duniya mein aap ka anghutha roshni ke samandar mein aap ki rooh ki roshni ki nishandahi karta hai jo sab aik hi hai. Kyunkay roshni ke samandar mein hum sab aik hain. Koi nahi jaanta ke aap kon hain, hum aik samandar mein hain lekin yeh print aap ki shanakht ko bilkul jaanta hai. Jaisay hi yeh print zahir hota hai yeh aap ko is haqeeqat se khech le ga aur aap ke wujood ke lyie zurori anrji bhejna shuru kardey ga. Jaisay hi aap is ungli ko chutay hain, shahadat ki ungli ko angoothay se, aap behar alqudrah ko pukaar rahay hotay hain. Anrji jiski mujhe zaroorat hai, is se ziyada anrji mere paas anay lagti hai. Aap aik anrji ko anay ka ishara day rahay hotay hain aur phir is se satellite ki terhan zhooo is ne aap ki janib rukh kya aur aap ko rozana ki bunyaad par zarurat se kahin ziyada aap ki qudrat bhejna shuru kar di. Chunancha, jab woh tafakar karne ke liye baithtay hain to woh samajh gaye ke woh kar satke hain, lehaza inhen aisa karne ki zaroorat nahi hai ( Sheikh –apne angothay aur shahadat ki ungli ko mila kar daiyrah banatay hain ), woh sirf apna haath thaam letay hain aur woh aik signal aur anrji ko pukarnay lagtay hain aur aik anrji anay lagti hai, aur phir Allah azzwajal inhen –apne dil ke signal ( signal ) se ziyada waaqif karne ke liye tayyar karta hai ke woh –apne dil ki harkat ko mehsoos karne lagen. Jab aap khulay hathon se muraqba karte hain to, muraqba har jagah behnay ke mutradif hota hai, woh hwa mein patang ki terhan gumshudaa idhar idhar urr rahay hotay hain .
Jaisay hi woh –apne angothay par haath rakhtay hain woh dil ki taraf dobarah tavajja markooz kar lete hain. Kyun? Kyunkay qalb almomin bait Allah , woh Allah azzwajal ke ghar par tavajja qaim rakhna chahtay hain. Lehaza, is ka matlab hai ke woh sirf mukhlis hona sikhte hain, Allah azzwajal Unki sansen kholna shuru kardey ga. Lehaza, jab woh saans letay hain, to inhen ab aag ki terhan mehsoos honay wali anrji aati hui mehsoos hoti hai. Woh drign ( dragon ) ki terhan aag ki terhan saans letay hain. Lehaza, Rohani duniya mein drign momin logon ke liye bohat achi cheez hain. Woh drign ki terhan saans letay hain. Woh aik zabardast anrji laatay hain saans letay hoye aur woh be tahasha anrji nikaltay hain saans chortay hoye aur haqeeqat mein Allah azzwajal un ke liye ho ko khol raha hota hai .
Jab woh is hu ko khol letay hain un ki sansen aag ki terhan hojati hain, unn ke hu say bohat taaqat war energy aati hai. Sheikh ki nazar ( unn par hoti hai jab ) woh baithtay hain aur tafakar karte hain. Yahi wajah hai ke woh tafakar karte hain. Yani hum jab namaz main yeh parhte hain “asalamu alika ayyuhana alnbi wa Ibad allahi saliheen“, hum ney abhi taq namaz khatam nahi ki hoti aur Allah azzwajal hamein un ko salam paish karne ka kehta hai. Nabi kareem sale Allah aleh wasallam ko mojooda daur mein salam paish karen aur Ibad allahi saleheen ( ko ) ke woh haazir hon ya nah hon lekin aap inhen namaz me salam den, phir aap salam dete hain aur apni namaz khatam kardete hain. Kon sa raaz hai jisske aap samnay hain, aap kis ke samnay hain? Aur kyun Allah azzwajal chahta hai ke aap salam den? Kyun ke yeh behtareen aadaab hain. Taakay aik din aap namaz me ( is haqeeqat ko ) dekh len. Aap ko achay aadaab ki tarbiyat di gayi, aap nabi akrm sale Allah aleh wasallam ko mojooda daur mein salam paish karte hain. Aur kon Ibad allahi saliheen hain? Lehaza, tafakar aata hai aur sakata hai ke ya rabbi is haqeeqat se ke hum hamesha mojood rahen Ibad allahi saliheen ki bargaah mein, nabiyyen, siddiqeen, shuhada, saliheen ( ki bargaah mein ). Aur Allah azzwajal kehta hai ke yeh behtareen sohbat hai kyunkay mein un ke sath hon .
Aur jo log kkhuda aur is ke rasool ki itaat karte hain woh ( qayamat ke roz ) un logon ke sath hon ge jin par kkhuda ney bara fazl kya yani anbia aur Seddiq aur shaheed aur naik log aur un logon ki rafaqat bohat hi khoob hai. ( sourat Alnisa 69 ).
Agar aap vaqatan –apne dil ko jorhte hain aur aap hamesha saliheen ke sath aur hamesha saliheen ke sath rehtay hain to woh aap ko aahista aahista siddeqeen aur nabiyyen ki anjuman mein le jana shuru kardete hain. Yaqeenan phir Allah azzwajal bhi un ke sath hai. Aur phir aap ko ruhaniyat aur woh khudai mojoodgi mehsoos honay lagti hai jo Allah azzwajal bande ko mehsoos karwana chahta hai. Lehaza, yeh aik rassi ki terhan hai jo aati hai, aap yeh nahi keh satke ke mein mehez Allah azzwajal ke sath rabita karne wala hon, yeh takabbar hai aur aap yeh nahi keh satke ke mein sirf syedna Muhammad (S) se rabita karne ja raha hon kyun ke phir hum bas tarbiati pahiye mein ( reh jatay ) hain. To, phir Allah azzwajal farmata hai atiu Allah wa atiu alrsol wo ulil amr minkum, yani ulmaye karaam aur ulil amr ki sohbat ikhtiyar kiye rakho. Woh ulil amr jin ka amal aur un ka ilm haqeeqi hai, nah ke un ke paas kitabi ilm hai. Jin ka dil misbet hai aur un ke dil haqeeqat ke murtakib hain. Koi aisa shakhs nahi jo –apne sir se, kisi aur ke dil ki baat kere, bara khatrah hai. Bara khatrah jab aap baat karte hain aur aap kisi ko suntay hain jo –apne sir se kisi ke dil aur kisi ke karnamon ke baray mein baat kar raha hota hai. Lekin unkee sohbat ko qaim rakhna chahiye jinke –apne dilon ko Allah azzwajal ney haqayiq se muratab kya hai. Lehaza, jab hum un ki sohbat mein rehtay hain, tafakar aur ghoro fikr karte hain unkee sohbat ikhtiyar karkay, to yeh sohbat Faiz laane lagti hai. Lehaza, woh apni saanson ki mashq karte hain, phir saanson ke zariye Sheikh ka yeh Faiz le rahay hotay hain ke ya sidi! Mujhe maloom hai ke aap mere samnay hain aur mujhe aap ko daikhnay ki zaroorat nahi hai. Mujhe sirf yeh jan-nay ki zaroorat hai ke mein hamesha aap ki mojoodgi mein rehta hon aur aap ki nazar hamesha mujh par rehti hai. Aap jitna ziyada yaqeen karte hain aur samajte hain ke Sheikh ki nazar hamesha aap ki taraf dekhatii rehti hai woh nazar taaqatwar hojati hai.
Aur woh dabao ( construction ) ke jis ke baarey mein poocha gaya hai woh yeh hai ke ke jab Sheikh ki nazar aati hai to woh Jalali hoti hai, jmali nahi. Lehaza, jab nazar aati hai to aap ko aisa lagta hai ke aap ko dil ka dora par raha hai, ab un ki Jalali mojoodgi is jagah mein daakhil ho rahi hoti hai aur aap ko aisa lagta hai jaisay aap ka seenah phatt jaye ga aur aap bas is se saans letay rahen ( aur yeh tasawwur karen ke ) mein kuch bhi nahi aur bas saans lena jari rakhen, aur aisay kahin ke,” mere liye yeh behtar hai ke mein mrjaon ya rabbi, yeh theek hai. Mein mar jata hon.” aisay nah kahin ke, “Oh Khuda, yeh khofnaak hai ke mera dil dharak raha tha, mein ruk gaya. ” nahi, ( aisay nah karen ) kyun ke yeh rasta to mout qabal ulmaut hai, aap mout ke liye kis cheez se khaufzadah hain? Aur Allah azzwajal aap ko murda kyun chahta hai? Shayad aap zindah hi behtar hon, agar aap zameen par aik murda laash se ziyada kuch kar saktay hain to, ( warna to ) aap zameen par mehez aik aur laash se ziyada kuch nahi. Lehaza, Allah azzwajal kehta hai ke mujhe abhi aap ki zaroorat nahi hai, aap jo kuch kar rahay hain wahein rahen aur karen. Lehaza, phir woh mout ke khauf par qaboo pa letay hain aur jab nazar aati hai to woh aik bohat hi mazboot dabao ( constriction ) aur phir khilao ( expansion ) mehsoos karte hain, jab is mein aasani hojati hai to wahan aik khilao mehsoos hota hai. Aur dabao aur khilao darasal aik nash-o-numa hai. Har dabao ke sath unn ko aik darja oopar le jaya jata hai aur phir wahan aasani, aik sakhti aur phir aasani hai .
Usay qaim rakhnay ke liye nazar ki izzat rakhi jaye ke mere murshid har waqt mujhe dekhte rehtay hain. Mein jo bhi kar raha hon. Agar aap ko lagta hai ke aap un ki nazar se bach gaye hain to aap khud ko kho chuke hain aisi koi jagah nahi hai jahan un ki nazar dakhil nahi hosakti aur ghaliban jab aap koi ghalat kaam kar rahay hotay hain to farishtay un ko e-mail bhaij rahay hotay hain ke woh ( mureed ) kuch ghalat kar rahay hain apni nazar rakhen aur woh dekh rahay hotay hain. Jitna bandah chahta hai, aur yeh jasoos qalb hain. Agar aap un ke sath hotay hain to aap samajh jayen ke woh bohat si chizen jantay hain magar woh kuch bhi nahi kehte. Aur –apne talba ki woh bohat si chizen jantay hain aur woh Allah azzwajal ki taraf se, nabi? Aur aulia Allah ki taraf se ( –apne taalib ilm ki ) tarbiyat kar rahay hotay hain, aur inhen kuch kehnay ki ijazat nahi hoti .
Lehaza, aap ko lagta hai ke “oh! Woh kuch nahi kehte, inhen kuch pata nahi. ” nahi, woh bohat kuch jantay hain lekin inhen bilkul khamosh rehne ki tarbiyat di gai hotay hai. Yeh un ki jagah nahi hai ke woh inkishaaf karen jo Allah chhupana chahta hai. Lehaza, yeh is ke mutaliq nahi hai ke aap kuch jantay hain to jayen aur kuch keh dalain, yeh karo woh karo! Nahi, nahi, hum logon ko saza dainay ke liye yahan nahi hain, yeh Allah azzwajal ka haath hai, yeh Allah azzwajal ke haath mein hai. Lekin aap ki tarbiyat ke liye, ke aap ko dekha ja raha hai, aap yeh samajh jayen. Woh jitna samajte hain ke unhein dekha ja raha hai, jab bhi woh ( mureed ) gussa karte hain, aik e- mil ‘ding” bheja jata hai, woh ( murshid ) dekh rahay hotay hain. ( maslan ) ab mere paas markaz ke liye aik achchhaa rang camera hai, agar aap camera se guzarte hain to yeh mujhe ittila bhaij deta hai. Aap ke khayaal mein rِng ke paas yeh qabliyat hai aur Allah azzwajal ke paas nahi hai? Jaisay hi aap ka darja hararat barhta hai, aap ke kharab kirdaar mein kuch barh jata hai woh ittila bhaijtay hain ke is ka darja hararat abhi barh gaya hai, is ka ikhlaq badal raha hai aur kuch ho raha hai. Phir woh log jo haqeeqat ki tarbiyat le rahay hain, woh log jo haqeeqat nahi chahtay, aap ko maloom hai ke woh sirf khanay aur sohbat se lutaf andoz honay atay hain, is mein koi harj nahi hai. Yeh logon ka aik mukhtalif giroh hai ( agar aap duniya mein tarbiyat nahi haasil karte to ) aap qabar mein apni tarbiyat haasil karlen ge. Yeh qadray shadeed hai, mere khayaal mein qabar mein 70000 guna ziyada shadeed hai kyunkay phir har aik khalwat ke liye ja raha hota hai aur har aik qabar mein tarbiyat le gavh log jo ab tarbiyat chahtay hain woh kehte hain nahi, nahi, ya rabbi, mein sakht qadam nahi chahta, mujhe yeh abhi karne den phir woh samajh gaye ke ( ya murshidi! Mujh par ) nazar rakhain! Mere Sheikh mujhe dekh rahay hain, woh sab kuch dekh rahay hain jo mein kar raha hon aur phir inhen samajhney ke liye tknaloji di gayeen, woh samajte hain aur un ki rooh ko bhi samajh aati hai. Un ki rooh Allah azzwajal ke khudai razon mein se hai. Yeh khayaal nah karen ke rooh qabil nahi hai, un ki rooh bohat si jaghon aur har jagah hosakti hai jitna Allah azzwajal chahta hai ke un ki rooh ban jaye aur rooh ko jismani tor par bhi unhein mutala karne ki zaroorat nahi hai kyunkay is ke paas pehlay hi macro kodz mojood hain. Jis mein usay mukhtalif kaam karna hotay hain. Kya aap tasawwur kar satke hain ke din bhar lakhoon ehkamaat par jism ko mutala kya jaye, ( agar aisa kya jaye to ) aap uss shakhs ko aik mukammal tor par pagal ki terhan dekhen ge, mere khayaal mein yeh woh shakhs tha jis ney film mein kkhuda ka kirdaar ada kya tha aur woh e- mails kar raha tha aur is ney sab ki e- mails ka jawab dena shuru kar diya ( aik aawaz aati hai, bros all maai tea ) … haan bros ney jab anay walay har e-mail par nahi, nahi, nahi ya haan kehna shuru kya. Nahi, rooh Allah azzwajal ki ataa kardah salahiyat rakhti hai. Allah azzwajal ke aasmani samandar ney rooh ko aasmani razon aur aasmani qudrat say malbos kya hai, zahiri duniya se kuch bhi ( sarokaar ) nahi. Un ke jism ko bhi jan-nay ki zaroorat nahi hai lekin yeh buland roohein, yeh roohein jo Rabbaniyyoon hain, Allah azzwajal ney rooh ko fuluk al mash-hoon ataa kya, woh unn haqayiq se lde hue hain jo rooh Allah azzwajal ki izzat aur taaqat se karne ke qabil hai .
Aur un ke liye aik nishani yeh hai ke hum ne un ki nasal ko bhari hui kashti mein ( selaab ke beech se ) utha liya. [ soor yaseen : 41 ]
lehaza, haan, is mein koi shak nahi ke rooh darja hararat ki nigrani aur jaanch kar rahi hai. Phir taalib ilm samjhna shuru kar deta hai jaisay Sheikh Abdul alqadr ki kahani ki terhan ke “jao aur is murghi ko wahan ja ke mardo jahan tum samajte ho ke Allah azzwajal nahi dekhe ga. ” har koi murghi ko maarny nikla, aik taalib ilm wahan khara hwa aur unhon ne kaha,” tum woh kaam kyun nahi kar rahay ho jo mein ne tum se karne ko kaha hai? ” woh kehta hai,” kahin aisi jagah hai jahan mein vaqata ja raha hon ke Allah azzwajal mujhe nahi dekh raha ?” woh farmatay hain ke,” theek hai, ab aap tayyar hain.” baqi sabhi aisi jagah talaash kar rahay hain jahan Allah azzwajal inhen nahi dekhe ga. Haan, aisa hi hai. Jab aap waqai yaqeen rakhtay hain ke woh dekh rahay hain, nabi? Yaqeenan dekh rahay hain, Aolia Allah dekh rahay hain, farishtay dekh rahay hain, jin dekh rahay hain, sab dekh rahay hain. Bas aap usay nahi jantay. Lehaza, phir aap ki zindagi aisay hi hai jaisay tromin show ( truman show ) hai jahan woh aik bulbulay mein hai aur baqi sab tally vision par hain. Lehaza aap ki zindagi bhi aisi hi hai. Yahan taq ke jannat mein aap ke aabao ajdaad bhi dekh rahay hain kyunkay yeh zindagi aur is zindagi ki haqeeqaton mein se aik yeh hai ke aap tromin show ki terhan hain. Aap ke saaray abad ajdaad isi terhan baithy hue hain,” wah woh kya kar raha hai, ae mere kkhuda! Is ko dekho.” to, woh dekh rahay hain. Jab mein vaqata samajh gaya tab mera khalq aur mera kirdaar is par mabni hoga ke mein is terhan nahi karsaktha, mein yeh nahi keh sakta ke woh dekh rahay hain. Mein aisa nahi karsaktha aur aap khud ko durust karne lagen ge, khud ko durust karen. Jitna aap –apne aap ko durust karte hain, itna hi aap Allah azzwajal ke ikhlaas ke samndron mein daakhil ho jatay hain aur ikhlaas par Allah azzwajal ka tohfa hota hai phir woh –apne fazl o karam se rooh par ataa karta hai. Insha Allah .
Sawal : kya aap barah karam molana Sheikh Nurjan Mirahmedi nqshbndi ( q ) se unn openings ke barey mein pooch satke hain jin ka 1 shakhs ko tajurbah hota hai? Maslan chehray ka garam hona, kuch tajaliyan mehsoos hona band bhi ho sakti hain ya hamein har session mein yeh sab mehsoos karna chahiye ?
Sheikh Nurjan Mirahmadi Naqshabndi (Q): nahi, phir gaajar aur chhari ke liye koshish ( ka tasawwur samnay aata ) hai. Gaajar aur chhari ka tasawwur yeh hai ke aap ne woh khazana jo kisi ko chahiye un ke samnay chhari par rakha taakay aap unn mein agay bherne ki harkat peda karen. Agar Allah azzwajal aap ki aamaal ki bunyaad par har cheez ataa karta to hum kuch bhi nah karte. Hum vaqata sirf wahan baith kar muraqba karte rehtay aur sara din dhoka aur freeb_e_ nazar honay lagta hai. Allah azzwajal ne jo kuch ataa kya hai woh “kashaf” aur “haal” hai. Lehaza, yeh dono haqayiq yeh hain ke aap apna tafakkar kr rahay hain, aap muraqba kar rahay hain, aap namaz main ho saktay hain, aap zikar mein ho saktay hain aur ( phir yakdam )” wheooow” azzwajal kisi film ke trailor ki terhan dukhaay ( aap ko kuch dukhaay ).’ wphephew’ ( aur aap herat zada ho jaien ke ) wah! Aur phir yeh chala jaye. Aur phir aap usay dobarah pakarney ke liye mashqen ( practices ) karte hain, usay dobarah pakarney ( ki koshish karte rehtay hain ). .. Ghalat.! Aisa nahi hai ke aap un cheezon ka peecha karen balkay –apne mukhlisana iqdamaat ko jari rakhen jis ne Allah azzwajal ko aap se khush kya tha ke woh aap ko ata kere. Aisa nahi hai ke aap ab peecha karne ki koshish karte rahen, mujhe aik aur trailor dekhnay ki koshish karne day, ya rabbi mujhe aik aur ( trailor ) dekhnay day. .. Nahi nahi, Allah azzwajal mutalbe prnhin! Jahan aap darkhwast karte hain aur Allah azzwajal kehta hai theek hai mein aap ki baat sun raha hon, mere bande. Astaghfirullah. Hum to Allah azzwajal ke bande hain. Lehaza is baat ka pata lagayen ke aap mustaqil tor par kya kar rahay they jis se Allah bohat khush hwa. Kuch kehte hain “ oh, bohat saari cheeze mere liye ruk gayeen hin” kyun ke aap khud ruk gaye, aap ne apni tamam mashqon ko rokkk diya, aap ne apna muraqba roka, aap ne woh sab kaam band kardiye jo aap kar rahay they. Aap ne socha tha ke aap itni onche jagah par poanch gaye hain aur ab yeh theek hai ke ab aur kuch nahi aasakta. To, phir tareeqa aata hai aur dars deta hai ke fanaa ho jaien. Aur kehta hai ke ( aap yun kahin ke ) ya rabbi mein un sab ko nahi dhoond raha aur mein apni mukhlis mashqon par wapas aa gaya hon aur phir dekho aur ghhor karo ke Allah azzwajal aap ko heran karde ga aur apna kashaf bhaij day ga aur woh nahi chahta ke aap is ( cheez ) ke peechay bhagain. Aur is ki talabb nah karen! Kyunkay yeh rishta kuch na munasib ban jata hai lehaza hum ne pehlay hi kaha jaisay aap ghar atay hain, aap –apne payarey aur –apne bachon ko bosa dete hain aur yeh mohabbat ki alamat hai lekin agar woh qitaar mein kharray ho jaien aur kahin ke mujhe paanch rupay do, aur aap ko sabhi ko muawza dena parre salam ke liye. To yeh mukhtalif rishta hai lehaza, Allah azzwajal nahi chahta ke bandah un cheezon ka mutalba kere. Woh farmata hai ke jo kaam tum ne ikhlaas ke sath karna tha woh karo. Mein –apne tohfay se jis terhan se dena chahta hon woh dun ga aur “haal” ke liye bhi aisa hi hai. Woh apna zikar karte hain, woh apni mashqen karte hain aur Allah azzwajal inhen aik aisay “haal” mein bhaij sakta hai jis mein woh tawa naiya mehsoos karte hain, inhen jazbaat mehsoos hotay hain, inhen har terhan ke tajarbaat mehsoos hotay hain aur woh is ka peecha nahi karte. Chunancha, imam Ali ( a ) ne farmaya, meri fanaa mein bhi fanaa hai. Matlab yeh ke mein is maqam par poanch gaya jis mein mein ne khud ko musalsal fanaa kardiya, mein is qabil nahi hon ya Rabbi, mein is ka peecha nahi kar raha hon. Is terhan peecha nah karen, “oh woh mere paas tashreef laaye, unhon ne mujhe aik talwar di, unhon ne mujhe aik jubba diya, unhon ne mujhe aik taaj diya-“ kyunkay phir aap ka nafs is mein daakhil ho raha hai aur aap ab baithy yeh koshish kar rahay hain ke woh tasawurat dobarah se aap ko nazar anay lagen, ke mein wahan betha hon, woh mujhe day rahay hain, woh mujhe day rahay hain. ( nahi nahi ) yeh sab fraib hai kyunkay aap ko apna aap fanaa karna chahiye tha. Agar aap ka dil khul raha ho aur woh cheeze le kar arhay hain to alhmd lillah kahin ke mein woh bandah nahi hon, mein is qabil nahi hon, mein kuch bhi nahi, mein koi nahi, mein koi nahi, mein koi nahi aur yahi woh sunna chahtay hain. Warna vahm ki haalat daakhil ho jati hai aur woh kehnay lagtay hain ke “oh! Mere kkhuda! Mujhe yeh mil gaya, mujhe yeh mil gaya! ” aur sab se pehlay woh yeh karna chahtay hain ke jab woh Sheikh ke paas ayen ( to –apne barey mein yun bayan karne lagtay hain ) “keh kya aap jantay hain ke mein ne aik khawab dekha tha, mein isi terhan aik kursi par betha, woh aeye aur unhon ne mujhe aik jubba diya, unhon ne mujhe arsh diya, unhon ne mujhe talwar di, unhon ne mujhe aik taaj diya. ” to phir theek hai tum meri nokari le lau mein chore dun ga ( Sheikh hanstay hain ). Yeh hamara rasta nahi hai! Yeh aisa hai ke aap ayen aur kahin ke mein kuch nahi hon, mein kuch bhi nahi hon, yahan taq ke aap ne apni aankhon se 7 aasman dekhe ( phir bhi aap kahin ke ) mein kuch bhi nahi, mujhe kuch nazar nahi aata, mein kuch nahi jaanta, mujhe koi wajah nahi maloom. Yeh hamaray cupp ko khaali rakhta hai aur ( jab ) mera cupp khaali ho to Allah pak usay kaayenaat se, un dekhe Jahan se aur takhleeq se be hadd khoshion aur lzton se bhar deta hai. Lehaza, cupp ko mukammal khaali rakhnay ka tasawwur ( yeh hai ke ) mein kuch bhi nahi, mein kuch bhi nahi hon aur hatta ke fanaa ke –apne samandar mein bhi fanaa hojaon. Insha Allah .
FOR ENGLISH:
WATCH HERE:
https://www.facebook.com/shaykhnurjanmirahmadi/videos/198080218129867/?vh=e&d=n
Source