Urdu – شیخ سَیَّد نورجان مِیراَحمَدِی نَقشبَندِی (ق) کی سنہری تعلیمات سے اقتباس بِسْمِ…
شیخ سَیَّد نورجان مِیراَحمَدِی نَقشبَندِی (ق) کی سنہری تعلیمات سے اقتباس
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
الّھمَّ صَلِّ عَلَی سیدِنَا محَمَّدٍ ﷺ وَعَلَی آلِ سیَّدِنا محَمَّد ﷺ
جسم پر حملہ آور ہوتی ہوئی انرجی اور اس کے دفاع کا طریقہ کار اور اَنیاگرام (Enneagram ) کی حقیقتیں:
ہماری زندگی میں ہر چیز ایک آزمائش اور یک سبق ہے۔ خدا تعٰالیٰ کہتا ہے کہ اگر میں تمہیں اب چوٹ نہیں پہنچاؤں گا تو تمہیں قبر میں چوٹ لگائی جائے گی۔ میں تمہیں قبر میں زودوکوب نہیں کرنا چاہتا۔ اپنی ضربیں جھیلو، اپنے سبق حاصل کرو، اور اپنی مثالوں کوتھام لو۔ یہ تمہارے جسم کو زیر کر رہی ہیں۔ میں تمہاری روح کو آراستہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، تمہارے جسم کو نہیں آراستہ کر رہا، نہ ہی یہ کہ تمہارے جسم کو اہم بناؤں اور اسکو تاج پہناؤں۔ میں تمہارے جسم کو روندنے کی اور روح کی حقیقت کو باہر لانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں تمہاری روح کی اپنی بارگاہ میں موجودگی چاہتا ہوں۔
لہٰزا ہر چیز جس پر ہم غوروفکر کرنا شروع کرتے ہیں، کہ “ایسا کیوں ہوا؟” تب خدا تعٰالیٰ فرماتا ہے کہ،” تم کسی بھی نبی سے بہتر کیوں ہو؟ کیا ان کو تکلیف نہیں پہنچی؟ کیا ان پر کوڑے نہیں برسائے گئے اور انکو چوٹیں نہیں لگائی گئیں، یا پھر کیا لوگوں نے اُن پر پتھر نہیں برسائے؟ کیا لوگ اُن پر چیخے چلّائے نہیں، ان پر الزام نہیں لگائے اور ان پر ہر طرح کے جسمانی تشدد نہیں کئے؟“ تو ہلکی سی تکلیف میں مضائقہ ہی کیا ہےکیونکہ ہم میں سے کوئی بھی وہ تکلیف نہیں اٹھا رہا جو انبیاء نے اٹھائی۔
لہٰزا مستقل طور پر خدا کی جانب اور باری تعٰالیٰ کی جانب رجوع کرتے ہوئے، دل میں خیال آتا ہے کہ یہ اتنا بھی برا نہیں ہے۔ کیا یہ ایک ہلکی سی صفائی کی مانند نہیں تھا کہ یہ مختلف معاملات کو جن سے ہم آشنا نہیں تھے واضع کر دیتا ہے۔ تب شیخ یہ تعلیم فرماتے ہیں کہ یہ کردار کی تکمیل کرتا ہے۔ لہٰزا جب کچھ وقوع پذیرہو تو اس کے بارے میں غوروفکر کریں۔ اپنی ذات میں موجود مسلئہ ڈھونڈیں اورسوچیں کہ یہ کیوں ہوا، (ایسے)یہ کردار کا نقص ٹھیک کرتا ہے۔
اَنیاگرام (Enneagram ) اپنی مدد آپ کا ایک پروگرام نہیں ہے:
یہ اتفاقیہ طورپرانیا گرام کا مطالعہ ہے۔ یہ اَنیا گرام کے تمام نقشبندی حقائق ہیں۔ کسی کے لئے بھی جو انیا گرام میں دلچسپی رکھتا ہے، انکو ادراک کر لینا چاہیے کہ انیا گرام آجکل کی سائیکولوجی (Psychology ) کے لحاظ سے اپنی مدد آپ کا ایک پروگرام ہے۔ انھوں نے مینٹور ( Mentor) کو نکال دیا اور وہ اس کو اپنی مدد آپ کا ایک پروگرام بنا چکے ہیں، کہ جس سے کوئی بھی اپنی مدد آپ کام نہیں کرتی۔ یہ کتاب کے ذریعے سے ایک سرجری (surgery ) کرنے جیسا ہے، کہ ایک طرح سے جہاں آپ لیٹ جاتے ہیں اورکاٹ کر اپنے عُضو کو باہر نکال لیتےاور اس کو سِی دیتے ہیں۔ اپنی مدد آپ کے سبب اپنی مدد آپ، آپ کو اپنے ساتھ سچا ہونا ہو گا۔ بہت سے لوگ اپنے ساتھ سچے نہیں ہوتےاور نہ جو انکے کردار کا نقص ہے اُس سے۔
حقیقی اَنیا گرام ( Enneagram ) روحانی پیشوا ہیں:
لہٰزا اَنیا گرام کا فہم آجکل جہاں وہ بیان کرتے ہیں،” ٹھیک ہے آپ کو یہ جان لینا ہو گا کہ آپ ایک غُصیل انسان ہیں اور پھر اس کو ٹھیک کرنے کیلئے یہ اوراد استعمال کریں۔" وہ انیا گرام ایک حقیقت کی اختراع ( innovation ) ہے۔ حقیقی انیا گرام تو روحانی پیشوا ہیں۔ وہ ہماری ذات کا علم رکھتے ہیں۔ ایک بار جب آپ انکی مجلس میں ہوتے ہیں تو انکی دعا آپ کے لئے یہ ہے کہ آزمائش شروع ہو جاتی ہے اور صفائی شروع ہو جاتی ہے۔ یعنی،”میرے مولا، یہ بندہ پروان چڑھنے کا سوال کر رہا ہے، اس کی آزمائش کا آغاز کر دیجئے۔“
شیوخ، طالب علم کے کردار کے نقائص ٹھیک ہونے کی دعا کرتے ہیں:
تب باری تعٰالیٰ فرمائیں گے،”میں وہ جانتا ہوں جو ان کے اندر ہے اور وہ جو یہ اپنے بارے میں نہیں جانتے۔ اس کو باہر لے آؤ۔“ اگر آپ اس کو باہر نہیں لاتے تو وہ بیماری ٹہری رہتی ہے اور آپ اس کے ساتھ ہی دفن ہو جاتے ہیں۔ اُس وقت آپ کو اُس سے نپٹنا ہو گا۔ اُس وقت، وہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ ۷۰۰۰۰ گنا زیادہ مشکل ہوتی ہے بنسبت یہ کہ اس سے اب نپٹا جائے، کیونکہ ابھی آپ غصہ ہو کے نپٹ سکتے ہیں۔ ڈاکیا آپ پر چلّا رہا ہےآپ نہیں جانتے کہ وہ آپ پر کیوں چلّایا اور پیکج (package ) پھینک دیا، بنسبت یہ کہ قبر کے معاملات کو نپٹایا جائے اور قبر میں صفائی کروائی جائے۔
لہٰزا شیوخ اپنی دعا فرماتے ہیں کہ،”میرے مریدین کے کردار میں موجود نقائص کو باہر لے آئیے۔ جو اُن کے اندر چھپا ہوا ہے، کیونکہ وہ اپنے تئیں عمدہ سوچتے ہیں مگر اُس کو باہر لے آئیے جو آپ کوان کے کردار میں تنگ کر رہا ہے، تا کہ آپ ان سے راضی ہو جائیں۔“ تب تمام آزمائش شروع ہو جاتی ہے، تمام امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ بیشتر آزمائش ہماری اپنی ایسوسی ایشنز ( associations) کے ذریعے سے ہوتی ہے، کیونکہ انتہائی تکلیف دہ امتحانات اُن لوگوں کی طرف سے آتے ہیں جنہیں آپ پیار کرتے ہیں۔ ایک اجنبی آپ کو ٹیسٹ (test) کرتا ہے اور کہتا ہے،”اوہ، وہ شخص پاگل تھا آپ کو گاڑی چلاتے رہنا چاہئے۔“ مگر ہماری اپنی ذات، ہماری کمیونٹی (communities )، ہمارے ساتھی طالب علم، ہمارے گھر، ہمارے پیارے لوگ؛ ان کے پاس تمام بٹنز (buttons) ہوتے ہیں۔ لہٰزا وہ خدا تعٰالیٰ کے حکم کے زیرِاثر ہوتے ہیں؛ وہ بٹن دباتے ہیں ۱،۲،۳— بُوم (boom)! ہر چیز بدل جاتی ہے۔
اُس ادراک کے ساتھ، ہمیں خوش رہنا چاہئیے۔ شیخ کی دعائیں اثر کر رہی ہیں۔ خدا تعٰالیٰ فرماتا ہے،”ان کی دعاؤں کی وجہ سےمیں تمام تر بیماری باہر لانے جا رہا ہوں۔“ لہٰزا حقیقی انیاگرام شیوخ ہیں، جو کردار کے حقیقی نقص کے واضع ہونے کی دعا کرتے ہیں۔ وہ نقص نہیں جو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ میں موجود ہے، بلکہ وہ جس سے آپ بے خبر تھے کہ آپ میں موجود ہے اور آپ کی روح کو کس قدر مشکل میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ یہ ایک صفائی ستھرائی کا عمل بن جاتا ہے۔ یہ کردار کے اُن تمام نقائص کو واضع کردیتا ہے۔
خدا تعٰالیٰ کی موجودگی دل میں ہے، ستارے کے مرکز پر:
اسکا مطلب اُس انرجی کی حقیقت ٹانگوں سے اوپر کی جانب رواں ہو رہی ہے اور بہشتی انرجی دل کو آراستہ کرنے اور روح کو طاقتور بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اِس نقطے پر [شیخ اوپر والی تکون کے ٹاپ (top) کی جانب اشارہ کرتے ہیں] اگر یہ سَر ہے تو بالکل یہاں [سٹار ڈائیاگرام (Star diagram) میں اوپر والی تکون کے مرکز میں ایک لائین لگاتے ہیں] دل موجود ہے۔ لہٰزا جب یہ داؤدی ستارے کی طرح اکٹھے ہوتے ہیں تو، آپ دیکھیں گے کہ اُس مکمل ستارے کا مرکز خدا تعٰالیٰ کی ذات ہے، کیونکہ اللہ ، خدا تعٰالیٰ ہمیں بیان فرما رہا ہے کہ،”میں بہشتوں میں نہیں مل سکتا اور نہ ہی زمین پر، سوائے میرے مومن کے دل میں۔“
“نہ ہی میری جنتیں نہ ہی میری زمین میرا احاطہ کر سکتی ہے، مگر میرے مومن بندے کا دل۔” (حدیثِ قدسی از نبی محمد )
کیونکہ اگر ہم کسی ایسی جگہ جا رہے ہیں جہاں خدا کہیں کسی کرسی پر تشریف فرما ہے، تو یہ ممکن نہیں۔ خالق مخلوق کے دائرے سے باہر ہے۔ انبیاء موجود ہیں، ملائکہ موجود ہیں، یہاں بہت سی بہشتی مخلوقات ہیں؛ لیکن خدا تعٰالیٰ ہمیں واضع کر رہے ہیں کہ،”واحد جگہ جہاں پر آپ حقیقی طور پرمیری طاقت کو پا سکتے ہیں وہ مومن کے دل میں ہے۔ اگر میں اُس دل میں موجود ہوں تو آپ اُس خدا شناسی کے تمام راز اُس بندۂِ مومن پر کھلتے ہوئے پائیں گے۔“
دل کے تخت کیلئے مثبت اور منفی انرجیز (energies ) کی جنگ:
لہٰزایہاں پر وہ ہمیں واضع کر رہے ہیں کہ اُس خدائی دل کو طاقتور بنانا ہوگا۔ وہ تمام تر تجلی اُسی مرکز کی جانب رواں دواں ہے۔ تمام تر مادی خواہش بھی اُس خدائی تخت پر حملہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کی غرض اُس تخت کو ڈگمگا کر گرا دینے میں ہے۔ لہٰزا بادشاہوں کی ایک پرانی فلم کی مانند یہ بالکل بادشاہت کیلئے کی جانے والی جنگ کی طرح ہے، کہ منفی خواہشات تخت کو ڈگمگا کے گرانا چاہتی ہیں۔ لہٰزا برائی جسم میں اوپر کی جانب بڑھنا شروع کرتی ہے، سرگرم کرنا شروع ہوتی ہے۔ پھر سے یہ ایک پیغمبرانہ تعلیم ہے کہ نبی محمدﷺ نے تعلیم فرمائی،”اگر آپ مجھے اپنی زبان اور اپنے اعضاءِ تناسل کی گارنٹی (guarantee ) دیں تو میں آپ کے لئے جنت کی گارنٹی دوں گا۔“ کیونکہ یہ وہ دو راستے ہیں جو اِن حقائق کو کنٹرول ( control ) کرنے جا رہے ہیں۔
لہٰزا اس کے ساتھ ہی وہ برائی اُس جگہ پر حملہ آور ہونے جا رہی ہوتی ہے۔ تب جب شیطان ہمارے وجود پر حملہ آور ہونے اور اوپر کی جانب رواں ہونے جا رہا ہوتا ہے، کیونکہ یہ ایک کی دوسرے کے ساتھ ایک جنگ ہے، یہ ایک انسان کی جنگ ہوتی ہے برائی کی تمام تر انرجیز کے خلاف۔ لہٰزا وہ (شیطان) آنے سے پہلے کیا کرتا ہے؟ وہ خون میں گردش کرنا شروع کرتا ہے؛ اور اس کی گردش، وہ انرجی، وہ نیگیٹیویٹی (negativity ) اب دورانِ خون میں گردش کر رہی ہوتی ہے، لوہے (iron) کے ساتھ اپنے آپ کو چمٹائے ہوئے۔
خون میں انرجی لوہے (iron) کے ذریعے گردش کرتی ہے:
انرجی ہمارے جسم کے ساتھ کیسے منسلک ہوتی ہے؟ یہ پانی کے ذریعے سے گردش کرتی ہے مگر اس کو منسلک ہونے کیلئے کوئی چیز درکار ہوتی ہے، اور انرجی لوہے کے ساتھ منسلک ہو جاتی ہے۔ اور ہمارے طبی ماہرین، وہ زیادہ سے زیادہ فہم حاصل کرنے جا رہے ہیں کہ تمام انفیکشنز (infections) کی جڑ لوہے میں ہونی چاہئے۔ اس کا مطلب اگر لوہا بالکل موجود نہیں ہے تو یہ خود کو کسی چیز کے ساتھ منسلک نہیں کر سکتی۔ بیماری کا حملہ (infection) یا نیگیٹیو (negative ) انرجی کی اِبتِلا (infestation )، کہ نیگیٹیو انرجی گردش کرنے اور خود کو آئرن (iron ) کے ساتھ منسلک کرنے جارہی ہے، اور ایک جنگ کی مانند اوپر کی طرف کُوچ کرتے ہوئے، مارچ (march) کرتے ہوئے، اوپر کی جانب رواں ہونا شروع کرتی ہے۔
نیگیٹیو (negative) انرجی پہلے پہل جِگر اور گُردوں پر حملہ کرتی ہے:
پہلی لائین (line)، کیونکہ یہ براہِ راست دل پر ضرب نہیں لگا سکتی، دل فطرتًا بہت طاقت رکھتا ہے۔ لہٰزا یہ سیدھا قلعے کی جانب حملہ نہیں کرتی، پرانے زمانے کے قلعے کی طرح، آپ حملہ نہیں کر سکتے۔ تو یہ کہاں حملہ آور ہونے جا رہی ہے؟ آپ کے جگر پر اور آپ کے گردوں پر۔ اسکے حملے کی پہلی لائین، کیونکہ یہ خون میں سپاہیوں کی طرح سے رواں ہوتے ہوئے گردش کرتے ہوئے کہاں حملہ آور ہونے جا رہی ہے—-جگر اور گردوں پر۔ کیونکہ یہ دونوں بہت بڑے فلٹرز (filters ) ہیں۔ یہ دل کے لئے بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ چھانتے ہیں اور صفائی کرتے ہیں۔
لہٰزا پھربرائی کی تاثیرہوتی ہے کہ جگر کو برباد کیا جائے گردوں کو تباہ کردیا جائے۔ آج کل سب سے بڑی بیماریاں جو ہمیں ہو رہی ہیں وہ جگر کی بیماریاں، گردوں کی بیماریاں اور بی پی (hypertension ) ہیں۔ یہ ضرب لگا رہی ہے، چوٹ لگا رہی ہے، نقصان پہنچا رہی ہے، مار رہی ہے؛ اور جب مزید نقصان کو بڑھاوا دیا جاتا ہے تو وہ (شیطان) کہتا ہے کہ کچھ پِیو۔ پانی مت پیو کیونکہ پانی نظام کو صاف ستھرا کرتا ہے بلکہ اسپرٹ (spirits) پیو کیونکہ یہ آگ ہے، یہ آگ پر پٹرول کی مانند ہے۔ لہٰزا اُس پٹرول کو اندر اُنڈیلو اور یہ گردش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ان کی فوجیں زیادہ تیزی کے ساتھ گردش کر رہی ہوتی ہیں اور درحقیقت یہ جگر کو شدید چُور کر دیتی ہیں اور گردوں کو ختم کر دیتی ہیں۔ اور فلم”لارڈ آف دی رِنگ “ کی طرح سے روکاوٹ کو کچل دیا گیا ہے۔ وہ سلطنت میں مداخلت کر چکے ہیں اسے زیر کر چکے ہیں اور اب اِس مقام پر یہ سب کیلئے بنا کسی روکاوٹ کے جیسا ہے۔ وہ پاگلوں کے جیسے بھاگتے ہوئے نظام میں اوپر کی جانب رواں دواں ہیں۔
حملے کا اگلا نشانہ پھیپھڑے ہیں— شجرِ حیات:
ایک بار جب وہ گردوں میں اور جگر میں مداخلت کر چکے ہیں تواگلا نظام کہاں ہے جو وہ بڑی تیزی سے برباد کرنے جا رہے ہیں، وہ پھیپھڑے ہیں؛ یہ شجرِ حیات ہے۔ لہٰزا”لارڈ آف دی رنگز“ میں اُن میں ایک تھا جس نے وہ درخت جلا دیا تھا۔ محل کے سامنے ایک درخت تھا کیونکہ وہ مر چکے ہیں اور وہ ہمیشہ اس کو خیالات میں جلتا ہوا دیکھا کرتا تھا۔ ایسا اسلیئے کیونکہ شیطانیت پھیپھڑوں پر غالب ہونے جا رہی ہے۔ پھیپھڑے نَفَسِ حیات ہیں۔ یہ آپ کی ہستی کیلئے سانس اور خدا کی جانب سے ایک تحفہ ہے۔
لہٰزا وہ سانس کو تمباکو نوشی کے سبب جلا دیتے ہیں، کیونکہ تمباکو نوشی اور شراب نوشی ایک دوسرے کے ساتھ بہترین طریقے سے چلتے ہیں۔ یہ ایک اتفاق نہیں ہے ایسا اسلئے ہے کیونکہ وہ آپ کو بڑھاوا دے رہےہیں۔ "ہم نے جگر اور گردوں کو نقصان پہنچا دیا؛ اب تمباکونوشی شروع کرو، تمباکو پیو، تمباکو پیو، جیسے کہ پھیپھڑوں پر ایک آگ پھینک دی جائے۔" کیونکہ یہ خون کی طاقت ہےکہ خون پھیپھڑوں میں پاک صاف ہونے اور اپنی (فاسد) گیسز (gases) کے خروج کیلئے جا رہا ہے۔ یہ باہر ایک درخت کی مانند ہے، خون اپنے تمام ترفاسد مادوں کے ہمراہ آتا ہے اور کہتا ہے،”ہم پھیپھڑوں کی جانب آ رہے ہیں، تمہیں اپنے فاسد مادے دینے۔ ہمیں وہ واپس لوٹا دو جو خدا نے ہمیں عطا کیا ہے۔“ تب ہم واپس اس میں اور زیادہ آگ پھینک دیتے ہیں۔
تب دل کا دورہ پڑتا ہے اور سلطنت ٹوٹ جاتی ہے:
لہٰزا خون آگ سے جان چھڑوانے کی کوشش کر رھا تھا اور ہم نے واپس اِس میں اور زیادہ آگ پھینک دی۔ اس کا مطلب، بوم (boom)، اس وقت اُس نے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچایا سلطنت کو توڑ دیا اور سیدھا دل کی جانب رواں ہوا اور تخت کو ڈگمگا کر گرا دیا۔ اُس وقت، دل کا دورہ وقوع پذیر ہوتا ہے؛ دل پر حملہ کیا جا چکا ہے۔ اسکا مطلب کہ خدائی تخت اب الٹ دیا گیا ہے اس شخص پر حملہ ہو چکا ہے اور سلطنت پر قبضہ کیا جا چکا ہے۔
ایک روحانی حقیقت کو سمجھنے کیلئے، یہ قدرے آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے کہ اس کا برائی کی دنیا میں کتنا اثرورسوخ ہے۔ آپ اسکو روزانہ ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ خدائی رخ نہ دیکھیں اور کہیں، ”اوہ، میں نے کبھی کوئی فرشتہ صفت انسان ارد گرد چلتے پھرتے نہیں دیکھا۔“ لیکن ہم اپنی پوری زندگی یہ سب ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے یہ اثر (ہماری زندگیوں کے اندر) داخل ہوتا جا رہا ہے اور ہم سے یہ سارے کام کروانے اور ہمارے تمام اعضاء پر حملہ آور ہونے اور دل کو الٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اپنی سانس کو ذکرِ ھُو کے ذریعے سے پاک صاف کر کے اِس جنگ کو فتح کیجئے:
لہٰزا تب وہ روحانی بحران جو ہم کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں اور احساس کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیسے اس کو فتح کیا جائے۔ اس کا مطلب تب، آپ کیسے اس پورے حملے کو فتح کرنے اور اپنی روح کو طاقتور بنانے جا رہے ہیں؟ سانس کے ذریعے سے۔ اسی وجہ سے مراقبہ جسم، ذہن اور روح ہے۔
پہلی چیز جسم کیلئے، جب خدائی تحفظ آ رہا ہوتا ہے، جسم کیلئے خدائی نصیحت فرمائی جا رہی ہے کہ، ”ٹھیک ہے، کوئی مسلۂ نہیں اگر آپ جنگ ہار گئے، امید ہمیشہ موجود ہے۔“ کیونکہ فلم ”لارڈ آف دی رنگز“ میں آخری لمحے میں گینڈآلف (Gandalf) آن پہنچا اور تمام تر حملے کو کچل دیتا اور نیست و نابود کر دیتا ہے۔ لہٰزا خدا تعاٰلیٰ ہمیں واضع کر رہے ہیں کہ اگرچہ آپ پر حملہ کیا جا چکا ہے اور ہر چیز پر قبضہ کیا جا چکا ہے، پھر بھی امید موجود ہے۔ یہ امید تنفس میں ہے۔
اُس خدائی سانس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے جیسے ہی ہم روحانی سانس لینا شروع کرتے ہیں، اور خدا کی تسبیح ”ھو“ سے سانس لے رہے ہوتے ہیں، خون گردش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اُس خون میں موجود لوہا برائی کے خلاف لڑنے والی خدائی طاقت بن جاتا ہے۔ لہٰزا انرجی کی پہلی طاقت آنا شروع ہوجاتی ہے، کیونکہ یہ بہت اعلیٰ درجے کی طاقت ہے۔ اس کا مطلب اگر آپ خدا کو پکاریں، خدا پاک فرماتے ہیں،”اگر آپ مجھے ایک بار پکارتے ہیں تو میں ۹۹ قدم آپ کی جانب آتا ہوں۔“ اس کا مطلب اُس کی طاقت کسی بھی دوسری طرح کی طاقت سے کہیں زیادہ برتر ہے۔ جیسے ہی آپ اُس کو سانس کے ذریعے پکارتے ہیں، اس کا مطلب وہ انرجی لوہے پر، خون پر، ہمارے وجود پر نازل ہوتی ہے اور برائی کے اثر کو دور دھکیل دیتی ہے۔
لہٰزا تب تنفس کی طاقت اور تب اُس شجرِحیات کو دوبارہ سے قائم کرنا ہے۔ یہی وجہ کہ تمام مذاہب میں، تمام روحانی راستوں میں پاک درخت، شجرِزندگانی، شجرِیقین؛ یہ شجرِحیات ہے۔ لہٰزا ہماری زندگی کی کامیابی اس بات منحصر ہے کہ ہم کیسے اُس درخت کے ساتھ پیش آنے جا رہے ہیں۔ ہمیں اس کی حفاظت کرنا ہوگی۔ لہٰزا فوراً سے ہر وہ چیز جو اس درخت سے متعلقہ ہے وہ ہمارے لئے اہم ہے۔ ہم کیسے اس کا خیال رکھنے جا رہے ہیں، ہم کیسے اس کی پرورش کرنے جا رہے ہیں، ہم کیسے سانس لینے اوراس درخت کو وہ (خدائی) انرجی فراہم کرنے جا رہے ہیں۔
دوبارہ سے سلطنت کو قائم کریں اور دل کے تخت کی حفاظت کریں:
لہٰزا تب خدا تعٰالیٰ ہمیں واضع کر رہے ہیں کہ اسی وجہ سے یہ، ”نَفَسِ الرحمہ- رحمت والی سانس“ کہلاتی ہے، کیونکہ وہ سانس اندر آنے اور اُس خون کو توانائی پہنچانے اور اُس لوہے کو توانائی دینے جا رہی ہے۔ اور یہ کیا کرتا ہے، وہ خون فوراً دل میں بہتا ہے اور دل کو توانائی فراہم کرتا ہے۔ یہ ہمارے قلعے کا پہلا حصہ ہے جو دوبارہ قائم کیا جانا چاہئے۔ آپ کو تخت کو واپس اس کی جگہ پر رکھنا ہے۔ ہمیں تخت کے گرد اپنے تمام پہرے قائم اور توانا کرنے ہوں گے تاکہ اب کوئی چیز بھی بادشاہ تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔
جنگ میں پہلا کام بادشاہ کو محفوظ کرنا ہوتا ہے۔ لہٰزا تخت کی حفاظت (کیلئے)؛ حفاظت کی پہلی لائن تنفس ہے۔ جیسے ہی آپ سانس لیتے ہیں اور وہ انرجی حاصل کرتے ہیں اور وہ تمام ترقدرت (طاقت) حاصل کرتے ہیں، یہ طاقت بخشنا شروع کرتی ہے۔ دل اب زندہ ہوجاتا ہے۔ ذکر اور تلاوت کی طاقت سے لبریز سانس جو اندر آرہی ہے، انرجی جو آرہی ہے وہ دل میں جا رہی ہے۔ دل تب اُس خون کو ٹھپا لگا رہا ہے، اپنی خدائی مُہر اُس پر لگا رہا ہے، اور اُس خون کو اب تمام اعضاء کی جانب بھیج رہا ہے۔
اس کا مطلب وہ اب خدائی بادشاہ کے پاس آئے، انھوں نے اپنی تقرری کروائی، انھوں نے اپنی مہرلگوائی۔ ہر خلیہ ایک ننھے سپاہی کی مانند، خون کا ہر حصّہ، خون کا ہر ایٹم (atom)، ایک سپاہی کی مانند دل کے بادشاہ کے سامنے پیش ہو رہا ہے۔ ہر ایک کو دل کی دھڑکن کے ذریعے سے مہر لگائی جا رہی ہے جو کہ خدائی جوہر کی طرف سے ہے۔ اُس پر مہر لگائی جاتی ہے، اس کو طاقتور بنایا جاتا ہے اور اس کو فرمایا جاتا ہے کہ،”جاؤ،اپنے تمام اعضاء کی جانب جاؤ میرے بچے اور ان کو پاک صاف کرو۔ اور ہمیں خدائی سلطنت کی جانب واپس لے آؤ۔“ یہی وہ انرجی واپس گردوں کی جانب، واپس جگر کی جانب بھیجتا ہے، جس کا مطلب یہ تمام اعضاءِ رئیسہ کی دل کی جانب سے پرورش کرتا ہے۔
لہٰزا تب اس کو سنجیدگی سےلینے کیلئے ہمارا پہلا قدم تنفس ہے۔ لہٰزا یہ کوئی چھوٹی چیز نہیں ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ ہم اس کو کبھی ادھر کرنے کی کوشش کرتے پھریں اور کبھی اُدھر؛ لیکن اگر ہم اُس حقیقت کو کھولنے کی کوشش کرنے کیلئے سنجیدہ ہیں، تو تنفس کی طاقت کی بہت گہری فہم چاہئے۔ اس کا تعلق جسم سے ہے۔ اس کیلئے جسم کی سمجھ چاہئے۔
خدائی دل کی حقیقت جوپیغمبرانہ دل میں دھڑک رہا ہے:
پہلا عمل اور اس عمل کی اہمیت انرجی کو فراہم کرنے میں، اس ضابطہ کو قائم کرنے، اُس طاقت کو قائم کرنے میں ہے۔ یہ ہماری فزیالوجی(physiology ) کو سمجھنے میں پہلا قدم ہے اور جو اپنے آپ کو جانے گا وہ اپنے خدا کو جان لے گا۔ یہ ہمارے لئےاس بات کو سمجھنے میں استعمال ہوگا، کہ جو تمام تر شان و شوکت کے ساتھ واضع فامایا گیا ہے،” وَلَقَدْ كَرَّمْنَابَنِي آدَمَ" “(ہم نے مخلوقِ آدم کو تکریم دی ہے۔ القرآن ۱۷:۷۰)
“اور ہم نے یقیناً بنی آدم کو تکریم دی ہے۔۔۔” (سورت الاسراء ۱۷:۷۰)
۱-قلبِ اوّل: خدائی دل:
یہی واحد مخلوق ہے؛ ہم اُس گفتگومیں نہیں جائیں گے مگر اِس کا ہلکا سا ذکر کرتے ہوئے کہ اس سے پہلے کہ ہم دل کے درجات کا تذکرہ شروع کریں۔ اُس دل میں ایک خدائی جوہر موجود ہے جو دھڑکتا ہے۔ ہم اُسے خدائی دل کہتے ہیں۔ وہ خدائی دل دیکھا نہیں جا سکتا مگر یہ پیغمبرانہ دل میں دھڑک رہا ہے کیونکہ پیغمبر مخلوق کے ستون ہیں۔ لہٰزا آپ وہ خدائی طاقت حاصل نہیں کر سکتے، آپ اُس تک نہیں پہنچ سکتے مگر یہ ایک انرجی ہے؛ یہ ایک طاقت ہے جو پیغمبرانہ دل میں دھڑک رہی ہے۔ پیغمبر کے دل سے بَشرِی دل— آدم کا دل نمودار ہوتا ہے۔
۲-قلبِ دوم: پیغمبرانہ دل:
یہ طریقہ (روحانی راستہ) کی اہمیت ہے۔ خدائی جوہر جو دھڑکتا ہے، پہلے کہاں پر دھڑکتا ہے، کیونکہ آپ کو اصل نکتہ جاننا ہوگا۔ اسکی دھڑکن، خدائی دھڑکن، اُس کے پیغمبروں میں ہوتی ہے کیونکہ اُس کی نظر اُن پر ہوتی ہی۔ کیونکہ اُس کی نظر اُن پر ہوتی ہے تو وہ ایک پیغام پہنچانے کے قابل ہوئے۔ لہٰزا تب ہم کہتے ہیں کہ دوسرا حصّہ پیغمبرانہ دل ہے۔ خدائی دل خدائی جوہر ہے جو ایک ایسی طاقت کی طرح سے باہرچمک رہا ہے جس تک پہنچا نہیں جا سکتا۔ مگر آپ کا قبلہ ( رُخ) کہاں ہے، یہ کہاں قائم ہونے جا رہا ہے، اُس انرجی کے حصول کیلئے آپ اپنے آپ کو کہاں مرکوز کرنے جا رہے ہیں؟ آپ اُس کو پیغمبرانہ دل پر پائیں گے کیونکہ پیغمبران، اُن کا دل مکمل تسلیم میں تھا، خدا کے نام سے دھڑکتا ہوا۔
جیسے اُن کا دل دھڑک رہا تھا، پھر سے ایک علامت ہے [شیخ علامت کی جانب اشارہ کرتے ہیں]، وہ اُس کاملیت کیلئے پیدا کئے گئے تھے اور یہ ایک اتفاقیہ چناؤ نہیں ہے۔ اُن کو کس لئے پیدا کیا گیا ہے، مکمل اطاعت گزاری میں رہنے کیلئے۔ لہٰزا ان کا دل مکمل طور پر خدائی موجودگی ہے اور وہ دل— یہی وجہ ہے کہ دل باہر کی جانب ہے؛ یہ خدا کی محبت سے مخلوق کی جانب بولتا ہے۔ یہ زمین پر خدائی محبت میں ہے، نہ کہ خدائی آگ یا غصّہ یا جنگ و جدل کی طرف سے۔ اِس کی پوری ہستی ہی خدائی کلام کیلئے ہے۔
…
پیغمبران مکمل تسلیم میں تھے—وجہُ اللہ ( پاک چہرہ):
چنانچہ انیاگرام (Enneagram ) میں، وجہُ اللہ، ہم خدائی چہرہ کہتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ یہ پیغمبران، انکے کان، انکی آنکھیں، انکے نتھنے، اور پھر زبان پورا دل ہوتی ہے۔
“۔۔۔اس کی ذات (پاک) کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔” (سورت القصص ۲۸:۸۸)
اسکا مطلب انکی پوری ہستی صرف خدائی کلام کو بیان کرنے کیلئے ہوتی ہے۔ انکے کان مکمل تسلیم میں ہوتے ہیں۔ کیا آپ دیکھتے ہیں کہ یہ ایک چہرہ کس طرح سے ہے؟ [شیخ ھووھو والی ڈائیا گرام(diagram ) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے] اور آگے اسکے دو کان یہاں ہیں، یہ، دو آنکھیں، دو نتھنے اور زبان مکمل دل ہے کیونکہ انکا پورا وجود صرف خدا کی طرف سے بولنے کیلئے ہوتا ہے۔ انکی سماعت لوگوں کی طرف سے سننے کیلئے نہیں ہے۔ وہ لوگوں کی تجاویز نہیں لیتے مگر انکی سماعت مکمل طور پر خدا کی اطاعت گزاری میں تھی۔
انکی آنکھیں مخلوق کو دیکھ رہی تھیں۔ لہٰزا کسی بھی وقت جب ہم ایک پیغمبر کو پکار رہے تھے یا ایک پیغمبر کی شفاعت کا یا ایک ولی کی شفاعت کا سوال کر رہے تھے،”مہربانی فرما کر اپنی روحانی نظر سے مجھ پر نظر فرمائیے، کیونکہ انکے کان مکمل تسلیم میں ہیں۔“
“اے اہل ایمان! (گفتگو کے وقت پیغمبرِ خدا سے) راعنا نہ کہا کرو۔ انظرنا کہا کرو۔ اور خوب سن رکھو۔۔۔” (سورت البقرہ ۲:۱۰۴
لہٰزا وہ مسلسل حکم لے رہے ہوتے ہیں مگر وہ آپ کو جو دے سکتے ہیں وہ انکی نظر ہے۔ چنانچہ انکی آنکھیں مخلوق پر نظر کرتی ہیں؛ انکی آنکھوں میں نور اور طاقت ہوتی ہے۔ لہٰزا اگر انکی آنکھیں ہم پر ہوں تو ہم اُس تسکین تک پہنچ جاتے ہیں۔ انکی سانس مکمل طور پر خدا کیلئے ہوتی ہے۔ اس کا مطلب وہ مکمل طور پر وہ خدائی انرجی لانے اور اس جوہر کا ادراک حاصل کرلینےکے قابل ہوتے ہیں۔ اور نتیجتاً واحد اور سب سے زیادہ طاقتور زبان ہوتی ہے۔ اور وہ پورا وجود صرف بیان کرنے، بولنے اور ہماری پرورش کرنے کےلئے ہوتا ہے۔ یہ قلبِ دوم ہے۔
۳-قلبِ سوم: بَشرِی دل:
تیسرا دل جوکہ ہم نے مخلوق کو اپنی شبیہ پر پیدا کیا وہ بشری دل ہے— پیغمبرحضرت آدم کا دل جو دو ہاتھوں سے بنایا گیا تھا۔ لہٰزا آدم— الف ا، دال د، ميم م، یعنی الف-ا اللہ کے جوہر للہ پر ہے اور دال-د اور میم-م۔ لہٰزا آپ کو آدم کے یہ تین (حروف) دکھاتے ہوئےکہ آدم ایک مآخذ ہے اللہ کےالف-ا کا، اللہ کا جوہر، محمد ﷺ کے میم-م کا جو پیغمبرانہ سلطنت کو ظاہر کرتا ہے اور دال، دنیا کا ”د”۔
آدم = ا د م
الله دنيا محمدﷺ
اس کا مطلب یہ تین انوار ہیں جو مولانا شیخ ہمیں تعلیم فرماتے ہیں؛ خدا کی روشنی، نبی پاک کی روشنی، نبی پاک ﷺ کی روشنی سے مخلوق کی روشنی وجود میں آرہی ہے۔
یہ ہمیں ہماری عظمت کی تعلیم دیتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ خدا تعٰالیٰ اب ہمیں دکھا رہے ہیں،” تم واحد مخلوق ہو جو اُن حقائق تک پہنچ سکتے ہو کیونکہ تم (خود) اُن حقائق میں سے ہو۔“ آپ اپنا بشری دل استعمال کیجیئے پیغمبرانہ دل کی طرف جاتے ہوئے اُس سمندر کی جانب رواں ہونے کیلئے۔ اور پیغمبرانہ دل میں آپ اپنے آپ کو خدائی دل میں موجود پاتےہیں۔ چنانچہ آپ اپنا باسن استعمال کرتے ہیں، آپ اپنے آپ کو انکے باسن میں پاتے ہیں۔ اگر ہم خود کو انکے باسن میں موجود پا سکیں تو وہ خدائی باسن میں موجود ہے کیونکہ خدا تعٰالیٰ انکے دل میں دیکھ رہے ہیں۔
“اور ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔” (سورت یٰسین ۳۶:۴۱)
یہ اس بات کی فہم بن جاتی ہے کہ پھردل کے درجات کیوں ہیں، اور فہم کا پہلا درجہ یہ کیوں ہے کہ،”ہم نے مخلوقِ آدم کو تکریم دی ہے۔“
“اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی۔” (سورت الاسراء ۱۷:۷۰)
ہم نے تمہیں اس سے بنایا ہے اور تم وہ واحد مخلوق ہو جو پیغمبرانہ دل تک پہنچنے کیلئے اپنے دل میں جا سکتی ہے؛ زیبرا (zebras) نہیں کر سکتے، بھالو نہیں کر سکتے۔ یہاں مخلوق میں دوسرا کچھ بھی نہیں ہے جو اپنے دل میں جا سکے اور اپنے آپ کو پیغمبرانہ دل میں موجود پائے، اور پیغمبرانہ دل خدائی سلطنت میں۔ لہٰزا آپ اس کو استعمال کریں اُس حقیقت کی جانب واپس جانے کیلئے اور اُس حقیقت کو کھولنے کیلئے؛ اور یہ دل کے مطالعہ کی جانب جاتا ہے۔
سُبْحَٰنَ رَبِّكَ رَبِّ ٱلْعِزَّةِعَمَّا يَصِفُونَ، وَسَلَٰمٌ عَلَى ٱلْمُرْسَلِينَ وَٱلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّٱ لْعَٰلَمِينَ۔ وبحرمة محمد المصطفیٰ وبسرسورة الفاتحة۔
……………………………………………………………
URDU TRANSLITERATION:
Bismillah hir rahman nir raheem
Allah huma sale ala sayyidina muhammadin wa ala aali sayyidina muhammad
Shaykh Sayed Nurjan Mirahmidi Naqshbandi (Q) ki sunehri talemaat se iqtabas
Jism par hamla aawar hoti hui energy aur is ke difaa ka tareeqae kar aur enneagramki haqeqteen :
Hamari zindagi mein har cheez aik azmaish aur yak sabaq hai. khuda taala kehta hai ke agar mein tumhe ab chout nahi pohnchaon ga to tumhe qabar mein chout lagai jaye gi. Mein tumhe qabar mein zad o koub nahi karna chahta. Apni zarbien jheeloo, –apne sabaq haasil karo, aur apni misalon tham lo. Yeh tumahray jism ko zair kar rahi hain. Mein tumhari rooh ko aarasta karne ki koshish kar raha hon, tumahray jism ko nahi aarasta kar raha, nah hi yeh ke tumahray jism ko ahem banaon aur usko taaj pehnaon. Mein tumahray jism ko rondnay ki aur rooh ki haqeeqat ko bahir laane ki koshish kar raha hon. mein tumhari rooh ki apni bargaah mein mojoodgi chahta hon .
Lehza har cheez jis par hum ghor-o-fikar karna shuru karte hain, ke “Aisa kyun hwa? ” tab khuda taala farmata hai ke, ” tum kisi bhi nabi se behtar kyun ho? kya un ko takleef nahi pohanchi? kya un par korray nahi barsaye gaye aur unko choutien nahi lagai gaeen, ya phir kya logon ny unn par pathar nahi barsaye? kya log unn par chikhay chilaye nahi, un par ilzaam nahi lagaye aur un par har tarhan key jismani tashadud nahi kiye? “ To halki si takleef mein muzahiqa hi kya hai kyunkay hum mein se koi bhi woh takleef nahi utha raha jo anbia ny uthai .
Lehza mustaqil tor par khuda ki janib aur baari taala ki janib rujoo karte hue, dil mein khayaal aata hai ke yeh itna bhi bura nahi hai. Kya yeh aik halki si safai ki manind nahi tha ke yeh mukhtalif mamlaat ko jin se hum aashna nahi they wazeh kar deta hai. Tab Sheikh yeh taleem farmatay hain key yeh kirdaar ki takmeel karta hai. Lehaza jab kuch wuqoo pazeer hu to is key baray mein ghor-o-fikar karen. Apni zaat mein mojood masly dhunden aur sochien key yeh kyun huwa, ( aisay ) yeh kirdaar ka nuqs theek karta hai .
Enneagram apni madad aap ka aik programme nahi hai :
Yeh ittifaqia tor par enneagram ka mutalea hai. Yeh enneagram ke tamam naqshbandi haqaiq hain. Kisi ke liye bhi jo enneagram mein dilchaspi rakhta hai, unko idraak kar lena chahiye ke enneagram aajkl ki psychology ke lehaaz se apni madad aap ka aik programme hai. Unhon nay mentor ko nikaal diya aur woh is ko apni madad aap ka aik programme bana chuke hain, kay jis se koi bhi apni madad aap kaam nahi karti. Yeh kitaab ke zariye se aik surgery karne jaissa hai, ke aik terhan se jahan aap late jatay hain aur kat kar –apne uzoo ko bahar nikaal letay aur is ko see dete hain. Apni madad aap ke sabab apni madad aap, aap ko –apne sath sacha hona ho ga. bohat se log –apne sath sachey nahi hotay aur nah jo unkay kirdaar ka nuqs hai uss se .
Haqeeqi enneagram Rohani peshwa hain :
Lehza enneagram ka feham aajkal jahan woh bayan karte hain, “ theek hai aap ko yeh jaan lena ho ga ke aap aik ghusail insaan hain aur phir is ko theek karne ke liye yeh aurad istemaal karen." enneagram aik haqeeqat ki ikhtira ( innovation ) hai. Haqeeqi enneagram to Rohani peshwa hain. Woh hamari zaat ka ilm rakhtay hain. aik baar jab aap unki majlis mein hotay hain to unki dua aap ke liye yeh hai ke azmaish shuru ho jati hai aur safai shuru ho jati hai. yani, “Mere maula, yeh bandah parwan charhne ka sawal kar raha hai, is ki azmaish ka aaghaz kar dijiye. “
Shayoukh, taalib e ilm ke kirdaar ke naqais theek honay ki dua karte hain :
Tab baari taala farmaaye ga, mai woh jaanta hon jo un ke andar hai aur woh jo yeh –apne baray mein nahi jantay. Is ko bahar le aao. “ Agar aap is ko bahar nahi laatay to woh bemari thehrey rehti hai aur aap is ke sath hi dafan ho jatay hain. Uss waqt aap ko uss se nipatna ho ga. Uss waqt, woh bayan farmatay hain ke yeh 70000 guna ziyada mushkil hoti hai banisbat yeh ke is se ab nipta jaye, kyunkay abhi aap gussa ho ke nipat satke hain. Dakiya aap par Chila raha hai aap nahi jantay ke woh aap par kyun chilaya aur package pheink diya, banisbat yeh ke qabar ke mamlaat ko niptaya jaye aur qabar mein safai karwai jaye .
Lehza shayoukh apni dua farmatay hain key, “Mere muridin ke kirdaar mein mojood naqais ko bahar le aieye. Jo unn ke andar chhupa huwa hai, kyunkay woh –apne tain umdah sochte hain magar uss ko bahar le aieye jo aap ko in ke kirdaar mein tang kar raha hai, taa ke aap un se raazi ho jayen. “Tab tamam azmaish shuru ho jati hai, tamam imthehaan shuru ho jata hai. Beshtar azmaish hamari apni associations ke zariye se hoti hai, kyunkay intahai takleef day imtehanaat unn logon ki taraf se atay hain jinhein aap pyar karte hain. Aik ajnabi aap ko test karta hai aur kehta hai, ”Oh, woh shakhs pagal tha aap ko gaari chalatay rehna chahiye. “ magar hamari apni zaat, hamari community, hamaray saathi taalib e ilm, hamaray ghar, hamaray pyare log; un ke paas tamam buttons hotay hain. Lehza woh khuda taala ke hukum ke zeer e ِasr hotay hain woh button dabatay hain 1,2,3 _ boom! har cheez badal jati hai .
Uss idraak ke sath, hamein khush rehna chahiye. Sheikh ki duayen asr kar rahi hain. khuda taala farmata hai, “In ki duaon ki wajah se mein tamam tar bemari bahar laane ja raha hon.” Lehza haqeeqi enneagram shayoukh hain, jo kirdaar key haqeeqi nuqs ke wazay honay ki dua karte hain. Woh nuqs nahi jo aap samajte hain ke aap mein mojood hai, balkay woh jis se aap be-khabar they ke aap mein mojood hai aur aap ki rooh ko kis qader mushkil mein mubtala kiye hue hai. Yeh aik safai suthrayi ka amal ban jata hai. Yeh kirdaar ke unn tamam naqais ko wazeh kardaita hai .
khuda taala ki mojoodgi dil mein hai, sitaaray key markaz par :
Uska matlab uss energy ki haqeeqat tangon se oopar ki janib rawan ho rahi hai aur bahishti energy dil ko aarasta karne aur rooh ko taaqatwar bananay ki koshish kar rahi hai. iss nuqtay par [ Sheikh oopar wali teecon ke top ki janib ishara karte hain] agar yeh sar hai to bilkul yahan [star diagram mein oopar wali teecon ke markaz mein aik line lagatay hain ] dil mojood hai. lehza jab yeh daudi sitary ki tarhan ikathay hotay hain to, aap dekhen ge ke uss mukammal sitary ka markaz khuda taala ki zaat hai, kyunkay Allah , khuda taala hamein bayan farma raha hai ke, “Mai bahishtoon mein nahi mil sakta aur nah hi zameen par, siwaye mere momin ke dil mein.”
“Na hi meri jannaten nah hi meri zameen mera ihata kar sakti hai, magar mere momin bande ka dil. ” ( hadees Qudsi از nabi Mohammad )
kyunkay agar hum kisi aisi jagah ja rahay hain jahan khuda kahin kisi kursi par tashreef farma hai, to yeh mumkin nahi. Khaaliq makhlooq ke dairay se bahar hai. Anbia mojood hain, malaika mojood hain, yahan bohat si bahishti makhloqaat hain lekin khuda taala hamein wazeh kar rahay hain ke, “wahid jagah jahan par aap haqeeqi tor par meri taaqat ko pa satke hain woh momin ke dil mein hai. Agar mein uss dil mein mojood hon to aap uss khuda shanasi key tamam raaz uss bandah momin par khultay hue payen gien.”
Dil ke takhat ke liye misbet aur manfi energies ki jung :
Lehaza yahan par woh hamein wazeh kar rahay hain ke uss khudai dil ko taaqatwar banana hoga. Woh tamam tar tajallii usi markaz ki janib rawan dawaan hai. Tamam tar maadi khwahish bhi uss khudai takhat par hamla karne ki koshish kar rahi hai. Is ki gharz uss takhat ko dagmaga kar gira dainay mein hai. Lehaza badshahon ki aik purani film ki manind yeh bilkul badshahat ke liye ki jany wali jung ki tarhan hai, ke manfi khwahisaat takhat ko dagmaga ke girana chahti hain. Lehaza buraiee jism mein oopar ki janib barhna shuru karti hai, sargaram karna shuru hoti hai. Phir se yeh aik peghambrana taleem hai ke nabi Muhammad SAW ny taleem farmai, “Agr aap mujhe apni zabaan aur –apne aaza tanasul ki guarantee den to mein aap ke liye jannat ki guarantee dun ga. “ kyunkay yeh woh do rastay hain jo inn haqayiq ko control karne ja rahay hain .
Lehaza is ke sath hi woh buraiee uss jagah par hamla aawar honay ja rahi hoti hai. Tab jab shetan hamaray wujood par hamla aawar honay aur oopar ki janib rawan honay ja raha hota hai, kyunkay yeh aik ki dosray ke sath aik jung hai, yeh aik insaan ki jung hoti hai buraiee ki tamam tar energies ke khilaaf. Lehaza woh ( shetan ) anay se pehlay kya karta hai? woh khoon mein gardish karna shuru karta hai ؛ aur is ki gardish, woh anrji, woh negativity ab doran e khoon mein gardish kar rahi hoti hai, lohay ( iron ) ke sath –apne aap ko chmtaye hue .
Khoon mein energy lohay ( iron ) ke zariye gardish karti hai :
Energy hamaray jism ke sath kaisay munsalik hoti hai? yeh pani ke zariye se gardish karti hai magar is ko munsalik honay ke liye koi cheez darkaar hoti hai, aur energy lohay ke sath munsalik ho jati hai. Aur hamaray tibbi mahireen, woh ziyada se ziyada feham haasil karne ja rahay hain ke tamam infections ki jarr lohay mein honi chahiye. Is ka matlab agar loha bilkul mojood nahi hai to yeh khud ko kisi cheez ke sath munsalik nahi kar sakti. Bemari ka hamla ( infection ) ya negative energy ki ibtila ( infestation ), ke negativeenergy gardish karne aur khud ko iron kay sath munsalik karne jarahi hai, aur aik jung ki manind oopar ki taraf koch karte hue, march karte hue, oopar ki janib rawan hona shuru karti hai.
Negative energy pehlay pehal jigar aur gurdon par hamla karti hai :
pehli line, kyunkay yeh barahay raast dil par zarb nahi laga sakti, dil fitaratan bohat taaqat rakhta hai. Lehaza yeh seedha qilay ki janib hamla nahi karti, puranay zamane ke qilay ki terhan, aap hamla nahi kar satke. To yeh kahan hamla aawar honay ja rahi hai? aap ke jigar par aur aap ke gurdon par. Uskay hamlay ki pehli line, kyunkay yeh khoon mein sipahiyon ki terhan se rawan hotay hue gardish karte hue kahan hamla aawar honay ja rahi hai —-jigar aur gurdon par. kyunkay yeh dono beeet barray filters bht hain. Yeh dil ke liye bohat barri rukawat hain. Yeh chante hain aur safai karte hain.
Lehaza phir buraeki taseer huti hai key jigar ko barbaad kya jaye gurdon ko tabah kardiya jaye. Aaj kal sab se barri bemariyan jo hamein ho rahi hain woh jigar ki bemariyan, gurdon ki bemariyan aur BP( hypertension ) hain. Yeh zarb laga rahi hai, chout laga rahi hai, nuqsaan pouncha rahi hai, maar rahi hai ؛ aur jab mazeed nuqsaan ko brhhawa diya jata hai to woh ( shetan ) kehta hai ke kuch piyo. Pani mat piyo kyunkay pani nizaam ko saaf suthra karta hai balkay spirits piyo kyunkay yeh aag hai, yeh aag par petrol ki manind hai. Lehaza uss petrol ko andar undelo aur yeh gardish karna shuru kar deta hai. Aur is ke sath un ki faujein ziyada taizi ke sath gardish kar rahi hoti hain aur dar haqeeqat yeh jigar ko shadeed chuur kar deti hain aur gurdon ko khatam kar deti hain. Aur “Lords of the rings” ki terhan se rokavt ko kuchal diya gaya hai. Woh saltanat mein mudakhlat kar chuke hain usay zair kar chuke hain aur ab iss maqam par yeh sab ke liye bina kisi rokavt ke jaisa hai. Woh pagalon ke jaisay bhagtay hue nizaam mein oopar ki janib rawan dawaan hain .
Hamlay ka agla nishana phephray hain— shajr e hayaat :
Aik baar jab woh gurdon mein aur jigar mein mudakhlat kar chuke hain tu agla nizaam kahan hai jo woh barri taizi se barbaad karne ja rahay hain, woh phephray hain yeh shajr e hayaat hai. Lehaza “Lords of the rings” mein unn mein aik tha jis nay woh darakht jala diya tha. Mehal ke samnay aik darakht tha kyunkay woh mar chuke hain aur woh hamesha is ko khayalat mein jalta huwa dekha karta tha. Aisa isiliye kyunkay shetaniat phephron par ghalib honay ja rahi hai. Phephray nafs hayaat hain. Yeh aap ki hasti ke liye saans aur khuda ki janib se aik tohfa hai.
Lehaza woh saans ko tambaku noshi ke sabab jala dete hain, kyunkay tambaku noshi aur sharaab noshi aik dosray ke sath behtareen tareeqay se chaltay hain. Yeh aik ittafaq nahi hai aisa isliye hai kyunkay woh aap ko brhhawa day rahay hain." hum nay jigar aur gurdon ko nuqsaan pouncha diya;ab tambakonoshi shuru karo, tambaku piyo, tambaku piyo, jaisay ke pehphron par aik aag pheink di jaye." kyunkay yeh khoon ki taaqat hai ke khoon pehphron mein pak saaf honay aur apni ( fasid ) gases ke Kharooj ke liye ja raha hai. Yeh bahar aik darakht ki manind hai, khoon –apne tamam tar fasid madon ke hamrah aata hai aur kehta hai, “Hum pehphron ki janib aa rahay hain, tumhe –apne fasid maday dainay. hamein woh wapas lota do jo khuda nay hamein ataa kya hai.” Tab hum wapas is mein aur ziyada aag pheink dete hain .
Tab dil ka dora parta hai aur saltanat toot jati hai :
Lehaza khoon aag se jaan chhurhwane ki koshish kar raha tha aur hum ne wapas iss mein aur ziyada aag pheink di. Is ka matlab, boom, is waqt uss ne pehphron ko nuqsaan pohanchaya saltanat ko toor diya aur seedha dil ki janib rawan huwa aur takhat ko dagmaga kar gira diya. Uss waqt, dil ka dora wuqoo Pazeer hota hai ؛ dil par hamla kiya ja chuka hai. Uska matlab ke khudai takhat ab ulat diya gaya hai is shakhs par hamla ho chuka hai aur saltanat par qabza kiya ja chuka hai .
Aik Rohani haqeeqat ko samajhney ke liye, yeh qadray aasani se dekha ja sakta hai ke is ka buraiee ki duniya mein kitna asro rasokh hai. Aap usko rozana hotay hue dekhte hain. Ho sakta hai ke aap khudai rukh nah dekhen aur kahin, “oh, mein ne kabhi koi farishta sift ensaan ird gird chaltay phirtay nahi dekha.” lekin hum apni poori zindagi yeh sab hotay hue dekhte hain. aur hum dekhte hain ke kaisay yeh asr ( hamari zindagion ke andar ) daakhil hota ja raha hai aur hum se yeh saaray kaam karwane aur hamaray tamam aaza par hamla aawar honay aur dil ko ulatnay ki koshish kar raha hai .
Apni saans ko zikr e hu ke zariye se pak saaf kar ke iss jung ko fatah kijiyej :
Lehaza tab woh Rohani bohraan jo hum kholnay ki koshish kar rahay hain aur ehsas karwane ki koshish kar rahay hain key kaisay is ko fatah kya jaye. Is ka matlab tab, aap kaisay is poooray hamlay ko fatah karne aur apni rooh ko taaqatwar bananay ja rahay hain? saans ke zariye se. Isi wajah se muraqba jism, zehan aur rooh hai.
Pehli cheez jism ke liye, jab khudai tahaffuz aa raha hota hai, jism ke liye khudai nasihaat farmai ja rahi hai ke, “Thek hai, koi masla nahi agar aap jung haar gaye, umeed hamesha mojood hai. “ kyunkay film “Lords of the Rings” mein aakhri lamhay mein gandalf aan pouncha aur tamam tar hamlay ko kuchal deta aur nist o nabood kar deta hai. Lehaza khuda taala hamein wazeh kar rahay hain ke agarchay aap par hamla kiya ja chuka hai aur har cheez par qabza kiya ja chuka hai, phir bhi umeed mojood hai. yeh umeed tanfus mein hai .
Uss khudai saans ki ahmiyat ko samajte hue jaisay hi hum Rohani saans lena shuru karte hain, aur khuda ki tasbeeh “Hu”se saans le rahay hotay hain, khoon gardish karna shuru kar deta hai. Uss khoon mein mojood loha buraiee ke khilaaf larnay wali khudai taaqat ban jata hai. Lehaza energy ki pehli taaqat aana shuru hojati hai, kyunkay yeh bohat aala darjay ki taaqat hai. Is ka matlab agar aap khuda ko pukaarain, khuda pak farmatay hain, “agr aap mujhe aik baar pkarte hain to mein 99 qadam aap ki janib aata hon”. Is ka matlab uss ki taaqat kisi bhi doosri tarhan ki taaqat se kahin ziyada bartar hai. Jaisay hi aap uss ko saans ke zariye pakarte hain, is ka matlab woh energy lohay par, khoon par, hamaray wujood par nazil hoti hai aur buraiee ke asr ko daur dhakail deti hai .
Lehaza tab tanfus ki taaqat aur tab uss Shajr e Hayat ko dobarah se qaim karna hai. Yahi wajah ke tamam mazahab mein, tamam Rohani raastoon mein pak darakht, Shajar zindagani, Shajar Yaqeen; yeh Shajriat hai. Lehaza hamari zindagi ki kamyabi is baat munhasir hai ke hum kaisay uss darakht ke sath paish anay ja rahay hain. Hamein is ki hifazat karna hogi. Lehaza foran se har woh cheez jo is darakht se mutaliqa hai woh hamaray liye ahem hai. Hum kaisay is ka khayaal rakhnay ja rahay hain, hum kaisay is ki parwarish karne ja rahay hain, hum kaisay saans lainay aur iss darakht ko woh ( khudai ) energy faraham karne ja rahay hain.
Dobarah se saltanat ko qaim karen aur dil ke takhat ki hifazat karen :
Lehaza tab khuda taala hamein wazeh kar rahay hain ke isi wajah se yeh, “nafs rehma- rehmat wali sans” kehlati hai, kyunkay woh saans andar anay aur uss khoon ko tawanai pohanchanay aur uss lohay ko tawanai dainay ja rahi hai. Aur yeh kya karta hai, woh khoon foran dil mein behta hai aur dil ko tawanai faraham karta hai. Yeh hamaray qilay ka pehla hissa hai jo dobarah qaim kya jana chahiye. Aap ko takhat ko wapas is ki jagah par rakhna hai. Hamein takhat ke gird –apne tamam pehray qaim aur tawana karne hon ge taakay ab koi cheez bhi badshah taq rasai haasil nah kar sakay .
Jung mein pehla kaam badshah ko mehfooz karna hota hai. Lehaza takhat ki hifazat ( ke liye ) ; hifazat ki pehli line tanfus hai. Jaisay hi aap saans letay hain aur woh energy haasil karte hain aur woh tamam tar qudrat ( taaqat ) haasil karte hain, yeh taaqat bakhshna shuru karti hai. Dil ab zindah hojata hai. zikar aur talawat ki taaqat se labraiz saans jo andar aa rahi hai, energy jo aa rahi hai woh dil mein ja rahi hai. Dil tab uss khoon ko theppa laga raha hai, apni khudai mohar uss par laga raha hai, aur uss khoon ko ab tamam aaza ki janib bhaij raha hai .
Is ka matlab woh ab khudai badshah ke paas aeye, unhon ne apni taqarari karwai, unhon ne apni mohar lagwae. Har khaliya aik nanhay sipahi ki manind, khoon ka har hisah, khoon ka har atom, aik sipahi ki manind dil ke badshah ke samnay paish ho raha hai. Har aik ko dil ki dharkan ke zariye se mohar lagai ja rahi hai jo ke khudai johar ki taraf se hai. Uss par mohar lagai jati hai, is ko taaqatwar banaya jata hai aur is ko farmaya jata hai ke, “Jao, –apne tamam aaza ki janib jao mere bachay aur un ko pak saaf karo. Aur hamein khudai saltanat ki janib wapas le ao. “ yahi woh energy wapas gurdon ki janib, wapas jigar ki janib bhejta hai, jis ka matlab yeh tamam aaza Raeesa ki dil ki janib se parwarish karta hai .
Lehaza, tab is ko sanjeedgi se lainay ke liye hamara pehla qadam tanfus hai. Lehaza yeh koi choti cheez nahi hai. yeh koi aisi cheez nahi hai ke hum is ko kabhi idhar karne ki koshish karte phirien aur kabhi udhaar; lekin agar hum uss haqeeqat ko kholnay ki koshish karne ke liye sanjeeda hain, to tanfus ki taaqat ki bohat gehri feham chahiye. Is ka ta’aluq jism se hai. Is ke liye jism ki samajh chahiye .
khudai dil ki haqeeqat jo paighmbarana dil mein dharak raha hai :
Pehla amal aur is amal ki ahmiyat energy ko faraham karne mein, is zabita ko qaim karne, uss taaqat ko qaim karne mein hai. Yeh hamari physiology ko samajhney mein pehla qadam hai aur jo –apne aap ko jaany ga woh –apne kkhuda ko jaan le ga. Yeh hamaray liye is baat ko samajhney mein istemaal hoga, ke jo tamam tar shaan o Shaukat ke sath wazeh farmaya gaya hai, “Wa laqad karramana bani aadama" “ ( hum ne makhlooq aadam ko Takreem di hai. Al Quran17:70 )
“avr hum ne yaqeenan bani aadam ko Takreem di hai. .. ” ( Surrah Al Isra 17:70 )
1- Qalb e awal: khudai dil :
Yahi wahid makhlooq hai ; hum uss guftugu mein nahi jainge magar iss ka halka sa zikar karte hue ke is se pehlay ke hum dil key darjaat ka tazkara shuru karen. Uss dil mein aik khudai johar mojood hai jo dhadakataa hai. Hum ussay khudai dil kehte hain. Woh khudai dil dekha nahi ja sakta magar yeh peghambrana dil mein dharak raha hai kyunkay paighambar makhlooq ke satoon hain. Lehaza aap woh khudai taaqat haasil nahi kar satke, aap uss taq nahi poanch satke magar yeh aik energy hai ; yeh aik taaqat hai jo peghambrana dil mein dharak rahi hai. Paighambar ke dil se bashri dil— aadam ka dil namodaar hota hai.
2- Qalb e doum : peghambrana dil :
Yeh tareeqa ( Rohani rasta ) ki ahmiyat hai. Khudai johar jo dhadakataa hai, pehlay kahan par dhadakataa hai, kyunkay aap ko asal nuqta janna hoga. Uski dharkan, khudai dharkan, uss ke payghambaroon mein hoti hai kyunkay uss ki nazar unn par hoti hi. Kyunkay uss ki nazar unn par hoti hai to woh aik pegham pohanchanay ke qabil hue. Lehaza tab hum kehte hain kay dosra hssh peghambrana dil hai. Khudai dil khudai johar hai jo aik aisi taaqat ki tarhan say bahir se chamak raha hai jis taq pouncha nahi ja sakta. Magar aap ka qibla ( rukh ) kahan hai, yeh kahan qaim honay ja raha hai, uss energy ke husool ke liye aap –apne aap ko kahan markooz karne ja rahay hain? Aap uss ko peghambrana dil par payen ge kyunkay peghambran, unn ka dil mukammal tasleem mein tha, khuda ke naam se dhadakataa huwa .
Jaisay unn ka dil dharak raha tha, phir se aik alamat hai [ Sheikh alamat ki janib ishara karte hain ], woh uss kamliat ke liye peda kiye gaye they aur yeh aik ittifaqia chunao nahi hai. Unn ko kis liye peda kya gaya hai, mukammal itaat guzari mein rehne ke liye. Leahza un ka dil mukammal tor par khudai mojoodgi hai aur woh dil— yahi wajah hai ke dil bahar ki janib hai ; yeh khuda ki mohabbat se makhlooq ki janib boltaa hai. Yeh zameen par khudai mohabbat mein hai, nah ke khudai aag ya gussa ya jung o jadal ki taraf se. Is ki poori hasti hi khudai kalaam ke liye hai .
.. .
Peghambran mukammal tasleem mein they —wajah Allah ( pak chehra ) :
Chunancha enneagram mein, wajah Allah , hum khudai chehra kehte hain, kyun? kyunkay yeh peghambran, unkay kaan, unki ankhen, unkay nathnay, aur phir zubaan poora dil hoti hai .
“. .. is ki zaat ( pak ) ke siwa har cheez fanaa honay wali hai. Isi ka hukum hai aur isi ki taraf tum lout kar jao ge. ” ( Surah al qasas 28:88)
Uska matlab unki poori hasti sirf khudai kalaam ko bayan karne ke liye hoti hai. Unkay kaan mukammal tasleem mein hotay hain. Kya aap dekhte hain ke yeh aik chehra kis terhan se hai? [ Sheikh ھوھو wali diagram ki taraf ishara karte hue ] aur agay uskay do kaan yahan hain, yeh, do ankhen, do nathnay aur zabaan mukammal dil hai kyunkay inka poora wujood sirf khuda ki taraf se bolnay ke liye hota hai. Unki samaat logon ki taraf se suneney ke liye nahi hai. Woh logon ki tajaweez nahi letay magar unki samaat mukammal tor par khuda ki itaat guzari mein thi .
Unki ankhen makhlooq ko dekh rahi theen. Lehaza kisi bhi waqt jab hum aik paighambar ko pukaar rahay they ya aik paighambar ki Shafaat ka ya aik Wali ki Shafaat ka sawal kar rahay they, “Meharbani farma kar apni Rohani nazar se mujh par nazar frmayie, kyunkay unkay kaan mukammal tasleem mein hain.”
“Ay Ahal imaan! ( guftagu ke waqt pighmbr e khuda se ) ra-ana nah kaha karo. Anzarna kaha karo. Aur khoob sun rakho. .. ” ( Surah Al-baqrah 2:104 )
Lehaza woh musalsal hukum le rahay hotay hain magar woh aap ko jo day satke hain woh unki nazar hai. Chunancha unki ankhen makhlooq par nazar karti hain unki aankhon mein noor aur taaqat hoti hai. Lehaza agar unki ankhen hum par hon to hum uss taskeen taq pohnch jatay hain. Unki saans mukammal tor par Khuda ke liye hoti hai. Is ka matlab woh mukammal tor par woh khudai energy laane aur is johar ka idraak haasil kar lanay ke qabil hotay hain. Aur nateejatan wahid aur sab se ziyada taaqatwar zabaan hoti hai. Aur woh poora wujood sirf bayan karne, bolnay aur hamari parwarish karne ke liye hota hai. Yeh qalb doum hai .
3-Qalb soum: Bashri dill:
Tesra dill jo keh hum ny makhloq ko apni shabeh par paida kiya wo bashri dill hai_ Paighambar Hazrat Adam A.S ka dill jo do hathon sy bnaya gya tha. Lehaza Adam_ Alif, Dal, Meem yani Alif – Allah ky Johar Lillah par hai, aur dal aur meem. Lehaza apko Adam kay ye teen (haroof) dekhaty huwy ek mahaz hai. Allah kayAlif ka, Allah kajohar, Muhammad SAW kay meem ka jo paighambarana Saltanat ko zahir krta hai aur Dal, duniya ka “dal”.
Adam= Alif,Dal, Meem Allah, Duniya, Muhammad SAW
Is ka matlab yeh teen Anwaar hain jo Mawlana Sheikh taleem farmatay hain khuda ki roshni, nabi pak ki roshni, nabi pak SAW ki roshni se makhlooq ki roshni wujood mein aa rahi hai .
Yeh hamein hamari Azmat ki taleem deti hai. Kyun? kyunkay khuda taala ab hamein dikha rahay hain, “Tum wahid makhlooq ho jo unn haqayiq taq poanch satke ho kyunkay tum ( khud ) unn haqayiq mein se ho.” Ap apna bashri dil istemaal kijiye peghambrana dil ki taraf jatay hue uss samandar ki janib rawan honay ke liye. Aur peghambrana dil mein aap –apne aap ko khudai dil mein mojood paate hain. Chunancha aap apna basan istemaal karte hain, aap –apne aap ko unkay basan mein paate hain. Agar hum khud ko unkay basan mein mojood pa saken to woh khudai basan mein mojood hai kyunkay khuda taala unkay dil mein dekh rahay hain .
“Aur aik nishani un ke liye yeh hai ke hum ne un ki aulaad ko bhari hui kashti mein sawaar kya. ” ( Surah yaseen 36:41 )
Yeh is baat ki feham ban jati hai ke phir dill ke darjaat kyun hain, aur feham ka pehla darjaa yeh kyun hai ke, “Hum ne makhlooq aadam ko Takreem di hai. “
“Aur hum ne bani aadam ko izzat bakhshi aur un ko jungle aur darya mein sawari di aur pakeeza rozi ataa ki aur apni bohat si makhloqaat par fazeelat di. ” ( Surah Al Isra17:70 )
Hum ne tumhe is se banaya hai aur tum woh wahid makhlooq ho jo peghambrana dil taq pounchanay ke liye –apne dil mein ja sakti hai ; zebra nahi kar satke, bhalo nahi kar satke. Yahan makhlooq mein dosra kuch bhi nahi hai jo –apne dil mein ja sakay aur –apne aap ko peghambrana dil mein mojood paye, aur peghambrana dil khudai saltanat mein. lehza aap is ko istemaal karen uss haqeeqat ki janib wapas jaaney ke liye aur uss haqeeqat ko kholnay ke liye ; aur yeh dil ke mutalea ki janib jata hai .
……………………………………………………………………………………
WATCH HERE: https://www.youtube.com/playlist…
LECTURE IN ENGLISH: https://nurmuhammad.com/energy-attacking-body-and-its-…/