
Urdu – حضرت مولانا شیخ شرف الدین الداغستانی (قَدس اللہ سِرّہٗ)کون تھے؟ میرے پاس تیرے د…
حضرت مولانا شیخ شرف الدین الداغستانی (قَدس اللہ سِرّہٗ)کون تھے؟
میرے پاس تیرے در پر دستک دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ؛
اور اگر مجھے موڑ دیا گیا تو کس دروازے پر دستک دوں گا؟
خود کو ترک کر کے، آپ پر کامل یقین رکھتا ہوں؛
ایک بھکاری، اپنے ہاتھ پھیلائے، التجا کرتا ہے۔
مناجات امام شافعی (رحمۃ اﷲ علیہ)
آپ بارگاہِ الہی کے عارفِ کامل تھے ۔ آپ علم کا ایک گہرا سمندر تھے۔ روحانیت کا ایک بھنور ، الہامات کی آبشار ، خدائی محبت کا ایک آتش فشاں ، کشش کا بھنور اور خدائی صفات کی ایک قوس و قزح تھے۔ علم سے ایسے لبریز تھے جیسے دریائے نیل میں طغیانی آجائے۔ سلطان الذکر کے راز دان تھے–جو راز انکے زمانے میں پہلے کسی نے نہیں رکھا۔ وہ بیسویں صدی کے آغاز میں دانش آموز اور علم و حکمت کا احیا کرنے والے تھے ، اسلامی قوانین کی سائنس میں ایک باصلاحیت ، فقہ کے علم میں مجتہد ، اور نبی کریمﷺ کی احادیث مبارک کے راوی تھے۔ سینکڑوں کی تعداد میں سکالرز ان کےبیان میں شرکت کرتے تھے۔ آپ اپنے وقت کے مفتی ، قرآن مجید کے نسخے بنانے والے بہترین خطاط میں سے تھے۔ آپ اسرارِ الہیٰ کی کلید تھے۔ آپ ایک سچے عالم تھے جو صفاتِ الٰہیہ کے نور سے منورتھے۔ اُنہیں کامل ایمان کی حمایت حاصل تھی۔ اللہ (عزوجل ) کی راہ میں سپہ سالار ، عظمت والے اور بلند مرتبت تھے۔ اپنے وقت میں بارگاہ الہی کے ترجمان تھے۔ اسلامی علوم میں آپ شیخ الشیوخ اور علم کے ہر شعبے میں بے انتہا ماہر ، بےحد فصیح و بلیغ اور مشکل امور کے صاحبِ علم تھے ۔
آپ سلطان عبد الحمید کے مشیر تھے۔ سلطنت عثمانیہ میں اعلیٰ ترین مذہبی اتھارٹی شیخ الاسلام کے عہدے پر فائز رہے۔ اتاترک کے وقت میں نئی ترک حکومت بھی ان کا احترام کرتی تھی۔ پورے سیکولر ترک جمہوریہ میں صرف دو شیوخ تھے–حضرت شیخ شرف الدین (ق) اور ان کے نائب ، شیخ عبداللہ (ق) تھے ، جنھیں عمامہ پہننے کی اجازت دی گئی تھی۔ دوسروں کو نبی کریم ﷺ کی سنت کی پیروی میں سر ڈھانپنے کے الزام میں قید کیا جاتا تھا۔ ظاہری شکل میں اسلام پر عمل کرنے پر مکمل پابندی عائد تھی۔
حضرت شیخ شرف الدین (ق) کشف کی ایسی کیفیت میں پہنچتے تھے جس میں آپ عظمتِ الہیٰ کے ظہور (تجلی الجلال ) سے ڈھک جاتے تھے۔ اُس وقت ، کوئی بھی ان کی چشمانِ مبارک نہیں دیکھ پاتا تھا۔ اگر کوئی دیکھتا تو وہ بیہوش ہوجاتا یا ان کی طرف شہ زوری سے راغب ہوتا۔ اسی وجہ سے ، جب وہ اس کیفیت میں داخل ہوتے ، تو وہ اپنی آنکھیں پردے میں ڈھانپ دیتے تھے۔
آپ بیدار آنکھوں اور بیدار دل کے ساتھ پیدا ہوئے تھے۔ ایک عارف تھے جن کا چہرہ ہیرے جیسا چمکتا تھا اور جن کا دل کسی کرسٹل شیشے کی طرح شفاف تھا۔ تصوف انکا مسکن، ان کا نشیمن ، ان کا دل تھا۔ اسلام ان کا جسم ، ان کا ایمان ، ان کا عقیدہ تھا۔ حقیقت ان کا راستہ ، ان کی راہ اور ان کا مقدر تھی۔ بارگاہ الہی ان کا غار تھا ، ان کی پناہ گاہ تھی۔ روحانیت ان کا ظروف تھی۔ آپ اپنی قوم ، اہلِ داغستان کیلئے لسان تھے۔ آپ کی رنگت صاف تھی۔ آپ کی آنکھیں نیلی تھیں اور داڑھی سیاہ تھی۔ بڑھاپے میں ، ان کی داڑھی بہت سفید تھی–جیسے روئی۔
بچپن:
تاریخِ پیدائش– ۳ ذی القعد۱۲۹۲ھ ( یکم دسمبر ، ۱۸۷۵) بروز بدھ
جائے پیدائش– داغستان (ریاستِ تیمورہانسوورو،ضلع گنیپ، قیقونو)
حضرت شیخ محمد المدنی (قَدس اللہ سِرّہٗ) اُنکے چچا اور سسر تھے۔ انہوں نے جہانِ فانی سے پردہ کرنے سے بہت پہلے ہی چھ سلاسل کی طاقت مولانا شیخ شرف الدین (قَدس اللہ سِرّہٗ) کے حوالے کر دی تھی اور اپنی زندگی میں ہی اپنے تمام شاگرد مولانا کو سونپ دیے تھے۔ حضرت شیخ محمد المدنی (قَدس اللہ سِرّہٗ) تمام معاملات میں سیدنا شرف الدین (قَدس اللہ سِرّہٗ) کی رائے قبول کرتے تھے۔
وہ ایک بہت ہی مشکل دور میں پیدا ہوئے تھے ، ایسے وقت میں جب مذہب پر پابندی عائد تھی اور روحانیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اُنکی والدہ ماجدہ کا فرمان ہے کہ ، " پیدائش کے وقت وہ ” لا الہ الا اللہ “ کی تلاوت کر رہے تھے، اور رضاعت کے وقت وہ اللہ ، اللہ کہتے رہتے۔" وہ اس معجزے کی وجہ سے مشہور تھے، انکےضلع کی ہر عورت اللہ ، اللہ کا ذکر دیکھنے آتی تھی۔ انکےداہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی ہمیشہ ایک خدا کے اثبات کی حالت (شہادت ) میں رہتی ۔بچپن سے ہی وہ درختوں کا ذکر ، پتھروں کا ذکر ، جانوروں کا ذکر ، پرندوں کا ذکر ، پہاڑوں کا ذکر سننے کی روحانی صلاحیت رکھتے تھے۔ اُنکی پرورش اُن کے والدین نے کی تھی ، اور وہ اپنے چچا کے مستقل زیرِ نگرانی تھے۔ اُنکی دعا ہمیشہ قبول ہوتی تھی۔ وہ ہمیشہ خلوت گزین رہے۔
چھ یا سات برس کی عمر میں انہوں نے سیدنا ابو احمد السغوری(قَدس اللہ سِرّہٗ) کی انجمنوں میں جانا شروع کیا۔ وہ بہت ذہین تھے اور فوراً ہی اُن صوفی تعلیمات کو جذب کرنے میں کامیاب ہوگئے جو سیدنا ابو احمد السغوری(قَدس اللہ سِرّہٗ) بارگاہِ الہٰی سے بانٹ رہے تھے۔
سات برس کی عمر میں انہوں نے اپنی والدہ سے فرمایا :
"اس گائے کا نوزائیدہ بچھڑا پیدا ہونے پر مجھے دے دیجئے گا،اگر وہ مونث ہے تو میں اسے رکھوں گا اور اگر وہ نر ہے تو میں آپکو دے دوں گا۔ " انہوں نےفرمایا:" والدہ صاحبہ ، آپ پریشان مت ہوں ، کیونکہ یہ گائے ایک نر کو جنم دے گی۔ "والدہ نے پوچھا: " آپ کیسے جانتے ہو؟ "انہوں نےجواب دیا: " میں دیکھ سکتا ہوں کہ اس گائے کے رحم میں کیا ہے۔ ”ایک گھنٹے بعد ، گائے نے ایک نر بچھڑے کو جنم دیا۔ انہوں نے بچھڑا لے جا کر بیچ دیا اور ایک نر اور ایک مادہ بھیڑ اس نیت سے خریدی کہ حضرت شیخ السُغوری(قَدس اللہ سِرّہٗ) کو تحفے میں پیش کریں گے۔ حضرت شیخ (ق) کے گھر جاتے ہوئے راستے میں دونوں بھیڑیں بھاگ گئیں۔ وہ اپنے شیخ کے گھر کی طرف چلتے رہے اور انکے پاس بیٹھ گئے، انکےدل میں اداسی محسوس ہوئی کیونکہ انہوں نےبھیڑیں کھو دی تھیں۔ حضرت شیخ السغوری(قَدس اللہ سِرّہٗ) نے اُن سے پوچھا ، " کیا بات ھے؟" انہوں نے فرمایا: "میرے پاس دو بھیڑیں تھیں جو میں آپ کیلئے لا رہا تھا ۔ لیکن وہ فرار ہوگئیں۔" تھوڑی ہی دیر بعد ایک چرواہے نے حاضر ہوکر عرض کی: "میں نے یہ دو بھیڑیں اپنی بھیڑوں کے بیچ پائیں۔" یہ وہی بھیڑیں تھیں جو کھو گئی تھیں۔
جب وہ جوان تھے تو اپنے دوستوں کے ساتھ لکڑیاں جمع کرنے جایا کرتے تھے۔ وہ اپنے دوستوں کی طرح درختوں سے لکڑی نہیں کاٹتے تھے ، بلکہ زمین سے خشک لکڑی ہی اکٹھا کرتے تھے جس سے اُن کے والد گرامی اُن سے بہت ناراض ہوتے۔ وہ حضرت شیخ السغوری (ق) کے پاس گئےاور شکایت کی کہ لڑکا صرف خشک اور بیکار لکڑیاں جمع کررہا ہے۔ شیخ السُغوری (ق) نے ان کے والد سے فرمایا: ، "آپ اس سے کیوں نہیں پوچھتے کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ نوجوان شیخ شرف الدین (ق)نے فرمایا: "جب سبز درخت ”لا الہ الا اللہ “ کا ذکر کر رہا ہے تو میں انہیں کیسے کاٹ سکتا ہوں؟؟ میں خشک شاخیں جمع کرنے کو ترجیح دیتا ہوں نہ کہ اُن شاخوں کو جو تسبیح کررہی ہیں۔"
اُن کا داغستان سے ترکی منتقل ہونا:
انہوں نے روسی فوج کے لگاتار ضلع کے دیہاتوں پر حملے کی وجہ سے داغستان چھوڑ دیا۔ وہ اپنے خاندان اور اپنی بہن کے کنبے کے ساتھ ترکی چلے گئے۔ وہ سردیوں کے شدید موسم میں پانچ ماہ تک سفر کرتے رہے ، وہ رات کے وقت چلتے اور دن میں چھپ جایا کرتے۔ وہ پہلے برصا گئے ۔ پھر وہ استنبول سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور ” سمندر مرمرا“ کے قریب” یلوفا“ منتقل ہوگئے ۔ وہاں انہوں نےاپنے اہل وعیال کے ساتھ ”راشدیہ “ گاؤں میں قیام کیا۔ جہاں انکےچچا چند سال قبل آباد ہوئے تھے اور طریقتِ نقشبندیہ کو داغستان سے ترکی لے گئےتھے۔
داغستان میں انکی تربیت حضرت شیخ احمد السُغوری (ق) کے زیرِ نظر ہوئی ، جنہوں نے اِنہیں بہت چھوٹی عمر میں طریقتِ نقشبندیہ عطا کیا۔ ترکی کے شہر راشدیہ میں ، انکےچچا اور مستقبل کے سسر حضرت شیخ محمد المدنی (قَدس اللہ سِرّہٗ) نے مزید روحانی تربیت سے نوازا ۔ آپ نے مدرسہ قائم کرنے اور گاؤں کی پہلی مسجد اور خانقاہ بنانے میں اُن کی مدد کی۔ ان کے چچا سامراجی اور بے رحم روسی آمریّت کے ظلم سے فرار ہونے والے تمام تارکینِ وطن کا خیرمقدم کرتے تھے۔ بہت سارے طلباء انکےچچا کے سکول میں ترکی کے تمام علاقوں سے آتے تھے۔ وہ "یلوفا" اور "بصرا" کے درمیان "راشدیہ" اور گردونو اح میں تیزی سے نئے گھر آباد کر رہے تھے۔
سلسلہ نقشبندیہ کے علاوہ ، آپ کے چچا نے آپکو پانچ دیگر سلاسل سے جوڑ دیا جن سے وہ منسلک تھے ؛ سلسلہ قادریہ، سلسلہ رفاعیہ ، سلسلہ شاذلیہ ، سلسلہ چشتیہ اور سلسلہ خلوتیہ – وہ 27 سال کی عمر میں ان چھ سلا سل کے پیشوا بن گئے۔
آپ حضرت شیخ محمد المدنی (قَدس اللہ سِرّہٗ) کی دختر سے شادی کے بعد راشدیہ میں بےحد معزز ہوگئے۔ آپ لوگوں میں معجزاتی(روحانی) قوتوں کے حامل کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور انکے معجزات کی روایات پورے تُرکی میں پھیلنا شروع ہوگئیں۔ اسکےعلاوہ ، وہ ظاہری مذہبی علوم کے باعث مشہور تھے کہ بڑے بڑے عالم آپ کی گفتگو سننے آتے تھے۔
آپکی گوشَہ گيری (خلوت):
آپ داغستان میں کئی بار گوشَہ نشین ہوئے– سب سے طویل عرصہ تین سال کا رہا۔ حضرت شیخ محمد المدنی (قَدس اللہ سِرّہٗ) کے حکم پر آپ نے چھ ماہ تک راشدیہ کے پہاڑوں میں خلوت اختیار فرمائی۔ بھیڑ میں بھی آپ( ق) ہمیشہ تنہائی کی حالت میں رہتے۔
ایک بار، چھ ماہ کی خلوت کے دوران ، جیسے ہی آپ سجدے میں جانے کے لئے کھڑے ہوئے ، تو آپکو سجدے کی جگہ پر ایک بہت بڑا سانپ دکھائی دیا ، جو آپکو کاٹنے کی تاک میں تھا۔ آپ خود سے ہم کلام ہوئے اور فر مایا: "میں اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا" اور اپنا سر سیدھا اس سانپ کے سر پر رکھ دیا۔ فوراسانپ غائب ہوگیا۔
اسی خلوت کے دوران ، آپ پر عشقِ الہیہ کی بہت سی کیفیات وارِد ہوئیں۔ ۔ جیسے ہی وہ گوشہ نشینی سے اُبھرے ، آپکے شیخ لوگوں کی رہنمائی سے کنارہ کش ہو گئے اور لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کی تمام تر ذمہ داری ، آپ کو سونپ دی۔ حضرت شیخ محمد المدنی (قَدس اللہ سِرّہٗ) اپنے داماد کی صحبت میں بطور شاگرد رہتے تھے۔ وہ اپنے مرید کے مرید بننے والے پہلے شیخ تھے۔ حضرت شیخ کے اس اصرار کی اطاعت پر وہ اعلیٰ ترین کرسی پر بیٹھے اور حضرت شیخ شرف الدین (ق) واحد ٹھہرے جو اپنے شیخ کی موجودگی میں بھی گولڈن چین( سلسہ نقشبندیہ) کی تعلیم بانٹتے تھے۔
حضرت شیخ شرف الدین (ق) کو حضرت شیخ جمال الدین الغُموقی الحسینی (ق) اور آپ کے داغستان کے شیخ حضرت شیخ احمد السُغوری (ق) کی روحانی مدد حاصل تھی ۔ آپ نے خالص محبتِ الہیہ کی کیفیت پا لی۔ اُسی کیفیت میں آپکو ایسا محسوس ہوتا جیسے آپ کا جسد محبت ِ الہیہ کی آتش میں جل رہا ہے اور آپ اپنی خلوت سے نکل جاتے ، اپن لباس اُتار کر موسم سرما میں دریا کے برفیلے ٹھنڈے پانی میں غوطہ لگاتے۔ جب بھی ایسا ہوتا، سارے دیہات کو دریا سے بھاپ اُٹھنے کی آواز سنائی دیتی –جیسے پانی میں گرم لوہے کی آواز ٹھنڈی ہوتی سنائی دیتی ہے۔ آج بھی ( 1994 میں )حضرت شیخ شرف الدین ق کے بہت بوڑھے مرید زندہ ہیں ، جنہیں سینکڑوں گز دور سے پانی کے بھڑک اٹھنے اور بھاپ کی آواز یاد ہے۔
جاری ہے۔۔۔
Part 1/1
https://nurmuhammad.com/sharafuddin-ad-daghestani-qadd…/